1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اصل کہانی کیا یہی ہے؟

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏25 اپریل 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    کامیاب میثاق جمہوریت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالحق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
    ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب برصغیر پاک و ہند کو اپنی مملکت کے لئے بہترین ٹھکانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس نے اس علاقے کی عوام کو وہ رنگین خواب دکھائے کہ جن کی دیوانی ہو کر ہندوستانی قوم بمع حکمرانوں کے ان فرنگی مہمانوں کے آگے کورنش بجا لانے پر تیار ہو گئی۔ گوری چمڑی والوں نے شاید اسی وقت جان لیا کہ ٹھیکریوں کے عادی یہ لوگ ، پیسے کی چمک دمک پر قربان ہونے کے بھی عادی ہیں۔ لیکن، اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک بہت بڑی ریاست پر قبضہ محض پیسے کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر اس وقت کہ جب اس ریاست میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں موجود ہوں۔ اسکے لئے انہیں نہایت ہی آسان راہ نظر آئی اور وہ یہ تھی کہ ہزاروں میل پھیلی اس سلطنت میں جہاں مذاہب ایک سے زیادہ موجود تھے، وہیں ان مذاہب کے درمیان رہن سہن اور بود و باش کا فرق بھی موجود تھا، تاہم ، اس تمام تفریق کے با وجود، انکے درمیان کوئی تنازعہ اس قدر نہیں تھا کہ جس کی بنا پر یہ تمام لوگ باہم دست و گریباں ہو جاتے۔لہٰذا ، انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا وہ فارمولہ ایجاد کیا کہ جس کی بنیاد پر ان کے لئے اس سلطنت پر حکومت کرنے کے خوابوں کو تعبیر ملنا نہایت آسان ہوتا گیا۔اپنی جڑیں ہندوستان میں مضبوط کرنے کے بعد بھی انہوں نے نا صرف مختلف مذاہب کے درمیان دراڑوں کو وسیع کرنے کا عمل جاری رکھا بلکہ خود مذاہب کے اندر موجود مختلف مسالک کو ایک دوسرے پر اکساتے ہوئے، انہیں کمزور کرنے کی سازش کرتے رہے۔ انکی اس سازش کا اثر، پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل تو اس قدر سامنے نہ آیا، تاہم پاکستان بن جانے کے بعد، وہی مسلمان جو تقسیم سے قبل ایک مُکے کی مانند ہندو اور انگریز دو بڑی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے تھے، تقسیم کے کچھ ہی عرصے کے بعد، یہ بند مُکا کھلتا گیا اور اس مُکے کی ہر ایک انگلی، ایک دوسرے کیجانب ہی اٹھتی، طعن و تشنیع کرتی نظر آئی۔ چنانچہ ۔۔ارض وطن، مسالک کی باہمی تو تو میں میں کا مربہ بنتا گیا۔47ء کے زخم ، نہ تو ہندو بھول پائے اور نا ہی گوری چمڑی والوں کی یادیں مندمل ہو سکیں، اوپر سے وطن عزیز ، اور خاص کر اسکے باسیوں نے ان تمام اندیشوں کو بھی حرف غلط قرار دے دیا کہ جو اسکی پیدائش کے وقت ، اسکی تہی دامنی کی وجہ سے ، اسکے وجود کو لاحق بھی سمجھے جا رہے تھے اور جنکی امیدیں مندرجہ بالا دونوں عناصر کو بھی یقین کی حد تک تھیں۔جلتی پر تیل کا کام اس وقت ہوا کہ جب وجود کے لحاظ سے یقین و بے یقینی کا تاثر دیتا یہ ملک، ایک ایٹمی طاقت بن گیا۔اب ان قوتوں کو اپنے تقسیم کرنے کے فارمولے کو بھی پھر سے نئی جہت دینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے مسالک کے ساتھ ساتھ لسانیت، قومیت، صوبائیت اور یہاں تک کہ رنگ و روپ کی تفریق ان لوگوں میں کرڈالی کہ جو چند ہی دہائیاں قبل ایک قوم کہلائے جاتے تھے۔ مگر۔۔اس کے لئے ان قوتوں کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی، ان کا صرف ایک اشارہ، چند سکوں کی چمک ہی کافی ہوئی اور ہیروں سے لدا پدا ملک، ٹھیکریوں تک کو محتاج بنتا گیا۔ ستم اس پر یہ کہ ان شاروں پر ناچتے، سکوں کی چمک کو قومی غیرت پر ترجیح دیتے، کوئی اور نہیں، اپنے اپنے مسلک، اپنی اپنی زبان، اپنی اپنی اپنی ذات، اپنے اپنے رنگ، اپنی اپنی نسل اور اپنے اپنے صوبوں کے سالار کہلائے جاتے تھے، اورکہلائے جاتے ہیں۔بس ایک نعرہ۔۔۔ اور اس کے بعد تفریق در تفریق ہوتی یہ بھیڑ، ایک پرچم کو چھوڑ کر اپنے اپنے کئی کئی رنگوں کے جھنڈوں اٹھائے، زندہ باد اور مردہ باد کے چیختے چہاڑتے ہجوم میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔تقسیم کرنے کے بعد حکومت کرنے کا ارادہ، فرنگیوں اور ہندئوں نے اس شدت سے ظاہر نہ کیا کہ جو اسی ملک کے سرکردہ لیڈروں نے اپنے پلو سے باند ھ لیا کہ جو تقسیم کرنے کی ہر سازش کو ناکام بناتے ہوئے ، ملت واحدہ کے طور پر ایک آزاد خود مختار وطن حاصل کرنے والی قوم کا ملک کہلایا جاتا تھا۔کہیں مذہب و مسلک کے نام پر لوگوں کو تقسیم کر کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی تو کہیں لسانیت کو تخت کا موجب بنا لیا گیا۔ کہیں صوبائیت کا پرچار کرتے ہوئے کرسیوں پر اپنی گرفت مضبوط کی گئی تو کہیں رنگ و نسل کو بنیاد بناتے ہوئے فتح کو یقینی بنایا گیا۔اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ گزشتہ ایک مضمون میں میں نے عرض کیا تھا کہ سرائیکی صوبے کا شوشہ چھوڑتے ہوئے نون لیگ کے اقتدار کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو آج اس کی تشریح کئے دیتے ہیں۔صرف نون لیگ کی ہی نہیں، حکومت میں شامل(پنجاب حکومت سمیت) آئندہ انتخابات میں تمام جماعتوں کی پوزیشن مستحکم کرنے کا بیڑہ، اسی سرائیکی صوبے کے شوشے نے ہی اٹھانا ہے۔ اور اب تک اسے کامیابی بھی ملتی نظر آرہی ہے۔ صوبہ تو خیر ہر لحاظ سے ناممکنات میں دکھائی دیتا ہے البتہ منصوبہ کچھ یوں ہے کہ جنوبی پنجاب کو لسانیت پر اکسایا جائے، اکسانے میں پیپلز پارٹی کا کردار ہراول دستے کارہا، چنانچہ بالائی پنجاب او ر جنوبی پنجاب میں تقسیم ڈال دی گئی۔ اب، ماضی کی تصویر کا نظارہ کیجئے تو نون لیگ کی پوزیشن ، بالائی پنجاب میں ہی مستحکم رہی ہے، جبکہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ اب جب یہ تقسیم ڈالی گئی تو سرائیکی علاقوں نے پیپلز پارٹی کو اپنا غم خوار مانتے ہوئے ترنگے جھنڈے کو ہی اپنا مسیحا سمجھا ، جبکہ بالائی پنجاب میں نون لیگ نے پنجاب کی تقسیم کا واویلہ کرتے ہوئے ، ان ٹھیٹ پنجابیوں کی ہمدردیوں کو یقینی بنانا شروع کر دیا کہ جو پہلے سے نون لیگ کے ہی ووٹر بنتے چلے آ رہے ہیں۔اسی قسم کا گیم پلان خیبر پختونخواہ کے لئے بنایا گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو اس شوشہ نما صوبے میں شامل نہ کیا جائے، تا کہ یہاں سرائیکی اور پشتون کے درمیان تقسیم گہری ہو اور اس تقسیم کی بنیاد پر وزیرستان سے آنے والے آئی ڈی پیز، جنکے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ان کی اکثریت نے اپنے ووٹ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں رجسٹرڈ کروا لئے ہیں، انکو اپنی مرضی کی جماعتوں، جو کہ ظاہر ہے پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ہی ہیں، انہی تک محدود کر دیا جائے، جبکہ باقی صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کو سرائیکی صوبے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پشتو سے محبت جتانے کا موقع فراہم کر دیا جائے۔ لہٰذا۔۔اگلی مرتبہ پھر وہی اتحاد برقرار رہے کہ جسکی بنیاد پر میثاق جمہوریت بنے اور جسکی بنیاد پر گزشتہ انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت اقتدار کا حصہ بنی، البتہ اگلی بار انتخابات جیتنے کے بعد انیس بیس کے فرق سے، اقتدار باری کی روائت پر نون لیگ کو منتقل کرتے ہوئے، پیپلز پارٹی حزب اختلاف کا کردار اسی طرح دوستانہ انداز سے نبھائے کہ جس طرح حالیہ دور میں نون لیگ نے بخیر و خوبی نبھایا۔ مولانا فضل الرحمان، اے این پی ، ایم کیو ایم،ق لیگ اور دیگر جماعتوں کا کردار وہی رہے گا کہ جو ان جماعتوں نے حالیہ دور میں ادا کیا، تاہم اب کی بار انکی ظاہری حمایت نون لیگ کے ساتھ ہو گی، جبکہ ''کھانے '' کی ٹیبل پر حزب اختلاف اور حزب اقتدار ،میثاق جمہوریت ، مفاہمتی پالیسی اور سیاسی رواداری کے مزے ''لوٹیں '' گے۔ اس منصوبے کے اولین اقدامات سامنے آ چکے ہیں۔ ذرا مولانا نواز شریف اتحاد، ایم کیو ایم کی عین وقت پر حکومت سے علیحدگی، پیپلز پارٹی کی جانب سے ، اے این پی سے بغیر کسی ظاہری اختلاف کے آئندہ اتحاد نہ کرنے کے اعلانات، اور خاص طورپیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ارکان کی جانب سے نون لیگ میں لگنے والی ذقندوں کا جائزہ لیجئے، اور بتائیے، میثاق جمہوریت کامیاب ہو ا یا نہیں؟، جمہور اور جمہوریت کا کیا بنا اور کیا بنے گا، پچھلے پانچ سالوں میں اگلے پانچ سال جمع کر دیجئے، نتیجہ خود بخود نکل آئے گا۔
     
    پاکستانی55 اور نذر حافی .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں