1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افاعیل تفاعیل 1

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ًمحمد سعید سعدی, ‏16 ستمبر 2018۔

  1. ًمحمد سعید سعدی
    آف لائن

    ًمحمد سعید سعدی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جون 2016
    پیغامات:
    252
    موصول پسندیدگیاں:
    245
    ملک کا جھنڈا:
    1- عرض و معروض
    جو اردو جانتا ہے وہ شعری ذوق بھی رکھتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ذوق کسی میں کم ہوتا ہے کسی میں زیادہ۔ اور کسی میں اتنا زیادہ کہ وہ شاعر بن جاتا ہے۔ اردو جیسی بہت کم زبانیں ایسی ہونگی جن کا بولنے والا، چاہے ان پڑھ ہی کیوں نہ ہویا اردو خط سے نابلدہی کیوں نہ ہو، اپنی گفتار میں ایک دو شعر نہ لے آتا ہو۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اصل شعر کو کسی قدر تبدیلی کے ساتھ حسبِ مطلب پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً غالب نے تو کہا تھا ؎
    عاشقوں کی کمی نہیں غالبؔ/ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ مگرکتنے ہی لوگ اپنی بات کو وزن دار بنا نے کے لئے اس شعر کو نہ صرف سنداً پیش کرتے ہیں بلکہ عاشقوں کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال کر لیتے ہیں جس سے ان کا ما فی الضمیر بخوبی ادا ہو سکے، جیسے احمقوں، پاگلوں، بے سُروں، شاعروں وغیرہ وغیرہ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو میں نے بیان کردی یعنی ذوقِ شعری جو فطری طور پراہلِ اردو میں جاں گزیں ہوتا ہے۔ دوسری اہم وجہ ہے وزن۔ جو شعر موزوں ہوتا ہے یعنی جس میں وزن ہوتا ہے، وہ حافظے میں آسانی سے سماجاتا ہے۔ ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد مل جائیں گے جنھیں ان گنت اشعار یاد ہیں حالانکہ وہ خود شعر کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیوں نہیں؟ یہ الگ موضوعِ بحث ہے۔ بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ میرے ایک بزرگ شناسا تھے جو اردو کے پروفیسر تھے، شاعری کے بہت اچھے نقاد بھی اور سینکڑوں اشعار انھیں از بر تھے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ خود شاعری کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے جواب دیا کہ شاعری کے لئے تخلیقی وجدان کا ہونا ضروری ہے۔ مجھ میں یہ خصوصیت نہیں ہے۔ میں کسی بھی شعر کے محاسن اور معائب گِنا سکتا ہوں مگر ایک شعر بھی موزوں نہیں کرسکتا۔ یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا بات وزن کی ہو رہی ہے۔
    موزوں شعر کہنے کے لئے وزن کی تکنیک یعنی علم العروض جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے کئی شعرا کو میں جانتا ہوں جو علمِ عروض سے نابلد ہونے کے باوجود عموماً موزوں شعر کہتے ہیں اور اس پر خود اپنی پیٹھ تھپتھپا تے بھی ہیں۔ لیکن بعض اوقات کمی بیشی بھی نمایاں طور پر نظر آ جاتی ہے جو شاعر کی عروض سے لا علمی یا کم علمی کی غمازی کرجاتی ہے۔ آئے دن اخبارات و رسائل میں ایسا کلام پڑھنے کو ملتا ہے جن میں عروض کی غلطیاں صاف نظر آتی ہیں، کبھی غلط املاء کی وجہ سے، کبھی بحر سے ناواقفیت کی بنا پر۔ پھر بھی مدیر صاحبان انھیں نظر انداز کردیتے ہیں شاید یہ سوچ کر کہ اصلاح کرنا اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل نہیں ہے۔
    جس طرح موزوں شعر کہنے کے لئے علمِ عروض سے واقفیت ضروری نہیں ہوتی بالکل اسی طرح موزوں شعر سننے کے لئے بھی وزن کا علم لازمی نہیں ہوتا۔ کان خود ہی وزن کے زیر و بم سے آشنا ہوتے ہیں۔ جہاں ایک جز کی بھی کمی بیشی ہوئی وہاں مصرع کھٹکتا ہے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں، گویا چلتے چلتے ٹھوکر لگی ہو۔ سامع سے اگر کوئی پوچھے کہ کیا ہوا تو شاید اُس سے تفصیل بیان نہ ہوسکے مگر مصرع غیر موزوں ہے اس میں تو اُسے شک نہیں ہوتا۔ سامع کی بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے لیکن جس نے شعر گوئی کو اپنا شعار بنایا ہو اُس کے لئے بہتر ہے کہ وزن کی چند بنیادی باتوں کو لازماً ذہن نشین کر لے تاکہ اُس کے شعر میں اگرکہیں روانی کھٹک رہی ہے تو دوسروں سے پہلے خود جان لے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے اور اُس کی درستگی کر لے۔ ایک فنکار اگر فن کا اتنا تقاضہ بھی پورا نہ کرسکے تو اُسے فنکار کیوں کر مانیں؟ اردو کے نامور اور معتبر شعرا میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو عروض سےبالکل ہی ناواقف ہوگا۔
    اکثر لوگ علمِ عروض کا نام سنتے ہی کنی کاٹ جاتے ہیں۔ یا تو اس لئے کہ اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں یا اس لئے کہ یہ الجبرا کی طرح ثقل اور مشکل ہے۔ اگر کوئی سنجیدگی سے سیکھنے بیٹھے بھی تو اس کی عجیب و غریب اصطلاحات اور کلیے اس کے ذہن کو زچ کردیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ مضمون کی ثقلیت کے ساتھ ساتھ ہماری عجلت پسندی اور آسان طلبی ہے۔ ظاہر ہے کہ عروض کوئی افسانہ یا ناول تو ہے نہیں کہ فر فر پڑھتے جاؤ، سمجھ میں بھی آجائیگا اور چند کردار اور واقعات ذہن نشین بھی ہوجائینگے۔
    جب کسی علم کو سیکھنے کی نیت ہو تو چند باتوں کو واضح طور پر دماغ میں رکھنا ہوتا ہے۔ اول تو ہے غرض و غایت کہ اس علم کی مجھے کیا ضرورت ہے۔ دوسرے، اگر ضرورت ہے تو کس حد تک۔ جب یہ طے ہوجائے کہ اس علم کو کس لئے اور کسقدر حاصل کرنا ہے تو پھر ضروت ہوتی ہے سنجیدگی، یکسوئی اور استقلال کی۔ دیگر علوم کی طرح علمِ عروض بھی اکتسابی ہے یعنی محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ شاعری وجدانی ہو سکتی ہے، عروض نہیں۔ سچ پوچھئے تو عروض، ریاضی یا سائنس کی طرح، سکول/کالج میں سبقاً سبقاً سیکھنے کی چیز ہے۔ بصورتِ دیگر، کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا ہوگا۔ البتہ اگر کوئی اس علم کو کام چلاؤ کی حد تک حاصل کرنا چاہتا ہے تو کسی بھی عروض کی کتاب کا سرسری مطالعہ کافی ہے۔ بازار میں بیسیوں کتابیں دستیاب ہیں۔ کوئی بھی کتاب جس کی ضخامت کو چٹکی میں پکڑا جاسکے اس مقصد کے لئے بہت ہے۔
    میرے اس رسالے کا مقصد بعینیہ یہی ہے۔ کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہوآسان طریقہ اپناؤں تاکہ قاری کا ذہن بوجھل نہ ہو جائے۔ عروض کی کتاب پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں۔ دوسرا باب شروع کرنے سے پہلے گذشتہ باب کا اعادہ کرلیں۔ ضرورت ہو توایک ہی باب بار بار پڑھیں۔ جو قاری صرف مبادیات سے واقف ہونا چاہے وہ ابتدا کے چند ابواب پڑھ لے اور کتاب رکھ دے۔ وہی آگے بڑھے جس کا تجسس اسے آگے بڑھنے پر اکسائے۔

    باقی آئندہ ان شاء اللہ.
    (عبدالسلام)
     
    آصف احمد بھٹی اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ محترم
     
    ًمحمد سعید سعدی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں