1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افتخار عارف

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏6 دسمبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئی تو کیا
    گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئی تو کیا
    غارتِ گرئ شہر میں شامل ہے کون کون
    یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئی تو کیا
    اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
    اِک یاد ہی تو تھی، جو بھلا دی گئی تو کیا
    میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط
    اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئی تو کیا
    قانونِ باغبانئ صحرا کی سرنوِشت
    لکھی گئی تو کیا، جو نہ لکھی گئی تو کیا
    اس قحط و انہدامِ روایت کے عہد میں
    تالیفِ نسخہ ہائے وفا کی گئی تو کیا
    جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
    اِک بے ہُنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا

    افتخارؔ عارف
     
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
    وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو
    وہ کیا بہار کہ پیوند خاک ہو کہ رہے
    کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو
    کہاں ہے اور خزانہ، بجز خزانۂ خواب
    لٹانے والا لٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو
    یہی ہوا، یہی بے مہر و بے لحاظ ہوا
    یہی نہ ہو تو چراغوں میں روشنی بھی نہ ہو
    ملے تو مِل لیے، بچھڑے تو یاد بھی نہ رہے
    تعلقات میں ایسی روا روی بھی نہ ہو

    افتخارؔ عارف
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    بِکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشہ ختم ہو گا؟
    میرے معبود! آخر کب تماشہ ختم ہو گا؟
    چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
    ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشہ ختم ہو گا
    کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
    یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشہ ختم ہو گا
    یہ سب کٹھ پُتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
    سحر سے پہلے پہلے، سب تماشہ ختم ہو گا
    تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
    کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہو گا
    دلِ ما مطمئن! ایسا بھی کیا مایوس رہنا؟
    جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشہ ختم ہو گا

    افتخارؔ عارف
     
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
    نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
    بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
    عجیب رسم چلی ہے دُعا نہ مانگے کوئی
    تمام شہر مکرّم، بس ایک مجرم مَیں
    سو میرے بعد، مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی
    کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
    نہ ہو یقین تو، پھر معجزہ نہ مانگے کوئی
    عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو، بہار بھی آئے
    اِس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی

    افتخارؔ عارف
     
  5. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    شہرِ گُل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
    جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
    شکل بننے نہیں پاتی، کہ بگڑ جاتی ہے
    نئی مٹی کو ابھی چاک سے خوف آتا ہے
    وقت نے ایسے گھمائے اُفق آفاق، کہ بس
    محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے
    یہی لہجہ تھا کہ معیارِ سخن ٹھہرا تھا
    اب اِسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے
    آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لَو دیتی ہے
    خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے
    قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق
    اب اِسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے
    کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
    اِن دنوں، عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے
    رحمتِ سیدِ لولاکؐ پہ کامل ایمان
    امتِ سیدِ لولاکؐ سے خوف آتا ہے

    افتخارؔ عارف
     
  6. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
    اِک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا
    اِک عالمِ خوبی ہے میسّر، مگر اے کاش
    اُس گُل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا
    اُس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
    اِک حلقۂ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا
    مہتاب میں اِک چاند سی صورت نظر آتی
    نِسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا
    مرتا بھی جو اس پر تو اُسے مار کے رکھتا
    غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا
    اِک قامتِ زیبا کا یہ دعوٰی ہے، کہ وہ ہے
    ہوتا تو میرے حرفِ گِرہ گیِر میں ہوتا

    افتخارؔ عارف
     
  7. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
    جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
    ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
    ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
    سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
    کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں
    جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِبازار
    جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
    ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نِسبتوں کے امیں
    ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

    افتخارؔ عارف
     
  8. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف


    آسمانوں پر نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ
    صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
    ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
    اِک نظر تُو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
    دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
    دل سنبھل جائے تو سُوئے سینہٴ احباب دیکھ
    موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
    کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ
    بُوند میں سارا سمندر، آنکھ میں کُل کائنات
    ایک مُشتِ خاک میں سُورج کی آب وتاب دیکھ
    کچھ قلندر مشربوں سے راہ و رسمِ عشق سیکھ
    کچھ ہم آشفتہ مزاجوں کے ادب آداب دیکھ
    شب کو خطِ نُور میں لکھی ہوئی تعبیر پڑھ
    صبح تک دیوارِ آئندہ میں کھلتے باب دیکھ
    افتخارؔ عارف کے تُند و تیز لہجے پر نہ جا
    افتخارؔ عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

    افتخارؔ عارف
     
  9. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
    سروں کی فصل جب سے اُتری تھی تب سے واقف ہیں
    کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ
    سپاہِ ظلم کہ ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
    ہے رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
    درازئ شبِ غم کے سبب سے واقف ہیں
    وہ جن کی دستخطیں محضرِ سِتم پہ ہیں ثبت
    ہر اُس ادیب، ہر اُس بےادب سے واقف ہیں
    نظر میں رکھتے ہیں عصرِ بلند یامئی مہر
    فراتِ جبر کے ہر تشنہ لب سے واقف ہیں
    کوئی نئی تو نہیں حرفِ حق کی تنہائی
    جو جانتے ہیں وہ اس اَمرِ رب سے واقف ہیں

    افتخارؔ عارف
     
  10. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
    جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
    نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
    مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
    وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
    سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
    لہو دینے لگی ہے چشمِ خوں بستہ، سو اس بار
    بھری آنکھوں میں خوابوں کو رہا کرنا پڑے گا
    مبادا قصۂ اہلِ جنوں ناگفتہ رہ جائے
    نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا
    درختوں پہ ثمر آنے سے پہلے آئے تھے پھول
    پھلوں کے بعد کیا ہو گا، پتہ کرنا پڑے گا
    گنوا بیٹھے تری خاطر اپنے مِہر و مہتاب
    بتا اب اے زمانے اور کیا کرنا پڑے گا

    افتخارؔ عارف
     
  11. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    مرے خُدا مرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو
    اِسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو
    زمانہ دیکھے میرے حرفِ بازیاب کے رنگ
    گلِ مُرادِ ہُنر دشتِ جاں میں ظاہر ہو
    میں سخر و نظر آں کلام ہوں کہ سکوت
    تری عطا، مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو
    مزہ تو تب ہے جب اہلِ یقیں کا سر ِکمال
    ملامتِ سخنِ گُمرہاں میں ظاہر و
    گزشتگانِ محبت کا خوابِ گُم گشتہ
    عجب نہیں کہ شبِ آئندگاں میں ظاہر ہو
    پسِ حجاب ہے اک شہسوارِ وادئ نُور
    کسے خبر، اسی عہدِ زیاں میں ظاہر ہو

    افتخارؔ عارف
     
  12. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
    ہم اہلِ مہر و محبت ہیں، دل نکال کے رکھ
    ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
    تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
    ذرا سی دیر کا ہے یہ عروجِ مال و منال
    ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ
    یہ بار بار کنارے پہ کِس کو دیکھتا ہے
    بھنور کے بِیچ کوئی حوصلہ اُچھال کے رکھ
    نہ جانے کب تُجھے جنگل میں رات پڑ جائے
    خُود اپنی آگ سے شُعلہ کوئی اُجال کے رکھ
    جواب آئے نہ آئے، سوال اُٹھا تو سہی
    پِھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
    تری بلا سے گروہِ جنُوں پہ کیا گُزری
    تُو اپنا دفترِ سُود و زیاں سنبھال کے رکھ
    چھلک رہا ہے جو کشکولِ آرزو، اِس میں
    کسی فقیر کے قدموں کی خاک ڈال کے رکھ

    افتخارؔ عارف
     
    حریم خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    زمانہ خُوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
    چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
    غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
    حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
    خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
    مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
    بس اتنا ہو کہ شغلِ ناؤ نوش، مُستقل رہے
    قلم کو سرنِگُوں کیا ہے، سر فراز کر کے بھی
    کُچھ اس طرح کے بھی چراغ شہرِ مصلحت میں تھے
    بُجھے پڑے ہیں خُود ہوا سے سازباز کر کے بھی
    بس ایک قدم پڑا تھا بے محل، سو آج تک
    میں دربدر ہوں اہتمامِ رخت و ساز کر کے بھی

    افتخارؔ عارف
     
  14. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں، وہیں کے نہیں
    جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
    وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
    وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
    ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
    یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں
    سُنا گیا ہے کہ اکثر قیام و ذکر و سجُود
    ہیں جس کے نام اُسی جانِ آفریں کے نہیں
    تمام عمر پِھرے دربدر، کہ گھر ہو جائے
    گھروں میں رہنا بھی تقدیر میں اُنہیں کے نہیں
    بِکھر رہے ہیں جو آنسُو بغیر منّتِ دوست
    وہ دامنوں کی امانت ہیں، آستیں کے نہیں

    افتخارؔ عارف
     
  15. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    قلم جب دَرہم و دِینار میں تولے گئے تھے
    کہاں تک دِل کی چِنگاری، ترے شعلے گئے تھے
    فصیلِ شہرِ لب بستہ! گواہی دے کہ لوگ
    دہانِ حلقۂ زنجیر سے بولے گئے تھے
    تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں
    فِضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے
    فسادِ خوں سے سارا بدن تھا زخم ہی زخم
    سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے
    وہ خاکِ پاک، ہم اہلِ محبت کو ہے اکسیر
    سرِ مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے

    افتخارؔ عارف
     
  16. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف


    مرے خُدا مرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو
    اِسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو
    زمانہ دیکھے میرے حرفِ بازیاب کے رنگ
    گلِ مُرادِ ہُنر دشتِ جاں میں ظاہر ہو
    میں سخر و نظر آں کلام ہوں کہ سکوت
    تری عطا، مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو
    مزہ تو تب ہے جب اہلِ یقیں کا سر ِکمال
    ملامتِ سخنِ گُمرہاں میں ظاہر و
    گزشتگانِ محبت کا خوابِ گُم گشتہ
    عجب نہیں کہ شبِ آئندگاں میں ظاہر ہو
    پسِ حجاب ہے اک شہسوارِ وادئ نُور
    کسے خبر، اسی عہدِ زیاں میں ظاہر ہو

    افتخارؔ عارف
     
  17. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف


    اُمید و وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
    ذرا سی دیر کو دُنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
    بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں
    اب اپنے حجرۂ جاں میں سِمٹ کے دیکھتے ہیں
    تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
    سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
    پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سرِدست
    بساطِ عافیتِ جاں اُلٹ کے دیکھتے ہیں
    وہی ہے خواب جسے مِل کے سب نے دیکھا تھا
    اب اپنے اپنے قبیلوں میں بَٹ کے دیکھتے ہیں
    سُنا یہ ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمتِ حرف
    سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہیں

    افتخارؔ عارف
     
  18. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    تِری شوریدہ مزاجی کے سبب، تیرے نہیں
    اے مِرے شہر! تِرے لوگ بھی اب تیرے نہیں
    میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
    یہ جو تیرے نظر آتے ہیں، یہ سب تیرے نہیں
    یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تِھرکتے ہوئے لوگ
    کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں، کب تیرے نہیں
    تیرا احسان کہ، جانے گئے، پہچانے گئے
    اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں
    دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
    وہ تِرے خانماں برباد بھی، اب تیرے نہیں
    اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش
    میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب، تیرے نہیں
    ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری، ورنہ
    بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب، تیرے نہیں

    افتخارؔ عارف
     
  19. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی
    صبر پر دادِ شجاعت نہیں ملنے والی

    وقت معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
    ڈوبا جاتا ہے کہ مہلت نہیں ملنے والی

    زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
    اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی

    راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
    اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی

    ہوس لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
    اب کسی حرف کو حُرمت نہیں ملنے والی

    گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
    ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی

    زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
    اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی

    افتخار عارف
     
  20. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    جواب: افتخار عارف

    ہوس لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
    اب کسی حرف کو حُرمت نہیں ملنے والی

    بہت خوب!!
     
  21. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: افتخار عارف

    حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
    ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
    اس بار بھی دُنیا نے ہدف ہم کو بنایا
    اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
    بیچ آئے سرِ قریۂ زر، جوہرِ پندار
    جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
    مٹّی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
    وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
    لو دیتی ہوئی رات سخن کرتا ہوا دن
    سب اس کیلئے جس سے مخاطب بھی نہیں تھے

    افتخارؔ عارف
     

اس صفحے کو مشتہر کریں