1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ازابیل ولکرسن کی نئی کتاب ’’ذات پات ،ہماری بے چینی کی ماخذ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ازابیل ولکرسن کی نئی کتاب ’’ذات پات ،ہماری بے چینی کی ماخذ ‘‘


    امریکہ اور ہندوستان میں اس نظام نے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں
    ازابیل ولکرسن کاشمار امریکہ کی مایہ ناز مصنفین میں ہوتا ہے، ان کا مرکز معاشرے کی سچائیاں ہی ہوتی ہیں، ایسی سچائیاں، جنہیں بولتے ہوئے بہت سے امریکی مصنفین خوف کھاتے ہیں، اپنا دامن بچا کر نکل جاتے ہیں، کیونکہ ترقی پذیر ملک کی طرح امریکہ میں بھی کئی قسم کی سچائیوں کو معاشرتی رجحانات کے لئے زہر قاتل سمجھا جاتا ہے، ان کے منظر عام پر آنے سے امریکہ کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔

    ایسا ہی ایک سچ امریکہ کی گلی سڑی روایات اور اس کی جڑوں میں پیوست نسل پرستی اور دور غلامی ہے، جس پر امریکی ماہرین نے جمہوریت کے پردے ڈال رکھے ہیں۔ حال ہی میں ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ سے جمہوریت میں چھپی ہوئی نسل پرستی بھی بے نقاب ہو گئی ہے۔ ازابیل ولکرسن کی نئی کتاب ’’ذات پات ،ہماری بے چینی کی ماخذ ‘‘(Caste: The Origins of our Discontents) کا موضوع بھی یہی ہے۔ افریقی امریکیوں کے درد کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے انہوں نے پہلی کتاب میں بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ امریکی جمہوریت میں رنگ و نسل کی ملاوٹیں ہیں جو ناقابل برداشت ہیں۔ ان کے مطابق ’’امریکی نظام کے لئے نسل پرستی کا لفظ کہیں چھوٹا ہے اور یہ اصل برتائو کی وضاحت نہیں کرتا، اس سے شائبہ تک نہیں ہوتا کہ ایک افریقی امریکی کس قسم کے ماحول میں جنم لے رہا ہے‘‘۔ اسی لئے نئی کتاب میں انہوں نے امریکی نظام کے لئے ’’ذات پات‘‘ کا لفظ زیادہ موزوں سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہی وہ مشکل ہے جس کا سامنا ہر افریقی امریکی یا امیگرنٹ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ نے یہ نظام نازیوں سے حاصل کیا ہے‘‘۔ اگر ہم ذرا غور کریں تو یہ کتاب پڑھنے سے امریکہ اور نریندر مودی میں قربتوں کی سمجھ بھی آجائے گی۔ امریکہ میں ذات پات کا نظام جمہوریت کے پردے میں چھپا ہوا ہے، منظر عام پر آنے کی اب شروعات ہوئی ہے۔ لیکن انڈیا میں یہ بہت قدیم ہے، سب کے سامنے ہے ۔ قیام پاکستان کی ایک وجہ یہ ذات پات بھی بنی۔

    کتاب کا مرکزی خیال دو سیاہ فام اور دو گوروں کے گرد گھومتا ہے، ان دونوں کو اپنے روزمرہ کے امور کی انجام دہی کے دوران ایک جیسے حالات سے نہیں گزرنا پڑتا۔ سیاہ فام جوڑا خود کو گورے جوڑے کی بہ نسبت کہیں زیادہ مشکلات اور پریشانیوں میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ازابیل ولکرسن کی کتاب ان دونوں جوڑوں کے تجربات کا نچوڑ ہے۔انہوں نے امریکی واقعات کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ذات پات کی بنیاد پر برتری کو قابل مذمت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’ تاریخ میں ذات کی بنیاد پر اونچ نیچ کے تین اہم نظام گزرے ہیں‘‘، جن میں انہوں نے جرمنی، ہندوستان اور امریکہ کو شامل کیا ہے۔ ان کے بقول ’’ ہندوستان میں ذات کی بنیاد پر فوقیت کی تاریخ ہزار سال پرانی ہے۔ ہندوستان کی طرح امریکہ میں بھی ایک نسل نے ذات کی بنیاد پر تقویت حاصل کی، ذات پات امریکی تاریخ کا المناک حصہ ہے، لیکن یہ پردے میں تھا۔ یہ نسل پرست خود کو نیچ ذاتوں سے برتر گردانتے رہے۔ بدقسمتی سے ذات پات میںکمی کی بجائے شدت آ رہی ہے۔ ہندوستان کے برعکس امریکہ میں یہ ذات پات خاموشی سے جڑیں پکڑتی رہی۔ امریکہ ہو یا ہندوستان، دوسری اقوام پر طرح طرح کے دھبے لگا کر ان سے غیر انسانی سلوک کے دروازے کھول دیئے گئے۔ کم ترین ذات کے افراد کو کم مرتبہ یا مقام ملا۔ ان سے کام لینے کے لئے الگ ہی قوانین بنائے گئے۔ کہا گیا، ’’یہی دیوتا کی مرضی ہے، اور یہ انسان کے بس سے باہر ہے، وہ نیچ ذات کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن دیوتا کی مرضی کے باعث ایسا نہیں کر سکتے۔ اور یہ کہ اونچی ذات پاکیزہ ہے لہٰذا اسے نچلی ذاتوں کی ملاوٹ سے بچانا اور ان سے دور رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیچ ذاتوں نے بھی اسی لئے اسے برداشت کیا۔ یوں یہ قومیں نسل در نسل ناانصافی پر مبنی نظام نافذ کرتی رہیں۔ بڑائی کا تعلق اقتدار سے ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘۔

    لیکن اسلام نے ذات پات کی مذمت بھی کی اور اس کے خاتمے کا بھی اعلان کیا تو ہندوستانی اور دوسرے غیر ملکی مسلمانوں کو اپنے نظام کے لئے خطرہ سمجھنے لگے، انہیں معلوم تھا کہ اسلام کا پھیلائو ان کے نظام کی کھوکھلی جڑوں کو ختم کر سکتا ہے لہٰذ ا عالمی سطح پرمسلمانوں کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ بقول ولکرسن ،

    ’’ ذات پات پر یقین رکھنے والے ممالک اور قومیں اکھٹی ہیں۔ دھیرے دھیرے ،غیر محسوس طریقے سے اب یہ ان کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔مختلف گروپوں کو وہی جگہ ملتی ہے جو اس نظام میں ان کے لئے طے کر دی گئی ہے ، یہ لوگ اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ذات پات کی اس درجہ بندی کااخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔یعنی اگر اخلاق کا عمل دخل ہوتا تو بڑائی قابل قبول ہوتی۔اسلامی احکامات کے مطابق بڑے چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں ،ماسوا تقویٰ کے ۔یعنی اخلاقی بنیادپر کسی کو بڑا سمجھاجا سکتا ہے۔ولکرسن جو کچھ آج کہہ رہی ہیں ، یہ تعلیم مسلمان 14سو سال پہلے حاصل کر چکے ہیں۔وہ لکھتی ہیں،

    ’’(امریکہ اور ہندوستان میں) بڑائی کا تعلق وسائل سے ہے، کون دولت مند ہے اور کون بے وسیلہ۔ کون دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور کون نہیں رکھتا۔ اس کا تعلق عزت واحترام سے ہے جس کو مل گیا اسے مل گیا، جسے دیوتا نے انہیں دیا اس کا مقدر۔ یہ نظام اب ہماری ہڈیوں میں بھی رچ بس گیا ہے، ہماری خصوصیات، ہماری شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ غیر شعوری طور پر بھی ہم اسی پر عمل کرتے ہیں۔ پوری انسانیت اس کی لپیٹ میں ہے۔ دوسرے گروپوں پر اپنے ظلم و بربریت کو جائز قرار دینے کے لئے اونچ نیچ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی نظام ذات میں بھی نسل کو کلیدی حیثیت حاصل ہے‘‘۔

    کتاب میں ایک انسپکٹر تربیت کے لئے بوسیدہ طرز کا مکان حاصل کرتا ہے، یہیں اسے ناقابل برداشت تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ولکرسن اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ’’امریکہ بھی ایک بوسیدہ مکان کی مانند ہے، جس کا نظام گل سڑ چکا ہے۔ ذات برادری نے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، مخصوص طبقہ حکومت کر رہا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ وہ پیدا ہی برتر انسان کے طور پر ہوا ہے ،اس کا کام دوسروں سے کام لینے کے سوا کچھ نہیں۔ کمزور طبقے کو یہ بات ذہن نشین کرا دی گئی ہے کہ وہ اسی لئے کمتر ہے کہ دیوتا کی مرضی بھی یہی ہے۔ انہیں جو کچھ بھی مل گیا ہے، اسی پر اکتفا کریں، وہ اس سے زیادہ کے لائق نہیں‘‘۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں