1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احمد فراز کا سوانحی خاکہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏14 نومبر 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ہر ایک دل میں دھڑکتا ہے تیرا نام فراز
    احمد فراز۔ سوانحی خاکہ

    تحریر: زرقا مفتی

    اصل نام: سید احمد شاہ
    قلمی نام: احمد فراز
    والد: سید محمد شاہ برق
    والدہ: سیدہ امیر جان
    بھائی :سید محمود شاہ، سید حامد شاہ،سید مسعود کوثر۔
    بہن : افتخار ناہید
    اولاد: سعدی فراز، شبلی فراز، سرمد فراز

    پیدائش: ۱۲ جنوری ۱۹۳۱
    تعلیم: ایم اے اردو۔ ایم اے فارسی
    درس گاہیں: اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ، ایڈورڈ کالج پشاور، پشاور یونیورسٹی

    شعری زندگی کا آغاز: سکول کے زمانے میں نویں دسویں سے ہوا
    پہلا شعر:
    جب کہ سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    پہلی غزل:
    رُک جائیے کہ رات بڑی مختصر سی ہے
    سن لیجیے کہ رات بڑی مختصر سی ہے

    پہلی نظم: انتباہ

    تصانیف:

    تنہا تنہا۔۔۔۔۔۱۹۵۸
    درد آشوب۔۔۔۔۔۔۔۱۹۶۶
    نایافت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۷۰
    شب خون۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۷۱
    میرے خواب ریزہ ریزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۷۲
    جاناں جاناں۔۔۔۔۔۔۔۱۹۷۶
    بے آواز گلی کوچوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۲
    نابینا شہر میں آئینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۴
    سب آوازیں میری ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۵
    پس انداز موسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۹
    بودلک (ڈرامہ منظوم)۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۴
    خوابِ گل پریشاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۴
    غزل بہانہ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۹
    شہرِ سخن آراستہ ہے(کلیات)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۴
    اے عشق جنوں پیشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۷

    قومی ایوارڈ:

    آدم جی ادبی ایوارڈ۔۔۔۔۔۔۔۱۹۶۶
    اباسین ایوارڈبرائے ادب۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۷۰
    دھنک ایوارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۷۱
    ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ (اکادمی ادبیات)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۰
    نقوش ایوارڈ برائے ادب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۲۔۹۳
    ستارہ امتیاز برائے ادب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۴
    کمالِ فن ایوارڈ ( اکادمی ادبیات پاکستان)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۰
    ہلالِ امتیاز برائے ادب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۴

    بین الاقوامی ایوارڈ:

    فراق انٹرنیشنل ایوارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۲
    بین الاقوامی ایوارڈبرائے زبان و ادب ٹورنٹو اکادمی ادبیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۱
    جے این ٹاٹا ایوارڈ جمشید نگر برائے امن اور انسانی حقوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۲
    ۲۰۰۰میلینیم میڈل آف آنرز یو ایس اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۹
    پہلاکیفی اعظمی ایوارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۲
    ای ٹی وی کمالِ فن ایوارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۴

    تراجم:

    فراز کی شاعری کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی۔ یوگوسلاوی، سویڈش، روسی، جرمن اور پنجابی میں ہو چکے ہیں

    سرکاری خدمات:
    لیکچرر پشاور یونیورسٹی ۱۹۶۱۔۷۱
    ڈایئریکٹر پاکستان نیشنل سینٹر ۱۹۷۱تا ۱۹۷۶
    ڈائریکٹرجنرل۔ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ۱۹۷۶تا ۱۹۷۸
    چیئر مین پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ۱۹۸۹تا ۹۰
    چیف ایگزیکٹو لوک ورثہ ۱۹۹۱ تا ۹۳
    مینیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاونڈیشن ۱۹۹۴ تا ۲۰۰۵

    ریکارڈنگ: اثاثہ (ویڈیو کیسٹ) دوبئی، محاصرہ (لانگ پلے)لندن، یہ میری نظمیں یہ میری غزلیں (ای ایم آئی ) پاکستان، شاہکار غزلیں (کیسٹ)

    پی ایچ ڈی مقالے:
    1۔ احمد فراز کی غزل جامعہ ملیہ یونیورسٹی بھارت۔
    2۔ احمد فراز فن اور شخصیت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان

    ڈاکٹریٹ کی ڈگری:

    آپ کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں یونیورسٹی آف کراچی نے ۱۵ فروری ۱۹۹۵ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی

    فیلو شپ:
    آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان نے آپ کو آنریری فیلو شپ عطا کی


    احمد فراز ۱۹۳۱ میں کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ فراز کے بچپن میں خاکسار تحریک کا اثر برِ صغیر پر چھایا ہوا تھا۔ پشاور کی سڑکوں پر نوعمر خاکساروں کا ایک دستہ پریڈ کرتے نظر آتا جس کی قیادت احمد شاہ ایک نرالی شان سے کرتے نظر آتے۔ ان کے والد آغا محمد شاہ برق فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ پشاور کی قدیمی ادبی انجمن بزمِ سخن پشاور کے سیکریٹری تھے۔ پشاور میں طرحی مشاعرے بڑے تواتر کے ساتھ ہوتے۔ انہوں نے شرر برقی کے قلمی نام سے ان طرحی مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں ترقی پسند مصنفین تحریک کی پشاور شاخ کے سیکریٹری بننے پر انہوں نے اپنا قلمی نام احمد فراز رکھ لیا جو ان کی ابدی شناخت بنا۔

    فارغ بخاری صاحب نے ۱۹۴۸ میں ایک ماہنامہ سنگِ میل کے نام سے جاری کیا۔ سنگِ میل کے سرحد نمبر میں احمد فراز صاحب نے لختنی کے موضوع پر نظم لکھی جو ایک یاد گار ہے۔ ان کا کلام ادبی سفر کی شروعات سے ہی احباب کے دلوں میں گھر کر گیا تھا۔ فارغ بخاری صاحب کی رہائش گاہ پر پشاور کی ایک ادبی تنظیم دائرہ ادبیہ کی محفلیں ہوا کرتیں تھیں جن میں فراز بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں ان کا تعارف جناب زیڈ اے بخاری سے ہوا۔ بخاری صاحب فراز سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوران کو کراچی ریڈیو پر آنے کی دعوت دی۔ کراچی کی ادبی محفلوں اور بخاری صاحب کی حوصلہ افزائی نے ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھار بخشا اور ان کی فکر و نظر کا دائرہ وسیع ہو گیا۔

    کراچی سے وہ ریڈیو پاکستان پشاور کے پروڈیوسر کی حیثیت سے واپس آئے۔ انہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اردو اور فارسی میں ایم اے کے بعد پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر ہو گئے۔ تدریس کے شعبے سے دس سالمنسلک رہے پھر نیشنل سینٹر اکادمی ادبیات، اکیڈمی آف لیٹرز، لوک ورثہ اور نیشنل بک فاونڈیشن جیسے اداروں سے وابستہ رہے۔ پاکستان میں آمریت کے زمانوں میں وہ معتوب بھی ٹھہرے پابند سلاسل بھی رہے اور جلا وطن بھی رہے۔ جلاوطنی کے دور میں لندن کے ادبی حلقے میں بھی ان کو نمایاں حیثیت حاصل رہی۔

    احمد فراز کے کلام میں رومانوی رنگ غالب ہے تاہم ان کی غزل میں نو کلاسیکی رنگ نمایاں ہے۔ انہوں نے مزاحمتی شاعری میں بھی ایک مقام پیدا کیا ہے ان کا کچھ کلام جدید شاعری کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ فیض احمد فیض کے برعکس ان کی شاعری مغربی زبانوں کی شاعری کی بجائے اردو اور فارسی کی خوشبو سے آراستہ ہے۔ ان کی غزلیں سودا ، میر مصحفی ، آتش اور مرزا غالب کے اسالیب کی پابند ہیں۔ لیکن انہوں نے اساتذہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھا۔

    ان کی غزلیات سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے

    تم ہو ناخوش تو یہاں کون ہے خوش پھر بھی فراز
    لوگ رہتے ہیں اسی شہرِ دل آزار کے بیچ

    رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
    خواب کیا دیکھا دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

    ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
    لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ

    آفصیلِ شہر سے دیکھیں غنیمِ شہر کو
    شہر جلتا ہو تو تجھ کو بام پر دیکھے گا کون

    اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
    پر دل یہ چاہتا ہے کہ تو آغاز کرے

    احمد فراز کو ایک عرصے تک کبھی نوجوانوں کا شاعر قرار دیا جاتا رہااور کبھی لڑکیوں کا پسندیدہ۔ اُن کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تمام عمر محبتوں میں گزری ہے تنہا تنہا سے لے کر جاناں جاناں تک محبت کے ٹوٹتے اور شروع ہوتے سلسلے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی رومان پرست طبیعت کے بارے میں کہتے ہیں

    "میں مانتا ہوں رومانس میری شخصیت کا ایک حصہ ہے اور میری شاعری میں اس کا غلبہ ہے لیکن زیادہ موضوعات ہیں کہاں۔ کیا آپ مجھے محبت کے علاوہ کوئی موضوع بتا سکتے ہیں۔ ہر شاعر عہدِ قدیم سے لیکر آج تک محبت کے موضوعات پر اپنے تجربات کی روشنی میں لکھ رہا ہے ، لیکن یہ موضوع پھر بھی نیا ہے،"

    ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
    جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے

    میں نے اس جانِ بہاراں کو بہت یاد کیا
    جب کوئی پھول مری شاخِ ہنر سے نکلا

    فراز کا محبوب اردو شاعری کے روایتی محبوب سے کافی مختلف نظر آتا ہے۔ وہ دیو مالائی حسن کا مالک ہے نہ ستم پیشہ ہے اور نہ تیغ انداز ہے

    ہر حسن سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
    کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

    بہت سے ہاتھ ہیں دامانِ دل کو کھینچنے والے
    جمالِ یار ترے بانکپن کی آزمائش ہے

    قامت کو تیرے سرو و صنوبر نہیں کہا
    جیسا بھی تو تھا اس سے بڑھ کر نہیں کہا

    اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
    رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی

    سکوت میں بھی اس کے اک ادائے دلنواز تھی
    وہ یارِ کم سخن کئی حکایتیں سنا گیا

    الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
    جیسے کہ جنگلوں میں بن جائے راستہ سا

    اے مصورِ حسنِ جاناں عکسِ جاناں میں کہاں
    کب تری تصویر میں وہ ہو بہو آ جائے

    فراز کی شاعری میں مزاحمتی رنگ اپنے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ روشن نظر آتا ہے۔ فیض احمد فیض کے بعد حبیب جالب اور احمد فراز کو مزاحمتی شاعری کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم جالب کے برعکس ان کا حرفِ مزاحمت عریاں نہیں ہوتا۔ احتجاج میں بھی لہجے کی نرمی برقرار رکھنا ان کا ہی امتیاز ہے۔ ان کے اشعار میں کڑی سے کڑی بات بھی ذہن پر بوجھ نہیں بنتی۔

    نہیں کہ درد نے پتھر بنا دیا ہے مجھے
    نہ یہ کہ آتشِ احساس سرد ہے میری

    گواہ ہیں مرے احباب میرے شعر سبھی
    کہ منزلِ رسن و دار گرد ہے میری

    ایسا سناٹا کہ جیسے ہو سکوتِ صحرا
    ایسی تاریکی کہ آنکھوں نے دہائی دی ہے

    جانے زنداں کے سے اُدھر کون سے منظر ہوں گے
    مجھ کو دیوار ہی دیوار دکھائی دی ہے

    فضا بے ابر شاخیں بے ثمر ہیں
    پرندوں سے شجر محروم تر ہیں

    کوئی موسم قرینے کا نہ آیا
    ہواؤں کے سخن نا معتبر ہیں

    لوگ الہام کو بھی الحاد سمجھتے ہیں
    جو دل پہ وجدان اُتارے مت لکھو

    احتیاط اہلِ محبت کہ اسی شہر میں لوگ
    گل بدست آتے ہیں اور پا بہ رسن جاتے ہیں

    فراز اپنا مقدر ہے سنگساری
    ہم ہی اس عہد کے آئینہ گر ہیں

    فراز نے اپنی شاعری سے متعلق ایک نظم یہ میری نظیں یہ میری غزلیں لکھی ہے اس سے کچھ سطور ملاحظہ کیجیے

    مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
    درد کی ریت چھانتا ہوں
    مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
    یہ ریت رنگِ حنابنی ہے
    یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
    یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے
    یہ درد موجِ صبا ہوا ہے
    یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
    اور اب یہ ساری متاع ہستی
    یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
    یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
    جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں

    مزاحمتی شاعری میں فراز کا شمار ان کی نظم " پیشہ ور قاتلو" کے منظرِ عام پر آنے سے ہونے لگا تھا۔ یہ نظم آزادانہ دستیاب نہ تھی۔ اس نظم کے کچھ ٹکڑے ملاحظہ کیجیے

    تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
    ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں

    بیڑیوں کی جمی خون کی پپڑیاں
    کہہ رہی ہیں منظر قیامت کے ہیں

    کل تمہارے لیے پیار سینوں میں تھا
    اب جو شعلے ہیں وہ نفرت کے ہیں

    ۔۔۔۔۔

    آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
    اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں

    آج تم آئینہ ہو مرے سامنے
    پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں

    اب سبھی بے ضمیرون کے سر چاہیئیں
    اب فقط مسلہ ِ تاجِ شاہی نہیں

    ضیاء الحق کے دور میں فراز کی سرکشی اور مزاحمت عروج پر تھی۔ آمریت کے زمانے میں ان کی نظم محاصرہ عصرِ حاضر کا ترانہ بن گئی۔ مزاحمتی ادب کی تاریخ میں یہ نظم ایک امتیازی حیثیت کی حامل رہے گی۔ محاصرہ کی اختتامی سطور کچھ یوں ہیں

    میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
    جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

    میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
    جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے

    میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
    جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

    میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
    جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے

    میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
    میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

    اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
    جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے

    میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
    کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

    تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
    میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

    احمد فراز ہم سے بچھڑ گئے مگر وہ ہمارے درمیان ہمیشہ رہیں گے اہلِ سخن کے دربار میں وہ کسی شہزادے کی طرح متمکن رہیں گے کیونکہ انہوں نے اپنے قلم کو ہمیشہ سرخرو رکھا

    قلم سرخرو ہے

    کہ اس نے لکھا تھا
    وہ بازو
    جو پتھر سے ہیرے تراشیں
    مگر بے نشاں اُن کے گھر
    وہی کوہکن
    جن کے تیشے پہاڑون کے دل چیر ڈالیں
    مگر خسروانِ جہاں ان کی شیریں چرا لیں
    وہی جن کے جسموں کے پیوند
    اہلِ ہوس کی قبا میں لگے تھے
    وہی سادہ دل
    جن کی نظریں فلک پر جمی تھیں
    تو لب منعموں کی ثنا مین لگے تھے
    اب ان کی ثنا چار سو ہے
    قلم سرخرو ہے
     
  2. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    میں فراز کا پرستار ہوں لیکن اتنی تفصیلی معلومات آج پڑھی ہیں۔
    شکریہ نعیم چاچو ۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوب ، اس شئیرنگ کے لئے جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ھے نعیم جی بڑی نوازش ، خوش رھیں
     
  4. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی اس شیئرنگ کے لئے شکریہ

    تھوڑا سا پڑھا ہے باقی پڑھ کر مزید داد دوں گا آپ کو
     

اس صفحے کو مشتہر کریں