1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اخلاقی جدوجہد کا مقصود:

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏30 اگست 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    یہ ہے وہ جواب جو اسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصور کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کردیتا ہے جس کو پہچاننا انسانی سعی وعمل کا مقصود ہونا چاہیے اور وہ ہے خدا کی رضا! یہی وہ معیار ہے جس پر اسلام کے اخلاقی نظام میں کسی طرزعمل کو پرکھ کر فیصلہ کیاجاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔اس کے تعین سے اخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پوری اخلاقی زندگی گھومتی ہے، اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اخلاقی صفات کی مناسب حدیں، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہوجاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنے جگہ ثابت و قائم رہ سکیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پاجانے سے اخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اخلاقی ارتقا کے امکانات لامتناہی ہوسکتے ہیں اور کسی مرحلہ پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اس کو ملوث نہیں کرسکتیں۔
    اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ:

    پھر اسلام کے اسی تصور کائنات و انسان میں وہ قوت نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانون اخلاق کی پشت پر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے خدا کا خوف، آخرت کی باز پرس کا اندیشہ اور ابدی مستقبل کی خرابی کا خطرہ۔ اگرچہ اسلام ایک ایسی طاقتور رائےعامہ بھی تیار کرنا چاہتا ہے جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اورگروہوں کو اصولِ اخلاق کی پابندی پر مجبور کرنے والی ہو۔ اور ایک ایسا سیاسی نظام بھی بنانا چاہتا ہے جس کا اقتدار اخلاقی قانون کو بزور نافذ کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اس خارجی دباؤ پر نہیں ہے بلکہ اس اندرونی دباؤ پر ہے جو خدا اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔اخلاقی احکام دینے سے پہلے اسلام آدمی کے دل میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تیرا معاملہ دراصل اس خدا کے ساتھ ہے جو ہروقت ہر جگہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو دنیا بھر سے چھپ سکتا ہے مگراس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ دنیا محض تیرے ظاہر کودیکھتی ہے مگر وہ تیری نیتوں اور ارادوں تک کو دیکھ لیتا ہے۔ دنیا کی تھوڑی سی زندگی میں تو چاہے جو کچھ کرے، بہرحال ایک دن تجھے مرنا ہے اور اس عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں وکالت،رشوت،سفارش،جھوٹی شہادت،دھوکا اور فریب کچھ نہ چل سکے گا، اور تیرے مستقبل کا بے لاگ فیصلہ ہوجائےگا۔ یہ عقیدہ بٹھا کر اسلام گویا ہر آدمی کے دل میں پولیس کی ایک چوکی بٹھا دیتا ہے جو اندر سے اس کو حکم کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے، خواہ باہر ان احکام کی پابندی کرانے والی کوئی پولیس،عدالت اور جیل موجود ہو یا نہ ہو۔ اسلام کے قانونِ اخلاق کی پشت پر اصل زور یہی ہے جو اسے نافذ کراتا ہے۔ رائے عامہ اور حکومت کی طاقت اس کی تائید میں موجود ہو تو نورعلی نور، ورنہ تنہا یہی ایمان مسلمان افراد، اور مسلمان قوم کو سیدھا چلا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعی ایمان دلوں میں جاگزیں ہو۔
    اسلام کا یہ تصور کائنات انسان کو وہ محرکات بھی فراہم کرتا ہے جو انسان کو قانونِ اخلاق کےمطابق عمل کرنے کےلیے ابھارتے ہیں۔ انسان کا اس بات پر راضی ہوجانا کہ وہ خدا کو اپنا خدا مانے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنائے اور اس کی رضا کو اپنا مقصد زندگی ٹھہرائے، یہ اس بات کے لیے کافی محرک ہے کہ جو شخص احکام الٰہی کی اطاعت کرے گا اس کےلیے ابدی زندگی میں ایک شاندار مستقبل یقینی ہے۔ خواہ دنیا کی اس عارضی زندگی میں اسے کتنی ہی مشکلات، نقصانات اورتکلیفوں سے دوچار ہونا پڑے۔ اور اس کے برعکس جو یہاں سے خدا کی نافرمانیاں کرتا ہوا جائے گا اسے ابدی سزا بھگتنی پڑے گی، چاہے دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ کیسے ہی مزے لوٹ لے۔ یہ امید اور یہ خوف کسی کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے دل میں اتنی زبردست قوت محرکہ موجود ہے کہ وہ اسے ایسےمواقع پر بھی نیکی پر ابھار سکتی ہے جہاں نیکی کا نتیجہ دنیا مییں سخت نقصان دہ نکلتا نظر آتا ہو اور ان مواقع پر بھی بدی سے دور رکھ سکتی ہے جہاں بدی نہایت پرلطف اور نفع بخش ہو۔
    اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اپنا تصور کائنات، اپنا معیارِ خیر و شر، اپنا ماخذ علم اخلاق، اپنی قوتِ نافذہ اور اپنی قوتِ محرکہ الگ رکھتا ہے اور انھی چیزوں کے ذریعہ سے معروف اخلاقیات کے مواد کو اپنی قدروں کے مطابق ترتیب دے کر زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرتا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اسلام اپنا ایک مکمل اور مستقل بالذات اخلاقی نظام رکھتا ہے۔
    اس نظام کی امتیازی خصوصیات یوں تو بہت سی ہیں مگر ان میں تین سب سے نمایاں ہیں جنھیں اس کا خاص عطیہ کہا جاسکتا ہے۔
    پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اخلاق کے لیے ایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقاء کے امکانات کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک ماخذ علم مقرر کر کے اخلاق کو وہ پائیداری اور استقلال بخشتا ہے جس میں ترقی کی گنجائش تو ہے مگر تلون اور نیرنگی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام خوفِ خدا کے ذریعہ سے اخلاق کو وہ قوتِ نافذہ دیتا ہے جو خارجی دباؤ کے بغیر انسان کے اندر خود بخود قانون اخلاق پر عمل کرنے کی رغبت اور آمادگی پیدا کرتی ہے۔
    دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی اُپج سے کام لے کر کچھ نرالے اخلاقیات نہیں پیش کرتا اور نہ انسان کے معروف اخلاقیات میں سے بعض کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انہی اخلاقیات کو لیتا ہے جو معروف ہیں اور ان میں سے چند کو نہیں بلکہ سب کو لیتا ہے۔ پھر زندگی میں پورے توازن اور تناسب کے ساتھ ایک ایک کا محل، مقام اور مصرف تجویز کرتا ہے اور ان کے انطباق کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ انفرادی کردار، خانگی معاشرت، شہری زندگی، ملک، سیاست، معاشی کاروبار، بازار، مدرسہ، عدالت، پولیس لائن، چھاؤنی، میدان جنگ، صلح کانفرس، غرض زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ ایسا نہیں رہ جاتا جو اخلاق کے ہمہ گیر اثر سے بچ جائے۔ ہر جگہ، ہرشعبہ زندگی میں وہ اخلاق کو حکمران بناتا ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ معاملات زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کے بجائے اخلاق کے ہاتھوں میں ہوں۔
    تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت سے ایک ایسے نظام زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو معروف پر قائم اور منکر سے پاک ہو۔ اس کی دعوت یہ ہےکہ جن بھلائیوں کو انسانیت کے ضمیر نے ہمیشہ بھلا جانا ہے، آؤ انھیں قائم کریں اور پروان چڑھائیں اور جن برائیوں کو انسانیت ہمیشہ سے برا سمجھتی چلی آئی ہے، آؤ انھیں دبائیں اور مٹائیں۔ اس دعوت پر جنھوں نے لبیک کہا انھی کو جمع کر کے اس نے ایک امت بنائی جس کانام "مسلم" تھا۔ اور ان کے ایک امت بنانے سے اس کی واحد غرض یہی تھی کہ وہ معروف کوجاری و قائم کرنے اور منکر کو دبانے اور مٹانے کے لیے منظم سعی کرے۔اب اگر اسی امت کے ہاتھوں معروف دبے اور منکر قائم ہونے لگے تو یہ ماتم کی جگہ ہے خود اس امت کے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    :mashallah:

    :salam: مجیب بھائی
    کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ مضمون آپ نے کون سی کتاب سے لیا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں