1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتدارکاکھیل؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏27 فروری 2009۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    اقتدار کا کھیل؟

    پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے صوبہ پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کی متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) سے اچانک پیدا ہونے والی قربت بتائی جاتی ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ سے ایک دہائی تک سیاسی دشمنی کے بعد میاں شہباز شریف کی ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ میں دو بار گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقاتیں اور مسلم لیگ (ن) کے سخت ترین سیاسی مخالف چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہیٰ سے ان کی ملاقاتوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوفزدہ کر دیا اور اسے اپنی سیاسی بقا کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔

    پیپلز پارٹی کے اعلیٰ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو دورۂ چین کے دوران اپنے ایک با اعتماد انٹیلی جنس افسر سے یہ معلومات ملیں کہ میاں نواز شریف نے جہاں مسلم لیگ (ق) سے مل کر پنجاب میں اپنی حکومت مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے وہاں اس نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر مرکز میں بھی اپنی حکومت قائم کرنے کی خفیہ کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔

    قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے اراکین کی مجموعی تعداد ایک سو ستر کے قریب بنتی ہے۔ جبکہ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ایک سو بہتر اراکین کی ضرورت ہے اور تینوں جماعتوں کے اکٹھے ہونے کے بعد فاٹا کے بارہ اراکین اور بعض دیگر آزاد اراکین کی ان کے لیے حمایت حاصل کرنا اور حکومت بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

    ایم کیو ایم کو مسلم لیگ نواز ایک فاشسٹ تنظیم اور فوجی آمر کی ہمنوا جماعت قرار دیتی رہی ہے لیکن میاں شہباز شریف نے سترہ فروری کو اچانک کراچی میں ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کرکے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی کہ آخر اچانک مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ایسی کیا مجبوری پیش آئی کہ وہ خود چل کر ایم کیو ایم کے پاس گئی؟

    جب چوبیس فروری کی شام کو گورنر عشرت العباد نے لاہور آ کر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی تو اس بارے میں مزید چہ مگوئیاں ہونا شروع ہوئیں کہ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتیں ہیں۔

    ایسے میں بیس فروری کو چوہدری شجاعت حسین کی والدہ اور پرویز الہیٰ کی خوش دامن کے انتقال پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا چوہدری برادران سے تعزیت کے لیے جانا بھی پیپلز پارٹی کے قائدین کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ تھا۔

    پیپلز پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما کا دعویٰ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے جب ڈیڑھ ماہ قبل ملاقات کی تھی تو انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ وکلا تحریک سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ ان کے مطابق صدرِ پاکستان نے اس کے بدلے میں جذبہ خیر سگالی کے تحت پنجاب کا گورنر تبدیل کرنے اور حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں میاں برادران کی نااہلی رکوانے کی کوشش کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

    لیکن ان کے بقول جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پنجاب حکومت میں رہتے ہوئے وکلا کے لانگ مارچ کو سرکاری سرپرستی میں اسلام آباد بھیجنے کی تیاری شروع کردی اور اس کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی حکومت سازی کے لیے خفیہ کوششیں شروع کیں تو پھر پیپلز پارٹی کے پاس میاں برادران کی سپریم کورٹ میں حمایت نہ کرنے اور گورنر راج نافذ کرنے کے علاوہ کوئی فوری حل نہیں تھا۔

    اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ (ن) سے تعاون کے خواہاں ہیں جبکہ پرویز الہیٰ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ پرویز الہیٰ کا خیال ہے کہ وہ اگر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو بطور ایک سیاسی جماعت کے صدر کی ان کی حیثیت آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ چوہدری شجاعت کو پیشگی اطلاع دیے بنا پرویز الہیٰ اپنے صاحبزادے مونس الہیٰ کے ہمراہ صدر آصف علی زرداری سے خفیہ طور پر رابطے میں رہے اور جب میاں نواز شریف چوہدری شجاعت حسین سے ملے تو ان پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے صدرِ مملکت کو آخری موقع دیا کہ اگر ان سے اتحاد کرنا ہے تو ’ابھی ورنہ کبھی نہیں‘۔

    پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ان سے اس لیے دلی طور پر خوش نہیں ہے کہ جس طرح وہ اپنی سیاسی حریف ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت کے خلاف مزید مقدمات بنانے کی خواہاں ہے، پیپلز پارٹی اس میں ان کی مدد نہیں کر رہی اور صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کو مرضی کے مطابق تاحال وزارتیں بھی نہیں مل پائیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایم کیو ایم حقیقی کے جیل میں بند بیشتر سیاسی رہنماؤں کی اکثر مقدمات میں ضمانتیں ہوچکی ہیں اور اِکا دُکا مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستیں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

    بعض مبصرین کی رائے ہے کہ آصف علی زرداری نے بظاہر میاں نواز شریف کو اپنا بڑا بھائی تو قرار دیا لیکن ان کے قائم کردہ مقدمات میں نو سالہ قید، کراچی جیل میں انہیں مبینہ طور پر قتل کرانے کی کوشش اور زبان کاٹنے کوشش سمیت جو تشدد کیا تھا وہ اب تک اُسے بھلا نہیں پائے۔

    پیپلز پارٹی کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنائے اور مرکز میں بھی تعاون کرے۔ ایسے میں ان کی مانگ پنجاب کی وزارت اعلیٰ مونس الہیٰ کو دینا یا سینیٹ کا چئرمین چوہدری شجاعت حسین کو بنانے کی ہوگی۔

    دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی کی مشکل یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ بنا کر ایک ہی وقت میں چاروں صوبوں میں اپنی جماعت کی گرفت قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ایسے میں اگر وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ چوہدری شجاعت حسین کو دیتی ہے تو آئین کے مطابق قائم مقام صدر سینیٹ کا چیئرمین بنتا ہے اور جب اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر کے پاس ہو تو ایسے میں وہ چوہدری شجاعت پر کیسے اعتبار کر سکتی ہے؟ بہرحال اس بارے میں بارگین کے لیے دونوں کے آپشن کھلے ہیں اور کسی بھی بات پر مُک مُکا ہوسکتا ہے۔

    مسلم لیگ (ق) کے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں ان کے کچھ لوگ انہیں چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن پرویز الہیٰ کو ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی علیحدہ سیاسی شناخت برقرار رہے گی۔

    جبکہ مسلم لیگ (ن) کے لیے انگریزی مقولے کے مطابق ’کرو یا مرو‘ والی صورتحال ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر زرداری کے کھیل کی بازی پلٹنے کی کوشش کرے گی۔ اس صورت میں اس کے لیے وکلا کے نو مارچ کے مجوزہ لانگ مارچ اور سولہ مارچ کے دھرنے کو کامیاب بنانا ان کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوگا۔ بظاہر لگتا ہے کہ ملک کے مستقبل کا سیاسی منظر مارچ کے وسط میں ہی واضح ہوگا اور یہ اندازہ لگانا اس وقت آسان ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔


    (بی بی سی اردو) اعجاز مہر

    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/stor ... _sen.shtml
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی سیاست کا اونٹ‌تو ہمیشہ غیر متوقع سمت ہی بیٹھتا ہے۔

    آزاد بھائی کا شکریہ کہ انہوں نے اتنا اچھا تجزیہ ہم تک پہنچایا۔ :a191:
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ہمارے ہاں بڑی بے یقینی کی صورت حال ہے۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ملک کس سمت جارہا ہے اور ہماری نوجوان نسل کو کیا کرنا ہے؟

    ہمارے سیاستدان دنیا کے بے وقوف ترین لوگوں میں شمارہوتے ہیں جو طرح طرح کے مسائل پیداکرے نہ صرف خود بلکہ سولہ کروڑ عوام کو بھی مشکلات میں ڈال دیتے ہیں اور بیرونی طاقتیں ان حالات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    بےوقوف سیاستدان ؟
    اچھے بےوقوف ہیں کہ 62 سال سے کروڑوں عوام کو بےوقوف بنا کر انہیں نہ صرف انکے حقوق سے کم و بیش محروم رکھے ہوئے ہیں بلکہ عوام سے انہی کے حقوق سے محرومی کا شعور بھی چھین لیا ہے۔

    اور ابھی بھی یہ بےوقوف ہیں ؟ :nose:
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقلمند سمجھے وہی بے وقوف ہے۔ ہمارے لیڈر جب اقتدار میں آجائیں‌تو بہت چالاکیاں دکھاتے ہیں اور یہی چالاکیاں ان کی بے وقوفیاں بن جاتی ہیں اور وہ ملک اور اپنے مقدر میں ذلت و رسوائی لکھ دیتے ہیں۔

    بے نظیر اور نواز شریف دو مرتبہ اقتدار میں‌آئے اور آپس میں اقتدار کے لئے لڑتے رہے۔
    آپ نوازشریف کو لے لیں۔اپنے اختیارات کو وسیع کرنے اور مشرف کو فارغ کرنے کے چکروں کو خود ہی فارغ ہوگیا۔

    مشرف آیا نوسال اقتدار میں رہا لیکن اس کے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل نے اسے مستعفی ہونے پر مجبورکردیا۔

    اب زرداری صاحب ہر چیز کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ شریف برادران کو نااہل کروادیا کہ پنجاب کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔ خود کو چالاک ترین لیڈر سمجھ رہے ہیں لیکن انتظار کریں وہ ایک ایسی چالاکی بھی کریں گے جو ان کی بے وقوفی ہوگی۔

    ہمارے عقل سے پیدل لیڈروں کو پتہ ہی نہیں کہ اگر ملک مضبوط ہوگاتو ہم بھی مضبوط حکمران ہوں گے۔ آج امریکہ اور چین کے صدر کی کیوں اہمیت ہے کیونکہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہیں، وہ ایک اچھا نظم ونسق اور قوانین رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کے ایک لیڈر کو امریکہ کے کسی نائب وزیر خارجہ کے ساتھ کھڑا کیا جائے تو امریکہ کے نائب وزیرخارجہ کی اہمیت ہمارے صدر اور وزیراعظم سے زیادہ ہوگی۔
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    یہ لیڈر عوام کو کیوں بے وقوف بنا لیتے ھیں کبھی سوچا آپ نے اس بارے اور آئیے سوچتے ھیں

    بے وقوف ہمیشہ اسے ہی بنایا جاتا ھے جو آسانی سے بے وقوف بن جاتا ھے ہماری قوم بےوقوف بنتی آئی ھے لیڈروں کے ہاتھوں اور جانے کب تک بنتی رہی گی جب تک ہم میں اچھے برے اور قابل جاہل کو جانچنے کا شعور نہیں آئے گا ایسا ہوتا رہے گا

    کہتے ھیں مومن ایک سوراخ سے 2 بار نہیں ڈسا جاتا پھر دو 2 بار ان کے کارنامے دیکھ کے کیا امید تھی ان سے یہ میری سمجھ سے باہر ھے ، میری باتیں شاید کسی کو بری لگیں مگر ہم اس حقیقت سے آنکھیں چرا نہیں سکتے کہ ہمیں خود ہی بےوقوف بننے کا شوق ھے
     
  7. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    راشد بھائی آپ نے100 فیصد درست حقائق بیان کیے ہیں۔میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خوشی جی کی بات بھی بہت قابل توجہ ہے
    اور میں بھی انہی سے اتفاق کرتے ہوئے بنیادی نقطے اور بیماری کی اصلی جڑ کی طرف اشارہ کرتا ہوں
    کہ پہلے ہم سب کو درست ہونا ہوگا ؟

    چائنہ کا نائب وزیر خارجہ ہمارے وزیر اعظم سے بھی ذہین کیوں ہوگا ؟ کیونکہ اسے وزیر خارجہ وہاں کے ذہین عوام نے بنایا ہے۔
    ہمارے ملک کے " ذہین عوام " نے ایف اے پاس (یا فیل) جرائم پیشہ شخص کو اپنے ملک کی صدارت کی باگ دوڑ دے دی ہے

    ذرا سوچئیے کہ ہم خود کیا ہیں اور اس سارے جرم میں کتنے فیصد ہم بھی شریک ہیں۔

    ہر کوئی دوسروں پر تنقید کرنے اور انہیں اچھا بننے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن ہم لوگ اپنے آپ کو درست کرنے کا عہد کم ہی کرتے ہیں۔
    آئیے وعدہ کریں کہ ہم خود بھی اور اپنے دوست احباب، اعزا اقارب کو جہاں تک ہمارا اثر ورسوخ ہے ۔ اس ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت پر تیار کریں گے۔

    ائیے ۔ وطن کی خاطر وعدہ کریں اور پھر اس پر کاربند ہوجائیں۔
     
  9. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ویسے تو سیاستدان کم و بیش ہر ملک کے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جتنی ہم عوام کے پاس چوائس ہے اسی میں گزارا کرنا ہے نہ۔ مجھے جناب اشفاق صاحب (زاویہ والے) اسی لیے اچھے لگتے ہیں کہ وہ کبھی نہ تو سیاستدانوں کا الزام دیتے ہیں اور نہ ہی ہم عوام کو۔ ویسے ہر شخص چاہے تو اپنی قوم کی قسمت کافی حد تک بدل سکتا ہے۔ حکمران چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ۔ ۔

    میں ذاتی طور پر اتنی بات سے مطمئن ہوں گا کہ فوج اقتدار میں نہ آئے ۔ سیاستدانوں کو ہم بخوبی برداشت کر سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟

    زرداری صاحب نے ایک غلط فیصلہ کیا تو آخر احتجاج تو ریکارڈ ہو ہی گیا نہ۔ فوجی دور میں تو اتنا بھی ممکن نہ ہوتا۔

    ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سیاستدانوں کی قدر کریں۔ کیونکہ یہی لوگ ملک کو آگے بھی لے جاتے ہیں۔ خود نہیں تو ان کے مشورہ کنندگان میں ہو سکتا ہے کہ کوئی عقلمند شخص بھی ہو۔ اور ایک بات اور کہ سیاستدان فوجیوں کی طرح اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھتے۔ اس کا مجھے اندازہ ہے۔
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم گجر بھائی ۔
    بہت معذرت کے ساتھ ۔ مجھے آپ کی اس بات عجیب سی لگی ۔
    پاکستان میں سیاست تو صرف چند خاندانوں‌کی لونڈی ہے۔ جبکہ "سارے ممالک" میں ایسا نہیں ہوتا۔
    بلکہ سیاست کو خاندانی پیشہ بنانے کی مثالیں ترقی یافتہ ممالک میں بہت ہی کم ملیں گی
    جو قبیحہ روایت ہمارے ہاں سیاست میں ڈالی جا چکی ہے اسکی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان خاندانی اجارہ داری بنا چکے ہیں۔ جس کی بنا پر عوام اب" چوائس " کا رونا بھی رونے لگ گئے ہیں۔
    حالانکہ ماضی قریب میں عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری سمیت دیگر کئی قابل ، لائق اور اہل افراد اسی میدانِ‌سیاست میں موجود تھے جن کی ہم نے "بطور قوم " جو درگت بنائی وہ سب کے سامنے ہے۔ آئندہ کے لیے اہل ، باکردار اور محب وطن طبقے کے لیے "نشانِ‌عبرت" بنا دیا ہے کہ خبردار ! ہم بطور قوم انہی 200 خاندانوں کی غلامی تسلیم کرچکے ہیں۔ انکے داد مرے تو انکے بیٹے ہمارے لیڈر، بیٹے مرے تو انکے پوتے ہمارے لیڈر اور وہ مریں‌گے تو انکی اگلی نسل ہی ہماری لیڈر ہوگی۔ میں یہ نہیں‌کہتا کہ یہ لوگ فرشتے تھے یا ہیں۔ لیکن کم از کم ایک متبادل قیادت کے طور پر انہیں آزمایا تو جانا چاہیے تھا ۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ وہ بھی اوروں کی طرح برے نکلتے لیکن پھر کیا ہوتا ؟ اب بھی تو ہم بروں ہی میں پھنسے ہیں۔ ہر کوئی خود کو " چھوٹی برائی" کہتا ہے اور دوسرے کو " بڑی برائی " کا عنوان دیتا ہے۔ جن کی ٹانگیں قبر میں ہیں ۔ انکی اگلی نسل " بلاول بھٹو زرداری" ، حمزہ شہباز، حسین نواز، مونس الہی ، اور دیگر ناموں سے ہماری " راہنمائی " کےلیے تیار بیٹھے ہیں۔ اور دو دو بار آزما چکنے کے بعد اب پھر قوم سے دغابازی اور فریب کرنے والوں کو ہی لیڈر ماننا ہے۔ انہی میں سے کچھ کو بہتر اور کچھ کو برا کہنا ہے اور کسی " چوائس" کا نہ ہونے کی بات کرنا ہے۔ تو پھر ہماری قومی سیاسی بلوغت پر اور قومی شعور پر کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
     
  11. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وعلیکم السلام نعیم بھائی۔

    آپ کے خیالات کا شکریہ!

    اگر کوئی جاندار قیادت اٹھے تو وہ خود کو منوا بھی لیتی ہے۔ مثال کے طور پر قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ

    عمران خان کی مستقل مزاجی کو میں داد دیتا ہوں۔ لیکن وہ ابھی سیاست میں بچے ہیں۔

    ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تو سیاست چھوڑ بھی چکے۔ انہیں بھی استقامت کا مظاہرہ کرتا چاہئیے تھا۔ کیا خیال ہے؟ حقیقی لیڈر کبھی مایوس نہیں ہوتے۔۔۔

    آپ نے جو متبادل پیش کیے ہیں ان کو ابھی مزید ہوم ورک کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ شارٹ کٹ راستے ڈھونڈنے کی بجائے قوم کے پاس آنا چاہیے۔



    اور ایک آپ سے ذاتی قسم کا سوال:

    کیا آپ سیاستدان بننا پسند کریں گے؟ یا اپنے کسی بیٹے/بیٹی کو سیاستدان بنانا پسند کرتے ہیں؟ ان سوالات کی روشنی میں آپ اپنا پہلا پیغام دوبارہ پڑھیں
     
  12. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14


    نعیم بھائی کچھ اِسی طرح کے خیالات کا اظہار میں آج ہی ایک دوسری لڑی کر چکا ہوں۔ یہاں پر نا تو کوئی لیڈر ہے اور نا ہی راہنما۔۔۔ سب کے سب کھوٹے سکے ہیں۔۔۔ مجھے پاکستان کے حالات مستقبل میں مزید خراب ہوتے نظر آرہے ہیں۔۔

    viewtopic.php?f=15&t=5639&start=15
     
  13. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آزاد صاحب یہی سوال آپ سے بھی:
    کیا آپ سیاستدان بننا پسند کریں گے؟ یا اپنے کسی بیٹے/بیٹی کو سیاستدان بنانا پسند کرتے ہیں؟
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ گجر بھائی ۔
    میری رائے یہ ہے کہ پہلے عوام کو یا آئندہ نسل کی شعور کی بیداری کے لیے جدو جہد کی جائے۔ ایسے سکول ، کالجز اور ایسا ایجوکیشن سسٹم ہو جہاں سے پڑھ کر محب وطن پاکستانی اور اعلی تعلیم یافتہ انسان بنیں اور اسکے ساتھ ہی انکے اندر اسلامی شعور بھی اپنی تمام بنیادی ضروریات کے ساتھ موجود ہو (مولوی نہ ہوں) ۔ اس کرپٹ، فرسودہ، ظالمانہ اور خونخوار نظام کے خلاف انکے دل میں نفرت ہو اور اسلام کا عطا کردہ شورائی جمہوری نظام کہ جس میں " گنا نہیں‌ بلکہ تولا جاتا ہو" کو اس ملک کی بہتری کا ذریعہ جانتے ہوں۔
    اگر ایسی نسل تیار ہوجائے تو سیاستدان بھی خود بخود میسر آجائیں گے۔

    اور بحمدللہ تعالی ، اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی مقدور بھر کوشش طویل عرصے سے کررہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم گجر بھائی ۔
    میں ایک بار پھر اسی قومی غفلت یا اپنے فرائض سے پہلوتہی کی طرف اشارہ کروں گا۔
    اگر ہمیں عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری یا ایسے کچھ اور لیڈر دوسروں سے بہتر نظر آتے ہیں۔
    تو ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہم انہیں انتظار کی کس سولی پہ لٹکانا چاہتے ہیں ؟

    سبحان اللہ۔ کیا لوٹ‌مار کرنا، جیل جانا، سزائیں کاٹنا، سرے محل اور کواپریٹو بنک لوٹنا، قوم کو لوٹ‌کر ملائشیا سے لے کر کوریا تک اپنی انڈسٹری بزنس سیٹ‌کر لینا ، جاگیرداری یا سرمایہ داری کو فروغ دے کر مظلوم عوام کا خون چوسنا اور انکی عزتوں سے ہولی کھیلنا۔ اور آجکل کے نئے نعروں کے مطابق، مذہبی جگا گردی کرنا، دینی تعلیم کے نام پر معصوم بچے بچیوں کو کلاشنکوفیں اور راکٹ لانچر پکڑا کر انہیں "‌جہاد اور جنت " کےلیے برین واش کرکے اپنے ہی وطن کے معصوم لوگوں کی جانیں لینے کےلیے تیار کردینا۔۔۔۔ اور اسی بنیاد پر سیاسی مفادات حاصل کرنا۔۔۔۔
    یہی سب میدانِ سیاست میں " جوان " اور " بالغ " ہونے کا معیار ہے ؟


    پھر تو عمران خان اور طاہر القادری یا ایسے اہل محب وطن لوگ شاید کبھی بھی " سیاسی جوانی " حاصل نہ کرسکیں۔

    آپ نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بات کی ۔ اسکے پیچھے تو بہت لمبی تاریخ ہے۔ اس وقت کے مسلمان اور آج کے مسلمان میں بہت فرق آچکا ہے۔

    آپ کل کی مثال لے لیں۔ ابامہ کو سیاست میں آئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے ؟ صرف1996 سے 2008 ۔۔ صرف 12 سال کے عرصے میں دنیا کی سب سے مضبوط سلطنت کا بادشاہ بن گیا ہے۔

    اسکے عوام نے تو اسے "‌ابھی بچہ " نہیں‌کہا۔ یا اسکے " جوان " ہونے کا انتظار نہیں کیا۔

    میرا موقف یہی ہے کہ آئیے خدارا !‌ ہم پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ کہ ہم نے اس ملک کے ساتھ کتنی وفا کی ہے اور کتنی بےوفائی کی ہے۔ تقریریں کرنا آسان ہے۔ لیکن جب ووٹ دینے کی باری آئے تو چاچے مامے یا برادری اور یاروں دوستوں کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    اللہ پاک پاکستان کو محفوظ و مامون رکھے اور ہم سب کو اپنے وطن کو ترقی و عظمت کی منزل کی طرف لے جانے کی توفیق اور شعور عطا فرمائے۔ آمین
     
  17. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    نعیم بھائی آپ نے بہت ہی سچی اور انتہائی تلخ بات کی ہے :neu:
     
  18. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ہمارے ہاں صرف تین اچھے کام ہوجائیں تو قوم میں سیاسی شعور اور نظم وضبط آجائے گا

    - تعلیمی نظام معیاری ہوجائے
    - قانون اور انصاف نافذ کرنیوالے ادارے مضبوط ہوجائیں
    - بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے

    اگر یہ تینوں چیزیں ہوں‌تو کوئی بعید نہیں کہ ہم مفادپرست سیاستدانوں سے نجات پالیں گے اور ہم مڈل کلاس طبقے سے ایک اچھی قیادت پیداکرنے میں‌کامیاب ہوجائیں گے۔

    لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم ان تینوں چیزوں سے محروم ہیں۔ یہ محرومیاں ہمیں‌جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار قسم کے سیاستدان دے رہے ہیں۔جنہیں ہم خود ہی منتخب کرکے اپنے اوپر مسلط کردیتے ہیں۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب راشد بھائی ۔
    بہت اچھی بات اور عمدہ خیالات ہیں۔ میں اتفاق کرتا ہوں۔ :hands:
     
  20. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]
    گورنر کے حکم پر یہ اکھاڑ پچھاڑ کیا گیا، ان حالات میں سیکورٹی کیسے سری لنکن ٹیم کو بچائے گی
    یہ خبر روزنامہ ایکسپریس سے لی گئی ہے، اور یہ تبدیلیاں سابق وزیر اعلی کی مخالفت میں کی گئی ہیں ، کہ یہ بندے وزیر اعلی شہباز شریف کے تھے ، 5 مارچ 2009 کی یہ خبر ہے ، پس پردہ ایک ہفتہ سے سیاسی مفادات کی وجہ سے ان تبدیلیوں پر کام چل رہا تھا ، اس لیے سب پولیس اور سیکورٹی سروسز مصروف تھی
    '
     
  21. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جو بھی آتا ہے اس کا نزلہ پہلے سرکاری افسران اور ملازمین پر گرتا ہے۔ سچ پوچھیں‌تو اپنے ناپسندیدہ افسران کوفارغ کرنا اوراپنے من پسند افسر بھرتی کرنے سے تو امن وامان کی‌صورت حال خراب ہوتی ہے۔ جو جہاں کام کررہا ہے اسے کرنے دینا چاہئے
     
  22. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    میں راشد جی کی اس بات سے متفق ہوں اقتدار میں آتے ہی وسیع پیمانے پہ تبادلے کیے جاتے ھیں :yes:
     
  23. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام علیکم گجر بھائی ۔
    میں ایک بار پھر اسی قومی غفلت یا اپنے فرائض سے پہلوتہی کی طرف اشارہ کروں گا۔
    اگر ہمیں عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری یا ایسے کچھ اور لیڈر دوسروں سے بہتر نظر آتے ہیں۔
    تو ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہم انہیں انتظار کی کس سولی پہ لٹکانا چاہتے ہیں ؟

    سبحان اللہ۔ کیا لوٹ‌مار کرنا، جیل جانا، سزائیں کاٹنا، سرے محل اور کواپریٹو بنک لوٹنا، قوم کو لوٹ‌کر ملائشیا سے لے کر کوریا تک اپنی انڈسٹری بزنس سیٹ‌کر لینا ، جاگیرداری یا سرمایہ داری کو فروغ دے کر مظلوم عوام کا خون چوسنا اور انکی عزتوں سے ہولی کھیلنا۔ اور آجکل کے نئے نعروں کے مطابق، مذہبی جگا گردی کرنا، دینی تعلیم کے نام پر معصوم بچے بچیوں کو کلاشنکوفیں اور راکٹ لانچر پکڑا کر انہیں "‌جہاد اور جنت " کےلیے برین واش کرکے اپنے ہی وطن کے معصوم لوگوں کی جانیں لینے کےلیے تیار کردینا۔۔۔۔ اور اسی بنیاد پر سیاسی مفادات حاصل کرنا۔۔۔۔
    یہی سب میدانِ سیاست میں " جوان " اور " بالغ " ہونے کا معیار ہے ؟


    پھر تو عمران خان اور طاہر القادری یا ایسے اہل محب وطن لوگ شاید کبھی بھی " سیاسی جوانی " حاصل نہ کرسکیں۔

    آپ نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بات کی ۔ اسکے پیچھے تو بہت لمبی تاریخ ہے۔ اس وقت کے مسلمان اور آج کے مسلمان میں بہت فرق آچکا ہے۔

    آپ کل کی مثال لے لیں۔ ابامہ کو سیاست میں آئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے ؟ صرف1996 سے 2008 ۔۔ صرف 12 سال کے عرصے میں دنیا کی سب سے مضبوط سلطنت کا بادشاہ بن گیا ہے۔

    اسکے عوام نے تو اسے "‌ابھی بچہ " نہیں‌کہا۔ یا اسکے " جوان " ہونے کا انتظار نہیں کیا۔

    میرا موقف یہی ہے کہ آئیے خدارا !‌ ہم پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ کہ ہم نے اس ملک کے ساتھ کتنی وفا کی ہے اور کتنی بےوفائی کی ہے۔ تقریریں کرنا آسان ہے۔ لیکن جب ووٹ دینے کی باری آئے تو چاچے مامے یا برادری اور یاروں دوستوں کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    اللہ پاک پاکستان کو محفوظ و مامون رکھے اور ہم سب کو اپنے وطن کو ترقی و عظمت کی منزل کی طرف لے جانے کی توفیق اور شعور عطا فرمائے۔ آمین[/quote:a3aifjkg]

    ابامہ بھی اگر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنانے کی کوشش کرتے تو آج امریکی صدر ہرگز نہ ہوتے۔ خان اور قادری صاحب کو بھی چاہیے تھا کہ پہلے سے موجود قومی جماعتوں سے اپنا کیرئیر شروع کرتے۔

    "بچہ" سے مراد یہ تھی کہ تحریک انصاف میں موجود سیاستدانوں کا سیاست کے میدان میں کتنا تجربہ ہے؟ آیا وہ فل ٹائم سیاستدان ہیں ؟ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ، ماؤزرے تنگ، چرچل، اوبامہ اور بہت سے دوسرے چوٹی کے راہنماؤں نے علیحدہ پارٹیاں بنانے کی بجائے پہلے سے موجود ۔ ۔ ۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔

    آپ نے جن دو راہنماؤں‌کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی ان سے دلی وابستگی ہے اس لیے کچھ کہتے ہوئے ڈرتا بھی ہوں۔ لیکن ان کا کردار ہرگز کسی بڑے عہدے کے لیے مناسب نہیں۔ دونوں شخصیات مشرف کے ابتدائی دور میں‌ اس کے قریب چلی گئیں۔ کسی شارٹ کٹ راستے سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے۔ اس لیے مجھے امید نہیں کہ یہ دوسروں سے مختلف ہیں۔

    عمران خان اپنی فیملی کو نہیں چلا سکے۔ ملک کیسے چلائیں گے؟

    ڈاکٹر صاحب کے ایک داماد کے گھپلے کی خبر بھی میری نظر سے گزر چکی ہے۔

    اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن فی الحال اسی پر اکتفا کروں گا۔


    ڈاکٹر صاحب کی اسلام کے لیے اور خان صاحب کی کرکٹر کے لیے بہت سی خدمات ہیں۔ All due respect for them.
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    گجر بھائی ۔ ماشاءاللہ ۔ آپ کے اندر ایک عظیم پاکستانی پایا جاتا ہے۔ مبارک ہو۔

    دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
    والسلام علیکم ۔
     
  25. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    کیا یہ بحث آگے چلنی چاہئے :soch: :soch:
     
  26. کشکول
    آف لائن

    کشکول ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2006
    پیغامات:
    615
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    غلطی کبھی بانجہ نہیں رہتی یہ بچے دیتی جاتی ہے
    کاش یہ فقرہ ہمارے سیاستدانوں کی سمجھ میں آجائے
     
  27. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22

    :hasna: :hasna: :hasna:
     
  28. عبدمنیب
    آف لائن

    عبدمنیب ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2008
    پیغامات:
    40
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ذرداری صاحب نے قادری صاحب سے آج فون پہ بات کر لی ہے اور قادری صاحب نے ان سے لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔آج کے ایکسپریس میں‌ میں نے دیکھا ہے۔تراشہ ڈھونڈ کر اگلی پوسٹ میں لگاتا ہوں۔
     
  29. عبدمنیب
    آف لائن

    عبدمنیب ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2008
    پیغامات:
    40
    موصول پسندیدگیاں:
    0
  30. کشکول
    آف لائن

    کشکول ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2006
    پیغامات:
    615
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    خص کم جہاں پاک
    اور میں کیا کہ سکتا ہوں اس پر بلکہ باقی سب بھی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں