1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں عورت کا مقام اور افواہ ساز فیکٹریاں

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏24 دسمبر 2018۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں عورت کا مقام اور افواہ ساز فیکٹریاں
    کسی بھی مثالی معاشرے کے لیے باصلاحیت اور باکردار عورت کا وجود ناگزیر ہے۔ عورت نہ صرف بچے کی پیداش کا سبب بنتی ہے بلکہ اس کے معاشرے میں کردار اور صلاحیت کو بہتر بنانے کی ضامن بھی ہے۔ گود سے گور تک کے تمام افعال جو معاشرتی فلاح اورافراد کی اصلاح کے لیے سرانجام پاتے ہیں وہ سب معاشرے میں موجود عورت کے کردار اوراس کی صلاحیت کے ساتھ منسلک ہیں۔ معاشرے کے عروج وزوال کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے مگر معاشرے کی فلاح اور بگاڑ میں عورت کا بڑا کلیدی کردار رہا ہے۔ جس بھی معاشرے میں عورت کو اپنا کردار ادا کرنے سے روکا گیا یا اسے نمودونمائش کا ذریعہ بنایا گیا وہاں تباہی وبربادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔

    قبل از اسلام وہ تمام قومیں جو اپنے عروج کو پہنچیں اور پھر زوال ان کا مقدر بنا ، تاریخ گواہ ہے کہ جب تک انہوں نے عورت کو اپنا کردار ادا کرنے اور اس کے حقوق سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیے رکھا ، عروج ان کا مقدر بنتا گیا مگر جونہی عورت کو محض تسکین اورنمودونمائش کا ذریعہ سمجھا جانے لگا تو وہ قومیں ہستی سے مٹ گئیں۔ اہل القنس جو بلحاظ تہذیب وتمدن قدیم قوموں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ عورت کو پیش پاافتادہ سامان خیال کرتے تھے۔ بازاروں میں اس کی خرید وفروخت کی جاتی تھی ۔ اسپارٹا میں تو عورت کی اس حد تک تذلیل کی جاتی تھی کہ عورت ایک سے زیادہ مردوں سے شادی کر سکتی تھی ۔ بڑی بڑی عورتیں اس غلیظ عادت کا شکار ہو گئی تھیں۔

    اہلِ یونان اوراہلِ روم کو تاریخ کے اوراق میں بڑا مقام حاصل ہے ۔ ان دونوں قوموں کا زوال بھی اس وقت شروع ہوا جب عورت کو تماشائے بازار بنایا جانے لگا۔ حالت یہ ہوگئی کہ غیر نکاحی تعلق کا رواج عا م ہو گیا اوریہاں تک کہ بڑے بڑے معلمینِ اخلاق اس عمل کو فخرسے کرنے لگے ٗ غرض یہ کہ تمام انسانی سوسائٹی میں عورت کا درجہ نہایت انحطاط پذیر تھا۔ تمام پیشواہان دین نے عورت کو اس حددرجہ حقیر سمجھا کہ اسے تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے لگے مگر وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان کے اپنے وجود کا سبب عورت ہی بنی ۔ عرب معاشرے میں بھی عورت کی تذلیل کچھ اس سے منفرد نہ تھی بچیوں کو زندہ درگور کرنا ایک معمول تھا۔ اس سے بڑھ کر عورتوں کے ساتھ ناانصافی اورانسانیت سوز برتاؤ اور کیا ہو سکتا ہے کہ 568ء میں فرانس کے بعض ممالک میں اہلِ فرانس نے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں خاص طور پر اس مسئلہ پر بحث وتمحیص ہوتی رہی کہ عورت کو انسان شمار کیا جائے یا کچھ اور۔ آخر کار بحث اس امر پر ختم ہوئی کہ حاضرینِ جلسہ نے یہ اقرار کر لیا کہ عورت انسان ہے لیکن محض مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے ، اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر عورت کے ساتھ برتا جانے والا غیر انسانی سلوک ، عورت کی حق تلفی اورحقارت کی نگاہ سے دیکھا جانا ہر گز درست نہیں۔


    انسانی تذلیل کا یہ سلسلہ عرب وعجم کے گوشے گوشے میں واضح طور پر نظر آنے لگا ۔ معاشرے کی حالت کچھ اس حد تک بدتر ہو گئی کہ ماں ، بیٹی ، بہو سب کے سب رشتے ماند پڑنے لگے۔ افراط وتفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی اس بے رحم دنیا کو صحیح راستہ دکھانے کے لیے اسلام ہی واحد دین تھا جس کی آمد انتہائی ناگزیر ہو چکی تھی۔ چنانچہ اس اندھیر نگری میں روشن چراغ کی مانند اسلام نے اپنے نور کا کچھ یوں اجالا کیا کہ تمام تاریک راہیں روشن ہو گئیں اور خصوصاً عورت کو وہ مقام حاصل ہوا کہ تاریخ میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔

    اسلام نے خواتین کو وہ تمام حقوق عطا کیے جن کے چھن جانے سے وہ معاشرے پر ایک بوجھ سمجھی جاتی تھی ۔ خانہ داری کے امور سے لے کر اصلاح معاشرہ کے افعال کی انجام دہی تک بلکہ وراثت میں شراکت کے حقوق کو بھی
    حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس قدر بیان کیا کہ عورت کی تمام محرومیاں جو کبھی اس کا مقدر تھیں ختم ہو گئیں۔ دشمنانِ اسلام اور کچھ ہمارے نادان دوست جو اسلام میں ہوتے ہوئے بھی غیروں کی تقلید کو اپنا شعار زندگی بنائے ہوئے ہیں ٗ بے جا طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کے حقوق چھین لیے اور وہ درجہ نہیں دیا جو اس کے لائق تھا نیز پردہ ، طلاق اوردیگر چیزوں کو ایک مشکل امر اورانسانی سوسائٹی کے لیے خطرناک سمجھا ہے ۔ اگر یہ لوگ بنظر انصاف کتاب اللہ ، سنت رسولﷺ اورسلف صالحین کی سیرت وآثار دیکھیں تو لامحالہ ان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام نے عورت کے ساتھ انصاف کیا اوراس کو مقام انسانیت کے ارفع درجہ پر پہنچایا۔ خصوصاً اس وقت جب عورت زہریلہ سانپ اور بدتر شیطان سمجھی جاتی تھی ۔

    • چین میں اس کو قید خانے میں رکھا جاتا تھا ۔
    • فارس میں اس کی کوئی قدروقیمت نہ تھی۔
    • مصر میں عورت کو حقیر جان کر انسانیت کے حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔
    • یورپ میں غلاموں اور خادماؤں کے ہم پایہ تھی اور
    • ممالک عربیہ میں متاع ومیراث سمجھ کر تقسیم کر دی جاتی تھی۔
    اب اگر اسلام نے اس کو بلند مقام تک پہنچا کر انسانی حقوق عطا کیے ہیں ، اس کا احترام کر کے اس کو علم وفضل کے زیور سے آراستہ کیا ہے تو واضح کیا جائے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ انصاف کیا ہے یا ان قوموں نے جو اس کو استبدادیت کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے تھیں۔

    حضورﷺ نے عورت کو وہ مقام عطا کیا جو شاید کوئی بھی قوم تصور میں بھی نہ لاسکی۔ فرمایا ’’
    جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔

    شریعتِ اسلامیہ نے مرد اورعورت کو جماعتی حقوق میں برابر کا درجہ دیا ہے ۔ سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
    ’’
    ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی اورمیں تم سے کسی محنت کرنے والے کی محنت کی خواہ وہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا۔ تم آپس میں ایک ہو‘‘۔

    کچھ اسلام مخالف قوتیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اسلام عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم کرتا ہے مگر وہ یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے مرد اورعورت کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ زور دیتے ہوئے اسے مرد وعورت پر فرض کر دیا ۔اسلام نے تو عورت کی ذہنیوعقلی قوتوں کی ترقی کے تمام راستے کھول دیئے ۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے ،
    ’’
    علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہے‘‘۔

    اس حدیث نبویﷺ سے یہ امر روش ہے کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے عام تعلیمی نقطہ نگاہ میں مردوں اورعورتوں کو مساوی تعلیم دینے کا اصول مقرر کیا حالانکہ اس سے قبل تعلیم صرف طبقہ اغنیا اوراستبداد پسند قبائل تک ہی محدود تھی مگر اسلام نے یہ تفریق ختم کر دی۔

    وطنِ عزیز میں بھی ایک ایسا مخصوص افراد کا گروہ ہے جو احکاماتِ شریعہ میں عورت کو قید کرتا ہے اوراس حوالے سے وہ متعدد بار خواتین کے مسائل کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ کبھی اسمبلی میں تحفظ خواتین بل پاس کروا کر تو کبھی مختاراں مائی جیسے کرداروں کو بین الاقوامی سطح پر اچھال کر۔ اگر کوئی راستہ نظر نہ آئے تو پھر ملالہ یوسف زئی جیسے کردار تراش لیئے جاتے ہیں اور ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ پاکستان خواتین کی تعلیم کے لئیے محفوظ جگہ نہیں ہے حالانکہ پاکستان میں لڑکوں کے مقابل لڑکیوں کے تعلیمی رجھان اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اگر تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو لڑکیاں بازی مارتی دیکھائی دیتی ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ افواہ ساز فیکٹریاں قرآن وسنت سے راہنمائی لینے کی بجائے اغیار کی خواہشات کو پروان کیوں چڑھاتی ہیں؟

    دوسرے ہی لمحے میرے ذہن میں یہ خیال سراٹھاتا ہے کہ یہ سب کاروباری طبقہ ہے اور یہ افواہ ساز فیکٹریوں میں بھی وہ مال تیار کرنا چاہتے ہیں جو یورپ کی منڈیوں میں مہنگے اور فوری دام بیچاجا سکے مگر میں ان عقل کے اندھوں کو (جو اپنے آپ کو عقلِ کُل تصور کرتے ہیں ) یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں غلط افواہیں پھیلانے کی بجائے ذرا مطالعہ کریں۔ عورت کو اعلیٰ وارفع مقام سے متعارف کس نے کروایا؟

    اسلام نے عورت کو صرف اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھے جس کا واضح اعلان قرآن مجید میں کیا گیا،
    ’’
    اے پیغمبرﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنا سنگھار کسی پر ظاہر نہ کریں۔ سوائے اس کے جواز خود کھلا رہتا ہے اوراپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رکھا کریں

    (سورۃ النور)

    افسوس کہ جس سے اس کی عزت وتکریم میں اضافہ ہوتا ہے اور جو لوگ یہ نظریہ قائم کیے ہوئے ہیں وہ کھلم کھلا قرآن مجید کے ان احکامات کا انکار کرتے ہیں۔


    تحریر: امتیاز احمد شاد
    Dec 23, 2018
     
    زنیرہ عقیل، ھارون رشید اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    عمدہ انتخاب
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی شئیرنگ کے لیے شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں