1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

'منقبتِ اہل بیت و صحابہ رض و اولیائے کرام' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏19 مارچ 2010۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
    فقیروں کے حاجت روا غوث اعظم

    غلاموں کو خطرہ نہیں بحرِ غم کا
    کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم

    قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا
    کہا ہم نے جس وقت "یا غوث اعظم "

    بھنور میں پھنسا ہے سفینہ ہمارا
    بچا غوث اعظم ، بچا غوث اعظم

    کہے کیا کسی کو حسن اپنے دل کی
    سنے کون تیرے سوا غوث اعظم



    مولانا حسن رضا خان ۔​
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    سبحان اللہ

    بلا شک درست فرمایاہے
     
  3. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    اولیاِء اللہ کی شان بہت اعلی ہوتی ہے ۔ اور سرکار غوث پاک تو پھر سب اولیا کے بادشاہ ہیں۔
     
  4. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون ۔ (القرآن)

    بےشک اولیاء اللہ ہر قسم کے خوف و غم سے بےنیاز ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے اولیاء کا ادب و احترام اور ان کے در سے نسبت نیاز مندی عطا فرمائے۔ آمین
     
  5. عبداللہ حیدر
    آف لائن

    عبداللہ حیدر ممبر

    شمولیت:
    ‏26 فروری 2009
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)


    أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل 62
    بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو
    استغفر اللہ

    وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ (لقمان32
    اور جب سمندر کی موج (پہاڑوں، بادلوں یا) سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہے تو وہ (کفّار و مشرکین) اﷲ کو اسی کے لئے اطاعت کو خالص رکھتے ہوئے پکارنے لگتے ہیں، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی کی طرف لے جاتا ہے تو ان میں سے چند ہی اعتدال کی راہ (یعنی راہِ ہدایت) پر چلنے والے ہوتے ہیں، ہماری آیتوں کا کوئی انکار نہیں کرتا سوائے ہر بڑے عہد شکن اور بڑے ناشکرگزار کے

    استغفراللہ، اس قدر شرک۔ اللہ ہمارے حال پر‌رحم کر۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    السلام علیکم ۔
    گو یہ لڑی اورسیکشن منقبت کے لیے مخصوص ہے ۔ علمی گفتگو کے لیے الگ سے موجود سیکشن میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ مگر ۔۔
    بھائی عبداللہ حیدر نے اوپر دی گئی منقبت کے جواب میں ایک مخصوص طرز فکر کے حامل فرقے (جو خود کو اہلحدیث یا وہابی کہلوانا پسند نہیں کرتے) کے خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات جو سراسر کافروں مشرکوں اور انکے بتوں سے متعلق ہیں ۔ انہیں اولیاء اللہ (اللہ تعالی کے مقرب و مقبول بندوں) پر چسپاں کرکے خود کو موحد (توحید پرست) اور اولیاءاللہ کو بارگاہ الہیہ سے بطور وسیلہ نیازمندانہ التماس کو " شرک " کا مرتکب ٹھہرا یا ہے۔

    شرک اور وسیلہ کی حقیقت

    سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ مسلمان جب بھی مانگتا ہے وہ اللہ تعالی سے مانگتا ہے۔ غیر اللہ سے کبھی نہیں‌مانگتا ۔ جونہی غیر اللہ سے مانگے گا وہ دائرہ اسلام سے نکل کر مشرک ہوجائے گا۔ اب اللہ تعالی سے مانگنے کی کئی صورتیں خود قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ جنہیں بالعموم وسیلہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ وسیلے کے انکاری ہوکر سیدھا اللہ سے مانگنا ہی ایمان سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ تعالی نے خود اپنی جانب آنے کے لیے مختلف وسیلے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO (المائدہ 35)

    اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo

    نص قرآنی سے وسیلے ثابت ہوجانے پر وسیلہ کا انکار کفر بن جاتا ہے۔
    قرآن حکیم میں انبیائے کرام کا مختلف مواقع پر وسیلہ اختیار کرنے کے واقعات ملتے ہیں جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض اپنی نابینا آنکھوں‌پر لگائی تو انکی بینائی واپس آگئی ۔

    فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَO

    پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo

    اب بینائی دینے یا لوٹانے والا تو اللہ رب العزت ہی ہے لیکن قرآن حکیم میں نبی کی قمیض کو وسیلہ بنا کر بینائی ملنے کا بیان ہے۔

    اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی تبرکات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے وسیلہ اختیار کرنے کی کثیر روایات ہیں۔ وسیلہ بذات خود ایک وسیع موضوع ہے جو کہ طویل وقت کا متقاضی ہے
    فی الحال آئیے دیکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث میں اولیاء اللہ یعنی اللہ تعالی کے دوستوں کی کیا شان ہے۔ اور اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اہل ایمان مدد کرسکتا ہے یا نہیں ؟ یا کیا ایسا کرنا براہ راست شرک ہوجاتا ہے ؟ کیا مقربین الہیہ کے وسیلے سے دعا مانگنا شرک ہے یا اسلام میں‌جائز ہے ؟
    نیز یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کافروں ، مشرکوں سے متعلق آیات کو اہل ایمان، اللہ تعالی کے مقرب بندوں اور اولیاء اللہ پر چسپاں کرنا تاریخ اسلام میں کس طبقے کا وطیرہ رہا ہے اور اس طبقے کی خود حضور نبی اکرم :saw: اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نزدیگ کیا حیثیت ہے ؟

    اللہ تعاليٰ نے خود انبیاء و اولیاء کو ولی اور نصیر (مددگار) بنایا

    1. إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔ المائدة، 5 : 55

    ’’بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔‘‘

    2. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَـئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ. الانفال، 8 : 72

    ’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔‘‘

    3. وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO التوبة، 9 : 71

    ’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

    4. إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO التحريم، 66 : 4

    ’’اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘

    متقین و صالحین کی دوستی و نسبت قیامت کے دن بھی قائم رہے گی۔

    2. الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَO الزخرف، 43 : 67

    ’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (یعنی فرامین نبوی :saw: کے مطابق انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی) ۔‘‘

    مدد مانگنے یا مدد کرنے کا قرآنی تصور ۔

    حضرت عیسی و موسی علیھما السلام کا اللہ کے علاوہ مدد مانگنا۔

    قال من انصاری الی اللہ قال الحواریون نحن انصاراللہ۔ ( سورہ آل عمران آیت 52)

    (حضرت عیسی علیہ السلام نے) کہا ۔ اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو ان کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں ۔۔۔۔

    اس آیت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ میرا مددگار کون ہے۔ حضرت مسیح نے غیراللہ سے مدد طلب کی۔ اللہ تعالی کے مقرب نبی براہ راست اللہ سے مانگنے کی بجائے اپنے دوستوں سے مدد مانگ رہے ہیں اور انکے حواری انہیں مدد کا وعدہ بھی دے رہے ہیں۔

    حضرت موسٰی علیہ السلام کو جب تبلیغ کے لئے فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو عرض کیا۔

    واجعل لی وزیرا من اھلی ھرون اخی اشدد بہ ازری (سورہ طہ آیت 30-29)

    اے اللہ ! میرے بھائی کو نبی بناکر میرا وزیر کردے میری کمر کو ان کی مدد سے مضبوط کر دے۔“

    . قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَO

    97. (حضرت یعقوب کے بیٹے) بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، بیشک ہم ہی خطاکار تھےo

    گناہوں‌کی مغفرت طلب کرنا ۔ براہ راست اللہ تعالی سے ہے اور مغفرت عطا کرنا بھی اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے ۔ لیکن حضرت یعقوب کے بیٹے یہ درخواست اپنے والد کو وسیلہ بنا کر کررہے ہیں ۔ اور حضرت یعقوب نے بھی نہیں‌فرمایا کہ یہ شرک ہے بلکہ آپ نے فرمایا میں جلد ہی تمھارے لیے استغفار کرتا ہوں۔

    رب تعالٰی نے بھی یہ نہ فرمایا کہ تم نے میرے سوا سہارا کیوں لیا میں کیا کافی نہیں ہوں۔ بلکہ ان کی درخواست منظور فرمالی۔ معلوم ہوا کہ بندوں کا سہارا لینا سنت انبیاء ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے توحید پرست حضرات کو انبیائے کرام علیھم السلام سے بھی بڑھ کر توحید کی سمجھ آگئی ہے کہ انبیائے کرام تو اپنے ساتھیوں سے مدد مانگتے رہے اور اللہ تعالی نے اسے شرک نہ کہا بلکہ امت مسلمہ کے لیے سبق کے طور پر قرآن کا حصہ بنا دیا ۔ اور ہمارے توحید پرست حضرات مسلمانوں‌پر شرک کے فتوے لے کر چڑھ دوڑٰیں۔

    انبیائے کرام کو حضور اکرم :saw: کی مدد کرنے کا حکم الہی ۔

    وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا ۔۔۔ O (آل عمران۔ 81)

    اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور تم ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا۔۔۔۔

    مومنین کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم۔

    وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى (المائدہ ۔ 2)

    اے ایمان والو ! اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو

    ثابت ہوا کہ اہل ایمان کا باہم مدد طلب کرنا اور مدد کرنا شرک نہیں‌ ۔ البتہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ضرور ہے اور غیر اللہ وہ ہوتے ہیں جو اللہ کے انکاری، اللہ سے غافل اور اللہ سے دور کردینے والے ہوں

    اولیائے کرام (اللہ کے ولی بندے) کی شان احادیث میں ۔

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ قَالَ : مَنْ عَادَي لِي وَلِيّاً، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيِ بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي، يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّي أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحَْبَبْتُهُ : کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِها، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وإنْ سَأَلَنِي، لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِيْذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيئٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَاءَتَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
    البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : التواضع، 5 / 2384، الرقم : 6137، وابن حبان في الصحيح، 2 / 58، الرقم : 347، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 219، باب (60)، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 269، الرقم : 696.

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
    جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں
    اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو
    میں (اللہ تعالی) اس (بندے) کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
    اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں
    اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔‘‘

    قربان جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایک ایک لفظ کو بغور پڑھ کر اپنے گریبان میں جھانک کر خود سے پوچھیں کہ کہیں ہم دلوں‌میں بغضِ اولیا رکھ کر اللہ تعالی سے براہ راست جنگ تو نہیں کررہے ؟ (معاذ اللہ )
    اللہ تعالی اپنے مقرب و محبوب بندوں کے ہاتھ ، پاؤں، کان ، آنکھیں بن جاتا ہے۔ وہ کیسے بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالی اپنی شان کے لائق بہتر جانتا ہے
    اللہ تعالی اپنے مقربین ولیوں کی کوئی دعا رد نہیں‌فرماتا ۔

    قرآن مجید کی کافروں کے بتوں سے متعلق آیات کا انبیاء و اولیا پر اطلاق کرنا خوارج کا شیوہ ہے ۔

    قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ و تعبیر سے گمراہی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ خوارج و گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا۔ خوارج کے بارے میں منقول ہے :

    کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (خوارج کو) بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539
    2. ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335
    3. ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259


    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے۔

    سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی کافروں مشرکوں کے بتوں والی آیاتِ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں؟
    بالکل قابلِ مذمت ہے،
    خوارج وہ بدبخت ہیں جنہوں نے حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے۔

    خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا :

    کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.

    ’’کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے۔‘‘

    1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066
    2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939
    3. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171


    اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔

    حاصل کلام ۔

    اس موضوع پر مزید بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن ہمیں اسلام کے اصل تصور کو سمجھنے کے لیے قرآن و سنت اور صحابہ کرام اور آئمہ اسلاف کے اقوال و افعال کی روشنی میں کلی طور پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ نہ کہ ایک طرف کی چند آیات یا چند احادیث کو ایک طبقہ پیش کرتا رہے۔ جبکہ دوسری نوعیت کی آیات و احادیث دوسرا طبقہ پیش کرتا رہے ۔ بلکہ اعتدال وانصاف کا راستہ اِختیار کرتے ہوئے ہمیں بظاہر مختلف و متضاد نظر آنے والے قرآنی آیات اور احادیث نبوی :saw: کا باہم ربط و تطبیق تلاش کرنی چاہیے تاکہ اسلام کا کلی اور جامع تصور سامنے آسکے ۔

    لہذا حق یہی ہے کہ کفار و مشرکین کے بتوں اور جھوٹے معبودوں سے متعلق آیات کو انہی تک محدود رکھا جائے اور انکا اطلاق اللہ تعالی کے محبوب انبیائے کرام ، مقرب ولیوں اور متقین پر نہ کیا جائے ۔ کیونکہ اولیاء اللہ تعالی مخلوق کو خالق سے ملانے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی انکی زبان سے نکلی ہوئی دعاؤں کو کبھی رد نہیں‌فرماتا۔ اور اسی طرح قرآن حکیم، نماز ، روزہ ، عبادات، درود و سلام ، صدقہ و خیرات ، نسبت اولیائے کرام یہ سب اللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہوتے ہیں ۔ ان امور پر بے دھڑک شرک کا فتوی لگا دینا ظلم و جہالت ہے۔

    والسلام علیکم
     
  7. عبداللہ حیدر
    آف لائن

    عبداللہ حیدر ممبر

    شمولیت:
    ‏26 فروری 2009
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    السلام علیکم، مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس دھاگے میں صرف شعر ہی پوسٹ کیے جا سکتے ہیں۔ آپ نے جو کاپی پیسٹ کیا ہے اس کا جواب بہت سی جگہوں پر موجود ہے۔ لہذا میں اس پر وقت صرف نہیں‌کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں پر بندھی پٹیاں کھولے اور سمجھنے کی توفیق دے کہ اس نے اپنے سب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ وہ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر، لات، منات اور ہبل جیسے بزرگوں کے بتوں کی پوجا چھڑوا کر امت کو کچھ نئے نام بتا دیں جنہیں حب اولیاء کی‌آڑ میں پوجا جائے۔
    والسلام علیکم
     
  8. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    نعیم چاچو ۔ مفصل و مدلل راہنمائی کا شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا۔

    ایک منقبت میری طرف سے بھی پیش خدمت ہے۔



    بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبد القادر
    سرباطن بھی ظاہر بھی ہے عبد القادر
    مفتی شرع بھی ہے قاضی ملت بھی ہے
    علم اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر
    منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے
    مہر عرفان کا منور بھی ہے عبد القادر
    قطب ابدال بھی ہے محو ارشاد بھی ہے
    مرکز دائرہ سر بھی ہے عبد القادر
    سلک عرفاں کی ضیا ہے یہی در مختار
    فخر اشباہ و نظائر بھی ہے عبد القادر
    اس کے فرمان ہیں سب شارح حکم شارع
    مظہر ناہی و آمر بھی ہے عبد القادر
    ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی ہے مختار بھی ہے
    کار عالم کا مدبّر بھی ہے عبد القادر
    رشک بلبل ہے رضا لالہ صد داغ بھی ہے
    آپ کا واصف و ذاکر بھی ہے عبد القادر



    الشاہ احمد رضا خان :ra:
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم ۔ (منقبت غوث الاعظم)

    السلام علیکم۔ سب کا بہت شکریہ
    عقرب بھائی ۔ آپ کی ارسال کردہ منقبت بہت اچھی لگی ۔ جزاکم اللہ
     
    محمد عامر القادری نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں