1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افغان طالبان نے مذاکرات شروع نہ کئے تو قطر میں سیاسی دفتر بند کرنا ہو گا: کیری

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏23 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    افغان طالبان نے مذاکرات شروع نہ کئے تو قطر میں سیاسی دفتر بند کرنا ہو گا: کیری
    دوحہ (نوائے وقت رپورٹ/ رائٹرز/ اے ایف پی) امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مفاہمت کی صورت میں نکلنے کی امید ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ افغان طالبان امن عمل کیلئے اپنے وعدوں کی پاسداری پر تیار ہیں یا نہیں۔ دوحہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات درست سمت میں ہونے کی امید ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ افغان طالبان کو مذاکرات شروع نہ کرنے کی صورت میں قطر میں اپنا سیاسی دفتر بند کرنا ہو گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تاخیر کے باوجود افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر قطر میں کھلنے والا طالبان کا دفتر بند کرنا پڑیگا۔ ادھر افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکہ کے خصوصی نمائندے اور طالبان کیساتھ مذاکرات کے انچارج جیمز ڈونیز گزشتہ روز دوحہ پہنچ گئے جہاں وہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور قطری رہنماﺅں کے درمیان ہونیوالی ملاقاتوں میں شرکت کرینگے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کے مطابق وہ فی الحال یہ نہیں بتا سکتے کہ جیمز ڈونیز طالبان کے ساتھ کب مذاکرات شروع کرینگے۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں جان کیری شریک نہیں ہونگے۔ کابل میں افغان صدر کرزئی نے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی اور اپنا یہ موقف دہرایا کہ امن عمل کی قیادت افغان حکومت کو کرنی چاہئے۔ صدر کرزئی نے کہا کہ امن ہمارے عوام کیلئے ایک مقدس امید ہے۔ ہم امن کیلئے کوششیں جاری رکھیں گے۔ غیرملکیوں کو یہ اجازت نہیں دینگے کہ وہ ہمارے امن عمل کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کریں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان کے اپنے قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات قبل از وقت ہیں جن پر غور نہیں کیا جا سکتا۔ جان کیری ”فرینڈز آف سیریا“ کے اجلاس میں شرکت کیلئے دوحہ آئے ہیں۔ اس اجلاس میں شامی صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی امداد کا جائزہ لیا جائے گا۔ دریں اثناءامریکی وزیر خارجہ کے ترجمان پیٹرک وینٹرل نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ مسائل کے حل کیلئے مثبت تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کو سرحدپارکے عسکریت پسندی کے اقدامات کے حل کےلئے ایک دوسرے سے تعاون کرناچاہیے۔ دونوں ملکوں کو سرحدپارکے عسکریت پسندی کے اقدامات کے حل کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کرناچاہئے۔ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی فلاح کے بارے میں امداد کیلئے سوال پر ترجمان نے زور دیکر کہا کہ افغان تصادم میں متاثر ہونیوالے افراد اور پاکستان میں داخل مہاجرین افراد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنیوالے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے۔ اس قسم کی امداد امریکی بیورو آف پاپولیشن، ریفیوجی اور مائیگریشن کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے، ہم جو پورے ریجن میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ سرحدوں کے پار جارحیت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کا حل دونوں ممالک کو مل کر تلاش کرنا چاہئے۔ ترجمان وائٹ ہاﺅس جے کارن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفاہمتی عمل بارے اہم مذاکرات طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہی ہونگے ، تاہم واشنگٹن بعض ایشوز پر طالبان سے براہ راست مذاکرات کا خواہاں ہے۔ طالبان کے ساتھ اہم مذاکرات جن کے ہم حامی ہیں وہ افغان حکام اور طالبان کے درمیان ہونگے تاہم بعض ایشوز ایسے ہیں جن پر ہم طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنا چاہیں گے۔ ان امور میں امریکی فوجی سارجنٹ برکدایل کی محفوظ واپسی بھی شامل ہے۔ ہم اپنے اس فوجی کی بحفاظت واپسی کے لیے کام کو جاری رکھیں گے انہوں نے کہا گوانتانامو بے سے طالبان قیدیوں کی منتقلی وہ اہم ایشو ہے جو طالبان مذاکرات کے دوران اٹھا سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور ابھی بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ ہم کانگریس سے مشاورت اور امریکی قانون کے مطابق اس بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔طالبان افغان سکیورٹی فورسز اور اتحادی فوج کے درمیان ابھی جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو مشکل ترین مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کیلئے مکمل تعاون جاری رکھیں گے۔امریکہ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ دوحہ میں طالبان سے اس کے مجوزہ براہ راست مذاکرات آنیوالے دنوں میں شروع ہوں گے۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی امارات افغانستان کے دفتر کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی پہلے ایسا کیا گیا۔اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر روز میری ڈیکارلو نے کہا کہ قطر کی طرف اسے صرف افغان طالبان کا دفتر قرار دئیے جانے کی وضاحت خوش آئند ہے۔ غلط نام والی تختی کو دفتر سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کیری کے دورے میں شام کی صورتحال توجہ کا مرکز ہوگی لیکن اس میں افغان امن بات چیت کے دوبارہ آغاز پر بھی اتحادیوں سے بات چیت کی جائیگی۔​
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    یہ بھی امریکی چال ہے
     
  3. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    افغانستان میں بارہ سال سے جاری خوں ریزی اور طویل انتظار کے بعد اب طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔
    لیکن یہ مذاکرات خلیجی ریاست قطر میں کیوں ہو رہے ہیں؟ اس کا جائزہ قطر میں بی بی ورلڈ سروس کے داؤد اعظمی نے لیا ہے۔
    تین سال پہلے طالبان کے نمائندے مغربی ممالک کے نمائندوں سے بات چیت کے لیے خفیہ طور پر قطر پہنچے تھے۔
    انھیں معلوم تھا کہ نیٹو بالخصوص امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی اور اپنے جانےبعد مستحکم اور پُرامد افغانستان کے لیے امن معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
    گزشتہ سال مارچ میں طالبان نے امریکہ سے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات منقطع کر دیے۔ وہ امریکی فوجی بوئی برگدہال کی رہائی کے بدلے امریکی جیل گونتاناموبے میں قید پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی چاہتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان نے امریکی فوج کو سنہ 2009 میں اغوا کیا تھا۔
    قطر میں طالبان نمائندوں کی تعداد اور سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور اب طالبان کے تقریباً بیس سے زائد بڑے رہنما اپنے خاندانوں سمیت قطر منتقل ہو گئے ہیں۔
    "میں نے بچوں کے ساتھ آدمی کو پہچان لیا لیکن جب انھوں نے اپنے بارے میں معلومات دینے سے گریز گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ دوسرے فریق سے تعلق رکھتے ہیں؟ ان کا رنگ اْڑ گیا اور وہ وہاں سے چلے گئے"​
    افغان سفارت کار
    گزشتہ دو برسوں سے طالبان نے قطر میں مقیم اپنے نمائندوں کو افغانستان کے حوالے سے جاپان، فرانس اور جرمنی میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں بھیجا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں ایک وفد ایران بھی بھیجا تھا۔
    قطر میں موجود طالبان صرف افغان طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں جو افغانستان میں برسرِپیکار ہیں اور ملا عمر ان کے سربراہ ہیں۔ قطر میں پاکستانی طالبان کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔
    اچانک ملاقات

    [​IMG]
    کہا جاتا ہے کہ طالبان کے نمائندے پاکستان کے راستے قطر آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں طالبان کے بعض نمائندے قطر اور پاکستان کے درمیان سفر بھی کرتے رہے ہیں۔
    دوحہ میں طالبان اپنی سرگرمیوں اور حلیے کے بارے میں احتیاط برتتے ہیں لیکن یہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے اور یہاں تقریباً چھ ہزار افغان مزدور اور تاجر رہتے ہیں۔ بعض افغان باشندوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے طالبان نمائندوں کو دوحہ میں ڈرائیونگ کرتے، گلیوں میں پیدل چلتے، شاپنگ سینٹرز یا مساجد میں دیکھا ہے۔
    ایک افغان سفارت کار نے مجھے ان کی دوحہ کے ایک شاپنگ سینٹر میں طالبان کے نمائندے سے اچانک ملاقات کی کہانی سنائی۔
    انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے کچھ بچوں کو پشتو میں بات کرتے سنا تو میں ان کی طرف گیا۔‘
    ’میں نے بچوں کے ساتھ آدمی کو پہچان لیا لیکن جب انھوں نے اپنے بارے میں معلومات دینے سے گریز کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ دوسرے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں؟ ان کا رنگ اْڑ گیا اور وہ وہاں سے چلے گئے‘۔
    سفارت کار نے بتایا کہ دوسرے افغانیوں کی طرح طالبان کے بعض نمائندے بچوں کی پیدائش کے اندراج یا دستاویزات کی تجدید کے لیے سفارت خانے کا چکر لگاتے ہیں۔
    افغان تاجر درویش زدران نے طالبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ’وہ دوحہ میں آرام دہ گھروں میں رہ رہے ہیں جس کا خرچہ قطری ادا کرتے ہیں جو عموماً اچھے لوگ ہیں۔‘
    انھوں نے کہا کہ’طالبان کے ایک رکن نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ انھوں نے تیس سال تک جنگ و جدل دیکھی لیکن اب وہ ایک پُرامن ماحول میں رہنا چاہتے ہیں۔‘
    "طالبان کے ایک رکن نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ انھوں نے تیس سال تک جنگ و جدل دیکھی لیکن اب وہ ایک پْرامن ماحول میں رہنا چاہتے ہیں"​
    افغان تاجر درویش زدران
    برسوں تک افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادی طالبان سے رابطے قائم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس طالبان کا کوئی آتا پتہ نہیں تھا۔
    امریکہ اور افغان امن کونسل کی بڑی ترجیح طالبان کو ایک مستقل جگہ دینا بن گئی تاکہ طالبان کے ساتھ اعتماد قائم ہو اور مذاکرات میں شرکت کرنے والے طالبان رہنماؤں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
    افغان امن کونسل 2010 میں کابل میں ایک جرگے کے بعد قائم کی گئی۔امن کونسل کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کر کے انھیں قیامِ امن کے عمل میں شرکت پر رضامند کرے۔
    افغان حکومت چاہتی تھی کہ طالبان کے لیے ترکی یا سعودی عرب میں دفتر کھولے کیونکہ ان کے خیال میں یہ ممالک زیادہ اثرو رسوخ رکھتے تھے اور اِن کے کابل کے ساتھ تعلقات بھی اچھے ہیں۔
    خوشگوار تعلقات

    [​IMG]
    دوسری طرف طالبان نے دفتر کے لیے قطر کو ترجیح دی کیونکہ ان کے خیال میں قطر ایک غیر جانبدار ملک تھا جن کے سب کے ساتھ تعلقات متوازن ہیں۔ قطر کو اسلامی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اور امریکہ بھی اس پر خوش تھا۔
    افغان حکام کے مطابق صدر حامد کرزئی نے قطر میں طالبان کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت اس شرط پر دی کہ یہ دفتر زیادہ منظرِعام پر نہیں آئے گا اور اسے صرف امن مذاکرات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
    صدر حامد کرزئی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ طالبان اس دفتر کو باقی دنیا سے روابط بڑھانے، لوگوں کو بھرتی کرنے یا چندے جمع کرنے کے لیے استعمال کریں۔
    مذاکرات قطر میں کرنے کے لیے تمام فریقین کے پاس اپنی اپنی وجوہات تھیں۔
    • امریکہ کسی سمجھوتے کے تحت طالبان کی قید میں اپنے فوجی بوئی برگدہال کی رہائی چاہتا ہے۔
    • طالبان گونتاناموبے میں قائم امریکی جیل میں قید سے اپنی ساتھیوں کی رہائی، پاکستان پر کم انحصار اور بین الاقوامی برادری میں اپنے وقار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
    • افغان حکومت طالبان اور پاکستان کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ طالبان پاکستان کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے خطرے کے بغیر بات چیت میں شریک ہوں۔
    • پاکستانی حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ طالبان ان کے کنٹرول میں نہیں اور طالبان پاکستان میں نہیں بلکہ قطر میں ہیں۔
    • قطر کی حکومت اصرار کرتی ہے کہ وہ مدد کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک لمبے عرصے تک چلنے والی کشیدگی میں کلیدی مذاکرات کار کے طور پر ظاہر کرنا چاہتی ہے۔
    [​IMG]
    قطر بین الاقوامی برادری کی نظروں میں میں آ تو گیا ہے لیکن امن مذاکرات کے اس نئے مسکن کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ایک بڑا چیلنج ہے
    واضح رہے کہ قطر ان تین ممالک میں شامل نہیں تھا جنھوں نے افغانستان میں طالبان کی 1996-2001 تک قائم حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ طالبان حکومت کو پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔
    لیکن طالبان کی سابقہ حکومت میں دفترِ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ قطر کے اُن کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
    جب طالبان کی حکومت گر گئی تو ان کے رہنماوں کے پاس پناہ لینے کے لیے جگہ نہیں تھی۔طالبان کے بعض سینئیر رہنماؤں نے قطر میں سیاسی پناہ لینے کی درخواست کی تھی لیکن کئی وجوہات کی بنا پر ان کے درخواستوں کو خاموشی سے مسترد یا نظر انداز کر دیا گیا۔
    ان جوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ سیاسی پناہ لینے والے طالبان کے نام یا تو امریکہ یا پھر قوامِ متحدہ کی طرف سے پابندی والی فہرست میں شامل تھے یا وہ امریکہ کو مطلوب تھے۔
    تاہم طالبان کے چھوٹے سطح کے رہنما قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے خلیجی ممالک میں عام افغان مزدور اور تاجر کی حیثیت سے جانے میں کامیاب رہے۔
    اب قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے سے یہ ملک اپنی خواہش کے مطابق بین الاقوامی برادری کی نظروں میں آ تو گیا ہے لیکن امن مذاکرات کے اس نئے مسکن کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    افغان طالبان کے عسکری ونگ کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے ہی سیاسی ونگ موجود رہا ہے ، اور یہ دونوں حصے ملاں عمر کے تحت ہی کام کرتے ہیں ، طالبان کے سیاسی قائدین پہلے بھی کئی ممالک میں سفر کرتے رہے ہیں ، اور جب ان کی حکومت تھی تو یہ لوگ مختلف ممالک میں سفیر تھے یا سفارت خانوں میں کام کرتے تھے یا مزاکرات کار تھے ، رہی قطر کی بات تو عرب ممالک میں قطر اور اردن میں امریکی فوج اور فوجی اڈوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور قطر کی حکومت وہ واحد اسلامی حکومت ہے جو کسی حد تک یورپ و امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل سے بھی تعلقات رکھتی ہے ، ان مزاکرات کے لیے بھی امریکہ نے خود قطر کی حکومت کو استعمال کیا ہے اور پچھلے کئی سال سے اُس کے زریعے پاکستان اور پھر افغان طالبان سے رابطے کی کوشش کر رہا ہے ، اب جبکہ اگلے سال اُس نے کسی بھی حال میں افغانستان کو چھوڑ کر چلے جانے کا فیسلہ کر لیا ہے تو اُسے کسی حد تک آبرومندانہ انخلاں کے لیے طالبان سے ضمانت اور مزاکرات کی اشد ضرورت ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں