1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ابلیس کی مجلسِ شورٰی( ۱۹۳۲ء) شیطان کا اپنی پارلیمنٹ سے خطاب اورمشیروں سے مشورہ

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد ظہیر اقبال, ‏19 اگست 2018۔

  1. محمد ظہیر اقبال
    آف لائن

    محمد ظہیر اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2018
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر علامہؔ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہارمغانِ حجازکی ایک نظم ابلیس کی مجلسِ شورٰی( ۱۹۳۲ء)شیطان کا اپنی پارلیمنٹ سے خطاب اورمشیروں سے مشورہ
    ترجمہ و تعارف : محمد ظہیر اقبال
    (تعارف)
    حضرتِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کا ایک حقیقی منظر نامہ پیش کیا ہے کہ کس طرح سے اس سارے نظام کی شیطان نے بساط بچھا رکھی ہے اور کس طرح سے اسے چلا رہا ہے ۔یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح سے آج دنیا میں مختلف ممالک حکومتیں بنانے اور چلانے کے لئے انتخابات یا کسی اور ذریعے کو کام میں لاتے ہوئے قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ بناتے ہیں اور پھر اس میں مختلف معاملات پربحث کرنے کے بعد ان معاملات سے متعلق فیصلے کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح علامہ محمد اقبال ؒ بھی ایک فرضی (خیالی) اسمبلی( مجلس شورٰی )یا پارلیمنٹ کہہ لیں تشکیل دیتے ہیں جس میں حکمران پارٹی شیطان کا ٹولہ ہے اور اس کا سربراہ خود ابلیس (شیطان)ہے۔اس (مجلس شورٰی) پارلیمنٹ میں زیر بحث آنے والے معاملات اور مسائل کا تعلق درحقیقت ہمارے آج اور آنے والے کل کے مسائل سے ہے۔اس اجلاس کی صدارت چونکہ خود ابلیس کر رہا ہے لہذا سب سے پہلے ابتدائی خطاب بھی خود ابلیس ہی کرتا ہے اور پھر باری باری اس کے مشیر وزیر جو تقریباً پانچ ہیں اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔آخر میں اجلاس کی کاروائی کو سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر صدر مجلس یعنی خود ابلیس اپنے مشیروں سے خطاب کرتا ہے اور اجلاس کی ساری کاروائی کی روشنی میں اپنے انتہائی اہم مشورے دینے کے ساتھ اپنے خدشات کا بھی اظہار کرتا ہے۔
    اس کتاب میں ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ ترجمہ و تشریح آج کی نوجوان نسل کو سمجھنے میں آسانی رہے۔کیونکہ ہمارا کل یہی نوجوان ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنے اسلاف سے روحانی فیض لینے کی سعادت و شرف عطافرمائے۔آمین۔۔۔محمد ظہیر اقبال
    ایک ضروری وضاحت
    یہ نظم (ابلیس کی مجلس شورٰی ) ۱۹۳۲ ؁ء میں حضرت اقبالؒ نے تحریر فرمائی تھی۔اور آج ہم ۲۰۱۸ ؁ء میں بیٹھے سانس لے رہے ہیں تقریباً چھیاسی سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس نظم کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ آج لکھی گئی ہو۔ یہ اس لئے کہ اس نظم میں بیان ہونے والے مسائل کا تعلق عین ہمارے آج کے دور سے ہے۔ابلیسی اور دجالی نظام آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔کوئی ملک شہر اور گلی محلہ آج اس فتنے سے محفوظ نہیں رہا ہے۔عرب جہا ں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا تھا آج وہیں پر اسلام کو دفن کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔آلِ سعود کے حکرانوں نے اسرائیل اور امریکا کو کھولی چھوٹی دے دی ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ میں جو جی میں آئے کریں۔نیا ولی احد سلمان اسی سلسلے کی کڑی ہے جس نے آتے ہی اسلام کے بنیادی ارکان پر وار کرتے ہوئے بے پردگی کو قانونی شکل دے دی ہے یہی نہیں بلکہ عرب کی سرزمین پر پہلی دفعہ ناچ گانے کے لئے باقائدہ کلب اور سینما گھروں کی اجازت کے ساتھ ساتھ تیزی سے تعمیر کے کام کا حکم بھی دے دیا ہے۔آل سعود ویسے تو پہلے دن سے ہی اہل یہود و نصارٰی کی مٹھی میں تھی لیکن اب اسرائیل امریکا کے ذریعے سے سعودی عرب میں داخل ہو چکا ہے اور آل سعود کے شہزادوں کے ساتھ کھلم کھلا کاروباری معاہدے کر رہا ہے۔پورے مشرقِ وسطہ میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر اسرائیل اور امریکا نے انہی سعودی حکمرانوں کی مدد سے ایک نہ ختم ہونے والا فساد شروع کر رکھا ہے۔جس کا واحد مقصد آنے والے دنوں میں اسرائیلی ریاست کو وسعت دینا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ و مدینہ کو ایران کے قبضہ میں دینا ہے۔خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں مدد دینے والا یہ نجدی حکمران ٹولا جسے آل سعود کے نام سے شاہی خاندان بنایا گیا تھا اسی نے عرب کی سر زمین پر کفار کی فوجوں کو داخل کیا ۔آج بھی یہی ہیں جنہوں نے اسرائیل کو سعودی عرب میں خوش آمدید کہا ہے۔فلسطین ،شام اور یمن کے مسلمانوں پر اسرائیلی جہازوں سے ہونے والی بم باری کے لئے سعودی ہوائی اڈے انہی فاسق و فاجر آلِ سعود کے حکمرانوں نے اسرائیل اور امریکا کو دے رکھے ہیں یہی نہیں ان جہازوں کے لئے مفت تیل کی سپلائی بھی مہیاکر رکھی ہے۔پاکستان ،افغانستان ،ترکی اور فلسطین کے حالات آج پوری دنیا کے سامنے ہیں جنہیں سمجھنا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ترکی میں جناب طیب اردگان کی حکومت عالم اسلام کے لئے ایک نوید مسرت سے کم نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے حضور تمام مسلمان دُعا گو ہیں کہ ایسا حکمران پاکستان ،افغانستان اور دیگر ممالک کو بھی مل جائے۔آمین ثما آمین۔
    اللہ تعالیٰ حضرت اقبال رحمۃ اللہ کی مرقد پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔آمین
    محمد ظہیر اقبال ۲۹؍۷؍۲۰۱۸
    وہ یہودی فِتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز
    ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تارتار

    یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں کے پیچھے انہیں یہودی فتنہ گروں کا ہاتھ رہا ہے ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم انہی شاطر دماغ یہود کی کارستانی تھی ۔آج پھر یہی اہل یہود ہیں جنہوں نے ایک بار پھردنیا میں دہشت گردی کا فساد مچا رکھا ہے ۔۱۱۔۹ جیسی دہشت گردی کرنے والے کوئی اور نہیں یہی یہودی فتنہ گر ہیں۔فلسطین ،اُردن،لبنان،یمن،شام اور برما سے لے کر کشمیر تک ہونے والے ہرچھوٹے بڑے واقع کے پیچھے انہی یہود کا ہاتھ کارفرما ہے۔دنیا کے امن کو تباہ کرنے والے یہی اہل یہود ہیں۔یہی وہ قوم ہے جس نے انبیاء علیہ السلام کو قتل کیا یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھانے میں پیش پیش رہے اور اپنے ہوتے سوتے انہوں نے یہ بُرا کام کر کے چھوڑا بلکہ اس کے بعد واضع طور پر نعرہ مارا اور اعلانیہ اقرار کیا کے ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ۔یہ اس بد بخت قوم کا کردار اور ماضی رہا ہے۔آج فلسطین ،شام اور یمن میں ہونے والی جنگوں میں بھی یہی یہودی برائے راست شامل ہیں۔۔۔محمد ظہیر اقبال

    ابلیس کی مجلسِ شوریٰ
    شیطان کا اپنی پارلیمنٹ سے خطاب
    ------------------------
    یہ عناصر کا پرانا کھیل ، یہ دنیا ئے دوں
    ساکنانِ عرشِ اعظم کی تماناؤں کا خوں
    ترجمہ و شرح
    یہ دنیا ایک پرانا کھیل ہے جو آگ ،پانی،مٹی اور ہوا وغیرہ سے تشکیل دیا گیا ہے ۔اسے کھیل اس لئے کہا ہے کہ جس طرح کھیل کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی اسی طرح اس کائینات کی بھی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے۔یہ کھیل اس لئے بھی ہے کہ جس طرح کھیل (ڈرامہ)کے اسٹیج پرمختلف کردار اور منظرآتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں اسی طرح دنیا کے اسٹیج پر بھی لوگ آتے ہیں(پیدا ہوہو کردنیا کے اسٹیج پر آرہے ہیں)اور اپنا اپنا کردار ادا کر کے جا (مرتے جا رہے ہیں )رہے ہیں۔یہ عمل ناجانے کب سے ہو رہا ہے۔شیطان یہ بھی کہتا ہے کہ یہ دنیا اپنی فطرت اور ذہنیت کے لحاظ سے انتہائی کمینی اور رذیل ہے کیونکہ یہ کسی سے وفا نہیں کرتی۔بلکہ اُلٹا یہ رذیل لوگوں کی پرورش کرتی ہے اور شریف النفس انسانوں کو رگیدتی ہے۔شیطان یہ بھی کہتا ہے کہ یہ دنیا آسمانوں سے آگے خدا تعالیٰ کے انوار کے جہان میں رہنے والے ملائکہ اور فرشتوں کی آرزوؤں کی بربادی کا سبب بھی بنی ہے۔کیونکہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے خدا کے عرش کے آس پاس فرشتے اور ملائکہ ہوتے تھے جو خدا کی بزرگی اور پاکی بیان کرتے رہتے تھے اور اس وقت اللہ کے نذدیک یہی معزز مخلوق تھی۔پھر جب آدم کی تخلیق ہوئی تو فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ اس کے آگے سجدہ کریں اور اس طرح آدم کو سجدہ کرانے سے اللہ نے آدم کو فرشتوں سے افضل بنا دیا۔(یہی تماناؤں کا خوں ہے)اس تبدیلی کو شیطان فرشتوں کی آرزوؤں کا برباد ہونا کہتا ہے۔لیکن خود شیطان نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور انکار کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود کو آدم سے برتر اور افضل سمجھتا تھا۔اس نے اپنی امیدوں کا خون نہیں ہونے دیا اگرچہ اس جرم کی پاداش میں بطور سزا اسے دربارخداوندی سے نکلنا پڑالیکن اس نے فرشتوں کی طرح خود کو آدم کے آگے نہیں جھکایا۔
    الفاظ و معنی: قدرتی عناصر چار ہیں اور عنصرکی جمع یعنی آگ ، پانی ، مٹی اور ہوا ہر چیز انہی مادی اجزا سے بنی ہے اور اس پرانی دنیا کا سارا کھیل انہی چار عناصریعنی آگ ،پانی ، مٹی اور ہواکی ترکیب خاص سے معرض وجود میں آیاہے ۔اور اسے وجود میں آئے اتنا طویل عرصہ اور زمانہ ہو گیا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس لئے پرانی ،بوڑھی اور دنیائے دوں مطلب رذیل و کمینہ صفت بھی ہے۔ساکنان ساکن کی جمع ہے۔ یعنی رہنے والے خُدا اور فرشے۔ جو بلندوبالا عظمت والے خدا کا تخت جو کہیں آسمانوں سے بھی بہت دور آگے ہے یہ تخت کوئی مادی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے انوار کا ایک جہان ہے جسے خدا کی عظمت اور حقیقی بادشاہت کی بنا پر تخت کا نام دیا گیا ہے۔

    اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
    جس نے اس کانام رکھا تھا جہان کاف و نون
    ترجمہ و شرح
    ابلیس کہتا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے وہ بگڑے ہوئے کام بنانے والا خدا جس کے ایک لفظ کن (ہو جا )کہنے سے کائینات عدم سے وجود میں آ گئی وہی آج اس کی بربادی پہ تلاہوا معلوم ہوتا ہے۔دنیا کے وجود میں آنے کے کئی نظریے پیش کئے جاتے ہیں لیکن قرآن نے یہی بتایا ہے کہ پہلے عدم تھایعنی خدا کے سواء کچھ بھی نہ تھاپھر ارادہ کیا اور کن کہا تو سب کچھ ہو گیا۔
    نوٹ: ڈارون اور اس جیسے دیگر فلسفہ دان جنہوں نے اس کائینات کی پیدائش سے متعلق مختلف بے تکے قسم کے نظریے بیان کیے درحقیقت یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تھا۔حوالے کے لئے پڑھیں (یہودی پروٹوکولز)
    آج کے ترقی یافتہ دور جس میں ڈی۔این۔اے تک کی دریافت ہو چکی ہے جس کے ذریعے پوری انسانی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے ۔
    الفاظ و معنی
    کارساز:
    یعنی ہر طرح کے کام بنانے والا ۔کاف و نون: مطلب ک ۔ن ۔سے مل کر لفظ کن بنتا ہے اور جب کن کہا تو فیکون ہوگیا۔یعنی اللہ تعالیٰ (ہو جا) کہا اور فیکون (ہو گیا)مطلب کائینات اور اس کی جملہ اشیا ء اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے عدم سے وجود میں آگئیں۔


    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد ظہیر اقبال
     
    Last edited: ‏6 ستمبر 2018

اس صفحے کو مشتہر کریں