1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اس دل کے راستے سے گزر تو سہی کبھی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اس دل کے راستے سے گزر تو سہی کبھی
    کوئی سفر اِدھر کا بھی کر تو سہی کبھی
    بے شک تو اپنی گرمیٔ رفتار کم نہ کر
    رُک تو سہی کہیں پہ‘ ٹھہر تو سہی کبھی
    اس اپنے آسماں سے اُتر تو سہی ذرا
    اور پائوں میری خاک پہ دھر تو سہی کبھی
    خالص ہوں اور تیری ملاوٹ بھی چاہیے
    خالی ہوں‘ اپنے آپ سے بھر تو سہی کبھی
    دھندلاہٹیں ہیں خوابِ تماشا کی ہر طرف
    تُو نقشِ نازنیں ہے‘ اُبھر تو سہی کبھی
    اندازہ کوئی حُسن کی دہشت کا ہو تجھے
    اک بار اپنے آپ سے ڈر تو سہی کبھی
    کتنی یہ سرد مہری ہے، اس کا حساب کر
    خود اس میں تھوڑی دیر ٹھٹھر تو سہی کبھی
    تجھ کو بھی ہو خبر کہ اندھیرا ہے کس قدر
    اے روشنی کی دھار بکھر تو سہی کبھی
    ایک اور زندگی کا مزہ اس میں ہے‘ ظفرؔ
    اُس پر نئی امنگ سے مر تو سہی کبھی
    ظفر اقبال​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں