1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام اور دہشت گردی

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از اقبال جہانگیر, ‏25 فروری 2011۔

  1. اقبال جہانگیر
    آف لائن

    اقبال جہانگیر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2011
    پیغامات:
    1,160
    موصول پسندیدگیاں:
    224
    دہشت گردی ایک ایسا فعل یا عمل ہےجس سے معاشرہ میں دہشت و بد امنی کا راج ہو اور لوگ خوف زدہ ہوں،وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ دہشت گردی کو قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض کہتے ہیں۔ دہشت گردی لوگ چھوٹے اور بڑےمقا صد کےلئے کرتے ہیں۔ اسے کوئی فرد واحد بھی انجام دے سکتا ہے اور کوئی گروہ اور تنظیم بھی۔
    یہ حقیقت ا ظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے، اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا، نا ممکنات میں سے ہے۔ لھذا جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہو گا اور جہاں اسلام ہو گا وہاں دہشت گردی نہیں ہو گی۔
    اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہین اور امن اور سلامتی کی بات کرتے ہین۔ ‘ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔ آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔
    یہ امر شک اور شبہے سے بالا ہےکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان عرصہ سے دہشت گردوں کا شکار بنا ہوا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے مالی و جانی نقصانات ہوئے ہیں‘ اور ترقی کے میدان میں ہم بہت پیچہے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔
    اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان ،مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔طالبان اور القائدہ دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اسلام کے نفاز کے نام پر اور شریعتِ محمدی کے نام پر، لوگوں کی املاک جلا رہا ہے اورقتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے۔
    کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان قائم رکھنا اور شہریوں کی جان و املاک کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔دہشت گرد، دہشت گردی کے ذریعے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کر کے اور شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچا کر خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں تاکہ حکو مت کو دباو میں لا کرحکومت سےاپنے مطالبات منوا لیں۔
    اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔
    کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔
    اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔
    ایک مُسلم معاشرے اور مُلک میں ایک مُسلمان دوسرے مُسلمان کی جان کا دُشمن ۔مُسلمانیت تو درکنار انسا نیت بھی اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی بے گناہ کا خون کیا جائے۔
    چند برسوں سے وطن عزیز پاکستان مسلسل خود کش حملوں کی زد میں ہے۔ بے گناہ لوگوں کا قتل اور املاک کی بے دریغ تباہی ہو رہی ہے۔ الللہ کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور احکام قرانی کا اتباع نہ کیا جائےتو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، یہ عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔ اللہ تعالہ فرماتے ہین:
    ’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(
    کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)
    وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور الللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔
    تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
    ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
    مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
    ” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”
    مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
    جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)
    حکیم اللہ محسود اور اسامہ بن لادن، دونوں نے ملا عمر کو بیعت دی ہوئی ہے مگرملا عمر TTP کے سکولوں, مساجد اور عام نہتے پاکستانیوں کو خود کش بم حملوں کے ذریعے ہلاک کئے جانے کو اور کرنل امام کے قتل کو اس بیعت اور اپنے جاری شدہ code of conductکی خلاف ورزی تصور کر رہے ہین۔ اور تحریک طالبان پاکستان ، القائدہ کے اشاروں پر پاکستان کو کمزور کرنے کی سعی کر رہے ہین۔ القائدہ شیخ عطیہ اللہ کے بیان کی خلاف ورزی مین مصروف ہے جس مین انہون نے مساجد، سکولوں اور معصوم شہریوں پر حملوں سے منع کیا تھا۔ لگتا ہے یہ سب بے مہار ہین اور اپنے بیعت کی بھی پرواہ نہین کر رہے۔
    تمام اہل دانش اور علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں طالبان اور القائدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کر کے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ دُشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کو بھی، اور جوش انتقام میں اندھا ہو جانے والوں کو بھی۔
    ہمیں روم کے نیرو کی طرح، بنسری بجاتے ہوئے اپنے ملک کو جلتا اور تباہ ہوتا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آ گے بڑہ کر مردانہ وار اسلام اور ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
     
  2. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام اور دہشت گردی

    اسلام امن و آشتی کا دین ہے لیکن کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اللہ تعالی ان کو ہدایت نصیب فرمائے
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام اور دہشت گردی

    بہت خوبصورت اور غور طلب تحریر ہے۔ اسلام کو اتنا نقصان پہنچ رہا ہے جس کی ماضی میں‌مثال نہیں ملتی جو اس نظریہ کو تقویت دیتی ہے کہ القاعدہ کسی مسلم تنظیم کا نام نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس قسم کی جعلی مسلم تنظیم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سادہ مسلمانوں کے اس سے پہلے بھی اسلام کے خلاف استعمال کیا گیا ہے اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو حسن بن صباح کی تنظیم اور آج کے طالبان میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ فدائین اور جنت کے جھوٹے خط یا ٹکٹ ان مشترک چیزوں میں ایک ہیں۔
    ان سب باتوں سے قطع نظر اگر صرف اس چیز پر غور کریں کہ ان کا نشانہ کون سی جگہیں بنتی ہیں‌تو بھی ان کا پول بڑی حد تک کھل جاتا ہے۔ ان کا نشانہ مسجدیں، مذہبی جلوس اور دیگر جگہیں جو اسلام سے کسی بھی طرح کا تعلق رکھتی ہوں ہیں۔ آج تک کسی قبحہ خانے، کلب، سینما، جوا خانے، فحش ڈرامہ پیش کرنے والے تھیٹر یا ایسی ہی کسی اور معاشرتی برائی کی جگہ کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ کیا یہ ان کی پسندیدہ جگہیں ہیں اور مساجد وغیرہ ان کے نزدیک قابلِ مذمت ہیں؟

    اصل میں ہم نے اپنی سوچ کو بند کر دیا ہے اور جو کچھ غیرملکی میڈیا ہمیں‌فیڈ کر رہا ہے اس پر اعتبار شروع کر دیا ہے۔

    خدا ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اقبال کے اس شعر پر بات ختم کرتا ہوں۔

    اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ
    ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں