1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ارسطو کی جدوجہد۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : دانش علی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ارسطو کی جدوجہد

    تحریر : دانش علی
    ارسطو کے بچپن سے بہت سی کہانیاں منسوب ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس نے باپ دادا کی کمائی رنگ رلیوں میںاڑا دی۔ فاقہ کشی سے بچنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوا۔ مطب قائم کرنے کے لیے سیٹگیریس واپس آیا اور 30 سال کی عمر میں ایتھنز گیا تاکہ افلاطون سے فلسفہ پڑھے۔ نسبتاً ایک زیادہ باوقار افسانہ یہ ہے کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایتھنز پہنچ گیا۔366 قبل مسیح میں بھری گرمی میں ایک دن ایک نوجوان نے افلاطون کی اکیڈمی میں امتحان داخلہ کی درخواست پیش کی۔ یہ شخص مقدونیہ کے شہر استاجرا سے آیا تھا۔ اس علاقہ کو اہل ایتھنز’’وحشی مغرب‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ مگر اس شائستہ نوجوان میں اجڈپن کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے تھے۔ وہ شستگی اور نفاست کا مجسمہ تھا۔ اس کی پرورش ایک مہذب ماحول میں ہوئی تھی۔ اس کا باپ جو اب مر چکا تھا، نے اس کی تربیت شاہی دربار میں کی۔ اپنے بچپن کے ابتدائی ایام سے ارسطو کو نظم و ضبط کی تعلیم ملی تھی اور اس کے دن بڑے ہی آرام سے گزرے تھے۔ افلاطون کی اکیڈمی میں اس کی آمد نے طلباء میں ہلچل پیدا کر دی۔ یہ نوجوان امیروں کا امیر، خوش خلق، صاف ستھرا، خوبرو، شیریں گفتار، حلیم الطبع، شائستہ کردار، خوش پوش اور مجسمِ اخلاق تھا۔ سچ پوچھا جائے تو اس میں ایک طرح کا بانکپن تھا۔ اس کی زبان میں لکنت تھی۔ افلاطون اکثر شکایت کرتا تھا کہ وہ خلوص کے ساتھ علم سے محبت کرنے کے بجائے اپنے لباس کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں استاد شاگرد طباع تھے اور سب جانتے ہیں کہ ایک جوہرِ قابل دوسرے جوہرِ قابل سے اس طرح بنتا ہے جیسے ڈائنامیٹ سے آگ۔ دونوں کے درمیان نصف صدی کا فرق تھا۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کے باوجود سالوں کی اس خلیج کو پاٹنا اور روحانی اختلاف کو رفع کرنا دشوار تھا۔ افلاطون نے فوراً جان لیا تھا کہ یہ نیا شاگرد جو بظاہر شمال کے وحشی علاقوں سے آیا ہے ذہنی عظمت کا مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے ذہن کی حیرت انگیز ہمہ گیری کا مظاہرہ کیا۔ یہ بعید ازقیاس معلوم ہوتا ہے کہ دماغ علم کے اس قدر گوناگوں پہلوئوں کا احاطہ کر سکتا ہے۔ سیاست، ڈرامہ، شاعری، طبیعات، ادویات، نفسیات، تاریخ، منطق، ہیئت، اخلاقیات، ریاضی، خطابت، حیاتیات، یہ تھے دسترخوانِ علم کے چند اقسامِ طعام جسے اس کی حریص اشتہا علم ہضم کرنا چاہتی تھی۔ افلاطون نے ایک مرتبہ ازراہِ مذاق کہا تھا کہ اس کی اکیڈمی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے ایک تو اس کے طلباء کا جسم، دوسرا ارسطو کا دماغ۔افلاطون جیسے عظیم استاد اور ارسطو جیسے ذہین ترین شاگرد کا زیادہ عرصہ تک نباہ نہ ہو سکا۔ یکساں دماغی سطح کے دو یونانی جب آپس میں ملتے ہیں تو ان میں ٹکرائو ضرور ہوتا ہے۔ بوڑھا حکیم اور نوجوان فلسفی ایک دوسرے کی تعظیم و تکریم کے ساتھ ساتھ ہمیشہ جھگڑتے رہتے تھے۔ 347 ق م میں افلاطون کے انتقال کے وقت ارسطو37 سال کا تھا۔ وہ افلاطون کے جانشین کی حیثیت سے اکیڈمی کی صدارت کا جائز حق دار تھا لیکن اسے اس میں ناامیدی ہوئی۔ اکیڈمی کے متولیوں نے اسے غیر ملکی قرار دے کر مقامی شخص کو صدارت کا منصب سونپ دیا۔ اپنی ناکامی پر برہم ہو کر ارسطو ایتھنز کو چھوڑ دینے کا موقع تلاش کرنے لگا۔ انہی دنوں اسے اپنے ایک سابقہ ہم جماعت ہرمی یاس کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ ہرمی یاس فلسفہ سے شغف رکھنے والا ایک سیاست دان تھا۔ ایشیاء کوچک کے ایک بڑے رقبہ پر اس کی حکمرانی تھی۔ سائرا کیونہ کے بادشاہ سیمونی سس کی طرح وہ بھی اس بات کا آرزو مند تھا کہ ایک حکیمانہ نظم و نسق کا تجربہ کیا جائے بشرطیکہ حکمت اس کی دولت میں مداخلت نہ کرے۔ دوسری طرف ارسطو کو اگر دلچسپی تھی تو فقط عدل و انصاف سے، اس لیے وہ اپنے دوست کے دولت اندوزی کے جذبہ کو نیکوکاری میں تبدیل نہ کر سکا۔ تاہم وہ ہرمی یاس کی برادر زادی اور متبنی لڑکی پائی تھیاس کے ساتھ شادی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پائی تھیاس مال و دولت کی کثیر مقدار بطور جہیز اپنے ساتھ لائی۔ ارسطو کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا کیونکہ وہ حصولِ مسرت کے لیے دولت کی ایک مناسب مقدار کو ضروری تصور رکرتا تھا۔ پائی تھیاس سے شادی کرنے کے بعد اس نے اپنا پیسہ تجارت میں لگا دیا اور ماہِ عروس گزارنے کے لیے سمندر کے کنارے چلا گیا اور وہاں سائنسی تحقیقات کی غرض سے گھونگھے جمع کرنے میں اپنا وقت صرف کرنے لگا۔ ماہِ عروس گزرنے کے بعد وہ ہرمی یاس کے دربار میں واپس آگیا۔ لیکن وہ زیادہ عرصہ تک وہاں قیام نہ کر سکا۔ ہرمی یاس کی سازشوں کی وجہ سے شاہِ ایران مشتعل ہوگیا اور اس پر حملہ کرکے اسے قید کر لیا اور پھانسی دے دی۔ ارسطو پر دوبارہ مصیبت یہ ٹوٹی کہ نہ اس کا کوئی ملک رہا اور نہ کوئی کام لیکن اس مرتبہ پھر ایک تاجدار دوست اس کے آڑے آیا۔ یہ دوست تھا مقدونیہ کا بادشاہ فلپ، امینتاس کا بیٹا اور سکندر کا باپ۔ فلپ نے ارسطو کو سکندر کے اتالیق کی حیثیت سے اپنے دربار میں بلوایا۔ ارسطو جب اس کے دربار میں پہنچا جہاں کچھ عرصہ قبل اس کا باپ شاہی طبیب کی حیثیت سے کام کر چکا تھا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی حالت اس مچھلی کی سی ہو گئی تھی جو پانی سے نکال لی گئی ہو۔ سکندر ایک ایسے خونخوار کا بچہ تھا جسے اب تک انسان بنانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دربار کا دربار غراتے ہوئے درندوں کا جنگل تھا، فساد، عیاشی اور خون خرابہ آئے دن کے کارنامے تھے۔ شاہ فلپ کی بیوی اولمپیاس پاگل پن کی حد کو پہنچ چکی تھی۔ فلپ اور سکندر بھی پاگلوں سے کچھ کم نہ تھے۔ شاہی ضیافت کے ایک موقع پر سکندرکی گستاخی سے برانگیختہ ہو کر شاہ فلپ نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ سکندر بھلا کب خوف کھانے والا تھا اس نے بھی اپنے باپ پر حملہ کر دیا۔ مگر ان دونوں کی خوش قسمتی اور دنیا کی بدبختی سے ملازمین دربار نے انہیں علیحدہ کر دیا۔ یہ تھا وہ ہنگامہ پرور مقام جہاں ارسطو کو علمِ و دانش کی روشنی میں صلح و آشتی کا پیغام دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن یہ سب بے فیض تھا۔یہ وہ ماحول تھا جس میں ارسطو نے اپنے آپ کو نکھارا اور ایک عظیم فلسفی بنا ۔ ہر بڑے آدمی کو مشکلات دیکھنی پڑتی ہیں۔ کوئی آرام کی سیڑھی سے بلندی تک نہیں پہنچا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں