1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں

    ملتا ہے کہاں خوشہ ٔگندم کہ جلاؤں

    شاہین کا ہے گنبدشاہی پہ بسیرا

    کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں

    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    ہر داڑھی میں تنکا ہے،ہر ایک آنکھ میں شہتیر

    مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر

    توحید کی تلوارسے خالی ہیں نیامیں

    اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر

    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن

    مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن

    جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو

    وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن

    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے

    اس بندہ ٔمومن کو میں اب لاؤں کہاں سے

    وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو!

    اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارگراں سے

    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے

    اُگتے ہیں تہ سایۂ گل خار غضب کے

    یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی

    اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے

    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے

    جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے

    تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا

    مرمرکے جئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے

    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں