1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اللہ تعالی پر توکل

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از شیرافضل خان, ‏11 فروری 2007۔

  1. شیرافضل خان
    آف لائن

    شیرافضل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,610
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    اللہ مالک الملک پر توکل کے سبب ہی رزق حاصل کیا جاتا ہے ۔ اس موضوع کو درج ذیل تین عنوانات کے تحت ان شاء اللہ زیر بحث لایا جائے گا :-

    1- توکل علی اللہ کا مفہوم
    2- توکل علی اللہ کے کلیدرزق ہونے کی دلیل
    3- کیا توکل کے معنی حصول رزق کی کو ششوں کو چھوڑ دینا ہیں


    1- توکل علی اللہ کا مفہوم:

    اللہ تعالی علمائے امت کو جزائےخیر عطا فرمائیں کہ انہوں نے توکل کے معنی و مفہوم کو خوب وضاحت سے بیان فرمایا ہے - مثال کے طور پر امام غزالی :ra: فرماتے ہیں:
    (( التوکل عبارۃ عن اعتمادالقلب علی الوکیل وحدہ))
    “توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو“۔
    علامہ منادی فرماتے ہیں:
    ((التوکل اظھارالعجزوالاعتمادعلی المتوکل علیہ ))
    “توکل بندے کے اظہار عجز اور جس پر توکل کیا گیا ہے، اس پر مکمل بھروسے کا نام ہے“۔
    ملا علی قاری (( التوکل علی اللہ حق التوکل)) اللہ تعالی پر کماحقہ توکل کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
    “تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ درحقیقت ہر کام کرنے والے اللہ تعالی ہیں ۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے تخلیق و رزق عطاکرنا یا محروم رکھنا، ضرر و نفع، افلاس و تونگری،بیماری و صحت، موت و زندگی غرضیکہ ہر چیز فقط اللہ تعالی کے حکم سے ہے ۔“

    2- توکل علی اللہ کے کلیدِرزق ہونے کی دلیل:

    توکل علی اللہ کے رزق کا سبب ہونے پر درج ذیل حدیث مبارکہ دلالت کرتی ہے:
    روی الائمۃ احمد و الترمذی و ابن ماجۃ و ابن المبارک و ابن حبان والحاکم والقضاعی و البغوی عن عمر بن الخطاب :rda: قال:قال رسول اللہ :saw: : (( لوانکم توکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما ترزق الطیر تغدو خماصا وتروح بطانا))
    حضرات ائمہ احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن مبارک، ابن حبان،حاکم،قضاعی اور بغوی حضرت عمر بن خطاب :rda: سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ :saw: نے ارشاد فرمایا: “ اگر تم اللہ تعالی پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ ان پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں“۔
    جس نے اللہ تعالی پر اعتماد کیا ، اللہ تنہا ہی اس کے لئے کافی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
    ٕٕ(ومن یتوکل علی اللہ فھوحسبہ ان اللہ بالغ امرہ قد جعل اللہ لکل شیءٍ قدرًا )
    “اور جو کوئی اللہ تعالی پر بھروسہ رکھے وہ اس کو کافی ہے ۔ یقیناًاللہ تعالی اپنا کام پورا کرنے والا ہے ۔ بے شک اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا ہے“ ۔

    3- کیا توکل کے معنی حصول رزق کی کوششوں کو چھوڑ دینا ہے؟

    شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب توکل کرنے والے کو ضرور رزق ملتا ہے تو ہم حصول رزق کی خاطر جدوجہد اور محنت و مشقت کیوں کریں؟ کیوں نہ ہم مزے سے بیٹھے رہیں کہ توکل کی وجہ سے ہم پر آسمان سے رزق نے خود ہی نازل ہو جانا ہے ۔
    مذکورہ بالا حدیث پر غور کریں تو ایسا کہنے کی نوبت نہیں آئے گی ۔ رسول اللہ :saw: نے اللہ تعالی پر کماحقہ اعتماد کرنے والوں کو ان پرندوں سے تشبیہ دی ہے جو صبح سویرے خالی پیٹ اللہ تعالی کے بھروسے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شام کو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پیٹ بھر کر واپس اپنے گھونسلوں کی طرف پلٹتے ہیں ۔ حالانکہ ان پرندوں کی دکانیں، فیکٹریاں، ملازمتیں یا کھیت نہیں جن پر وہ رزق کے حصول میں اعتماد کرتے ہوں ۔ طلب رزق کی سعی و کوشش میں ان کا کلی اعتماد صرف ایک اللہ تعالی پر ہوتا ہے ۔ امام احمد :ra: فرماتے ہیں “ حدیث شریف میں
    یہ بات تو نہیں کہ حصول رزق کے لئے کوشش نہ کی جائے بلکہ وہ تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رزق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی جائےاور جس بات کی تاکید حدیث شریف میں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان کے آنے جانے اور سعی و کوشش کے پس منظر میں یہ یقین ہو کہ ہر طرح کی خیر صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے تو وہ ضرور اس طرح خیر و برکات اور رزق حاصل کر کے پلٹیں جس طرح کہ سر شام پرندے رزق حاصل کر کے پلٹتے ہیں “ ۔
    امام احمد :ra: سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو اپنے گھر یا مسجد میں بیٹھے کہتا ہے : “میں تو کچھ کام نہ کروں گا ، میرا رزق خود میرے پاس آئے گا ۔“ آپ نے فرمایا : “یہ شخص علم سے کورا ہے ۔ نبی کریم :saw: نے ارشاد فرمایا ہے :
    ((ان اللہ جعل رزقی تحت ظل رمحی))
    “اللہ تعالی نے میرا رزق میرے نیزے کے سایہ کے نیچے رکھا“ ۔
    امام غزالی فرماتے ہیں کہ توکل کے بارے میں یہ سمجھنا کہ اس سے مراد حصول رزق کے لئے جسمانی کدوکاش اور دماغی سوچ بچار چھوڑ کر پھٹے پرانے چیتھڑوں کی طرح زمین پرگرے رہنا اور ردی گوشت کی طرح تختہ پر پڑے رہنا احمقانہ سوچ ہے ایسا کرنا شریعت میں حرام ہے ۔ توکل کرنے والوں کی اسلام میں تعریف کی گئی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ حرام کا ارتکاب کرنے والے شریعت کی نگاہ میں قابل تعریف قرار دیئےجائیں۔
    توکل کا اثر بندے کی اس سعی و کوشش میں ظاہر ہوتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کرتاہے ۔
    امام ابو قاسم قشیری فرماتے ہیں :“توکل کی جگہ دل ہے اور جب بندے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ رزق اللہ تعالی کی جانب سے ہے ، اگر تنگ دستی آئی تو تقدیر الہٰی سے، آسانی ہوئی تو ان کی عنایت و نوازش سے، تو پھر ظاہری حرکت توکل کے منافی نہیں “۔
    درج ذیل حدیث شریف بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ توکل کا تقاضا رزق کے حصول کے لئے کوشش کا ترک کرنا نہیں :
    ((روی الامامان: ابن حبان والحاکم عن عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ قال: قال رجل للنبی :saw: ارسل ناقتی و اتوکل قال : اعقلھا و توکل))
    امام ابن حبان اور امام حاکم نے وعمروبن امیہ :rda: سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ایک شخص نے جناب نبی کریم :saw: کی خدمت میں عرض کیا :“میں اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ دیتا ہوں اور توکل کرتا ہوں “آپ :saw: نے فرمایا : “اس کے گھٹنے کو باندھو اور توکل کرو “۔
    بات کا خلاصہ یہ ہے کہ توکل کے معنی حصول رزق کے لئے سعی و کوشش کو ترک کرنا نہیں ۔مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ رزق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرے، لیکن اس کا بھروسہ اپنی محنت و مشقت پر نہ ہو بلکہ رب ذوالجلال پر ہو اور اس بات کا اعتقاد رکھے کہ سب معاملات انہی کے ہاتھ میں ہیں اور رزق صرف اور صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ۔۔ شیر افضل بھائی بہت ایمان افروز مضمون ہے

    اور اپنے موضوع کو بہت وضاحت سے بیان کرتا ہے۔

    اللہ تعالی آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین
     
  3. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    ماشاءاللہ۔

    شیر افضل خان صاحب! بہت پیارا مضمون ہے، اللہ پاک آپ کو جزا دے۔
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    شیر افضل خان صاحب
    آپ نے بہت خوبصورت طریقہ سے تشریح فرمائی ھے
    جزاک اللٌہ خیر
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی :ra: کا قولِ زرّیں ٹی وی پر پڑھنے کا اتفاق ہوا جو آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ آپ نے فرمایا

    “ دل کو اللہ کے لیے مخصوص رکھ اور ہاتھ پاؤں (اعضاء) سے بال بچوں کے لیے رزق کما۔ یہی فلاح کا راستہ ہے“​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں