1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اشارہ .... اقتدار جاوید

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اشارہ .... اقتدار جاوید

    سینیٹ کی سینتیس نشستوں کا الیکشن ہو گیا، جو پی ڈی ایم کو بخار چڑھا ہوا تھا‘ اتر گیا۔ حکمران جماعت جس ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی وہ کیفیت مزید بڑھ گئی اور بات اعتماد کے ووٹ تک آ گئی مگر الیکشن کا مرحلہ بخوبی انجام کو پہنچا۔
    انہی دنوں الیکشن کمیشن میں بھی جان پڑی۔77ء کے الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر سجاد احمد جان تھے انہیں ''جسٹس سجاد احمد بے جان‘‘ کہا جاتا تھا۔ نصف صدی تک اس کمیشن نے بے جان ہونے کی روایت برقرار رکھی۔ بالآخر اس تنِ مردہ میں بھی جان پڑی۔ عین ممکن ہے یہ وقتی اور ایک پل کی انگڑائی ہو اور مردہ پھر پٹڑے پر گر جائے۔ سب کچھ کسی کے اشارۂ ابرو پر ہوا یا نہیں‘ راز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔چیف الیکشن کمشنر نے این اے 75 میں ایسی پھرتی دکھائی کہ سب دانتوں تلے انگلیاں دابے بیٹھے ہیں۔ ناامید، مایوس اور بددل لوگ کہہ رہے ہیں ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔
    پنجابی اور پنجاب‘ پہلے ہی چودھریوں کی پرہیوں میں اپنی اپنی بات منوا کر اپنا اپنا حصہ وصول کر چکے تھے۔ اسلام آباد کی دو سیٹوں کے لیے معرکہ تھا۔کل 341 ووٹرز تھے۔الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ بھی لگوایا۔ چلو کسی نے تو ان کی کوئی ہدایت جاری کی ورنہ نہ انہیں کوئی ہدایت دے سکتا ہے نہ وہ سننے کے روادار ہیں۔ بلوچستان اور کے پی سے بارہ بارہ سینیٹرز منتخب ہوئے۔ دونوں طرف سے خوب خوب دعوے ہوئے۔ عبدالحفیظ شیخ کو 180 ووٹ ملیں گے۔گیلانی صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم جیت چکے ہیں۔ دونوں امیدوار پولنگ سٹیشن پر موجود تھے۔آپس میں گفتگو بھی کرتے رہے، اپوزیشن کو 155 ووٹ ملنے کی پیش گوئی ہوتی رہی۔ اسلام آباد کی دو نشستیں تھیں اور خفیہ راے شماری تھی۔سندھ اسمبلی نے گیارہ سینیٹر چننا تھے۔ ووٹ ڈالے جا رہے تھے تو شکر دوپہرے علی حیدر گیلانی کی پہلی وڈیو کا جائزہ ابھی الیکشن کمیشن لے ہی رہا تھا کہ ایک اور وڈیو بھی سامنے آ گئی۔ پہلی میں وہ ووٹ ضائع کرنے کے فلسفے کی عملی وضاحت کر رہے تھے اور دوسری میں چمک تھی اور پشتو زبان۔سیدھی سادی دو نمبری۔ خواتین میں فوزیہ ارشد تحریک انصاف اور فرزانہ کوثر کا مقابلہ تھا، گویا ایک سیٹ نون لیگ اور ایک پیپلز پارٹی‘ یہ آپس میں طے ہوا۔اس سارے رولے گولے میں ان دونوں خواتین کی کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ صفحہ اول کی سرخی گیلانی صاحب اور شیخ صاحب کے ٹاکرے کی تھی اور ان دونوں کی خبر گویا ''اندر والے صفحے پر‘‘ تھی۔
    یہ سچ ہے وہی میدانِ جنگ‘ وہی چہرے وہی سیاست۔ دس سال قبل ہونے والے نااہل دوبارہ کس سج دھج سے میدان میں اترے کہ نہ عرقِ ندامت نہ کیے کی پروا۔ یہ سیاست ہے‘ سیاست کا یہی اصول ہے کہ یہاں کوئی اصول نہیں۔ایسے لگتا تھا کہ شاید دوبارہ اس کوچۂ سیاست کا رخ ہی نہیں کریں گے مگر وہ زود پشیمان تو پشیمان بھی نہیں۔وہی دائو، وہی پیچ اور وہی میدان‘ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ اسے ترقیِ معکوس کہتے ہیں۔جو بیس سال پہلے کرتے تھے‘ اب بھی وہی کرتے ہیں۔ سارے دودھ سے دھلے ہوئے سارے پاک پوتّر۔
    یہ ایک کانٹے کا مقابلہ تھا۔ نہیں معلوم کانٹے دار کی اصطلاح کہاں سے متعارف ہوئی۔ اصل میں تو یہ ''کانٹے‘‘ کا مقابلہ تھا۔کانٹے کی زیورات میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ سنیار کی دکان سے اصطلاح نکلی۔ اب سنیار کے کام اور سونے کی قیمت سے کون واقف نہیں۔ایک ایک رتی، ایک ایک چاول اور ایک ایک کانٹے کی اہمیت ہوتی ہے۔ اب یہ وہی مقابلہ تھا۔یہی ''اصل تے وڈا یدھ‘‘ تھا۔
    ایک طرف ساری سیاسی قوتیں جنہیں اپنے تجربے اور ماضی پر کوئی افسوس تک نہ تھا‘ اکٹھی ہو گئی تھیں بلکہ تین ارکان کی خوشی میں سندھ اسمبلی کے ارکان کے لیے کباب اور گاجر حلوے کا اہتمام کیا گیا تھااور اس پر مستزاد چاٹی کی لسی۔کریم گبول کے ساتھ پیپلز پارٹی کے اراکین پارٹی نے مشہور سٹائل بھی اپنایا اور کہا: ''پاووری‘‘ ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس بار بھی وفاق اور سندھ میں زرداری فارمولا استعمال کیا ۔تین صوبائی اور چار قومی اسمبلی کے اراکین کو تحریک انصاف سے توڑ کر سنجرانی کے الیکشن کی یاد تازہ کر دی اور بابائے مفاہمت کا بھی اور 'جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کا بھی پرچم سر بلند رہا۔ ان کی صحت کے بارے میں افواہیں کئی ماہ سے چل رہی تھیں کہ کبھی وہ لاٹھی کے سہارے کے چلتے دکھائی دیتے تھے تو کبھی پولیس والے کو لاٹھی اٹھانے کا اشارہ کرتے تھے مگر ووٹ ڈالتے وقت وہ ہشاش بشاش تھے اور ان کی ہنسی ماسک کے نیچے سے بھی نہیں چھپ رہی تھی۔وہ ببانگ دہل کہتے رہے حکومت تو جا چکی۔
    سندھ میں پی ٹی آئی اتحاد کو آٹھ ووٹ کم پڑے۔صحیح نقب لگائی گئی اور کس غضب کا نشانہ لیا ماہر شکاری نے۔ سندھ میں خواتین کی نشست پر پیپلز پارٹی کو 106ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ان کے ممبران کی تعداد 99ہے گویا یہاں چھکا نہیں ''ستا‘‘ مارا۔ وفاق کے نتیجے پر البتہ کسی کو حیرانی نہیں ہوئی کہ نو ووٹ حکومتی اتحاد کے گیلانی صاحب کو پڑے۔ یوں وہ 169 اور شیخ حفیظ 164 ووٹ لے سکے۔یہ نو ووٹ حکومتی اتحاد نہیں پی ٹی آئی کے تھے۔ہم خود کی ایم این ایز کو جانتے ہیں جن کی اپنے ہی ضلع میں ضلعی انتظامیہ بات سننا تو کجا ملنے کی بھی روادار نہیں۔ بہر حال فوزیہ ارشد 174 ووٹ لے کر پی ٹی آئی کا وقار بچا گئیں مگر جو کچھ موجودہ حکومت کا کیا دھرا تھا‘ سب سامنے آ گیا۔لوگوں کو پی ٹی آئی کی شکست پر کوئی افسوس نہیں ہوا۔ بے جا بیانات اور ''مار گیا، لوٹ کر لے گیا، چور‘ ڈاکو‘‘ کی گردان سے ان کو کیا لینا دینا۔ اپنے جن لوگوں کا کسی سیکنڈل میں نام آیا‘ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینا، عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں غرقاب کرنے کے بعد بھی ''نہیں چھوڑوں گا‘‘کا نعرہ کیا وقعت رکھتا ہے۔ساری امیدوں اور توقعات کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد عوام کے پاس یہی احساس باقی بچا تھا کہ سینیٹ میں حکومت میں شکست ہو گئی تو ہمیں کیا؟ اگر حفیظ شیخ جیت بھی جائیں تواس حکومت نے ہمارے لیے کیا کرنا ہے؟ پہلے اڑھائی سالوں میں اس نے کیا کیا ہے ؟ پینتیس سال قبل ہونے والے غیر جماعتی الیکشن میں ایک اداکار بھی قسمت آزمائی کے لے نکلا۔ کسی زمانے میں پنجابی فلمی کا ہیرو بھی رہ چکا تھا۔ ووٹ اسے کیا ملنے تھے‘ ضمانت بھی ضبط ہو گئی تو کسی منچلے صحافی نے لکھا: He got well deserved defeat۔ اب اس سے زیادہ اس شکست پر کیا تبصرہ کریں‘ وہی پینتیس سالہ پرانا جملہ حفیظ شیخ کے لیے کہنے کو دل کرتا ہے۔
    اس سارے ہنگامے سے پرے نظر ثانی کیس میں وکیل کے روسٹرم پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے دلائل دے رہے تھے۔ اپنے کیس میں خود ہی اپنے وکیل کی طرف سے دلائل دے رہے تھے۔ نکتہ ان کا درست تھا کہ وہ مدعی بھی ہیں۔ جسٹس منظور نے کہا جو آپ آج روسٹرم پر کہہ رہے ہیں، کل جج کی سیٹ پر ایسی باتیں سننا پڑیں گی۔یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک نادر کیس اور نادر مثال ہے۔ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ جج کو بھی کسی دن روسٹرم پر آنا پڑ سکتا ہے۔
    جناب وزیر اعظم صاحب ہتھ چھٹوں کو نتھ ڈالیں، غریب کا خیال کریں، اپنی گورننس کی طرف متوجہ ہوں اور معیشت کی طرف دھیان دیں۔ مسلسل خط ِ غربت کے نیچے جانے والوں کے لیے کچھ کر کے دکھائیے۔
    ایک شاعر تھے عالم تاب تشنہ، بزنس مین اور ایک گروپ آف کمپنی کے چیئر مین۔بنیادی طور پر میرٹھ سے تعلق رکھتے تھے۔ دو مجموعوں کے خالق بھی۔ کیا خوبصورت شاعری کرتے تھے۔کراچی کے خراب حالات کے دنوں اور آئے روز ہنگاموں سے پریشان ہو کر کہہ اٹھے کہ
    یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
    کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
    آپ کہتے تھے کہ تبدیلی آ نہیں رہی‘ آ چکی ہے۔ جناب! پاووری ہو نہیں رہی‘ پاووری ہو چکی ہے۔ سندھ میں اور وفاق میں‘ چاٹی کی لسی نے کام دکھا دیا ہے، اب پنجاب پر کس کس کی نظریں ہیں، سب کو معلوم ہے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں