اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں کيوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائيں تو بھي ہيرے سے بن گيا تھا پتھر ہم بھي جانے کيا ہو جائيں تو کہ يکتا بے شمار ہوا ہم بھي ٹوٹيں تو جا بجا ہوجائيں ہم بھي مجبوريوں کا عذع کريں پھر کہيں اور مبتلا ہو جائيں ہم اگر منزليں نہ بن پائے منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں دير سے سوچ ميں ہيں پروانے راکھ ہو جائيں يا ہوا ہوجائيں اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے ايسے لپٹيں کہ قبا ہو جائيں بندگي ہم نے چھوڑ دي فراز کيا کريں جب لوگ خدا ہوجائيں
عقرب صاحب آپ نے شامی صاحب کی تقلید شروع کر دی ہے۔ بس تعریف پہ تعریف کیے جاتے ہیں۔ خود کچھ نہیں سناتے۔ خود بھی کچھ سنائیں نا
نعیم صاحب کے طعنے کے جواب میں ایک غزل میری پسند کی حاضر ہے۔ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے جو ہم پہ گذری سوگذری مگر شبِ ہجراں ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کہیں سے بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
میں اس وقت ایک غزل سن رہی ہوں۔ آج جانے کی ضد نہ کرو یونہی پہلو میں بیٹھے رہو۔ ہائے مر جائیں گے ہم تو لٹ جائیں گے ایسی باتیں کیا نہ کرو آج جانے کی ضد نہ کرو تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمھیں جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم تم کو اپنی قسم جانِ جاں بات اتنی میری مان لو آج جانے کی ضد نہ کرو یونہی پہلو میں بیٹھے رہو وقت کی قید میں زندگی ہے مگر چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں ان کو کھو کر میری جانِ جاں عمر بھر نہ ترستے رہو آج جانے کی ضد نہ کرو ہائے مر جائیں گے ہم تو مٹ جائیں گے ایسی باتیں کیا نہ کرو کتنا معصوم رنگین ہے یہ سماں حسن اور عشق کی آج معراج ہے کل کی کس کو خبر جانِ جاں روک لو آج کی رات کو آج جانے کی ضد نہ کرو یونہی پہلو میں بیٹھے رہو آج جانے کی ضد نہ کرو
بہت خوب۔ بہت پیاری غزلیں ہیں۔ ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا