1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

الفاظ کا بہتر چناؤ کریں ۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    الفاظ کا بہتر چناؤ کریں ۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

    پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں۔بادشاہ اس خواب سے خاصا پریشان ہوا۔ خواب کی تعبیر جاننے کے لیے وزیر کو حکم دیا کہ تمام شہروں سے ان ماہرین کو جمع کرے جو خوابوں کی تعبیر جانتے ہیں۔بادشاہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ماہرین کی ایک جماعت کے سامنے خواب سنایا گیا۔ ماہرین نے خواب سن کر ایک دوسرے کی طرف پریشانی کے عالم میں دیکھا اور کہا حضور خواب کی تعبیر کچھ اچھی نہیں۔ بادشاہ نے کہا پھر بھی مجھے جاننا ہے۔چنانچہ ماہرین کی جماعت نے کہا بادشاہ سلامت خواب کا مطلب ہے کہ آپ کا سارا خاندان آپ کی آنکھوں کے سامنے وفات پا جائیگا۔
    بادشاہ کو سن کر حیرت ہوئی اور شدید غصہ بھی آیا۔ بادشاہ نے سب کے سرقلم کرنے کا حکم دے دیا۔
    ابھی چند روز بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ بادشاہ نے پھر خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں اب پھر بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں وزیر کو بلایا اور کہا اس کی تعبیر جاننا چاہتا ہوں۔
    وزیر نے عرض کیا عالی جاہ !
    ماہرین کے سر تو آپ نے قلم کروا دیئے۔ اب ایک دانا ہی بچا ہے جو اس کی تعبیر بتا سکتا ہے۔
    چنانچہ بادشاہ کے حکم پر اس دانا کو بلا کر جب خواب سنایا گیا تو اس کے چہرے پر بھی اسی طرح پریشانی کے آثار نمودار ہو گئے۔ مگر شخص دانا تھا۔ اس نے وہی تعبیر بتائی مگر الفاظ کے چنائو میں مہارت کا استعمال کیا۔ کہا بادشاہ سلامت خواب بہت عمدہ ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ اپنے خاندان میں سب سے لمبی عمر پائیں گے۔ بادشاہ اس تعبیر کو سن کر خوش ہوا اور اس دانا کو انعامات سے نوازا۔ جی ہاں۔ دانائی اور بہادری اس بات میں نہیں کہ آپ سچ بول لیتے ہیں بلکہ اصل عقل مندی اور دانشمندی یہ ہے کہ آپ سچائی کے بیان کے لیے الفاظ کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ ہماری بہت سی ناکامیاں اور بے جا دشمنیاں فقط اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم سچ تو بولتے ہیں مگر ہمارا انداز برا ہوتا ہے مانا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے مگر ہم اپنی بدتمیزیوں اور لہجے کی کڑواہٹ کو بھی اس زمرے میں شامل کر دیتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت کے لیے خیر خواہی کے لیے بھی ہم جو الفاظ استعمال کرتے ہیں سارے اخلاص کے باوجود اس کے اثرات الٹ ہوجاتے ہیں۔ جب آپ کسی سے مخلص ہیں تو تھوڑی سے کوشش اور کریں لہجہ نرم اور مٹھاس والا ہو۔ جھوٹے لوگ اسی وجہ سے اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ جھوٹ کو سچ کے لہجے میں بولتے ہیں اور سچے لوگ اس لیے ناکام کہ وہ سچ کو جھوٹ کے لہجے میں بولتے ہیں۔ آپ کے الفاظ کسی کی زندگی تباہ کر سکتے ہیں اور سنوار بھی سکتے ہیں اسی طرح آپ کے الفاظ کا چنائو آپ کو عزت و مرتبہ بھی دے سکتا ہے اور کسی کی نگاہوں سے گرا اور دل کی سلطنت سے نکال بھی سکتا ہے۔ گفتگو کے جو آداب دینِ اسلام نے سکھائے ہیں جو تمیز سکھائی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔ آپ دیکھیں نبی کریم ﷺنے جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور چغلی کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا مومن جھوٹ نہیں بولتا۔ گویا صاحبِ ایمان کتنا عظیم ہے کہ وہ زبان کا غلط استعمال نہیں کرتا۔ الفاظ تیر کے نشتر بھی ہو سکتے ہیں اور گلاب کی پنکھڑیاں بھی۔ جب آپ اس نرم گوشت کے ٹکڑے یعنی زبان کا استعمال کریں تو کوشش کریں کہ اس نرم ٹکڑے سے سخت پتھر جیسے الفاظ ادا نہ ہوں جو کسی کے اخلاق، کسی کے کردار، کسی کی شخصیت کے آئینے کو توڑ دیں نقصان دیں۔ اگر آپ کے اردگرد لوگ گالم گلوچ کرتے ہیں یا سخت لہجوں کے مالک ہیں تو آپ ان اندھیروں میں چراغ ضرور روشن کریں۔ جہاں سب کڑوے ہوں گے وہاں آپ کے لہجے کی مٹھاس زیادہ کام کرے گی لیکن المیہ ہے کہ ہمارے ہاں سچا آدمی کڑوا لہجہ اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے سچ بول رہا ہوں اور منافق آدمی میٹھا لہجہ اپنا کرجھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ سچا انسان میٹھا لہجہ رکھے تا کہ سچائی بدنام نہ ہو اور سچائی کی مہک بھی محسوس ہو ۔ سچ اس انداز میں بولیں کہ لوگوں کو سچ سننے کا لطف آنے لگے اور وہ سچ بولنے کو اپنی زندگی کا حصہ شوق سے بنائیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں