1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اردو ہے جس کا نام ۔۔۔ ( مستقبل کے خطرات)

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏8 اگست 2008۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اردو ہے جس کا نام
    طاہرہ اقبال​



    UNIنے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں بولی جانے والی تقریباً سات ہزار زبانوں میں سے نصف زبانوں کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
    Living Tongues institute of endangered languages. نامی ادارہ جو زبانوں کے متروک ہونے کے خطرات پر کام کر رہا ہے، اس ادارے نے دنیا میں پانچ ایسے علاقوں کی نشاندہی کی ہے جہاں اقلیتی زبانیں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ اس ادارے کا تجزیہ ہے کہ اقلیتی زبانوں کے ختم ہو جانے سے نہ صرف ایک زبان ختم ہوتی ہے بلکہ اس زبان سے منسلک صدیوں پر محیط تہذیب و ثقافت، انسانی علوم اور تاریخ بھی صفحہٴ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ مذکورہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو زبانیں خطرے سے دوچار ہیں ان میں سے بعض ایسی ہیں جو محض چند افراد ہی بول سکتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر ہر دو ہفتوں میں ایک زبان متروک ہو رہی ہے۔ تحقیق کے مطابق نوجوانوں کے شہری علاقوں میں نقل مکانی کر جانے اور وہاں جا کر انگریزی یا دوسری عالمی زبانیں سیکھنے سے زبانوں کے متروک ہونے کے رجحان میں تیزی آ گئی ہے۔ تحقیقی ٹیم نے زبانوں کو درپیش خطرے کے پیش نظر ایک نقشہ بنایا ہے جس پر ان خطوں کو نمایاں کیا گیا ہے، جہاں علاقائی و مقامی زبانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس تحقیق میں شامل ایک امریکی ماہر لسانیات ڈیوڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ ایسے پانچ نمایاں ترین خطوں میں شمالی آسٹریلیا، مشرقی سائبیریا اور شمالی امریکہ کے علاقے شامل ہیں۔ شکر خدا کا کہ ایشیا ان علاقوں کی فہرست سے بچ گیا جب کہ یہاں بھی کئی مقامی زبانیں ہلاکت کے عمل سے دوچار ہیں۔ اس رپورٹ میں دم توڑتی زبانوں کو ریکارڈ کر کے محفوظ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ زبانوں کے مرنے سے سب سے بڑا خدشہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے مقامی سطح پر پائی جانے والی معلومات کا خزانہ بھی جاتا رہتا ہے مثلاً پودوں، جانوروں، جگہوں کے نام اور ان کے بارے میں معلومات وغیرہ… ایک زبان میں جمع کی ہوئی معلومات اور حکمت کا اظہار کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ہر زبان کا معلومات جمع کرنے کا ایک اپنا طریقہ ہوتا ہے، جب لوگ کوئی دوسری عالمی زبان شروع کر دیتے ہیں تو اپنی مادری زبان کی معلومات کا خاصا حصہ چھوڑ جاتے ہیں۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ ہر زبان دنیا کو دیکھنے کا الگ ڈھنگ دیتی ہے۔ آج کل دم توڑتی زبانوں کو بچانے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے لیکن ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اس عمل میں کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب نئی نسل کو اپنے والدین، دادا، دادی یا نانا، نانی کی زبانیں بولنے کی طرف راغب کیا جائے۔ ماہرین اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زبانوں کے خاتمے سے بائیو ڈرائیورسٹی کے بچاؤ کو بھی خطرہ درپیش ہے۔ امریکی سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ ہیریسن کے مطابق ایکوسسٹم کے بارے میں زیادہ معلومات تاحال زبانی روایات تک محدود ہیں۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ اگر زبانوں کو خاتمے سے بچانے کی کوشش کی جائے تو اس سے معلومات کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے … یعنی بات وہی ہے کہ زندہ قومیں اپنی زبان کے حوالے سے ہی اپنی شناخت اور وجود رکھتی ہیں، جس زبان میں کسی قوم کا مذہبی، اخلاقی، سماجی، ثقافتی، علمی، تاریخی ورثہ محفوظ ہو اگر وہی زبان آنے والی نسلوں کو بھلا دی جائے تو یقیناً اس قوم کے ذہن و قلب پر فتح یاب ہونا کسی بیرونی قوم کے لیے مشکل نہ ہو گا۔ اسی لیے فاتحین جب کسی شہر کو روندتے ہوئے داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں کے تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، علمی، ادبی سرمائے کی لوٹ مار کا اذن عام دیتے ہیں کہ مفتوح قوم کے پاس ایسی کوئی بنیاد اور انفرادی شناخت باقی نہ بچ رہے کہ وہ پھر سے اپنی جداگانہ حیثیت یا آزادی کے لیے برسرپیکار ہو سکیں۔
    اردو انتہائی ثروت مند زبان ہے کیونکہ اس میں انتہا درجہ کی لچک یعنی دیگر زبانوں کے الفاظ سمونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کی تشکیل ہی نظریہٴ ضرورت کے تحت عمل میں آئی۔ شاہی لشکروں میں عربی، فارسی، ترکی اور مختلف مقامی بولیاں بولنے والے سپاہی موجود ہوتے تھے۔ باہمی رابطہ کے لیے انہوں نے ایک ایسی بول چال کی زبان اختیار کی جو مختلف زبانوں کا آمیزہ تھی۔ محمد حسین آزاد نے اپنی تاریخ ادب آب حیات میں اردو کے آغاز کے متعلق نتیجہ اخذ کرتے ہوئے یہ مثل تحریر کی ہے۔
    کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
    بھان متی نے کنبہ جوڑا
    کے مصداق یہ زبان مختلف بولیوں اور زبانوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ ضرورت یا رابطے کی زبان جو ہندی، ہندوی، ریختہ اردو معلیٰ کے ناموں اور اک گنگا جمنی ثقافتی اور علمی و ادبی عمل سے گزرتے ہوئے بالآخر اردو کے نام سے معروف ہوئی جو آج ہماری زبان ہے۔
    برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جلد ہی بھانپ لیا تھا کہ اس ملک میں آئندہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے اسی لیے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یوں اردو کی بالواسطہ طور پر ترویج بھی ہونے لگی لیکن ہندووانہ تعصب کی بنا پر سنسکرت کے بھاری بھرکم الفاظ اور دیوناگری رسم الخط کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا اور اردو کو بتدریج مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی سازش رچائی گئی۔ سر سید احمد خان نے ابتداً جو دو قومی نظریہ کا تصور دیا تو اس کی بنیادی وجہ یہی اردو ہندی جھگڑا ہی تھا۔
    پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اگرچہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا لیکن عملاً یہ زبان اپنے ہی ملک میں کسمپرسی اور زوال کا شکار رہی۔
    ہندوستان میں تو اسے مسلمانوں کی شناخت کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی لیے معروف محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لکھا کہ تقسیم ہند کا بدلہ کسی سے لیا جاتا ہو یا نہ لیا جاتا ہو مگر اردو سے ضرور لیا جاتا ہے۔
    اسی تقسیم کا بدلہ لینے کے لیے اک بین الاقوامی سازش کے ذریعے بنگال میں اردو سے نفرت کو اس حد تک بڑھا دیا گیا کہ بالآخر یہ معاملہ علیحدگی کی شکل میں اختتام پذیر ہوا۔ اگرچہ آج بھی وہاں ہندوستانی فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے اردو سمجھی جاتی ہے اور انڈین گانے خوب مقبول عام بھی ہیں لیکن انتقاماً
    اردو کی بیخ کنی کا عمل جاری ہے، وہاں اردو اخبار یا پرچہ نکالنا اردو بولنا کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ اسی لیے اردو بولنے والے بھی اردو سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں لیکن پاکستان میں بھی تو اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ ایسا ہی انتقامی، سنگدلانہ اور سوتیلا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس وقت انتہائی دکھ اور ندامت کا احساس ہوا جب ہماری صوبائی اسمبلیوں نے مقامی زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں حلف اٹھائے۔ کیا قومی زبان کی نسبت انگریزی زبان سے ہماری نسبت کچھ زیادہ ہے یا محض نفرت برائے نفرت کا برملا اظہار تھا۔ معروف شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی خودنوشت ” یادوں کی بارات “ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک سرکاری افسر کو اردو میں خط لکھا جواب انگریزی میں آیا تو انہوں نے انگریزی زدہ افسر کو جواباً لکھا ” میں نے تو اپنی مادری زبان میں آپ کو خط لکھا تھا لیکن آپ نے اپنی پدری زبان میں مجھے جواب دیا “۔
    انگریزی کی ترویج ہماری ضرورت اور مجبوری سہی لیکن اس کی آڑ میں اپنی قومی زبان کی بیخ کنی زندہ قوموں کا شعار نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں کمزور پڑتی مذہبی و اخلاقی اقدار کی وجہ جب میں نے دریافت کی تھی تو جواب ملا اس کی وجہ یہاں اردو زبان کا خاتمہ ہے کیونکہ اردو میں ہی مذہبی و اخلاقی سرمایہ احادیث و تفاسیر محفوظ تھیں جب اردو کو یہاں بین کیا گیا تو اردو حروف تہجی سے ناواقفیت کی بنا پر بچوں کو قرآن پاک پڑھنا بھی دشوار ہو گیا، مجھے خیال آ رہا تھا کہ آج جب ہمارے بچے گلط اور کھراب بول رہے ہیں تو ان کا قرآن پاک کا تلفظ کیسے درست ہو گا۔ انگریزی بولنا اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ اردو عوام الناس اور ملازموں کی زبان سمجھی جانے لگی ہے جس طرح کبھی پنجابی بولنا باعث شرم سمجھا جاتا تھا، آج بچوں کے ساتھ، ہوٹلوں اور عوامی مقامات پر انگریزی بول کر رعب گانٹھا جاتا ہے۔ انگریزی اسکولوں میں اردو میں بات کرنے پر بچوں کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اس احساس زیاں سے قطع نظر کہ ہم اپنے بچوں کو ماڈرن یا برتر نہیں بنا رہے بلکہ ان کے قدموں تلے سے ان کی اپنی زمین کھسکا رہے ہیں۔ ان کی شناخت اور حقیقت ختم کر رہے ہیں۔ میڈیا اور خصوصاً ایف ایم ریڈیو پر جو شترگرگی بولی جا رہی ہے، عوام اس کی نقل کر رہے ہیں۔ اردو کے خوبصورت الفاظ جملے اور شعر تفنن طبع کے لیے بولے اور قہقہے لگائے جاتے ہیں۔ اردو کے ساتھ روا رکھی جانے والی صریحاً زیادتی پر عملی و ادبی ادارے خاموش ہیں کہ ان اداروں کے کرتا دھرتا تو خود اپنے بچوں کو امریکہ یورپ منتقل کرنے کی فکر سے دوچار ہیں، زبانوں کی سرپرستی حکومتیں اور زندہ قومیں کیا کرتی ہیں، ہماری ڈنگ ٹپاؤ حکومتیں اپنے ہی وجود کی بقا کے لیے ہاتھ پیر مارتے ختم ہو جاتی ہیں۔ عوام ملکی عدم استقامت کے خوف سے کہیں باہر پرواز بھرنے کو منقار انگریزی سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، تو آخر اس زبان کا پرسان حال کون ہے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی اس زبان پر بھی ایسا برا وقت آ جائے کہ اسے بھی ان زبانوں کے زمرے میں داخل ہونا پڑے جو اپنے وجود کی بقا کے خطرات سے دوچار ہیں۔

    بشکریہ روزنامہ جنگ
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اقوام متحدہ نے سال 2008 ء کو زبانوں کے سال کا نام دیا ہے۔

    جہاں تک ہماری پیاری زباں اردو سے متعلق سوال ہے تو اتنا عرض کردوں کہ کہا گیا "اکیسویں صدی میں صرف وہ زبانیں زندہ رہیں گی جو کہ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوجائینگی۔

    یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلو کہ کہ کیا اردو ٹیکنالوجی پر منتقل ہوگئی ہے؟

    یونیکوڈ پہ اردو کا مکمل سپورٹ موجود ہے۔ اور مقتدرہ قومی زبان یونیکوڈ کا مکمک ادارتی ممبر ہے۔
    http://www.unicode.org/consortium/memblogo.html

    آئی ایس او پہ اردو کو مکمل سپورٹ حاصل ہے۔
    http://www.iso.org/iso/home.htm

    مائیکروسافٹ نے ایل ایل پی یعنی لوکل لینگوئیج پروگرام شروع کیا ہوا ہے جس میں اردو بھی شامل ہے۔ اس سلسلے کی پیش رفت میں:
    ونڈوز ایکس پی 2003
    آفس 2003 کے اردو ورژن قابل ذکر ہیں۔ اور یہ دونوں کام ذیلی ادارہ مقتدرہ قومی زبان، مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات نے کیے ہیں۔ اور عام استعمال کے لیے یہ پروڈکٹ باآسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں
    اس کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان کا تشکیل کردہ کی بورڈ جو کہ سب سے پہلے نادرہ نے استعمال کیا۔ اور اب بھی ان کے استعمال میں ہے۔ کو مائیکروسافٹ نے اپنے ونڈوز ایکس پی میں دیا ہے۔

    اس کے علاوہ مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات نے پاک نستعلیق فونت بھی بنایا ہے۔

    مئی 2008 میں یونی کوڈ نے مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات کے دائریکٹر، ڈاکٹر عطش درانی کے ٹائپوگرافی میں تھیوری: حروف کی خالی کشتیاں اور نقاط کو۔۔ منظور کر لیا۔ جس کی وجہ اب فانٹ ڈویلپ منٹ کے شعبہ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔

    مندرجہ زیل کاوشوں کے علاوہ مختلف احباب، ادارے، اردو کو ٹیکنا لوجی پر منتقل کرنے کا کام کررہے ہیں۔
     
  3. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت معلوماتی پوسٹس ہیں نعیم بھائی اور محبوب بھائی کی۔ جزاک اللہ ۔
     
  4. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام و علیکم نعیم بھائی
    بہت اچھی معلومات فراہم کیں‌آپ نے

    لیکن ایک حقیقت اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ
    "ہر چیز کو فنا ہے"
    ہر چیز اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے اور اس سفرمیں بہت سے واقعات اور وجوہات نظر آتیں ہیں۔

    سو، یہ بھی ایک قدرتی امر لگ رہاہے
    واللہ اعلم
     
  5. عاصف
    آف لائن

    عاصف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جون 2008
    پیغامات:
    436
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت عمدہ شیرنگ ہے۔
     
  6. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    کیا آپ کے " ہر چیز " کے حکم میں عربی زبان بھی داخل ہے جو کہ بعد از موت قبر میں اور روز قیامت میں بھی بولی جائے گی؟

    اوپر بیان کیے گئے مضمون میں یہی واقعات و وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس سے کوئی بھی زبان اپنے تمدن، ثقافت اور پچان کو اپنے اندر لیے منظرِ دنیا سے غائب ہوجاتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اس قوم کی پہچان بھی مٹتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی وجوہات تلاش کرکے ان سے بچنے اور ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے ہماری اردو زبان دنیا میں قائم و دائم رہ سکے اور اسکے ساتھ ساتھ خود ہماری قومی پہچان بھی سلامت رہ سکے۔
     
  7. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    اگر اردو کے تکلیق کار مر گیے ہین تو کیا بات ہے
    ابھی بھی اردو کی ترقی کے لیے بہت سے لوگ کوشاں ہین
    ان میں ایک ہمارے دوست ہیں اعجاز اھمد
    ان کی صلاھیتوں کا جتنا اعتراف کیا جایے کم ہے
    انہوں نے انٹنرنیٹ چیٹ‌میں اردو مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کیا
    جو ابھی تک پورے پاکستان کی پہلی ساہٹ ہے جس میں اردو میں چیٹ کر سکیں
    اگر آپ کو میری باتون پر یقین نہیں ہے تو آپ کود جا کر دیکھو
    اردولنک ۔کام
    جہاں پر ہزاروں لوگ چیٹ کرتے ہین اردو الفا بیٹک کے ساتھ
    :dilphool:
     
  8. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کیا آپ کے " ہر چیز " کے حکم میں عربی زبان بھی داخل ہے جو کہ بعد از موت قبر میں اور روز قیامت میں بھی بولی جائے گی؟

    اوپر بیان کیے گئے مضمون میں یہی واقعات و وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس سے کوئی بھی زبان اپنے تمدن، ثقافت اور پچان کو اپنے اندر لیے منظرِ دنیا سے غائب ہوجاتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اس قوم کی پہچان بھی مٹتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی وجوہات تلاش کرکے ان سے بچنے اور ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے ہماری اردو زبان دنیا میں قائم و دائم رہ سکے اور اسکے ساتھ ساتھ خود ہماری قومی پہچان بھی سلامت رہ سکے۔[/quote:1gy6peim]

    یہ بات میرے لیئے بھی نئی ہے کہ عربی زبان بعد از موت قبر میں‌اور روزِ قیامت میں‌ بھی بولی جائے گی؟
    اور اگر ایسا ہی ہے، تو پھر صرف عربی زبان پر توجہ دینا چاہیئے جو کہ آخر تک رہیگی۔ پھر فانی زبانوں کا کیا کریں؟ جبکہ ایک لافانی زبان موجود ہے؟

    اچھا ہوگا کہ آپ اس سلسلے میں‌ کوئی مناسب حوالہ جات (قرآن و حدیث سے) فراہم کریں‌تاکہ بات زیادہ واضح ہو جائے
    والسلام
     
  9. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    حضرت مولانا فرخ صاحب
    آپ کا پورا اسم گرامی فرخ مناظر تو نہیں ہے ؟
    ہر بات پر بحث مباحثہ اور مناظرہ کا ماحول گرم کر لیتے ہیں ۔ :mashallah:

    آپ تو یہاں رواداری، دوسروں کا نکتہء نظر سننے اور برداشت کرنے کا پیغام لے کر آئے تھے نا ؟
     
  10. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    نور صاحبہ
    آپ نے سو فیصد درست فرمایا۔ ہمیں اپنی زبان، اپنی شناخت اور اپنے وطن کی پہچان کو ترقی و عروج دینے کے لیے اپنی مقدور بھر کاوش کرنی چاہیے۔
     
  11. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    تو محترم جناب وسیم صاحب،مدظلہ علیہ
    آپ کو یہاں میری کونسی بات سے غیر رواداری اور عدم برداشت کا احساس ہو رہا ہے؟

    آپ کو شائید مناظرے اور بحث و مباحثہ اور عام گفتگو میں فرق معلوم نہیں شائید؟ :hasna:

    اگر میں دوسروں‌کا نقطہ نظر سنتا یا پڑھتا ہوں تو کیا مجھے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا حق نہیں؟

    اچھا ہوتا کہ نور نے جو بات عربی زبان کے بارے میں کہی ہے آپ ذرا کسی مستند حوالے سے اس پر روشنی ڈالتے تاکہ ہمارے علم میں‌بھی اضافہ ہوتا، بجائے اسکے کہ ایک بغیر تصدیق کے کی ہوئی بات پر کسی کی حمائیت کرنے لگ جانا، یا شائید مکھن لگانا۔ :dilphool:

    یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے، اور ہر چیز اپنے اختتام کی طرف رواں‌دواں‌ہے کسی کی منزل پہلے ہے کسی کی بعد میں۔تو اس میں‌ پریشانی والی بات کیا ہے؟
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فرخ صاحب۔ ذرا دھیرج رکھیے۔ مکھن لگانا تو خیر آپ نے بھی ڈاکٹر اسرار صاحب کے صحابہ کرام رض اور بالخصوص حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی شانِ اقدس میں ہرزہ سرائی اور زبان درازی والے مسئلے پر ڈاکٹر اسرار صاحب کی حمایت میں رواداری، اخوت و محبت اور برداشت کے نعرے لگا کر جس انداز میں شروع فرمایا تھا۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ :87:

    لیکن یہاں‌مسئلہ کی نوعیت ہی مختلف ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اپنی قومی زبان اور اپنی قومی پہچان کو شکست و ریخت کے نقصان دہ عمل بچا کر۔۔ اسے قائم رکھنے کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے جانے چاہیے جو ہماری اردو زبان اور ہماری پہچان کو مزید طوالت بخش سکیں۔

    آپ کے فلسفہء فنا کے مطابق تو اگر انسان بیمار ہوجائے تو کیا اسے طبیب کے پاس اس فلسفے کی وجہ سے نہ جانا چاہیے کہ ہر چیز کو فنا ہے۔ اب اگر مجھے فنا آنی ہی ہے تو پھر اپنا علاج کروا کے اپنی صحت کو بچانے کے لیے کوشش کرنا بھی بےسود ہے۔
     
  13. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    ڈاکٹراسرار نے بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں‌کوئی گستاخی نہیں‌کی اور یہ بات وقت نے بھی ثابت کر دی کہ جو حدیث انہوں نے سنائی وہ بڑے بڑے اور پرانے علماء کرام اور تقریباً 28 تفاسیر میں استعمال ہوئی اور اس کی تصدیق بھی کی جا چُکی ہے۔ لیکن جن دماغوں میں بدگمانیاں بھری ہوں اور جو غیبت و بہتان کے روحانی بیماریوں میں‌مبتلا ہوں انکو ہیر رانجھے کا قصہ ساری رات بھی سناؤ تو صبح تک انہیں یہی معلوم نہیں ہوتا کہ ہیر لڑکا تھا یا لڑکی :201:

    اور ڈاکٹر اسرار جس مرتبے کی عالم ہیں اگر میں‌نے انکی حمائیت میں آواز اٹھائی بھی تو وہ کسی اصول اور وجہ پر مبنی تھی۔ لیکن آپ جیسے دنیا کے سب سے بڑے عاجز اور نکمے انسان کا اتنے بڑے عالم کےکے خلاف بڑی بڑی باتیں اوربنتنگڑ بنا بنا کر اچھالنا آپ کی اصلیت کو ظاہر کر دیتا ہے۔

    آپ لوگ جن محترمہ نور کے حق میں‌ بول رہے ہیں، انہوں‌نے جو بات عربی زبان کے بارے میں کہی، میں صرف اسکا کوئی مستند حوالہ مانگا تھا جو ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا، بلکہ الٹا اس بغیر تصدیق والی خبر پر ان کی حمائیت شروع کر دی گئی۔

    آپ کی کھوپڑی میں اکثر چیزوں کا مطلب ہمیشہ الٹا ہی آتا ہے۔ ہر چیز کو فنا ہے، اور آپ کا کیا خیال ہے، کہ ڈاکٹر یا حکیم سے علاج کروا کر آپ اپنی فنا سے دور بھاگ جائینگے یا کبھی فنا نہیں‌ہونگے؟

    اور یہ میرا فلسفہ نہیں، قرآن کا فلسفہ ہے کہ ہر چیز کو آخر تباہ ہونا ہے۔ اسی لیئے میں‌نے یہ کہا تھا
     
  14. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    فرخ بھائی
    اگر آپ وسیم بھائی سے اختلاف کریں گے تو ہر بات پر بحث مباحثہ اور مناظرہ ہی لگے گا۔ صرف ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی رواداری اور مثبت طرز عمل ہے۔
     
  15. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :hasna:
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    ڈاکٹراسرار نے بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں‌کوئی گستاخی نہیں‌کی اور یہ بات وقت نے بھی ثابت کر دی کہ جو حدیث انہوں نے سنائی وہ بڑے بڑے اور پرانے علماء کرام اور تقریباً 28 تفاسیر میں استعمال ہوئی اور اس کی تصدیق بھی کی جا چُکی ہے۔ لیکن جن دماغوں میں بدگمانیاں بھری ہوں اور جو غیبت و بہتان کے روحانی بیماریوں میں‌مبتلا ہوں انکو ہیر رانجھے کا قصہ ساری رات بھی سناؤ تو صبح تک انہیں یہی معلوم نہیں ہوتا کہ ہیر لڑکا تھا یا لڑکی :201:

    اور ڈاکٹر اسرار جس مرتبے کی عالم ہیں اگر میں‌نے انکی حمائیت میں آواز اٹھائی بھی تو وہ کسی اصول اور وجہ پر مبنی تھی۔ لیکن آپ جیسے دنیا کے سب سے بڑے عاجز اور نکمے انسان کا اتنے بڑے عالم کےکے خلاف بڑی بڑی باتیں اوربنتنگڑ بنا بنا کر اچھالنا آپ کی اصلیت کو ظاہر کر دیتا ہے۔
    [/quote:2anbo9fg]
    خدا محفوظ رکھے ایسے علم سے جو عظمتِ صحابہ پر مبنی مستند روایات کو چھوڑ کر ایسی غریب و ناقابلِ اعتبار روایات کو منتخب کرواتا ہو جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اور بالخصوص خلیفہء راشد اور باب شہرِ علمِ نبوت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ہرزہ سرائی کا پہلو نکلتا ہو۔
    اور خدا محفوظ رکھے ایسی اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی سے جو کسی شخصیت کی اندھا دھند تقلید میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کا ادب و احترام بھی دل سے بھلا دے ۔ آمین بحرمتِ سید المرسلین :saw:
     
  17. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    ڈاکٹراسرار نے بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں‌کوئی گستاخی نہیں‌کی اور یہ بات وقت نے بھی ثابت کر دی کہ جو حدیث انہوں نے سنائی وہ بڑے بڑے اور پرانے علماء کرام اور تقریباً 28 تفاسیر میں استعمال ہوئی اور اس کی تصدیق بھی کی جا چُکی ہے۔ لیکن جن دماغوں میں بدگمانیاں بھری ہوں اور جو غیبت و بہتان کے روحانی بیماریوں میں‌مبتلا ہوں انکو ہیر رانجھے کا قصہ ساری رات بھی سناؤ تو صبح تک انہیں یہی معلوم نہیں ہوتا کہ ہیر لڑکا تھا یا لڑکی :201:

    اور ڈاکٹر اسرار جس مرتبے کی عالم ہیں اگر میں‌نے انکی حمائیت میں آواز اٹھائی بھی تو وہ کسی اصول اور وجہ پر مبنی تھی۔ لیکن آپ جیسے دنیا کے سب سے بڑے عاجز اور نکمے انسان کا اتنے بڑے عالم کےکے خلاف بڑی بڑی باتیں اوربنتنگڑ بنا بنا کر اچھالنا آپ کی اصلیت کو ظاہر کر دیتا ہے۔
    [/quote:2i9jq9qc]
    خدا محفوظ رکھے ایسے علم سے جو عظمتِ صحابہ پر مبنی مستند روایات کو چھوڑ کر ایسی غریب و ناقابلِ اعتبار روایات کو منتخب کرواتا ہو جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اور بالخصوص خلیفہء راشد اور باب شہرِ علمِ نبوت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ہرزہ سرائی کا پہلو نکلتا ہو۔
    اور خدا محفوظ رکھے ایسی اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی سے جو کسی شخصیت کی اندھا دھند تقلید میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کا ادب و احترام بھی دل سے بھلا دے ۔ آمین بحرمتِ سید المرسلین :saw:[/quote:2i9jq9qc]



    آپ کو مہدی مشن والی پوسٹ میں سیف کا مہدی کے ساتھ علیہ السلام نہ لکھنا تو بڑا چُبھ گیا تھا، اور یہاں " آمین بحرمتِ سید المرسلین" کے ساتھ کچھ لکھنا یاد نہیں‌رہا؟
    کیا قول و فعل کا حسین امتزاج پایا ہے نعیم صاحب، یعنی دوسروں کو نصیحت اور خود میاں‌ فصیحت :201:


    خدا محفوظ رکھے آپ جیسے لوگوں‌سے جو جانتے بوجھتے بھی عالموں‌‌پر کیچڑ اچھالنے کا شوق رکھتے ہیں۔
    اور جسے آپ غریب و ناقابلِ اعتبار روایت کہہ کر ایک اور بد گمانی پیدا کر رہے ہیں وہ شائید کچھ ناچنے والے مولویوں اور سینہ کوبی کرنے والی قوم کو ہی نظر آتی ہے ورنہ تو ایسے بڑے بڑے مفسروں‌نے اس روایت کو صحیح‌سمجھا ہے، جن کی آپ خاک کے برابر بھی نہیں۔ اور یہ ہے وہ تحقیق کی باتیں جو آپ جیسے سطحی اور منفی سوچ رکھنے والوں‌کے لیئے کی گئی، کہ شائید عقل میں‌کچھ آئے اور علماء کرام کے متعلق بتنگڑ بنانے سے باز آجائیں۔
    یہ ذرا غور سے آنکھیں‌کھول کے پڑھئے گا۔
    [​IMG]
    اگر نہ سمجھ آئے تو پھر غور سے پڑھیئے گا۔۔۔۔۔
    اور آپ ‌کو ایک مرتبہ پھر نوید ہو ، کہ اس روایت سے حضرت علی :rda: کی شان میں‌ہرزہ سرائی نہیں‌ہوتی، بلکہ اگر عقل کی آنکھ سے دیکھیں‌تو حضرت علی :rda: کی کبریائی بیان ہوتی ہے، کہ اس واقعے کے فوراً بعد ہی اللہ نے آئیت نازل کر دی کہ وہ بندہ اللہ کو اتنا عزیز تھا کہ اللہ جل شانہ کو پسند نہ آیا کہ اسکا بندہ اس قسم کے خرافات میں‌پڑے۔ لیکن عقل کی آنکھ پر تو شائید پردہ پڑا ہوا ہے۔۔۔

    خدا محفوظ رکھے بدعتی مولویوں‌اور ناچنے گانے والے عالموں‌ اور انکے اندھے عقیدت مندوں‌سے جو جانتے بوجھتے بھی کہ موسیقی کے آلات حرام ہیں، ان سے نہ صرف شغف رکھتے ہیں، بلکہ یہودیوں‌اور نصرانیوں‌کے اتباع میں‌سالگراہیں‌بھی مناتے ہیں‌اور ان میں‌گانے بجانے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔

    آمین، ثم آمین۔
    ۔[/color]
     
  18. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0


    نعیم بھائی
    اوپر لکھے گئے اپنے ان الفاظ پر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل آپکے لکھے گئے الفاظ " آمین بحرمتِ سید المرسلین" کے ساتھ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنے کی بجائے آپ نے آئکن استعمال کر دیا تھا یعنی :saw: اور جو اسوقت میرے کمپیوٹر پر نظر نہیں آیا اور میں سمجھا، آپ نے نہیں‌لکھا۔ اور جو اب نظر آرہا ہے۔
    میں اپنے اوپر والے الفاظ واپس لیتا ہوں اور اس سلسلے میں‌ معذرت کا خواستگار ہوں :rona: :rona:
    اللہ ہم سب کو مغفرت عطا فرمائے۔ امین ثم آمین
     
  19. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی
    یہاں اس عالم میں تو شاید آپ کے قلم اور سوچ کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں لیکن اگلے عالم میں جہاں صرف انصاف ہی انصاف ہو گا اگر اس بہتان پر کوئی آپ کا گریبان پکڑے گا تو آپ کیا کریں گے؟
    حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کا ادب و احترام دل سے بھلا دینے کا الزام تو لگا دیا ہے آپ نے لیکن اس کو ثابت کیسے کریں گے؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ جن کے آپ اندھے عقیدت مند اور شخصیت پرست ہیں کیا صرف ان ہی کے پاس ادب و احترام کے ذخائر ہیں اور ان پر ان ہی کی اجارہ داری ہے جو آپ بقیہ تمام شخصیات کو اس سے مبرا اور اس کے برعکس قصور وار گردانتے رہتے ہیں۔ کیا یہ بد گمانی اور منفی سوچ نہیں ہے؟

    ڈاکٹر اسرار جتنے بڑے عالم ہیں ان پر تنقید کا حق بھی ان کے برابر یا ان سے بالا تر عالم کو ہو سکتا ہے مجھے یا آپ کو نہیں اور یہی بات فرخ بھائی نے کہی ہے اس میں کیا غلط ہے؟ یا اس میں ایسی کون سی گستاخی ہے جس پر آپ اتنے چراغ پا ہو رہے ہیں؟
     
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی یہ لڑی "اردو ہے جس کا نام ۔۔۔ ( مستقبل کے خطرات)" اپنے موضوع سے ہٹ نہیں گیا؟ :237:
     
  21. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    فرخ بھائی
    ان خرافات کے باوجود اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کا الزام دوسروں پر لگایا جاتا ہے اور عقیدت کے نشے میں یہ بد عقیدگیاں کسی کو نظر نہیں آتیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
     
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    محبوب خان بھائی نے درست نشاندہی کی ہے اس بحث کو نئی لڑی میں منتقل کر دینا چاہیئے
     
  23. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جی سیف بھائی، صحیح کہا آپ نے، میں‌بھی محبوب سے اتفاق کرتا ہوں، مگر جس بات پر نعیم صاحب نے رخ موڑ دیا ہے، اس پر پہلے بھی کافی بحث ہو چکی ہےاور پھر جان بوجھ کر مزید انہی قدموں پر جانا، جبکہ اسکے بارے میں متعدد دلائل بھی فراہم کئے جا چُکے ہیں اور اس بحث کا اختتام بھی ایک باہمی مشاورت سے ہوچکا
    اور پھر وہی حرکتیں۔۔
    ۔؟
     
  24. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    یہ نعیم بھائی کی پختہ عادت ہے کہ موضوع سے خود ہٹ جاتے ہیں اور الزام دوسروں پر دھرتے ہیں۔
     
  25. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    میں ہرفریق کو بالکل غیرجانبدارنہ مشورہ یہ دوں گا کہ برائے کرم ہر موضوع پراسی سے متعلق بات کی جائے موضوع سے ہٹ کرہر جگہ بحث ومباحثہ اچھاعمل نہیں
     
  26. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ نے بالکل درست فرمایا مجیب منصور بھائی جزاک اللہ
     
  27. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جی تو واپس موضوع پر واپس آتے ہیں۔

    اردو کو آریا قوم کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس لشکری زبان میں‌ اور بھی مزید سپاہی بھرتی ہوتے چلے جا رہے ہیں جن میں‌انگریزی زبان کے اثرات بہت بڑھ گئے ہیں۔

    اسمیں‌غالباً ہندی، فارسی اور عربی کے اثرات سب سے زیادہ ہیں۔ گو کہ اسکا رسم الخط عربی سے ملتا جُلتا ہے، مگر جس رسم الخط میں ہندی لکھی جاتی ہے، یہ اس میں‌ بھی لکھی جاتی ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں گو کہ لکھنے میں فرق ہے، لیکن بولنے میں‌ایک جیسی ہے۔

    بات یہ ہے، کہ ہماری اردو جو کہ خود دوسری زبانوں سے مل کر بنی اور اسی لیئے لشکری زبان کہلاتی ہے، میں اب بھی تسلسل کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں، گو کہ یہ عمل آہستہ ہو رہا ہے، مگر ہو رہا ہے۔

    اور جہاں تک میں‌ نے محسوس کیا ہے، ہندوستان کی ہندی پر بھی اب اردو کے کافی اثرات آچکے ہیں زبانوں پر اسطرح کے اثرات کی ایک بڑی وجہ میڈیا بھی ہوتا ہے، جس سے عوام بولنے چالنے کے ڈھنگ بھی سیکھتے ہیں‌اور کلچرز پر جس میں‌زبان بھی شامل ہے،وہ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو میڈیا پھیلاتا ہے۔

    اب سوال یہ کہ اردو کو بچانے کے لیئے کیا اقدامات کئے جائیں؟ جبکہ خود لوگ اس میں تبدیلیاں لے آتے ہیں۔ اور یہ مسلسل تبدیلیوں‌ کے مراحل سے گذرتی جا رہی ہے۔

    آجکل کی نئی نسل مغربی زبانوں اور انکے بولنے کے انداز سے متاثر ہو کر اردو میں مغربی زبانوں‌کی ملاوٹ بھی کر جاتے ہیں اور پھر وہ بھی اردو کا حصہ بن جاتی ہے۔
     
  28. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    زبان اردو کی ابتداء و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداء کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداء کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداء مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔

    دکن میں اردو
    نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

    ”عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد و شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاء سے ہے۔ ابتداء سے نہیں۔“
    اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے۔ طلو ع اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر، مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہوسکاجہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔


    سندھ میں اردو
    یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں:

    ”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔“
    اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل“ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوےٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین:

    ”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداء کا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔“
    اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔


    پنجاب میں اردو
    حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتداء پنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداء اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعراء کا کلام پیش کیا ہے۔ جس میں پنجابی،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:

    ”سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ء سے 1026ء تک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ءمیں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے، علماء اور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاںکی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔“
    مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ء میں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ اب لاہور کی بجائے دہلی کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی۔

    تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں: ”اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“

    مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بناء پر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔

    پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نوسو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔

    حافظ محمود شیرانی کی تالیف ”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداء کے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداء کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔


    دہلی میں اردو
    اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاء میں تو مانی جا سکتی ہے ابتداء اور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقاء میں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:

    ”یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتداء کا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کا آغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔“
    ان نظریات کے علاوہ میر امن، سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔


    مجموعی جائزہ
    اردو کی ابتداء کے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراء کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔

    from "http://ur.wikipedia.org
     
  29. فرخ
    آف لائن

    فرخ یک از خاصان

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2008
    پیغامات:
    262
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بھائی جی ،
    بہت اعلٰی
    بہت خوب اور علمی آرٹیکل
    شئیر کرنے کا شکریہ
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جی سیف صاحب۔ اگر وہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ہی ڈاکٹر اسرار احمد اور انکے مقلدین کا گریبان پکڑ لیا کہ میں نے تو شراب زندگی بھر نہیں‌پی تھی پھر آپ میرے متعلق "گھٹی میں شراب پڑی ہونے " کی تقریریں کیوں‌کرتے رہے ؟
    اور ڈاکٹر اسرار صاحب کی شان میں‌قصیدہ گوئی کرنے والے بھی ڈاکٹر صاحب کے پیچھے ہی کھڑے ہوئے تو ۔۔۔ ؟
    ذرا اس منظر کا بھی سوچ لیجئے گا۔
    عقیدہ وہابیہ اور اہلحدیث مولانا اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کی " تصحیح" فرما سکتے ہیں تو ڈاکٹر اسرار صاحب کیا عرش سے اتر کے آگئے ہیں ؟
    اور ہاں فقط " علم " تو معلم الملائکہ کے پاس بھی بہت تھا۔ لیکن ادب نہ تھا۔
    والسلام
     

اس صفحے کو مشتہر کریں