1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

استاذ کا مقام

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف 26, ‏22 جنوری 2012۔

  1. آصف 26
    آف لائن

    آصف 26 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے پیارے آقادوجہاں کے والی احمد مختار نبیوں کے سردار غیبوں پر خبردار بے اذنِ پرور دگار شفیع روزِ شمار رحمتہ اللعالمین:saw:کا فرمانِ خوشبودار ھے ،،مجھے معلم بنا کر بھیجاگیا ھے،، اس ناتے تعلیم وتدریس نبی کی سنت ٹھری ۔باب العلم مولائے کائنات مولا مشکلکشا شیرِ خدا حیدرِ کرار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم فرماتے ھیں۔ ،،جس سے میں نے ایک لفظ بھی سیکھا وہ میرا آقا ھے ،، معلم معمار قو م ھو تا ھے۔جتنے بڑے بڑے مبلغ ،مفکر ،مفسر ،محدث ،فلاسفر ،سکالر ،ڈاکٹر ،سائنس دان ماہر تعلیم یا عظیم لوگ ہوئے ہیں وہ صرف اساتذہ کی دعاؤں اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے ہی کے مرہون منت ہیں۔ حنفیوں کے عظیم پیشواء امام اعظم ابو حنیفہ:rda:کے علم وفضل اور شہرت کا یہ عالم تھاکہ آپ کی مجلس میں بیک وقت سینکڑوں اور ہزاروں لوگ شریک ہوتے اور علمی و روحانی فیوض وبرکات کی لطافتوں کے ثمرات سمیٹتے ۔ بڑے بڑے شاہی کوفر اور تمکنت کے دلدادہ حکمران اور امراء بھی آپ کی صحبت میں بیٹھنااپنے لئے باعثِ عزت وافتخار اور اعزاز سمجھتے تھے ۔اس وقت آپ کے پائے کا کوئی عالم ،مبلغ اورمسند نشین نہ تھا ۔قرآن،حدیث،فقہ ،منطق،صرف،نحو جیسے بہت سے مروجہ علوم پر آپ دسترس اور یدِطولٰی رکھتے تھے۔آپ سادات کے ماننے والے اور تربیت یافتہ تھے۔ ایک دفعہ ایک مجلس میں وعظ فرماریے تھے کہ خلافِ توقع بارباراٹھتےاور بیٹھ جاتے۔جب نشست برخاست ہوئی تو معتقدین میں سے کسی نے جرءات کرکے باربارکھڑےہونےاور بیٹھنے کے بارے میں استفسارکیا کہ پہلے ایسا کبھی نہں ہوا تو جلیل القدراورعالی مرتبت امام ابوحنیفہ:rda:نے فرمایا کہ وعظ کے دوران میرے استاذِ محترم کا کم سن بیٹا کھلتے ہوئے بار بار میرے سامنے آجاتا تھا تو مجھ پر استاذ کے بیتے کا احترام لازم ہوجاتا تھا۔ابوحنیفہ کی کیا مجال کہ وہ استاذ کے بیٹے کے احترام میں کھڑانہ ہوتا۔شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کو جب اس وقت کی گورنمنٹ نے سر کا خطاب دینا چاہا تو علامہ نے فرمایا کہ اس وقت تک میں کوئی خطاب قبول نہیں کروں گا جب تک میرے استاذ محترم مولوی میر حسن کو خطاب سے نہ نوازا جائے ۔دریافت کیا گیا ان کی کوئی کتاب یا تصنیف ہے؟تو علامہ نے جواب میں فرمسیا۔ ان کی سب سے بڑی اور کھلی کتاب میں خود ہوں ۔اس پر مولوی میر حسن کو شمس العلماءکے خطاب سے نوازا گیا تو علامہ نے بھی سر کا خطاب قبول فرما لیا۔ قائد اعظم:ra:کے دستِ راست اور معتمد ساتھی سردار عبدالرب نشتر جب گورنرپاکستان کے عہدے پر فائز ہوے تو سب سے پہلے اپنی گاڑی حود ڈرائیو کرکے تن تنہا اپنے استاذِ محترم کے درِدولت پر جا پہنچے۔ان کی قدم بوسی کی اور دعائیں لیں اور نیچے زمین پر ہی بیٹھ گئے اور کہنے لگے نالائق عبدالرب اگر اس قابل ہوا ہے تو اس کا سہرا میرے استاذِ محترم کے سر ہے، پھر اس کے بعد گورنری کی سیٹ پر جا کر بیٹھے۔خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کے استاذجب کسی کام کے لئے مکتب سے باہر جانے لگے تو خلیفہ کے دونوں بیٹے اپنے استاذ کی جوتیاں اٹھانے اور سیدھی کرنے کے لئے دوڑ پڑے۔ دونوں کی خواہش تھی کہ پہلے میں جوتیاں اٹھاؤں۔دونوں شاہزادوں نے ایک ایک جوتا اٹھالیا۔ہارون الرشید یہ منظر دیکھ رہا تھا۔لیکن اس نے اس بات کا برا نہ منایا کہ خلیفہ وقت کے بیٹوں نے جوتیاں کیوں اٹھائیں بلکہ وہ اپنے بیٹوں سے خوش ہوا قدیم دور کے یونان کو کو دیکھیں تو وہاں سقراط،افلاطون اور ارسطو جیسے لوگوں نے اپنےاپنےپیشیے میں تحریک رقم کی ۔ایک دفعہ ارسطو اور اس کا شاگرد سکندر اعظم سفر پر تھے ۔راستے میں دریا حائل تھا۔دریا کا پاٹ بڑاچوڑااورگہرائی بہت زیادہ تھی۔ارسطو نے دریا پہلے پار کرنے کی کوشش کی تو سکندر نے یہ کہہ کر روک دیا کہ آپ مجھ جیسے کئی سکندر پیدا کر سکتے ہیں لہٰزا پہلے مجھے دریا پار کرنے دیں تاکہ اگر ڈوبے تو سکندر ہی ڈوبے اور آپ محفوظ رہیں۔ حضرت فاروق اعظم:rda:سے پوچھاگیا کہ اتنی بڑی سلطنت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ھے تو آپ نے فرمایا کاش میں ایک معلم ھوتا استاذبادشاہ تو نہیں مگر بادشاہ گر ضرور ہوتا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں