Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ خلیل بھائی بہت خوبصورت شاعری اور اتنی ہی خوبصورت ڈیزائننگ ہے۔ :mashallah: فراز صاحب جیسے بڑے انسان کو شائید ہم لوگ کبھی بھی ان کے مقام کے مطابق ٹربیوٹ نہ دے پائیں۔ لیکن آپ کی کاوش بہت شاندار ہے۔ :a180:
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ بہت ہی خوبصورت بہت ہی زبردست۔۔۔ اللہ رب العزت احمد فراز صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین۔
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ یہ فراز احمد کون ہے ؟ agal: احمد فراز نام تھا انکا اللہ انکو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور باقی آپ نے بہت عمدہ کوشش کی ویری گڈ
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ اب کے ہم بچھڑے تو شائید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے رسوائی سے ڈرنے والوں بات تمھی پھیلاؤ گے اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت ترکِ محبت کرنے والو! تم تنہا رہ جاؤ گے ہجر کے ماروں کی خوش فہمی! جاگ رہے ہیں پہروں سے جیسے یوں شب کٹ جائے گی، جیسے تم آ جاؤ گے زخم تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے اس کا بھلانا سہل نہیں ہے خود کو بھی یاد آؤ گے چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں، کیوں جھوٹے اقرار کریں کل میں بھی شرمندہ ہوں گا ، کل تم بھی پچھتاؤ گے رہنے دو یہ پند و نصیحت ہم بھی فراز سے واقف ہیں جس نے خود سو زخم سہے ہوں اس کو کیا سمجھاؤ گے
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ کب تک درد کے تحفے بانٹو۔ نزر جالب کب تک درد کے تحفے بانٹو خون جگر سوغات کرو جالب ہن گل مک گئی ہے ، ھن جان نو ہی خیرات کرو کیسے کیسے دشمن جان اب پرسش حال کو آئے ہیں ان کے بڑے احسان ہیں تم پر اٹھو تسلیمات کرو تم تو ازل کے دیوانے اور دیوانوں کا شیوہ ہے اپنے گھر کو آگ لگا کر روشن شہر کی رات کرو اے بے زور پیارے تم سے کس نے کہا کہ یہ جنگ لڑو شاہوں کو شہ دیتے دیتے اپنی بازی مات کرو اپنے گریباں کے پرچم میں لوگ تمھیں کفنائیں گے چاہے تم منصور بنو یا پیروی سادات کرو فیض گیا اب تم بھی چلے تو کون رہے گا مقتل میں ایک فراز ہے باقی ساتھی، اس کو بھی اپنے ساتھ کرو احمد فراز
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ بہت خوب کلام ہے۔ فیض گیا اب تم بھی چلے تو کون رہے گا مقتل میں ایک فراز ہے باقی ساتھی، اس کو بھی اپنے ساتھ کرو واہ واہ ۔ اب تو فراز بھی چلا گیا
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ حسن مجتبیی کے بلاگ سے ماخوذ کچھ شاعر جیتے جی عظیم ہوتے ہیں۔ انکی شاعری لوک شاعری بن جاتی ہے۔ احمد فراز بھی عہد حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں۔ میں جب ٹین ایج میں تھا تو انکی ایک نظم "اسمگل" ہوکر پاکستان کے کونے کھدرے میں خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان پر ضیاءالحق سوار تھے اور فراز کی اس نظم کو کوئی 'پیشہ ور قاتلوں سے خطاب' کا عنوان دیتا تھا تو کوئی کچھ اور۔ احمد فراز کی اس باغیانہ نظم کے کچھ بند اسطرح ہیں: میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں پابہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں تم ظفرمند تو خير کیا لوٹتے ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے تیغ در دست وکف در دہاں آئے تھے طوق در گردنوں پابہ جولاں گئے سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے جنکا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے مامتائوں کی تقدیس کو لوٹنے یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے آج سرحد سے پنجاب و مہران تک تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے اب قلم ميں لہو ہے سیاہی نہیں۔ آج تم آئینہ ہو میرے سامنے پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں- '
Re: فراز احمد کو ٹربیوٹ احمد فراز کو ٹربیوٹ مرثیہ احمد فراز (مرحوم) (جاوید بدایونی) پہلے جناب فیض گئے ہم کو چھوڑ کر پھر قاسمی، نیازی، جہاں سے گزر گئے احمد فراز جن سے سخن میں بہار تھی اب گلستان شعر کو ویران کر گئے رو رو کے اردو کہتی ہے احمد فراز سے تم کیا گئے کہ دل کے سب ارمان مر گئے مایوسیاں نہ اتنی سخن کو ہوئیں کبھی کتنے ہی اس جہاں سے اہل نظر گئے پرنم ہیں اہل ذوق کی آنکھیں وہ کیا کریں لگتا ہے جیسے صبر کے پیمانے بھر گئے نسلوں کو یاد آئیں گے، صدیوں تک اے فراز اشعار تیرے دل میںصدا کر کے گھر گئے شعر و ادب نے دیکھے تھے کیسے حسین خواب پل بھر میں ٹوٹ ٹوٹ کے سب ہی بکھر گئے سب کی دعا ہے خلد عطا ہو فراز کو جو کوچ آج دنیائے فانی سے کر گئے اللہ رب العزت احمد فراز صاحب کو جنت الفردوس میںاعلی مقام عطا کرے آمین ثم آمین
احمد فراز جن سے سخن میں بہار تھی اب گلستان شعر کو ویران کر گئےآہ ۔۔ فراز مرحوم کی یاد میں بہت ہی خوب کلام ہے۔ :a180:
ہوا کے زور سے پندارِ بام و در بھی گیا چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا اب احتیاط کی دیوار کیا اٹھاتے ہو جو چور دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا میں چپ رہا کہ اس میں تھی عافیت جاں کی کوئی تو میری طرح تھا جو دار پر بھی گیا سلگتے سوچتے ویران موسموں کی طرح کڑا تھا عہدِ جوانی مگر گزر بھی گیا جسے بھلا نہ سکا اس کو یاد کیا رکھتے جو نام دل میں رہا ذہن سے اتر بھی گیا پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے تجھے تلاش ہے جس کی وہ شخص مر بھی گیا مگر فلک کی عداوت اسی کے گھر سے نہ تھ جہاں فراز نہ تھا سیلِ غم ادھر بھی گیا
کاشفی بھائی ۔ بہت عمدہ چیز ارسال کی ہے آپ نے۔ فراز مرحوم واقعی عصرِ حاضر کے عظیم شاعر تھے۔ خدا غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین