1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ارطغرل سروس سٹیشن ۔۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 مئی 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ارطغرل سروس سٹیشن ۔۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

    خدا کے فضل و کرم سے ان دنوں پوری قوم ارطغرل سروس سٹیشن پر نہا دھوکر ذہنی اور جسمانی کثافتوں کو ختم کررہی ہے۔ہیروز کی کمی کے شکار ہم ‘ بڑھ چڑھ کر ارطغرل صاحب کی مدح و سرا میں مگن ہیں۔ ڈراما دیکھنے والوں کو لبھانے کے لیے وہی حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ جو ایسے کسی بھی ڈرامے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ مشہور عالم طریقے کہ تاریخ کو سیاق و اسباق سے ہٹ کر پیش کرنا اور اس کے ساتھ ہر وہ مصالحہ ڈالنا‘ جس سے دیکھنے والوں کو لطف آجائے۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ قلم لکھنے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘ جواب دہی کا کوئی ڈر ہوتا نہیں ‘ تو پھر جو جی چاہے لکھ ڈالیں ‘ دیکھنے والوں نے کون سی تصدیق کرناہوتی ہے کہ ڈرامے میں کیا دکھایا جارہا ہے؟ تاریخ کا کیا ہے؟ وہ تو بس ایسے ہی موم کی ناک ہوتی ہے‘ جس طرف چاہے مروڑ لی جائے۔ بس‘ اس حوالے سے دوچار مزید باتیں کرنا ہی مقصود ہیں کہ ہم ٹھہرے زمانے بھر کے جذباتی‘ جس کیخلاف ہوئے تو جی جان سے خلاف ہوگئے اور جو ہمیں پسند آگیا‘ اسے سرآنکھوں پر بٹھا لیا‘ وہ تو بہت بعد میں معلوم پڑتا ہے کہ ہم کس کو اپنے سروں پر سوار کربیٹھے ہیں اور یہی کچھ ہم اس وقت بھی سوچ رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر ہمارے ساتھ ہوکیا رہا ہے؟ اسی طرح اب ہماری جانے بلا کہ ''ارطغرل ‘‘کون تھا اور اسے کیا بنا کر پیش کیا جارہاہے۔اس ضمن میں بس ‘چند ایک حقائق پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:
    بلاشبہ ترکی ایک شاندار تاریخ کا حامل ملک ہے‘ جہاں قائم عثمانی سلطنت صدیوں تک دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا رہی ۔ اس ملک کی تاریخ کو اگر صحیح سے جاننا ہو تو اس کے لیےCambridge History of Turkey کی چار جلدیں کافی بہتر ذریعہ ہیں۔ پڑھنے کا موقع ملے تو ترک مورخین کی لکھی ہوئی اس کتاب کی پہلی جلد کے صفحہ 118کا مطالعہ ہی کرلیجئے گا۔ بہت کچھ سمجھ میں آجائے گا ۔ مختصراً ہم بھی آپ کو بتا دیتے ہیں کہ لکھنے والے کیا لکھتے ہیں:''ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ‘لیکن اس کی موجودگی کا پتہ اس کے بیٹے عثمان کے جاری کردہ ایک سکے سے چلتا ہے۔ ‘‘اب‘ ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوگا تو پھر اُس کے بارے میں تفصیل کیا دی جاسکتی ہے۔ یہ وجہ رہی کہ چار جلدوں پر مشتمل اس شاندار کتاب میں ارطغرل نامی شخص کا مزید کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ دوسری طرف ‘اگر ترکی پر لکھی جانے والی اُردو کی کتابوں پر نظر دوڑائی جائے تو ڈاکٹر محمد عزیز کی لکھی ہوئی کتاب دولت ِعثمانیہ بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ کتاب لکھے جانے کا مقصد مسلمانان برصغیر کو ترکوں کے کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔ ڈاکٹر عزیز اپنی تحریر میں تسلیم کرتے ہیں کہ قبیلے میں سے جس پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا‘ اُس کا نام عثمان تھا۔ تاریخ میں دوسری بہت سی شہادتیں بھی ملتی ہیں ‘جو ڈرامے میں دکھائی جانے والے بہت سے مناظر کی نفی کرتی ہیں۔ خود ترکی کے ایک مورخ نشری کی تحریر بھی بہت کچھ واضح کرتی ہے ۔ سو‘ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ فکشن کے طور پر تو ڈراما بہت شاندار ہے‘ لیکن خدارا تاریخ کو تو نہ مسخ کیجئے۔ اس میں اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی تلاش میں تو ٹامک ٹوئیاں مت مارئیے یا پھر تصورِ جہادکو ڈھونڈنے کی کوشش بھی ایک طرف ہی رکھی جائے تو عین کرمفرمائی ہوگی۔ بقول امریکن یونیورسٹی ‘بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی کے؛ارطغرل پر سیریز بنانا ایسے ہی تھا‘ جیسے خالی سلیٹ پر اپنی مرضی کے رنگ بھرنا۔۔۔‘‘ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیروز کی کمی کا شکار ایسی قوم ہیں کہ جس میں بھی ہمارے تصورات کی ہلکی سی جھلک دکھائی دے جائے ‘تو بس پھر ہم اُسی کے ہورہتے ہیں۔
    ویسے ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہونے میں کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ ہروقت ہنڈیا میں کچھ نہ کچھ اُبلتا ہی رہتا ہے‘ جس میں سے شوگر مافیا کی صورت کچھ مال تازہ برآمد ہوچکا ۔ ان کے لیے پریشانی کی بات اِس لیے نہیں کہ ہمارے ہاں ارطغرل سروس سٹیشن جیسی سہولیات ہر دور میں ہی دستیاب رہتی ہیں ‘جہاں یہ مافیا زنہا دھو کر پھر سے تازہ دم ہوجاتے ہیں ۔کسی بڑی جماعت کا کوئی رہنما پیسہ کمانے میں پیچھے رہ گیا ہوتو ہمیں بھی ضرور آگاہ کیجئے گا۔ جٹے ‘مرزے‘ زردار‘ شریف ‘ چوہدری اور کمی سب کے سب اس حمام میں ننگے دکھائی دیتے ہیں۔ بس‘ اب توجیہات اور وضاحتیں ہیں‘ جو پیسہ کمانے والوں کی طرف سے پیش کی جارہی ہیں۔ کسی کو اس بات پر حیرت ہورہی ہے کہ اُس کا نام کیسے رپورٹ میں آگیا؟ کوئی اس پر انگلی دانتوں میں دبائے بیٹھا ہے کہ اُس نے سب کچھ بہت خفیہ طور پر انجام دیا تھا تو پھرکیوں کر سب کچھ طشت از بام ہوگیا؟بس ‘یہ غلط فہمی ہی ہوتی ہے‘ جو دوسروں کے سروں پر چڑھ کر ناچنے والوں کو اندھیرے میں رکھتی ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں پڑتا۔ اسی غلط فہمی میں کوئی ایک چھوٹی سی غلطی بھی پورے ملک میں غلغلہ برپا کردیتی ہے۔ شور تو ایک عرصے سے مچ رہا تھا کہ جنوبی پنجاب میں کپاس کے رقبے پر گنا اُگائے جانے کا رحجان بڑھ رہا ہے‘ لیکن جب سب ملے ہوں تو کون ایسے شور پر کان دھرتا؟ رپورٹ کو بغور پڑھیں تو آسانی سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ شوگر مافیا کے ارکان تہہ در تہہ پرا ٹھے کی مانند فراڈ کے مرتکب ہورہے تھے۔ چینی برآمد کیے جانے پر فراڈ‘ چینی پیداوار پر اُٹھنے والے اخراجات کے غلط اعدادوشمار اور پھر بھاری سبسڈی کا بھی حصول۔ پچھلی حکومتوں میں وزرا ء کرام کی فہرستیں اُٹھا کر دیکھ لیجئے ‘ بیشتر حکومتوں میں شوگر مافیا کے اراکین نمایاں وزارتوں پر براجمان دکھائی دیں گے۔ موجودہ حکومت جب برسراقتدار آئی تو ان کی بڑی تعداد اس حکومت میں بھی اثرورسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اب نتیجہ ان کی کی گئی 150ارب روپے کمائی کی صورت سب کے سامنے ہے۔
    رپورٹ سامنے لانے والے رپورٹ سامنے لانے کا کریڈٹ لینے کی بھرپور سعی کررہے ہیں۔ یہ تک کہا جارہا ہے کہ حکومت کوجٹے ‘مرزے‘ زردار‘ شریف ‘ چوہدری اور کمی تک کی ناراضگی کا صدمہ بھی جھیلنا پڑ سکتا ہے ‘لیکن حکومت نے تمام تر خدشات کے باوجود بڑارسک لیا ہے۔ یہ سب اپنی جگہ ‘ لیکن اس بات پر کان نہیں دھرا جارہا ہے کہ شوگر مافیا کو کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرنے والے کون تھے؟رپورٹ میں اسد عمر کی طرف سے دئیے جانے والے بیان کو غیرتسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔کمیشن نے چینی کی برآمد کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤدکے دلائل سے بھی اتفاق نہیں کیا ۔اسی طرح سبسڈی دئیے جانے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بیان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس تمام چاک چکر میں مسابقتی کمیشن کا کردار بھی سوالیہ نشان بنا دکھائی دیتا ہے ۔ ان حالات میں‘ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اب قانون کا پہیہ حرکت میں آئے گا تو فی الحال ایسی اُمیدوں کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے ۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ اگر پیسہ کمانے والے زد میں آئیں گے ‘تو پھر یہ مواقع فراہم کرنے والوں پر بھی چھینٹے پڑیں گے۔ سلسلہ مزید آگے بڑھا تو کوئی بھی نہیں بچے گا ۔ ان حالات میں کہ جب حکومت پہلے ہی لعن طعن کا نشانہ بنی ہے ‘ کون کیوں کر یہ رسک لے گا ؟ یوں بھی ہمارے ہاں ہردور میں ہی ارطغرل سروس سٹیشن جیسی سہولت دستیاب رہی ہے ‘جہاں نہا دھو کر سب پاک صاف ہوجاتے ہیں۔ ماضی کا کیا ہوتا ہے‘ اُسے تو جس طرح چاہے ‘پیش کیا جاسکتا ہے ۔بس‘ کچھ وقت گزرنے کی بات ہوتی ہے۔
    اس مرتبہ تو ماہ رمضان کی رونقیں نہ دکھائی دینے سے دل پہلے ہی بجھا ہواتھا کہ اس کے اختتام پر پیش آنے والے طیارہ حادثے نے پوری قوم کو افسردہ کردیا۔ کورونا نے کیا کم ستم ڈھایا ہوا تھا‘ جو عین عید کے موقع پر متعدد پیارے دنیا سے منہ موڑ گئے۔ عید تو پہلے ہی پھیکی پھیکی سے گزرنی تھی‘ لیکن طیارہ حادثے کے بعد تو تمام رنگ ہی پھیکے پڑ گئے ۔ جانے والے جا چکے اور اپنے پیچھے وہی روایتی سی بحث چھوڑ گئے ہیں کہ اس میں کس کا قصور تھا؟ بحث کا بھی کیا نتیجہ نکلنا ہے‘ وہی جو اس سے پہلے ایسے واقعات میں نکلتا رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ملک میں اس سے پہلے پیش آنے طیاروں کے حادثات یا پھرپے درپے پیش آنے والے ٹرین حادثات کی تحقیقات کے نتائج دیکھ لیں۔ تمام صورتِ احوال واضح ہوجائے گی۔ انسان کو کچھ تو اپنی بات کا پاس ہوتا ہے ‘لیکن افسوس کہ کسی طرف سے بھی ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی۔ بس‘ جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور تو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن مجید اللہ رب کریم کی وہ کتاب ہے جس کا ایک ایک حرف ایک ایک نقطہ تا قیامت رد و بدل کے بنا لفظ بہ لفظ محفوظ رہے گا
    باقی آسمانی کتابوں میں تحریف بارہا دیکھا جا چکا ہے اور تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے

    اسی طرح تاریخ لکھنے والے اپنے قلم کے مالک ہوتے ہیں جو تحریر کرتے ہیں اب ہمارے پاس کوئی فارمولا یا ترازو نہیں کہ ناپا تولا جا سکے کہ اس لکھنے والے کا دل و دماغ کس طرف مائل ہے
    اس بات سے انکار نہیں کہ ڈراموں میں مرچ مصالحہ استعمال کیا جاتا ہے
    کیوں کہ وہ کسی آیت کا ترجمہ نہیں ہے کہ لفظ بہ لفظ کیا جائے

    کچھ اچھے لوگ ہمارے پاک وطن میں عمران خان صاحب کے قصیدے لکھتے ہیں تو کچھ لوگ نواز شریف صاحب کے قصیدے لکھتے ہیں اور سڑکوں پر نقاب کشائی کے تختے دکھاتے ہیں
    اور مجھ غریب سے پوچھا جائے تو میں تو اس شخص کی پیرو کار ہوں جسے ہمارے یہاں غدار تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے پاکستان کے صرف چار صوبے لینے پر اعتراض کیا تھا کیوں کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم وطن کے متمنی تھے.

    بہر حال سہیل احمد قیصر کی اس تحریر میں اپنے ہی لکھے الفاظ میں تضاد پایا جاتا ہے
    ایک طرف فرماتے ہیں " ترکی ایک شاندار تاریخ کا حامل ملک ہے‘ جہاں قائم عثمانی سلطنت صدیوں تک دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا رہی"
    دوسری طرف کہتے ہیں "خدارا تاریخ کو تو نہ مسخ کیجئے۔ اس میں اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی تلاش میں تو ٹامک ٹوئیاں مت مارئیے یا پھر تصورِ جہادکو ڈھونڈنے کی کوشش بھی ایک طرف ہی رکھی جائے تو عین کرم فرمائی ہوگی

    جو لوگ چھ سو سال تک حکمرانی کرتے رہے اور تین بر اعظموں پر حکومت رہی ان کی کچھ تو تاریخ ہوگی
    ارطغرل کے جہاد میں شک کرتے والے حضرات کو تاریخ سے ہی ملے گا کہ

    ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا
    اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اول ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔ سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا

    سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔

    اس عظیم سلطنت کی مثال دے کر مسلمانوں کو جگانے کے لیے اس ڈرامے کے ذریعے عوام کو بیدار کرنا کچھ غلط تو نہیں ہے
    اور آپ جن مورخ کا ذکر کرتے ہیں ان کا کیا بھروسہ کہ وہ سچ ہی لکھتے ہوں کیا کوئی صلیبی ارطعرل کی درست داستان لکھ کر دے گا؟ کیا آپ کو ان پر بھروسہ ہے ؟

    ایک اور جگہ تحریر ہے
    ''ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ‘لیکن اس کی موجودگی کا پتہ اس کے بیٹے عثمان کے جاری کردہ ایک سکے سے چلتا ہے۔ ‘‘
    تو سہیل احمد قیصر صاحب کسی سلطنت کے سکے پر ہر ایرے غیرے نتو کیرے کا ذکر تو نہیں ہوتا ہوگا نا؟
    اور اس وقت کے مطابق کسی فاتح کا ذکر ہی ملے گا

    یہ جو تاریخ کو مسخ کرنے کی بات کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ جا کر وہاں ان کی قبروں کا اور ان سے متعلق اشیا ء پر بھی مقدمہ چلائے کہ ترک حکومت نے وہ سب اپنی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بنائے ہیں

    چھ سو سال ترکوں کی حکومت اور 1200 سو سال ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت سے انکار مشکل ہے
    کیوں کہ یہ ایک تاریخ ہے.

    یہ آپ سے کس نے کہا کہ ہمارے پاس ہیروز کی کمی ہے

    اب آپ اپنی تحریف میں مسیحی مورخ کے حوالے دے کر نہ جانے کیوں مسلمانوں کے ہیروز کا انکار کرتے ہو ان الفاظ کے ساتھ کہ
    ‘‘ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیروز کی کمی کا شکار ایسی قوم ہیں کہ جس میں بھی ہمارے تصورات کی ہلکی سی جھلک دکھائی دے جائے ‘تو بس پھر ہم اُسی کے ہورہتے ہیں۔

    عمر بن خطابؓ:
    حضرت عمر بن خطابؓ کو تو آپ جانتے ہی ہیں یہ اسلامی تاریخ کے دوسرے خلیفہ تھے اور ان کے دورِ خلافت میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں اور دینِ اسلام پوری دنیا میں پھیلا۔ حضرت عمرؓ کے والد کا نام الخطاب تھا۔ یہ تاریخ کے سب سے طاقتور اور با اثر حکمران تھے۔ یہ مکہ میں شروع کے دور میں ہی ایمان لے آئے تھے۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اسلام دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھرا تھا۔ فارس اور بازنطین (مشرقی رومن) جو دنیا کی بڑی طاقتیں تھیں حضرت عمر کے دورِ خلافت میں فتح ہوئیں صرف دس سال کی مختصر مدت میں فارس، بازنطین، شام، فلسطین، مصر اور ترکی کا کچھ حصہ اسلام کے زیر دست آگیا۔ حضرت عمرؓ محض ایک فاتح ہی نہیں تھے بلکہ بہترین منتظم بھی تھے۔ انہوں نے دنیا کو ایک ایسا زبردست اور منظّم نظام قائم کر کے دکھایا جسے آج بھی دنیا کے بہترین ممالک اپنا کر ترقی کر رہے ہیں۔
    ہمارے پیارے نبیﷺ حضرت عمر فاروقؓ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے۔ ایک بار اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں سے بہت سے لوگ رسول نہیں تھے لیکن اس کے باوجود اللہ سے بات کیا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں سے کوئی ایسا ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔

    حضرت علی ابن طالبؓ:
    حضرت علیؓ پیارے نبیﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ انہوں نے نبیﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔ حضرت علیؓ بے حد بہادر انسان تھے، جس کام کو کرنے کا سوچتے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ جنگ کے میدان میں بڑے بڑے بہادر جنگجو بھی حضرت علیؓ کو زیر نہیں کر سکے۔ وہ بے حد عقلمند اور ذہین صحابی تھے۔ ایک بار صحابہ کرام خیبر کی جنگ میں قلعے کو فتح نہیں کر پارے تھے، یہاں تک کہ صحابہ کرام کی ہمت جواب دینے لگی اس وقت حضرت علیؓ کے ہاتھ میں علم آیا اور انہوں نے اپنے بازو سے خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکا۔ اس دروازے کو کھولنے کے لئے بھی چالیس لوگ درکار ہوتے تھے۔ اس واقعے کے بعد حضرت علیؓ کو حیدر کا خطاب ملا جس کا مطلب ’اللہ کا شیر‘ ہے۔

    حضرت خالد بن ولید:
    حضرت خالد بن ولیدؓ کا لقب سیف اللہ تھا، سیف اللہ کا مطلب ہے ’اللہ کی تلوار‘۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہت مختصر افواج کے ساتھ بازنطین اور فارس جیسے عظیم طاقتوں کو اکھاڑ پھینکا۔ ان کی ساری زندگی جنگ کے میدان میں گزری لیکن وہ شہید نہیں ہوئے جس کا انہیں آخری وقت میں بہت دکھ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی تلوار تھے اور اللہ کی تلوار کبھی ٹوٹ نہیں سکتی۔ وہ جس جنگ میں حصہ لیتے اس جنگ کو جیت جاتے تھے۔

    طارق بن زیاد:
    طارق بن زیاد موسیٰ بن نُصیر کے غلام تھے، موسیٰ بن نُصیر نے انہیں اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ طارق بن زیاد اپنی فوج لے کر اسپین کے ساحل پر اترے اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالیں اوراپنی فوج سے کہا فتح یا شہادت، اسکے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے اور پھر مسلمانوں نے اسپین کو فتح کر لیا۔ یہ مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔

    محمد بن قاسم:
    محمد بن قاسم محض سترہ برس کے تھے جب انہوں نے راجہ داہر کی فوج کو شکست دی۔ راجہ داہر ایک ہندو راجہ تھا اس نے چند مسلم خواتین اور بچوں کو اپنا یرغمال بنا لیا تھا۔ ان خواتین میں سے ایک نے مسلم حکمرانوں کو دہائی دی، جب اس وقت کے مسلم حکمران کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے محمد بن قاسم کو فوج لے کر سندھ کی طرف بھیجا تا کہ وہ ان خواتین اور بچوں کو آذاد کرواسکے۔ محمد بن قاسم وہ سپہ سالار تھا جس نے پہلی بار ایشیا میں اسلام متعارف کروایا۔

    محمود غزنوی:
    محمود غزنوی غزنی کے حکمران تھے یہ جگہ افغانستان میں واقع ہے۔ انہوں نے برصغیر میں ہندوؤں سے جنگ کی اور ہندوؤں کے سب سے بڑے مندر سومنات پر سترہ حملے کئے اور کامیاب ہو کر مندر میں موجود تمام بت گرا دیئے، ان میں سومنات نامی بت سب سے مشہور ہے۔ اس کے بارے میں ہندوؤں کا کہنا تھا کہ اسے کوئی فتح نہیں کر سکتا اور نہ اسے توڑا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندوؤں نے محمود غزنوی کو بت نہ توڑنے پر بیش بہا قیمت دینے کی پیش کش کی، جسے انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں بت فروش نہیں بت شکن کہلانا پسند کروں گا اور سومنات کا بت توڑ دالا۔

    نورالدین زنگی:
    نورالدین زنگی ترک زنگی خاندان کا ایک بہت طاقتور حکمران تھا۔ اس نے شام میں صیہونیوں کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں شکست دی۔ وہ ایک رحم دل اور زیرک بادشاہ تھا۔ اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بے شمار کام کئے۔ یونیورسٹیز قائم کیں، ان جامعات میں قرآن اور حدیث کی مکمل تعلیمات دی جاتی تھیں اور وہاں پڑھنے والے طالب علموں کو ڈپلومہ کی ڈگری دی جاتی تھی۔ نور الدین زنگی خود بھی حدیثیں پڑھنے کا شوقین تھا۔ ان کے استادوں نے انہیں حدیث میں ڈپلومہ کی ڈگری سے نوازا تھا۔ اس نے مفت علاج کے لئے شہروں میں ہسپتال قائم کئے۔ حاجیوں کے لئے سڑکیں بنائیں۔ سراگاہیں قائم کیں، ہفتے میں کئی دن عوام کے مسائل سننے کے لئے عدالت قائم کرتا اور لوگوں کو انصاف مہیا کرتا تھا۔ اس کا انصاف امیر غریب سب کے لیے یکساں تھا جو بھی زیادتی کرتا اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی تھی۔

    صلاح الدین یوسف ابن عباس:
    سلطان یوسف ابن عباس نے مصر، شام اور فلسطین کو متحد کیا۔ ہتھن کی جنگ میں فتح حاصل کی، اس کے علاوہ یروشلیم کے کئی حصے صہیونیوں سے واپس لئے اور مسلمانوں کو ایک نئی طاقت دی۔

    ٹیپو سلطان:
    ٹیپو سلطان میسور کے ٹائیگر کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ میسور کے حکمران تھے۔ انہوں نے برطانوی فوج کے ساتھ سخت مقابلہ کیا انہوں نے اپنی فوج میں ایک انٹلی جینس بنائی اور کئی سالوں تک برطانوی فوج کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کے اپنے قریبی لوگوں نے انہیں دھوکہ دیا اور برطانوی فوج سے جا ملے اور ٹیپو سلطان کو شہید کردیا۔ ان کی شہادت کے کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود برطانوی فوج خوف سے ان کی لاش کے قریب نہیں آئی۔ سلطان ٹیپو حقیقت میں ایک شیر تھے۔ ان کا قول ہے کہ
    گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔
    سلطان ٹیپو نے اس قول پر عمل کر کے دنیا کو دکھایا۔ وہ ایک بہت بہادر بادشاہ تھے۔

    خدارا مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے کی بجائے دبانے کی کوشش نہ کیجیے
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    میں تو اس شخص کی پیرو کار ہوں جسے ہمارے یہاں غدار تصور کیا جاتا ہے
    کونسی شخصیت کے متعلق لکھا ہے ؟
     
    زنیرہ عقیل اور intelligent086 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نان وائلنٹ سولجر آف اسلام فلسفہ عدم تشدد کا پرچار کرنے والا خان عبدالغفار خان مرحوم
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    فکر نہ کریں
    کہنے والوں نے تو مادر ملت کو بھی غدار کہا ہے
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فکر تو میں کرتی نہیں لیکن دکھ ہے کہ ان کی اولاد ان کے نقش ِ قدم پر 100 فیصد نہیں چل رہی
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ولی خان تو کافی ھد تک چلے تھے مگر اسفند یار ولی کی سیاست کافی مختلف رہی ہے
     
    زنیرہ عقیل اور intelligent086 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن باباکے افکار باباکافلسفہ عدم تشدد مشعل راہ ہیں
    بس سمجھنے کیلئے آنکھوں سے پٹی اتارنے کی ضرورت ہے
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں