1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلامی این جی اوز اور خواتین

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از ہما, ‏2 جولائی 2006۔

?

خواتین میں اسلامی شعور کی بیداری کے لئے اسلامی این جی ا

  1. معاشرتی بے راہروی کے ازالے میں نہایت مؤثر ثابت ہوں گی۔

    0 ووٹ
    0.0%
  2. مغرب زدہ خواتین میں کسی حد تک تبدیلی کا امکان ہے۔

    0 ووٹ
    0.0%
  3. کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔

    0 ووٹ
    0.0%
  4. یہ الٹا اسلام کا تشخص برباد کریں گی۔

    0 ووٹ
    0.0%
  1. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    خواتین ہمارے معاشرے کا جزولاینفک ہیں۔ ایک صالح اور پاکیزہ معاشرے کے قیام میں خواتین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی نظر میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر مرد و خواتین دونوں کا فریضہ ہے۔

    موجودہ دور میں باطل طاقتوں کے مسلسل فریب اور پروپیگنڈے کے ذریعے مسلم خواتین کو اسلام کی عظیم روحانی، اخلاقی اور انقلابی اقدار سے دور کیا جا رہا ہے۔ جو حقوقِ نسواں اور جدت پسندی کے نام پر معاشرے کی تنزلی کا باعث ہے۔ اسلامی اقدار کی حقانیت کے یقین کو ختم کرنے کےلئے مغربی استعماری قوتیں پوری کوشش کے ساتھ مسلم خواتین کے رجحانات بدل کر میڈیا کو خواتین کی تذلیل کا ہتھیار بنا رہی ہیں اور یوں عورت ایک بازاری چیز بنتی چلی جا رہی ہے۔

    مغرب کی چکاچوند سے مرعوب خواتین کو اگر اسلام کی طرف سے عطا کردہ حقوقِ نسواں کا چارٹر صحیح معنوں میں دکھا دیا جائے تو وہ اسلام ہی کو اپنی پناہ گاہ خیال کریں گی۔

    مغرب کے اس پوشیدہ حملے سے خواتین کو محفوظ رکھنا یقیناً امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے، لہذا موجودہ دورِ زوال کے درپیش چیلنجز کے پیشِ نظر خواتین کے کردار کی اہمیت اور انہیں ان کی ذمہ داریوں کا اِحساس دلانے کے لئے خواتین میں اسلامی این جی اوز کا قیام ضروری ہے تاکہ خواتین میں یہ شعور اجاگر ہو کہ اسلامی اقدار کا تحفظ ہی ان کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اسی صورت اصلاحِ احوال، اِحیائے اسلام اور تجدیدِ دین کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

    آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس شعور کی بیداری کے لئے اسلامی این جی اوز کا قیام خواتین کو معاشرے میں باعزت مقام دلا سکتا ہے؟

    اس لڑی میں جاری ووٹنگ میں حصہ لیں اور جواب پر کلک کر کے اپنی رائے سے نوازیں۔ شکریہ
     
  2. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    آزادئ نسواں

    آزادئ نسواں علامہ اقبال کی نظر میں


    اس بحث کا کچھ فیصلہ مَیں کر نہیں سکتا
    گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند

    کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
    پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

    اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
    مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خردمند

    کیا چیز ہے آرائش و قمیت میں زیادہ
    آزادئ نسواں کہ زمرّد کا گلوبند؟

    (ضرب کلیم)​
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    یقیناً حقوقِ نسواں کا اسلامی چارٹر سمجھنے سے ہی عورت اپنی کھوئی ہوئی عزت کو پھر سے حاصل کر سکتی ہے۔
     
  4. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مغرب کی چکاچوند سے مرعوب خواتین اگر اسلام کی طرف سے عطا کردہ حقوقِ نسواں کا چارٹر صحیح معنوں میں دیکھنا چاھیں تو اس لنک پر جائیں
    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=154
     
  5. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    یہ الٹا اسلام کا تشخص برباد کریں گی۔
     
  6. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    بھلا اسلامی شعور کی بیداری سے اسلام کا تشخص کیسے برباد ہو سکتا ہے؟

    میرے خیال میں تو خواتین میں اسلامی شعور کی بیداری کے لئے بننے والی اسلامی این جی اوز معاشرتی بے راہروی کے ازالے میں نہایت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
     
  7. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے بنتِ حوا آنٹی سے اتفاق ہے
     
  8. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    آپ تو دنیا کے آخری کنارے ہو آپ کو کیا پتا دنیا میں کیا ہو رہا ہے ؟
    بنتِ حوا نے بالکل درست کہا ہے
     
  9. عاشی
    آف لائن

    عاشی ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جون 2006
    پیغامات:
    320
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے
     
  10. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    معاشرتی اصلاح کے لئے جدوجہد کئے بغیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا بے سود ہے۔ محض تبصروں سے کچھ نہ ہو گا۔ آگے بڑھ کر عملی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اور عملی پیش رفت کے لئے یقینا ہمیں خود کو اجتماعی سطح پر منظم کرنا ہو گا، اسی کو این جی او کہتے ہیں۔

    اگر غیرمسلم طاقتیں مسلمان معاشروں میں اپنے اثرونفوذ کے لئے این جی اوز بنا سکتی ہیں تو ہمیں کس کافر نے روکا ہے کہ ہم اسلام کے فروغ کے لئے آگے بڑھنے کی بجائے محض ان پر تبصرہ جات پر ہی اکتفا کئے رکھیں؟

    میری دانست میں تو ایسا کرنا نہایت ضروری ہے۔ خواتین میں اسلامی شعور بیدار کرنے کے لئے وجود مین آنے والی اسلامی این جی اوز معاشرتی بے راہروی کے ازالے میں نہایت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

    یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصہء محشر میں ہے
    پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے​
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے اسی قسم کی ایک لڑی میں عملی قدم اٹھانے کی طرف ایک تجویز دی تھی۔
    وہی یہاں بھی دہرائے دیتا ہوں ۔ کیوں کہ میرے خیال میں اسکے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔

    --------------------------------------------------------------------------------

    نتیجہ کی طرف چلتے ہیں تو ایک رائے میں دے سکتا ہوں۔۔۔
    اکیلے اکیلے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ دو ہی طریقے ہیں۔
    نمبر 1----- یا تو خود قائد بن کر اوروں کو اپنے ساتھ ملانا اور اپنا ہمنوا بنانا ہوگا۔۔۔ اور اگر ہم اس قابل نہ ہوں تو پھر۔۔
    نمبر 2 ----کسی مخلص قیادت کے پیغام پر لبیک کہتے ہوئے متحد ہو کر جد و جہد میں شامل ہونا ہو گا۔۔
    آئیے ! آئیے ! آئیے !آیئے ۔۔۔
    غیر جانبداری سے ، کشادہ دلی سے اور پوری درد مندی سے پاکستان میں بالخصوص اور عالمِ اسلام میں بالعموم جاری اقامتِ دین کے لیے جاری تحریکوں کا تجزیہ کریں۔ اور دیکھیں کہ کونسی قیادت اور تحریک :

    اہلیت کے ساتھ
    جدیدیت کے ساتھ
    ترقی پسندانہ انداز میں
    امن پسندی کے ساتھ
    روشن خیالی کے ساتھ
    اتحاد و اتفاق کی علامت بن کر
    محبت کی پیامبر بن کر
    علمی و فکری سطح پر
    عملی و تحریکی سطح پر
    سائنسی و روحانی سطح پر
    تحریر کے میدان میں
    تقریر کے میدان میں
    کردار کی پختگی کے ساتھ
    گفتار کی اثرآفرینی کے ساتھ
    بات کی شیرینی کے ساتھ
    مجددانہ انداز میں
    قرونِ اولی کی فکر کے ساتھ
    زمانہ حال کے تقاضوں کے مطابق
    مستقبل کی درست منصوبہ بندی کے ساتھ
    ہر گوشہء حیات کو اپنے دائرہء عمل میں لیتے ہوئے
    دیہی، شہری، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر
    اسلام کے احیاء و اقامت کے لیے پرسرِ پیکار ہے

    جہاں دل گواہی دے کہ یہ تحریک ، یہ قیادت اور تحریک سب سے مخلص، اہل، اعلیٰ دکھائی دیتی ہے۔۔۔ اس کا دست و بازو بن کر اپنی مقدور بھر توانائیاں دینِ اسلام کے احیاء و بحالیء اقدارِ اسلام کے لیے وقف کر دیں۔
    پھر ہی ایسی گفتگو کا کوئی فائدہ ہے۔۔۔

    ورنہ بقول اقبال

    گفتار کا غازی بن تو گیا
    کردار کا غازی بن نہ سکا​
     
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جب بھی این جی او کا لفظ سامنے آتا ہے تو دل کے نہاں خانے میں شک کا ایک تخم اپنی شاخیں نکالنا شروع کر دیتا ہے۔این جی او یا غیر حکومتی ادارہ ایک بہت عمدہ خیال تھا جسے ہم نے اس بری طرح بدنام کیا ہے کہ عام آدمی اس کو پیسہ کمانے کے آسان طریقہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتا۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 64000 کے قریب این جی اوز ہیں اور ان میں زیادہ تر کیا کردار ادا کر رہی ہیں آپ کو معلوم ہی ہے۔ اگر یہ این جی او بھی اسی میں‌ایک اور کا اضافہ ہے تو میرے خیال میں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
    خواتین میں اسلام کے دیے گئے حقوق کا شعور پیدا کرنے کا عزم لیے ایک این جی او سے میرا رابطہ ہوا۔ اس کے روح رواں جناب عمر الغزالی صاحب ہیں‌‌ اور اس کا نام ہے مشعل فاونڈیشن ۔
    غزالی صاحب نے میری درخواست پر اس لڑی میں‌اپنے خیال لکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اور معلوم ہوا کے وہ بھی ہماری اردو کے صارف ہیں۔

    اس تمام تمہید کے بعد میں ‌اپنی رائے واضع طور پر لکھوں تو یہ ہے کہ اگر این جی او کو سنبھالنے والے مخلص لوگ موجود ہیں‌تو بسم اللہ ضرور بنائیں ورنہ کسی اور کے ساتھ ہاتھ بٹائیں۔
     
  13. عمر الغزالی
    آف لائن

    عمر الغزالی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2006
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسلام نہ صرف دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے خواتین کو بحثیتِ انسان عزت و تکریم دی بلکہ ان کی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے برابری کے حقوق دیے۔ بلکہ کسی حد تک یہ حقوق مردوں سے برتر ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حریت زن کی علم بردار مغربی تحریکوں نے آج تک عورت کو ناصرف یہ کہ قابل عزت نہیں‌گردانا بلکہ انہیں انسانیت کے درجے سے بھی نیچے گرایا ہوا ہے۔مثال کے طور پر مغربی معاشرت میں عورت کو جو بھی حقوق حاصل ہیں‌ وہ بحثیتِ عورت نہیں‌ہیں کیونکہ یہ حقوق حاصل کرنے کے لیے اسے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو مردوں کے برابر ثابت کرنا پڑتا ہے، جو فطرت کے اصولوں کے سراسر منافی ہے کیونکہ مرد اور عورت کی طبعی ساخت اور صلاحیتیں یکساں نہیں ‌ہیں۔ یعنی خاتون کو اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ سارے کام کرنے پڑیں گے جس کے لیے نہ تو فطرت نے اسے بنایا ہے اور نہ ایسے کاموں کے لیے اسے صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔
    جبکہ اسلام عورت کو اس کے فطری تقاضوں کے عین مطابق اسے طبعی طور پرعورت کا درجہ دیتے ہوئے عزت و تکریم، اور حقوق و فرائض کے لحاظ سے مرد سے بر تر حیثیت دیتا ہے۔ عورت کو آمدنی میں‌براہ راست حصہ نہ ڈالنے کے باوجود معاشی لحاظ سے جو بھی حقوق حاصل ہیں وہ مرد سے کسی صورت میں‌کم نہیں ہیں۔اس کے علاوہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حثیت سے جو درجہ خواتین کو حاصل ہے اس کا تصور بھی مغربی دنیا نہیں کر سکتی۔
    عورت کے متعلق عیسائی فلسفہ
    مسلمان کی جنت اسکی ماں کے قدموں تلے ہے جبکہ عیسائی فلسفے کے مطابق عورت گناہ کا استعارہ ہے کیونکہ ان کے مطابق حضرت حوا کی ترغیب دلانے پہ حضرت آدم نے شجر ممنوعہ چکھنے کی غلطی کی جس کے نتیجے میں انسانیت گناہ کے گرداب میں اس بری طرح سے پھنسی کہ اس سے نکلنے کا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں۔ توبہ بھی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ توبہ کرنے والی روح ہی گناہگار ہے اور اس کا کفارہ قبول ہو ہی نہیں سکتا۔ اور اس دلدل میں ڈالنے کی تمام تر زمہ داری حضرت حوا کے کندھوں پہ جاتی ہے۔ اسی لیے عیسائی تہذیب میں عورت اس لائق نہیں ہے کہ اسے کوئی عزت و تکریم دی جائے۔ اس گرداب سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی ایسی شئے کی قربانی دی جائے جو ہر لحاظ سے پاک اور مقدس ہو اسی لیے خدا نے (نااعوذ باللہ) اپنے بیٹے کی قربانی دے کر انسانیت کو نجات دی۔
    لہٰذا مغربی تہذیب کے مطابق عورت کیونکہ مرد کو نہ صرف جنت سے نکالنے کا سبب بنی ہے بلکہ اس کی تمام تر پریشانیوں اور مسائل کی بنیادی وجہ بھی ہے تو ایسی تہذیب اس فرد کو کوئی حق یا عزت و تکریم کس طرح دے سکتی ہے جو اس کی تمام تر نفرتوں کا محور ہو۔
    یہ نامناسب نہ ہو گا کہ مغربی تہذیب میں عورت کی حیثیت کا تجزیہ بھی کر لیا جائے۔عورت کو جو بھی حقوق حاصل ہیں ان کے پیچھے عورت کے بارے میں عیسائی طرز فکر صاف نظر آتی ہے۔ عورت کو صرف ایک commodity گردانا جاتا ہے۔ عورت کو توجہ کا مرکز بننے کے لیے اپنے جسم کی تشہیر کرنا بنیادی شرط ہے اگر عورت اور مرد کو یکساں حقوق حاصل ہیں تو مرد بھی ویسا مختصر ترین لباس زیب تن کیوں نہیں کرتا کہ جس کے بغیر عورت غیر مہذب سمجھی جاتی ہے۔
    آج کی ضرورت
    جو بھی تہذیب معاشی اور سیاسی طور پر دنیا پر غالب ہوتی ہے اسی کا فلسفہ طرزِ فکر اور معاشرت بھی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسلام کے فلسفہ حیات سے لاعلمی کی دوسری وجہ کسی حد تک دین سے دوری بھی ہے۔آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام کے نظریات کو جو انسانیت کی فلاح اور کامیابی کی ضمانت ہیں عام کیا جائے۔ اس بات کی ضرورت شدید تر ہو جاتی ہے کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ہر شخص اس کی زد میں ہے۔اسلام جو حیثیت عورت کو دیتا ہے ناصرف یہ کہ مغربی تہذیب اسکا ہلکا سا بھی شعور نہیں رکھتی بلکہ یہ حیثیت معلوم تاریخ میں‌ کبھی بھی عورت کو حاصل ہی نہیں‌رہی۔ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ جو حیثیت عورت کو اسلام میں‌حاصل ہے ناصرف اس کو دوسروں تک پہنچائیں بلکہ اس کو عملی زندگی میں استوار کر کے اس کے عملی نمونے کو بھی لوگوں کے سامنے لائیں۔
    اس مقصد کے لیے مشعل فاونڈیشن نے “باہمت“ پراجیٹ کا آغاز کیا جس کے مقاصد یہ ہیں
    1۔عورت کی حیثیت اور اسلامی نقطہ نظر کو عام کرنا۔
    2۔عورت کو اسکا مقام دلانے کے لیے لوگوں میں‌شعور بیدار کرنا۔
    3۔اسلام عورت کے لیے جو دائرہ کار متعین کرتا ہے خواتین میں ‌اسکا شعور اجاگر کرنا۔
    4۔ماں کی حیثیت سے اولاد کی تعلیم و تربیت کے زریعے خاتون قوم کی تعمیر میں
    ‌جو کردار ادا کرتی ہے اسکا احساس بیدار کرنا۔
    5۔ خواتین کی صلاحیتِ کار میں اضافہ کرنے کیلئے مختلف شعبوں میں تربیت کا انتظام کرنا۔
    6۔ خواتین کی معاشی ترقی اور ان کی محنت کا جائز معاوضہ دلانے کے لیے مناسب نیٹ ورک تعمیر کرنا۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل فکر اور درد مد دل رکھنے والے لوگ انفرادی سطح سے نکل کر اجتماعیت کا آغاز کریں اور اپنی بنیادی ذمہداری ادا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی اسی طرح سے معاونت کریں جس طرح سے طاغوتی طاقتیں باہم متحد ہیں۔ اس مسئلے پر اسلامی نقطہ نظر اسی سطح پر اور اسی شد و مد کے ساتھ واضع کرنا ہو گا کہ جس طرح سے مخالف قوتیں کر رہی ہیں- ورنہ
    ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں​

    اگر آپ اس سلسلہ میں کوئی کام کر رہے ہیں تو ہم آپ کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں ورنہ آپ ہمارے دست و بازو بنیے۔

    اللہ کرے ہمارا کل ہمارے آج سے بہتر ہو​
    مشعل فاونڈیشن
    سی 2، اسلامک سنٹر، لاہور
    0345-4007234
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم عمر الغزالی بھائی !

    آپ سے ملکر اور آپ کی تنظیم کے مقاصد جان کر خوشی ہوئی۔

    صرف ایک بات کی وضاحت چاہوں گا ۔
    آپ نے فرمایا :
    کیا یہ فلسفہ واقعی مذہبِ عیسائیت کا فلسفہ ہے ؟؟ اگر ہے تو کیا آپ انکی کسی مذہبی کتاب کا حوالہ فراہم کریں گے ؟؟
    جہاں تک حضرت آدم و حوا (علھیما السلام) کا تعلق ہے تو یہ غلط فہمی تو مسلمان معاشرے میں بھی پائی جاتی ہے۔ گو کہ یہ غلط العام ہے ۔ لیکن عوام الناس کے اندر یہ بات کثرت سے دہرائی جاتی ہے۔

    اور جہاں تک عورت کے جسمانی نمائش کے فلسفے کا تعلق ہے تو وہ ایک سیکولر اور بے دین مغربی معاشرے کی پیداوار ہے نہ کہ مذہبِ عیسائیت میں ایسی کوئی ترغیب دی گئی ہے۔ ثبوت کے طور پر انکی مذہبی عورتوں (نن یا نون) کا لباس آج بھی دیکھ لیں۔ وہ پوری طرح ستر پوشی کے زمرے میں آتا ہے۔ حتی کہ سر بھی مکمل طور پر ڈھکا ہوتا ہے۔ یہ عیسائی مذہب کے لباس کی عکاسی کرتے ہے۔
    علاوہ ازیں آپ انگریزوں کی نصف صدی پرانی فلمیں دیکھ لیں جو اس وقت کے معاشرتی رہن سہن کی عکاس ہیں۔ ان میں بھی عورت ایسا بے ہودہ لباس پہنے بہت کم نظر آتی ہے۔ اور یورپ کے پرانےدیہاتی علاقوں میں جانے سے آج بھی یہ نظارہ بخوبی ہوتا ہے کہ پرانی بوڑھی عورتیں نہ صرف مکمل لباس زیب تن کرتی ہیں بلکہ چرچ وغیرہ میں جانے کے وقت باقاعدہ سر بھی ڈھانپتی ہیں۔

    پتہ چلتا ہے کہ بے ہودگی کا ذمہ دار مذہب نہیں بلکہ انکی بے دینی ہے۔
    کسی بے دین معاشرے کے گمراہ کن رسومات کو اسکے مذہب کے ساتھ منسوب کرنا ناانصافی نہیں ؟؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے معاشرے میں انپڑھ اور جاہل پسماندہ علاقوں میں عورت کی قران کے ساتھ شادی کر دی جاتی ہے۔ اسے کاروکاری کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ جس کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اور غیر مسلم معاشرے اسے اسلامی تعلیمات کا حصہ بنا کر اسلام پر تنقید کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں یہ ناانصافی ہے۔ یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔

    میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ اسلام نے عورت کو دنیا بھر کے مذاہب میں سب سے بلند اور قابلِ احترام مقام دیا ہے۔

    لیکن کسی مذہب فراموش معاشرے کی گمراہ کن اقدار کو سامنے رکھ کر اسکے مذہب پر تنقید کرنا کچھ نامناسب سا معلوم ہوا ہے۔

    اور یہ بات آپ کی تنظیم کے حق میں بھی کچھ ایسا اچھا تاثر نہیں چھوڑے گی۔ کیونکہ جو شخص تھوڑا سا بھی عیسائی مذہب یا مغربی معاشرے پر نظر رکھنے والا ہو گا اسے حقیقت کا بخوبی علم ہو گا اور وہ آپ کے پیش کردہ فلسفہ سے اتفاق نہیں کرے گا۔

    اس لیے بہتر ہے کہ آپ حوالہ جات سے بات کریں تاکہ بات میں مزید پختگی ہو۔

    اللہ تعالی آپ کو اور ہم سب کو اپنے اپنے نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین‌
     
  15. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    نعیم صاحب کی بات قابلِ عمل اور درست ہے۔ چھوٹی چھوٹی 1000 تنظیمیں بنانے سے بہتر ہے کہ جب مقاصد ایک سے ہیں تو تھوڑی سی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایک جماعت یا تحریک سے ہی وابستگی اختیار کی جائے ۔ تاکہ مقاصد کے حصول کے لیے اجتماعی اقدام اٹھایا جا سکے۔
     
  16. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    عمر الغزالی صاحب !

    آپ کی تنطیم کا تعارف پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ اللہ تعالی آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔

    لیکن نعیم صاحب کی تعمیری تنقید اور مخلصانہ تجاویز بھی قابلِ غور ہیں۔ ان پر بھی توجہ فرمائیے گا۔

    شکریہ !
     
  17. عمر الغزالی
    آف لائن

    عمر الغزالی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2006
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آپکی آراء اور رہنمائی کا شکریہ۔

    دراصل جب ہم کسی بھی تہذیب اور ثقافت کا تجزیہ کرتے ہیں تو اسکا مقصد تنقید برائے تنقید یا الزام تراشی نہیں‌ہوتا بلکہ جب تک کسی مسئلہ کے پیچھے اس کی جزیات کا جائزہ نہ لیا جائے تو اس مسئلہ کو اسکے تمام تر مضمرات سمیت سمجھنے میں ہم کامیاب نہیں‌ہو سکتے۔ خواتین کی حیثیت کے بارے میں اسلام اور عیسایت کا نقطہ نظر جب تک ہمارے سامنے نہ ہو تو ہم معاشرے میں ان کے کردار اور حیثیت کا تعین نہیں کر سکتے کیونکہ کسی بھی ظاہری عمل کے پیچھے پوشیدہ نظریات دراصل اس عمل کے اثرات کا تعین کرتے ہیں۔ جہاں تک حوالہ جات کا تعلق ہے تو آپ صرف عیسایت میں‌صلیب کی اہمیت کے ایشو کا تفصیل سے مطالعہ کریں تو اس میں بھی عورت کے بارے میں‌عیسایت کے نظریات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ آسان ترین ریفرنس کے طور پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور Pastor Father رکن الدین کے درمیان مباحثہ "?Was Christ Really Crusified" میں فادر رکن الدین کے دلائل سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
    ہمارا مقصد قطعاً کسی مذہب یا تہذیب پر تنقید کرنا نہیں بلکہ تعمیری سوچ کے پیش نظر اس مسئلہ کے بنیادی نظریات کا جائزہ لینا ہے جس کے بغیر کوئی بھی بحث نامکمل رہے گی۔
    بہرحال ہمیں میڈیا میں خواتین کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر پرزور اور موثر طریقے سے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر کسی مذہب کے پیروکار اسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے کوتاہی کے مرتکب ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کوتاہی کا زمہ دار وہ مذہب ہے مثال کے طور پر ہٹلر ایک عیسائی تھا اسکے ذاتی عمل کی وجہ سے دوسری جنگِ عظیم میں 6 کروڑ انسان لقمہء اجل بن گئے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عیسایت ایک امن و سلامتی کا مذہب نہیں ہے۔تو پھر کسی بھی مسلمان معاشرے میں اسلام کی روشن تعلیمات سے انحراف کا زمہ دار اسلام کو کیسے ٹہھرا سکتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ناصرف مغربی میڈیا بلکہ ہمارے ملک کا “روشن خیال“ طبقہ ہماری انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں کا زمہ دار اسلام کو قرار دے دیتے ہیں جو قطعہً بھی حقیقت نہیں ‌ہے۔
     
  18. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    میں عیسایت میں‌عورت کے مقام پر مواد تلاش کر رہا تھا تو مجھے عمرالغزالی کے بیان کے کچھ لنک ملے ہیں‌آپ سب کے لیے ادھر لنک دے رہا ہوں۔
    پورا مضمون ہی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر اس لنک پر خصوصی توجہ دیں

    http://www.themodernreligion.com/women/w_comparison_full.htm#_Toc335566656

    عیسائی رہنماوں کے عورت کے بارے میں بیانات
    http://www.religioustolerance.org/lfe_bibl.htm
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عمر بھائی ۔ آپ کی بات اپنی جگہ بجا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے۔ کہ اگر آپ تقابلِ ادیان کریں گے تو عالمِ عیسائیت میں تو شاید چند فیصد لوگ ہی عیسائیت کو ایک عملی مذہب کے طور پر تسلیم کرکے اسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوں گے۔ بلکہ شاید چند فیصد سے بھی کم۔ (یہ بات بلامبالغہ اور مشاہدے کی بنا پر کہہ رہا ہوں)
    دوسری بات یہ کہ اگر آپ اپنی تنظیم کے مقاصد میں یہ بات شامل کرتے ہیں تو آپ کا مقصد پاکستانی مسلمان خواتین کو عیسائیت سے نہیں بلکہ مغرب زدگی سے بچانا ہے۔ عیسائیت سے تو آپکا کسی طرح مقابلہ ہی نہیں۔ آپ کی جنگ تو مغربی کلچر اور بے راہ روی سے ہے۔ تو آپ ایسی حکمتِ عملی اپنائیں جس سے پاکستانی مسلمان خواتین مغرب کی بےہودہ ثقافت سے دور ہو کر اسلامی تعلیمات کے محاسن و اوصاف سے آگہی حاصل کر سکیں۔
    اور جو بات آپ اپنے گفتگو کے آخر میں کی وہ بالکل درست ہے بلکہ میرے ہی سابقہ پیغام کا لب لباب ہے۔



    یہی تو میں واضح کرنا چاہتا تھا کہ اگر وہ ہماری ہر خرابی کو اسلام سے تعبیر کرتے ہیں تو انکی حکمت عملی کو سمجھیں۔ وہ اسلام کو نشانہ بناتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے مسلمان اپنے مذہب سے کسقدر محبت کرتے ہیں۔ جواباً آپ ہزار بار عیسائیت کو برا بھلا کہتے رہیں۔ ان کی اکثریت کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیونکہ انہیں خود بھی معلوم نہیں کہ عیسائیت کیا ہے اور اسکی تعلیمات کیا ہیں ؟؟؟

    آخری اہم نکتہ جسے میں واضح کرنا یہاں ضروری سمجھوں گا۔ کہ آپ نے فرمایا۔۔۔
    یہ بات ہولوکاسٹ کے حوالے سے کہی جاتی ہے اور یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ اور اس الزام کو وہ یورپ کے لیے ایک ننگی تلوار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ آج تک آسٹریا اور جرمنی سے 6 ملین یہودیوں کی جان و مال کا معاوضہ نقدی کی صورت میں وصول کر رہے ہیں۔
    جبکہ حقیقتِ حال اسکے برعکس ہے۔ یہودی 6 ملین کی فگر میں انتہا درجے کے مبالغے سے کام لیتے ہیں۔حقیقت میں 6 ملین سےبہت کم یہودی مارے گئے تھے۔ اور شاید آپ کو پتہ ہو گا کہ آج تک ایک بھی تحقیقاتی کمیشن اس مسئلے پر نہیں بننے دیا گیا۔ اگر یہودی سچے ہیں تو وہ تحقیقات کیوں نہیں کروانے دیتے۔ یہی بات چند ماہ پہلے ایران کے صدر احمد نزاد نے بھی کی تھی۔ اور ساری دنیا انکے پیچھے پڑ گئی تھی۔ کیونکہ آسٹریا اور یورپ میں تو ہولوکاسٹ کا انکار کرنا بھی قانوناً جرم ہے۔ یہ سب یہودیوں کا پراپیگنڈہ ہے ہمیں اس کا پردہ چاک کرنا چاہیے۔ یا کم از کم محتاط رہنا چاہیئے۔
     
  20. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اتنی مثبت اور قابلِ فکر لڑی کو تو چلتے رہنا چاہیئے تھا۔

    عمرالغزالی صاحب ۔ نعیم صاحب کی گفتگو کے جواب میں اپنی حکمتِ عملی کا کچھ اظہار فرمائیے ۔
     
  21. عنبرین کاش
    آف لائن

    عنبرین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2008
    پیغامات:
    60
    موصول پسندیدگیاں:
    0
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام عنبرین کاش جی۔
    واپسی مبارک ہو :dilphool:
    اور شادی خانہ آبادی کی بھی بہت بہت مبارک ہو :dilphool:

    اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں خوشیاں عطا فرمائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں