1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افریقی انقلابی خواتین 23

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏21 دسمبر 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    افریقی انقلابی خواتین

    بیس سالہ گپا پٹینا زمبابوے یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ ایک دن اس نے ساتھی طلبہ و طالبات کے ساتھ یونیورسٹی
    انتظامیہ کے خلاف جلوس نکالا جس نے ان کے کچھ مطالبے پورے نہیں کیے تھے۔ جلوس کے سبھی




    شرکا پُر امن تھے لیکن اچانک ان پر مخالف گروپ کے لڑکوں نے حملہ کر دیا۔ وہ ڈنڈوں سے لیس تھے۔ ای
    ک ڈنڈا پٹینا کے سر پر لگا اور اسے خونم خون کر گیا۔

    اس حادثے سے پٹینا کے سارے خواب بھی کرچی کرچی ہو گئے۔ پہلے وہ یہی سمجھتی تھی کہ یونیورسٹی میں سبھی لڑکے تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں، لہٰذا وہ خواتین کی عزت و احترام کرتے ہیں لیکن جلوس میں لڑکوں نے لڑکیوں کے ساتھ بڑا بُرا سلوک کیا۔ اس واقعے نے پٹینا کو یہ احساس دلایا کہ یونیورسٹی میں یہ حال ہے تو مرد کارخانوں، گھروں اور کھیتوں میں خواتین کے ساتھ مزید ناروا روّیہ رکھتے ہوں گے۔

    براعظم افریقہ میں خواتین کئی مسائل کا شکار ہیں۔ انھیں اٹھتے بیٹھتے عدم مساوات، تعصب، جہالت اور مصائب کا سامنا ہے۔ افریقہ میں ویسے ہی دنیا کے غریب ترین باشندے بستے ہیں لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے



    کہ عورتیں، مردوں سے زیادہ غریب ہیں اور وہی غربت کا عذاب بھی سہتی ہیں۔ انھیں روزگار کے مواقع بھی کم میّسر ہیں۔ مائیکرو فنانس اور چھوٹا کاروبار بھی انھیں پیروں پہ کھڑا ہونے میں خاطرخواہ مدد نہیں دے سکا۔

    یہ سچ ہے کہ افریقہ میں غریب عورت ہونا خطرناک بات ہے۔ چونکہ عورتوں میں جہالت کا دور دورہ ہے، اس لیے وہ حفظانِ صحت کے اصولوں سے واقفیت نہیں رکھتیں پھر گھر ہو یا کام کی جگہ، عورت کو کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرمائے اور علم سے محروم یہ عورتیں قیادت سنبھالنے اور سیاست میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔


    اُمید کی کرن

    لیکن اب حالات رفتہ رفتہ نیا رُخ لے رہے ہیں۔ سیاست، صنعت وتجارت، تعلیم، کھیل، غرض ہر شعبے میں خواتین اوپر آ رہی ہیں۔ یہ خواتین جوش و جذبے سے لبریز ہیں اور اپنی کوششوں سے براعظم کے تمام مردو زن کی تقدیر بدلنا چاہتی ہیں۔ انھیں ناممکن کو ممکن کر دکھانا آتا ہے اور وہ اپنی قسمت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہیں۔

    ذیل میں آپ ایسی ہی باصلاحیت، محنتی اور جفاکش خواتین کے متعلق پڑھیں گے۔ یہ وہ افریقی خواتین ہیں جو نمایاں ہو کر سامنے آئیں ورنہ ایک عام عورت اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ابھی افریقہ کو تبدیل کرنے میں بھرپور ساتھ نہیں دے پا رہی۔ عام عورتیں محنت کرتیں، ٹیکس ایمان داری سے ادا کرتیں اور چھوٹی چھوٹی قربانیاں دیتی ہیں تاکہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیںمگر بڑی سوچ سے محروم ہیں۔

    آزاد ذرائع ابلاغ کی بدولت ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب عام افریقی خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہو رہی ہیں۔ لہٰذا انتخابات میں وہ اسی امیدوار کو ووٹ دیتی ہیں جو پارلیمنٹ میں ان کے حقوق کی آواز بلند کر سکے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک اچھے مستقبل کے خواب دیکھنے لگی ہیں تاکہ ان کے بچے خوشحال زندگی گزار سکیں۔

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ افریقی حکومتیں اپنی ذمے داری ادا کریں۔ مثلاً ایسے قوانین تشکیل دیں کہ ظالم مرد خواتین کا استحصال نہ کر سکیں، بجٹ کا بڑا حصہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص کریں تاکہ قومی دولت سے سبھی یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔ نیز معاشرتی روّیے بدلنے کے اقدامات کریں تاکہ خواتین کو مردوں سے کمتر نہ سمجھا جائے۔ آئیے! اب افریقہ کی جانی پہچانی خواتین سے ملیے جو اپنے وجود سے دوسری عورتوں کو بھی ہمت و توانائی بخش رہی ہیں۔

    جو خبروں میں ہیں

    لیمہا گبوی… لائبیریا

    لائبیریا کی ۳۹؍سالہ معاشرتی کارکن کو حال ہی میں نوبل امن انعام ملا ہے۔ لائبیریا دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور وہاں اقتدار حاصل کرنے کی خاطر ماضی میںبارسوخ گروہوں کے مابین لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ گبوی نے جب شعور پایا تب بھی ملک میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس نے پھر ٹروما کونسلریعنی صدمے سے بے حال لوگوں کو ذہنی سہارا دینے والے کارکن کی حیثیت سے تربیت پائی۔

    دورانِ خانہ جنگی گبوی نے بچوں کو قتل ہوتے دیکھا اور ان خواتین سے بھی ملی جن کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ انسانیت پر ٹوٹنے والے مظالم نے اس کا دل زخم زخم کردیا لیکن تبھی اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ معاشرے میں امن لانے کے لیے عورتوں خصوصًا مائوں کو میدان عمل میں اترنا پڑے گا۔

    چنانچہ ۲۰۰۲ء میں لیمہا گبوی نے ایک معاشرتی تنظیم، وومن آف لائبیریا ماس فار پیس کی بنیاد رکھی۔ گبوی نے پھر احتجاج کا انوکھا انداز اپنایا۔ وہ اپنی چند ساتھیوں کے ہمراہ دارالحکومت، مونرویا کی سب سے پُر ہجوم جگہ، مچھلی منڈی پہنچیں اور وہاں دعائیہ گیت گانے لگیں… ایسے نغمے جو ملک میں امن و محبت کے پھول کھلا دیں۔ مردوزن نے شروع میں تو بڑے تعجب سے ان خواتین کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ محبت کی جوت ان میں بھی جل اٹھی۔

    امن کی متلاشی اس عوامی تنظیم میں پھر عیسائی اور مسلمان خواتین یکجا ہو گئیں۔ انھوں نے تمام اختلافات بھلا کر عزم کیا کہ وہ خانہ جنگی کا خاتمہ کر کے رہیں گی۔ تنظیم کی قوت پھر اتنی بڑھی کہ وہ متحارب گروہوں کی طاقت پر غالب آگئی۔ گویا محبت نے نفرت کو شکست دے ڈالی۔ اب لائبیرین والدین نے جنگی سرداروں پر زور ڈالا کہ وہ معاہدہ امن کرکے خانہ جنگی کا خاتمہ کریں۔ سردار یہ دبائو برداشت نہ کر سکے اور یوں ۲۰۰۳ء میں خانہ جنگی انجام کو پہنچی۔ اس کے بعد انتخابات ہوئے جن میں ایک خاتون اور دوسری امن نوبل انعام یافتہ ایلن سرلیف منتخب ہوئیں۔

    جب لیمہا گبوی کو نوبل انعام ملا تو انھوں نے کہا ’’اب ثابت ہوگیا کہ خواتین… دنیا کی آدھی آبادی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی ان کی زبردست صلاحیتوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔‘‘

    میری کیٹنی… کینیا

    کینیا نے ماضی میں کئی بڑے ایتھلیٹ (دوڑ میں حصہ لینے والے) پیدا کیے ہیں اور اب بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اس کے نامور ایتھلیٹوں میں ۲۹؍سالہ میری کیٹنی سر فہرست ہے۔ طویل فاصلے کی دوڑ میں حصہ لینے والی اس ایتھلیٹ کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اولمپکس ۲۰۱۲ء میں وہی طلائی تمغہ جیتے گی۔ میری اپنے شعبے میں نئے ریکارڈ بنا کر اپنا اور ملک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتی ہے۔

    غزالہ بن عمر… مراکش

    سالِ رواں کے آغاز میں جب ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز ہوا تو مراکش میں جمہوریت پسند تنظیموں نے بادشاہت کے خلاف مظاہرے کیے۔ یہ طویل عرصہ سے چلی آرہی گھٹن میں ہوا چلنے کی نوید تھی۔ ۲۹سالہ غزالہ اسی جمہوری تحریک کے دوران نمایاں ہوئی۔ اس نے خصوصًا ٹیلی ویژن میں شاہ پرست سیاست دانوں کے سامنے جمہوریت کی زبردست وکالت کی اور جوشیلے انداز میں آمروں کے پرخچے اُڑا دئیے۔ وہ اب بھی ہر فورم پر عوام کی آواز دلیری سے بلند کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے: ’’بادشاہ ہو یا آمر، وہ کبھی عوام کے حقوق نہیں دبا سکتا۔‘‘

    مونا سیف… مصر

    مصر کے آمر، حسنی مبارک کا تختہ الٹنے میں انٹرنیٹ نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ مظاہرین بذریعہ سوشل میڈیا سائٹس باہم رابطہ کر کے خصوصًا تحریر چوک میں جلسے جلوس نکالتے تھے۔ مظاہرین کو متحد و منظم کرنے میں ۲۵سالہ بلاگر، مونا سیف پیش پیش رہی۔ جیسے ہی فروری میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، مونا نے تحریر چوک میں ڈیرہ جما لیا اور وہیں اپنی پچیسویں سالگرہ بھی منائی۔

    مونا سیاسی کارکن، احمد سیف کی دختر ہیں جنھوں نے مبارک حکومت کے خلاف ماضی میں کئی مظاہرے ترتیب دئیے تھے۔ والدہ لیلی قاہرہ یونیورسٹی میں ریاضی کی پروفیسر ہیں۔ مونا نے دورانِ انقلاب ’’تحریر ڈائیلوگ‘‘ کے نام سے ایک بلاگ لکھا۔ اس میں مونا نے بڑی بہادری سے ظلم و ستم کا شکار انقلابیوں کی داستانیں بیان کیں۔ اس بلاگ کو پوری دنیا میں شہرت ملی۔ مونا آج مصری فوج کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے جو حقیقتاً اقتدار کی مالک ہے۔ اس کی استقامت دیکھ کر دوسرے جمہوریت پسند بھی ہمت پکڑتے ہیں۔

    جو اثرورسوخ رکھتی ہیں

    نگوزی اکونجوآئیولا… نائیجریا

    افریقہ کے سب سے بڑے ملک، نائیجریا کی طاقتور ترین خاتون… ایسی خاتون جس کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے۔ نگوزی سابق صدر اولیگن اوبسانجو کے دورِ حکومت میں وزیرِ خزانہ بنیں تو نائیجریا منی لانڈرنگ کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔ پھر اسی پر ۳۰ ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہوا تھا۔ وزیرِ خزانہ بنتے ہی نگوزی نے محض تین سال میں ایسا کرشمہ دکھایا کہ ملک پر سے ۲۰ ارب ڈالر کے قرضے ختم ہو گئے۔ نیز وہ منی لانڈرنگ والی فہرست سے بھی نکل آیا۔

    نگوزی اکونجو پھر عالمی بنک چلی گئیں اور وہاں بھی اپنی محنت، لیاقت اور ذہانت سے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ جلد ہی وہ بینک کی دوسری بڑی شخصیت بن گئیں۔ اب حال ہی میںنائجیریا کی نئی حکومت نے انھیں دوبارہ وزیرِ خزانہ بنایا ہے۔ وہ نئی امنگیں لے کر واپس وطن پہنچی ہیں اور سیاسی بکھیڑوں سے الگ ہو کر کام کرنا چاہتی ہیں۔

    بعض لوگوں کا خیال ہے: ’’ایک درخت کو جنگل نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ لیکن نگوزی کی خداداد صلاحیتوں کے معترف کہتے ہیں: ’’انھوں نے کرشمہ کر دکھایا تھا، اب بھی دکھائیں گی۔‘‘ حقیقتًا بیش بہا صلاحیتوں کی مالک ایسی خواتین کسی بھی ملک کا سرمایہ ہیں۔

    گل مارکس… جنوبی افریقہ

    جنوبی افریقہ کے سرکاری بینک، سائوتھ افریقن ریزرو بنک کی گورنر ہیں۔ یہ بینک سونے اور زرمبادلہ کی شکل میں ۵۰ ارب ڈالر (چار کھرب چالیس ارب روپے) کے اثاثہ جات کا مالک ہے۔ گل مارکس بڑی کامیابی سے بنک کے معاملات چلا رہی ہیں اور اسے ایک مستحکم مالیاتی ادارہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ بنک ملک کی تعمیر و ترقی میں خوب حصہ لے رہا ہے۔

    چیمیندا نگوزی اڈیشی… نائیجریا

    نائیجریا کی مقبول مصنفہ، ۲۹سالہ اڈیشی سب سے کم عمر ناول نگار ہے جس نے ۲۰۰۶ء میں اپنے ناول، ہاف آف اے یئلو سن (Half of a Yollow Sun) پر مشہور ادبی انعام اورنج پرائز جیتا۔ اڈیشی کے ناولوں اور افسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ افریقہ کے متعلق مغربی تصورات کو نشانہ بناتی ہیں… وہ تصورات جن میں افریقہ کو پس ماندہ، جاہل اور وحشی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

    کیرولین موٹوکو… کینیا

    ایک زمانے میں ریڈیو کے فنکار و صداکار پاکستان میں بہت مشہور ہوا کرتے اور عوام پر خاصا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ چونکہ کینیا میں ریڈیو آج بھی مقبول ترین میڈیا ہے، لہٰذا وہاں اسی سے متعلق فنکار ممتاز حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں کیرولین ’’ملکہ ریڈیو‘‘ کہلاتی ہے۔

    کیرولین ایک پروگرام ’’دی بگ بریک فاسٹ شو‘‘ کی پیش کار ہے۔ وہ پروگرام میں ضرورت مندوں کو مشورے دیتی، خبروں پر کھٹے میٹھے تبصرے کرتی اور سننے والوں کو باشعور بناتی ہے۔ اپنی ذہانت اور پُرکشش ہنسی کے باعث بھی سامعین کو پسند ہے۔ کیرولین کے پرستار اُسے کینیائی عورت کے لیے ’’اوّل ماڈل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کیرولین کا فلسفۂ حیات سادہ مگر جاذبِ نظر ہے:

    ’’میں اپنا ہر کام کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہوں۔ میں صبح چار بجے اس لیے نہیں اٹھتی کہ شکست کھا جائوں۔‘‘

    پروفیسر رشیخہ ال رعدی… مصر

    پروفیسر صاحبہ قاہرہ یونیورسٹی میں علمِ مامونیات (Immunology) کی استاد ہیں۔ علم مامونیت میں امراض سے محفوظ رکھنے والے طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور پروفیسر رشیخہ اسی سلسلے میں بین الاقوامی شہرت رکھتی ہیں۔ آپ نے ۲۰۰۹ء میں ’’بل ہرزیا‘‘ (Bilharzia) کی ویکسین تیار کی۔ یہ چھوتی مرض ترقی یافتہ ممالک میں ہر سال بیس کروڑ مرد و زن کو نشانہ بناتا ہے۔

    ویکسین کی ایجاد پر آپ کو ۲۰۱۰ء میں خواتین کے لیے ممتاز فرانسیسی سائنسی اعزاز ’’ایل اوریل‘‘ (L’Oreal) سے نوازا گیا۔ پروفیسر صاحبہ کا کہنا ہے: ’’زندگی کے تجربات نے مجھے بتایا ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت کم مسابقتی جذبہ رکھتی اور اپنے کام میں مصروف رہتی ہیں، چنانچہ وہ جلد سائنسی مسئلہ حل کر لیتی ہیں۔‘‘ افریقہ کو آج زیادہ سے زیادہ خواتین سائنس دانوں کی ضرورت ہے اور عورتوں کے لئے پروفیسر رشیخہ مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    اشا روز میگیرو… تنزانیہ

    عالمی سطح پر تنزانیہ کا سب سے مشہور چہرہ۔ ۵۵سالہ اشا نے تنزانیہ کی جدوجہد آزادی میںسرگرم حصہ لیا۔ جب ملک آزاد ہوا، تو پہلی وزیرِ خارجہ مقرر ہوئیں۔ بعدازاں وکالت کی تعلیم پائی اور معاشرتی کارکن بن کر خواتین میں صحت و تعلیم کی سہولیات عام کرنے میں منہمک رہیں۔ اس وقت وہ اقوامِ متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور ملک میں سب سے اعلیٰ عہدہ رکھنے والی خاتون ہیں۔

    جو اقتدار میں ہیں

    ایلن جانسن سرلیف… لائبیریا

    اپنے ملک کی ’’خاتون آہن‘‘ جن کی خواہش ہے کہ افریقہ میں خواتین سیاست میں حصہ لیں اور اپنے اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ۷۳سالہ سرلیف ۲۰۰۵ء کے صدارتی انتخابات میںلائبیریا کی صدر منتخب ہوئیں۔ آپ یہ منصبِ بلند پانے والی پہلی افریقی خاتون ہیں۔ اس سے قبل ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۰ء ملک کی وزیرِخزانہ رہیں۔ ۱۹۸۰ء میں بغاوت ہوئی تو بیرونِ ملک چلی گئیں اور مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے منسلک ہوئیں۔

    صدر سرلیف نے اپنے چھ سالہ دور میں خاصے ترقیاتی کام کرائے۔ سڑکیں، ہسپتال اور اسکول تعمیر کرائے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں سے ۱۶ ارب کے آرڈر لیے۔ تاہم ملک میں بیروزگاری کا دور دورہ ہے اور بیشتر آبادی غربت کے پنجوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن صدر سرلیف کا دعویٰ ہے کہ اگر قوم نے انھیں دوبارہ منتخب کیا تو وہ اگلے چھ برس میں تمام مسائل پر قابو پا لیں گی۔

    صدر سرلیف کو لیمہا گبوی اور یمن کی توکل کرمان کے ساتھ ۲۰۱۱ء کا نوبل امن انعام ملا ہے۔ انھوں نے نوبل انعام ملنے پر صحافیوں کو بتایا: ’’پچھلے نو برس سے لائبیریا میں امن و امان ہے۔ اس کامیابی کا سہرا قوم کے ہر فرد خصوصًا خواتین کے سر بندھتا ہے۔ انھوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود امن کا پرچم بلند رکھا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں دیگر افریقی ممالک میں بھی خواتین صدر اور وزیراعظم بنیں گی۔‘‘

    مریم قدیمہ مدبی…مالی

    ۶۳سالہ مریم اعلیٰ سرکاری افسر ہیں۔ انھوں نے پچھلے چالیس برس کے دوران مختلف عہدوں پر فائز رہ کر ملک و قوم کی خدمت انجام دی۔ اس سال ماہ اپریل میں صدر احمدو طورے نے انھیں مالی کا وزیراعظم مقرر کیا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ملک کی پہلی خاتون ہیں۔

    جوائس موجورو… زمبابوے

    ملک کی سب سے طاقتور خاتون اور نائب صدر ہیں۔ آپ کو بیمار صدر رابرٹ موگابے کی جانشین سمجھا جاتا ہے۔ شوہر ریٹائر فوجی جرنیل ہیں۔ تاہم موگابے کے بعد حکومت سنبھالنے میں انھیں سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    جوائس بام فورڈیڈو… گھانا

    سپریم کورٹ کی سابق جج جو ۲۰۰۹ء میںپارلیمنٹ کی سپیکر منتخب ہوئیں۔ آپ مغربی افریقہ میں یہ عہدہ پانے والی پہلی خاتون ہیں۔ سچائی اور اصولوں پر چلنے والی خاتون ہیں۔ ابھی ماہ مئی میں جب حکمران جماعت کے ارکان نے ناروا رویّے کا مظاہرہ کیا تو آپ پارلیمنٹ سے واک آئوٹ کر گئی تھیں۔

    حنا ٹیٹہی… گھانا

    وزیرِتجارت جو ماضی میں وکیل تھیں۔ انھوں نے وکالت کی صلاحیتیں آزمائیں اور چینیوں سے ملکی المونیم کی صنعت میں سرمایہ کاری کروالی۔ ان کی کامیابیوں کا سفر جاری رہا تو ایک دن گھانا کی حاکم بھی بن سکتی ہیں۔

    ماتھا کاروا… کینیا

    ایک دیانت دار اور بہادر سیاست داں جو ’’کینیا کا ضمیر‘‘ کہلاتی ہیں۔ ۵۳سالہ مارتھا پیشے کے لحاظ سے وکیل مگر پچھلے بیس سال سے سیاست میں ہیں۔ ان کا مشن قومی سیاست اور حکومت کو کرپشن سے پاک کرنا ہے۔ فی الوقت رکن پارلیمنٹ ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور بیرون ملک مقیم مکینوں کے ذریعے مہم چلا رہی ہیں کہ مقامی سیاسی جماعت، نیشنل رین بو کولیشن، انھیں اگلے سال صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار نامزد کردے۔

    مارتھا سمجھتی ہیں کہ کینیا کی صنعت اسی وقت مضبوط ہوگی جب تمام لوگ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں۔ ۲۰۰۹ء میں وزیرانصاف تھیں۔ جب وزیرزراعت پر کرپشن کا الزام لگایا اور حکمران جماعت سے الگ ہو گئیں۔ کینیا کے ان گنے چنے سیاست دانوں میں شامل ہیں جو کرپشن سے پاک ہیں۔ آپ اگلے سال کینیا کی پہلی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔

    جو عالمی سطح پر نمایاں ہوئیں

    نوانیتھم پلے… جنوبی افریقہ

    بس ڈرائیور کی صاحب زادی جو آج اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ہیں۔ پلے نے ۱۹۷۳ء میں بحیثیت وکیل شہرت پائی جب انھوں نے عدالت عالیہ سے یہ امر تسلیم کرایا کہ سیاسی قیدی اپنے وکلاء سے مل سکتے ہیں۔ اس جیت نے انھیں پورے جنوبی افریقہ میں مشہور کر دیا۔ پھر ۱۹۹۵ء میں صدر نیلسن منڈیلا نے آپ کو جنوبی افریقن ہائی کورٹ کی پہلی سیاہ فام جج مقرر کیا۔

    نوانیتھم ۲۰۰۸ء سے ہائی کمشنر چلی آ رہی ہیں۔ اس سال مشرق وسطیٰ میں ’’عرب بہار‘‘ نے جنم لیا تو آپ نے کھل کر عوام کی حمایت کی اور آمرانہ حکومت کو ظلم و ستم کرنے پر لتاڑا۔

    جو ابھر رہی ہیں

    لاوزے حانون… الجزائر

    اپنے ملک کی واحد خاتون جنھوں نے الجزائر کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ سیاست داں ہونے کے علاوہ وکیل، سماجی کارکن اور ٹریڈیونینسٹ ہیں۔ فی الوقت اپوزیشن جماعت، پارٹی ڈیس ٹراویلریسس کی سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ کی خواہش ہے کہ سیاسی بحث ومباحثے میں بشمول اسلام پسند تمام سیاسی جماعتیں حصہ لیں۔ چاہتی ہیں کہ الجزائر کی تمام خواتین تعلیم یافتہ ہوجائیں۔

    فاطمہ زہرہ منصوری…مراکش

    شہر مراکش کی ۳۴سالہ نوجوان مئیر۔ مراکشی تاریخ میں یہ عہدہ پانے والی دوسری خاتون ہیں۔ حزبِ اختلاف سے تعلق ہے مگر سب کو ساتھ لے کر چلنے کے فلسفے پر یقین رکھتی ہیں۔

    جو مالیات سے متعلق ہیں

    ایلینی گابری مدہین… ایتھوپیا

    ماہر معاشیات جو افریقی ممالک کی زرعی منڈیوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ۱۹۷۲ء اور ۱۹۸۴ء میں قحط اس لئے آئے کہ ایتھوپیا کے جن علاقوں میںفصل اچھی ہوئی، وہاں سے اناج بھوکے لوگوں تک نہیں پہنچ سکا۔ چناچہ ڈاکٹر ایلینی نے ۲۰۰۸ء میں ایک کمپنی، کموڈیٹی ایکس چینج کی بنیا د رکھی۔ یہ کمپنی کسانوں اور خریداروں کو مل بیٹھنے کا موقع دیتی ہے تاکہ معیار کی بنیاد پر دیانت داری سے سودے ہو سکیں۔یہ کمپنی اب تک ایک ارب ڈالر (۸۸ ارب روپے) کے سودے کرا چکی۔ ایلینی کہتی ہیں: ’’جب کسانوں کو کھلی منڈیوں میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کو موقع ملے تو وہ زیادہ منافع کماتے ہیں۔ یوں وہ زیادہ کھیتی باڑی کریں گے اور ایتھوپیا قحط سے محفوظ ہو جائے گا۔‘‘

    نونکولولیکو نیامبزی ہیٹا… جنوبی افریقہ

    عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اسٹیل بنانا اور فروخت کرنا صرف مردوں کا کام ہے لیکن یہ مقولہ اب کارآمد نہیں رہا، کم از کم افریقہ میں! آرسیلو رمتل جنوبی افریقہ براعظم میں سب سے بڑی اسٹیل کمپنی ہے۔ اب اس میں دس ہزار افراد ملازم ہیں اور اس کی سربراہ ایک خاتون، نونکولولیکو ہے جو ’’نکو‘‘ کہلاتی ہے۔ اس نے یہ دعوے جھوٹ کر دکھائے کہ ایک عورت اتنی بڑی کمپنی نہیں چلا سکتی۔ وہ کامیاب ہی نہیں بلکہ کمپنی کا منافع دن بدن بڑھ رہا ہے۔

    سلوا ادریسی اخنوچ… مراکش

    اپنے ملک کی امیر ترین خواتین میں سے ایک اور گروپ آکسال نامی کمپنی کی سربراہ ہیں۔ یہ کمپنی مراکش میں عام استعمال کی اشیا کے بڑے بڑے اسٹور کھولتی ہے۔ ماہ اکتوبر میں کمپنی نے کاسابلانکا میں ’’دی مال‘‘ کھولا۔ یہ افریقہ کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر ہے۔
     
  2. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    کافی اچھی معلومات ہیں، بہت شکریہ
     
  3. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    کافی اچھی معلومات ہیں، بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں