1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احادیث مبارکہ ۔۔۔۔۔۔۔ صبر

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    احادیث مبارکہ ۔۔۔۔۔۔۔ صبر

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھ کر رو رہی تھی آپؐ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ کہنے لگی اجی پرے ہٹو۔ تم پر میری مصیبت تھوڑی پڑی ہے۔ اس نے آپؐ کو پہچانا نہیں پھر لوگوں نے اس سے کہہ دیا کہ یہ آنحضرت ﷺ تھے۔ وہ (گھبرا کر) آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آئی اور دربان وغیرہ کوئی بھی نہ تھے اور وہ عذر کرنے لگی۔ میں نے آپؐ کو پہچانا نہیں (معاف فرمایئے) آپؐ نے فرمایا۔ (اب کیا ہوتا ہے) صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہئے۔
    (بخاری ،جلد اول کتاب الجنائز، حدیث نمبر1207)
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا جب آنحضرت ﷺ کو (جنگ موتہ) میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور جعفر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کے مارے جانے کی خبر آئی تو آپؐ اس طرح سے بیٹھے کہ آپؐ پر رنج معلوم ہوتا تھا ۔میں دروازے کی دراڑ میں سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک شخص آپؐ کے پاس آیا کہنے لگا جعفرؓ کی عورتیں رو رہی ہیں آپؐ نے فرمایا جا منع کر۔ وہ گیا اور پھر لوٹ کر آیا کہنے لگا وہ عورتیں نہیں مانتیں آپؐ نے فرمایا منع کر پھر تیسری بار آیا اور کہنے لگا خدا کی قسم یارسول اللہ! وہ تو ہم پر غالب ہوگئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آپؐ نے فرمایا جا ان کے منہ میں خاک جھونک دے میں نے اس سے کہا اللہ تیری ناک میں مٹی لگائے آنحضرت ﷺ نے جو تجھ سے فرمایا وہ تو تُو کرنہ سکا اور پھر آنحضرت ﷺ کا ستانا بھی نہیں چھوڑتا ۔
    (بخاری ،جلد اول کتاب الجنائز ،حدیث نمبر1221)
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ ابو یوسف لوہار کے گھر پر گئے۔ وہ (آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے) ابراہیمؓ کی انا کا خاوند تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ابراہیمؓ کو (گود میں) لیا اور ان کو پیار کیا اور سونگھا ۔پھر اس کے بعد جو ہم ابو یوسف کے پاس گئے تو دیکھا تو ابراہیم دم توڑ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر آنحضرت ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔عبدالرحمن بن عوفؓ نے آپؐ سے عرض کیا یارسول اللہ! آپؐ بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے، آپؐ نے فرمایا عوف کے بیٹے یہ بے صبری نہیں رحمت ہے۔ پھر دوسری بار روئے اور فرمایا آنکھ تو آنسو بہاتی ہے اور دل کو رنج ہوتا ہے پر زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے۔ بے شک ابراہیمؓ ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں۔
    (بخاری ،جلد اول کتاب الجنائز ،حدیث نمبر 1225)
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو ایک بیماری ہوئی تو آنحضرت ﷺ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لے کر ان کو پوچھنے کو گئے۔ جب وہاں پہنچے دیکھا تو ان کے گھر والے خدمت کرنے والے سب جمع ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا گزر گئے ۔لوگوں نے کہا نہیں یارسول اللہ !یہ سن کر نبی اکرم ﷺ روئے (سعد کی بیماری دیکھ کر) لوگوں نے جو آپؐ کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو دیئے۔ آپؐ نے فرمایا سن لو اللہ تعالیٰ آنکھ سے آنسو نکلنے پر اور دل کے رنجیدہ ہونے پر عذاب نہیں کرتا ۔وہ تو اس پر عذاب کرے گا آپؐ نے زبان کی طرف اشارہ کیا (زبان سے نوحہ کرنا) اور دیکھو میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تو جب ایسا دیکھتے تو لاٹھی اور پتھر سے مارتے اور رونے والوں کے منہ پر خاک جھونکتے۔
    (بخاری ،جلد اول کتاب الجنائز، حدیث نمبر 1226)
    حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ایک صاحبزادی (حضرت زینبؓ) نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ میرا بیٹا مررہا ہے آپؐ تشریف لائیے۔ آپؐ نے سلام کہلا بھیجا اور یہ کہ اللہ ہی کا سارا مال ہے۔ جو لے لے اور جو عنایت کرے۔ اور ہر بات کا اس کے پاس وقت مقرر ہے تو صبر کرو اگر ثواب چاہئے۔ پھر انہوں نے قسم دے کر کہلا بھیجا آپؐ ضرور تشریف لایئے۔ اس وقت آپؐ اٹھے۔ آپؐ کی ہمراہی میں سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنھم (انصاری لوگ) اور کئی آدمی تھے۔ اس بچے کو آنحضرت ﷺ کے پاس اٹھا کر لائے اور وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ حال دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ رونا کیسا ؟آپؐ نے فرمایا یہ تو اللہ کی رحمت ہے جو اس نے اپنے نیک بندوں کے دلوں میں رکھی ہے اور اللہ انہی بندوں پر رحم کرے گا جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
    (بخاری ،جلد اول کتاب الجنائز ،حدیث نمبر1208)
    حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو بھی کوئی مصیبت پہنچے اور وہ پڑھے۔
    �انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی� خیرا منہا۔
    (ترجمہ: بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اے اللہ، مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرمایئے اور اس سے بہتر (چیز) مجھے عطا فرمایئے)۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں نے رسول کریم ﷺ کے حکم کے مطابق یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد ان سے بہتر یعنی رسول کریم ﷺ کو میرے لئے (شوہر) مقرر کردیا۔
    (مسلم ،کتاب الجنائز )
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا بیمار تھا ابوطلحہؓ باہر گئے ہوئے تھے تو وہ بچہ فوت ہوگیا جب ابوطلحہؓ واپس لوٹے تو (اپنی بیوی ام سلیمؓ سے) پوچھا میرے بیٹے کا کیا حال ہے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے۔ پھر ام سلیمؓ نے ان کو شام کا کھانا پیش کیا۔ ابو طلحہؓ نے کھانا کھایا پھر ام سلیمؓ سے ہم بستری کی جب غسل سے بھی فارغ ہوگئے تو ام سلیمؓ نے کہا جاؤ جاکر بچہ کو دفن کردو۔ جب صبح ہوئی تو ابو طلحہؓ رسول اکرمؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپؐ نے پوچھا کیا رات کو تم نے ہم بستری کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں آپؐ نے فرمایا اے اللہ ان دونوں کو برکت عطا فرما۔ پھر ایک بچہ پیدا ہوا ابو طلحہؓ نے مجھ سے کہا جاؤ اس کو نبی کریم ﷺ کے پاس لے جاؤمیں اس کو لے کر نبی کریمؐ کے پاس آگیا اور ام سلیمؓ نے کچھ کھجوریں بھیجی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس بچہ کو لیا اور پوچھا اس کہ ساتھ کوئی چیز ہے حاضرین نے کہا کہ جی کھجوریں ہیں آپؐ نے ایک کھجور کو چباکر اس کو بچہ کے منہ میں ڈال دیا اور یہ اس کی گھٹی تھی اور آپؐ نے اس بچہ کا نام عبداللہ رکھا۔
    (مسلم ،کتاب الادب )
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان کو جب کوئی کانٹا چبھتا ہے یا ا س سے بھی کم کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا درجہ بلند کرتے ہیں یا اس کا گناہ مٹادیتے ہیں۔
    (مسلم ،کتاب البر والصلۃ)
    حضرت ام العلاء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں بیمار تھی تو رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت کی اور فرمایا اے ام العلاء خوش ہوجاؤ کیونکہ مسلمان کی بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس طرح ختم کردیتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کی میل کچیل کو ختم کردیتی ہے۔
    (سنن ابی داوُد ،جلد دوم کتاب الجنائز،حدیث نمبر 3092 )
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو سب سے سخت آیت ہے میں اسے جانتی ہوں آپؐ نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا وہ کون سی آیت ہے انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ یہ فرمایا�۔من یعمل سوء یجزبہ� (جو شخص برا عمل کرے گا اسے اس کی جزا (بدلہ) دی جائے گی) ۔آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ کیا آپ نہیں جانتیں کہ جب کسی مسلمان کو کوئی حادثہ پیش آتا ہے یا اسے کانٹا چبھتا ہے تو وہ اس کے برے عمل کا کفارہ بن جاتا ہے اور جس کے اعمال کا محاسبہ کیا گیا تو وہ عذاب میں مبتلا ہوجائے گا۔ انہوں (عائشہؓ) نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ہے �(فسوف یحاسب حسابا یسیرا�) (قریب ہے کہ اس کا آسان حساب لیا جائے ) ۔آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ اس سے مراد صرف اعمال کا پیش کرنا ہے جس کے حساب کا مناقشہ (سوال و جواب ) ہوا تو اسے ضرور عذاب ہوگا۔
    (سنن ابی داوُد ،جلد دوم کتاب الجنائز ،حدیث نمبر 3093 )
     

اس صفحے کو مشتہر کریں