1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آہ اشبیلیہ (Seville)

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏21 نومبر 2018۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    آہ اشبیلیہ (Seville)
    جاوید چوہدری منگل 20 نومبر 2018

    اور میں پھر بالآخر سیویا پہنچ گیا اور یوں رومیوں کا ہسپالس‘ مسلمانوں کا اشبیلیہ اور ہسپانیوں کا سیویا میرے سامنے تھا۔

    مؤرخین 1500ء سے 2000ء تک پانچ سو سال کی تاریخ کو دنیا کا جدید ترین دور کہتے ہیں اور سیویا (Seville) اس دور کا نقطہ آغاز تھا‘ امریکا اس شہر سے دریافت ہوا ‘ سگریٹ‘ سگار اور بیڑی نے اس شہر میں جنم لیا‘ مکئی‘ آلو اور چاکلیٹ اس شہر سے جدید دنیا میں داخل ہوئے‘ افریقہ کے سیاہ فام غلام پہلی مرتبہ اس شہر سے امریکا پہنچائے گئے۔

    کافی‘ گھوڑے اور گنا اس شہر سے لاطینی امریکا کا حصے بنے ‘ یہ وہ شہر تھا جس نے پوری دنیا میں آتشک اور سوزاک جیسی جنسی بیماریاں پھیلائیں اور یہ وہ شہر تھا جو اندلس میں مسلمانوں کے زوال کی پہلی اینٹ بنا غرض آپ جدید دنیا کو جس زاویئے‘ جس اینگل سے بھی دیکھیں گے سیویا آپ کو درمیان میں نظر آئے گا اور میں دس نومبر 2018ء کو اس عظیم سیویا پہنچ گیا‘ کرسٹوفر کولمبسابن بطوطہ اور ابن خلدون کے سیویا میں۔


    سیویا کا پہلا حوالہ یونان کی رزمیہ داستان ہیلن آف ٹرائے میں ملتا ہے‘ داستان کا مرکزی کردار ٹروجن ہسپالس (سیویا) میں پیدا ہوا تھا‘
    دوسرا اہم حوالہ مورش مسلمان ہیں‘ طارق بن زیاد کے قدموں نے 711ء میں اسپین کی سرزمین کو چھوا‘ وہ بربر غلام زادہ اسپین میں جس جگہ اترا وہاں طریفہ کے نام سے شہر آباد ہوا‘ یہ شہر آج بھی 13 سو سال سے قائم ہے اور یہ اسپین اور مراکش کے درمیان اہم بندرگاہ ہے‘
    مراکش کا شہر طنجہ (تانجیر) طریفہ سے صرف بیس منٹ کے آبی سفر کے فاصلے پر واقع ہے‘ طریفہ اور طنجہ کے درمیان ہر گھنٹے بعد فیری چلتی ہے‘ یہ فیری دو تہذیبوں کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ دو براعظموں کے درمیان رابطہ بھی ہے‘ بنو امیہ کے زمانے میں موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کے کمانڈر اور گورنر تھے۔

    • طارق بن زیاد ان کا غلام تھا‘ طارق بن زیاد نے 711ء میں جبل الطارق (جبرالٹر) فتح کر لیا اور وہ اسپین کے اہم ترین شہروں کے طرف بڑھنے لگا ‘
    • موسیٰ بن نصیر کا صاحبزادہ عبدالعزیز بھی طریفہ میں اترا اور وہ ہسپالس کی طرف بڑھنے لگا‘
    • عبدالعزیز بن موسیٰ نے 712ء میں ہسپالس فتح کیا اور شہر کا نام تبدیل کر کے اشبیلیہ رکھ دیا‘ یہ شہر پھر 23 نومبر 1248ء عیسائیوں کے ہاتھوں ختم ہونے تک اشبیلیہ ہی رہا‘
    • اشبیلیہ کی فتح کے دو سو سال بعد 2 جنوری 1492ء کو مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گئی‘
    • آخری مسلمان فرمانروا ابو عبداللہ محمد اپنے 1130 لوگوں کے ساتھ مراکش پہنچا‘ فیض گیا اور یوں اسپین میں اسلامی ریاست کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہو گیا۔
    سیویا کا تیسرا حوالہ کرسٹوفر کولمبس ہے‘ وہ سقوط غرناطہ کے وقت عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے ساتھ کھڑا تھا‘ کولمبس ہندوستان کا نیا راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا‘ وہ فنڈنگ کے لیے یورپ کے تین بادشاہوں کے پاس گیا مگر انکار ہو گیا‘ وہ آخر میں غرناطہ کے اسلامی سقوط پر نظریں جما کر کھڑا ہو گیا‘ جوں ہی الحمرا سے اسلامی پرچم اتارا گیا‘ وہ آگے بڑھا‘ ملکہ ازابیلا کا ہاتھ چوما‘ مبارک باد دی اور فنڈنگ کی درخواست کر دی‘ ملکہ اس وقت خوشی کی انتہا کو چھو رہی تھی‘ اس نے کھڑے کھڑے کولمبس کا منہ موتیوں سے بھر دیا یوں کولمبس تین اگست 1492ء کو سیویا سے روانہ ہوا اور ہندوستان کا نیا راستہ تلاش کرتے کرتے دنیا کو نئی دنیا سے متعارف کرا گیا اور اس کے بعد پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا‘ دنیا صرف دنیا نہ رہی حیران کن دنیا بن گئی۔

    میں یکم نومبر کو روانہ ہوا‘ کینیڈا میری پہلی منزل تھی‘ میں ٹورنٹو اور کیلگری میں نو دن گزار کر دس نومبر کو اسپین کے شہر مالگا اترا‘ یہ شہر مسلمانوں کے اندلسی دور میں مالقا کہلاتا تھا‘ عیسائی فوجوں نے 1487ء میں مالقا کے امیر کو شکست دی اور پھر اس کے بعد پورا اندلس پکے ہوئے سیب کی طرح عیسائیوں کو گود میں آ گرا‘ میرے دوست اور بھائی سہیل مقصود مالگا ائیرپورٹ کے باہر میرا انتظار کر رہے تھے۔

    سہیل مقصود ایک سادہ‘ مخلص اور گرم جوش انسان ہیں‘ غرناطہ میں کیش اینڈ کیری کے مالک ہیں اور انتہائی دلچسپ مگر غیرسیاسی دوست ہیں‘ ہم مالگا سے سیویا روانہ ہو گئے‘ ہائی وے کے دونوں طرف زیتون کے باغ تھے‘ اوپر جنوبی اسپین کا نیلا آسمان تنا ہوا تھا اور نیچے ہم ڈرائیو کر رہے تھے‘ سیویا مالگا سے ساڑھے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ شہر سیویا کی پانچ سو سال کی جدید تاریخ تین حصوں میں تقسیم ہے‘

    امریکا کی دریافت کا دور‘ یہ دور 1500ء سے ساڑھے 1800ء تک محیط ہے۔
    سیویا ان ساڑھے تین سو سال میں دنیا کا امیر ترین شہر اور اسپین رئیس ترین ملک بن گیا‘ کارلو فائیو(چارلس فائیو) 1516ء میں اسپین کا بادشاہ بنا‘ یہ دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا‘ یہ تھائی لینڈ‘ ایک چوتھائی ہندوستان‘ آدھے یورپ اور پورے امریکا کا مالک تھا چنانچہ سورج چل چل کر اور جل جل کر تھک جاتا تھا لیکن کارلو فائیو کی سلطنت ختم نہیں ہوتی تھی مگر پھر بحیرہ ہند‘ یورپ اور امریکا کے زیادہ تر ملک اسپین کے ہاتھ سے نکل گئے‘ امریکا اور ہندوستان سے تجارت ختم ہو گئی‘ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہو گیا اور آہستہ آہستہ یورپ کا مرد بیمار بنتا چلا گیا، یوں اسپین کا پہلا سنہری دور اختتام پذیر ہو گیا‘

    اسپین کا دوسرا دور 1929ء میں شروع ہوا‘ بادشاہ الفانسو(XIII) نے اسپین کی معیشت کو اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
    اس نے امریکا اور لاطینی امریکا کے ملکوں سے رابطہ کیا‘ کولمبس کا واسطہ دیا‘ نئی دنیا راضی ہوئی اور 1929ء کو سیویا میں جدید دنیا کی سب سے بڑی نمائش شروع ہو گئی‘ لاطینی امریکا کے تمام ملکوں نے سیویا میں اپنے قونصل خانے بنائے‘ اپنے تجارتی جہازوں کا رخ اسپین کی طرف موڑا اور یوں اسپین ایک بار پھر ٹیک آف کرنے لگا

    اور تیسرا دور 1992ء میں شروع ہوا‘ 12 اکتوبر1992ء کو امریکا کی دریافت کے پانچ سو سال پورے ہوئے‘اسپین کے وزیراعظم فلپ گونزا لیز مارکوئز نے امریکی اقوام کو ایک بار پھر راضی کیا‘ سیویا میں امریکی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی ایک اور بین الاقوامی نمائش ہوئی اور سیویا کی مہربانی سے اسپین ایک بار پھر جدید دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا‘ اسپین آج جو کچھ ہے اس کی وجہ 1929ء اور 1992 کی نمائشیں ہیں۔

    ہم نے سیویا کی مرکزی شاہراہ پر نیم جدید ہوٹل سلکن اندلوسیہ میں قیام کیا‘ یہ سڑک 1929ء کی نمائش کے لیے تعمیر کی گئی تھی ‘ لاطینی امریکا کے زیادہ تر قونصل خانے اس سڑک پر واقع ہیں‘ پرانا شہر ہوٹل سے چار کلو میٹر دور تھا‘ ہم رات کے وقت سیویا کی قدیم گلیوں میں اتر گئے‘
    سیویا میں چار مقامات اہم ہیں‘

    1. مسلمان بادشاہوں کا محل القصر‘
    2. کیتھڈرل‘
    3. انڈین آرکائیو
    4. اور جدید محل‘
    ہم نے دوسرے دن یہ تمام مقامات ادھیڑ کر دیکھے‘ القصر مسلمانوں کی آخری نشانی ہے۔
    محل کی بیرونی اور اندرونی دیواریں آج بھی قائم ہیں‘ ان میں اسلامی دور کی خوشبو بھی موجود ہے‘ نیلی اور سفید ٹائلیں‘ وہی آبنوسی لکڑی کی چھتیں اور ان چھتوں پر اسلامی نقش‘ وہی وزنی منقش دروازے‘ وہی پتھر کے فرش‘ وہی قدیم لکڑی کے قدیم جھروکے‘ وہی کمروں کے اندر فوارے اور محل کے چاروں اطراف وہی سبز باغات‘ مسلمانوں کی پوری تہذیب آج بھی القصر میں زندہ ہے‘ مسلمان اپنا طرز تعمیر مراکش سے لائے تھے‘ اسپین کے عیسائی آرکی ٹیکٹس نے ان میں اپنا خون جگر ملایا اور یوں دنیا میں اندلسی طرز تعمیر نے جنم لیا۔

    آپ کو یہ طرز تعمیر قرطبہ میں بھی ملتا ہے‘ غرناطہ میں بھی اور سیویا میں بھی‘ اندلسی لوگ اونچی چھتیں بناتے تھے‘ دیواریں موٹی ہوتی تھیں اور ان پر مٹی میں چونا ملا کر ایک ایک انچ لیپ کیا جاتا تھا اور پھر اس لیپ پر سنگ مرمر کے ٹکڑے اور چھوٹی ٹائلیں لگائی جاتی تھیں‘ یہ ٹائلیں‘ سنگ مر مر اور آبنوسی لکڑی تینوں مل کر اندلسی فن بن جاتی تھیں‘ دلانوں‘ ڈیوڑھیوں اور کمروں کے درمیان سنگ مرمر کے فوارے لگائے جاتے تھے اور فواروں کا پانی سفید پتھروں کی نالیوں سے ہوتا ہوا صحن کے تالاب میں جا گرتا تھا‘ تالاب کے گرد سرو کے چھوٹے بڑے درخت‘ بوگن بیل اور انگوروں کی بیلیں ہوتی تھیں اور ان بیلوں میں رنگ برنگے پرندوں کے گھونسلے ہوتے تھے‘ یہ فن القصر میں اپنے تمام رنگوں کے ساتھ موجود تھا۔

    بادشاہ کا حرم چھوٹا سا الحمرا محسوس ہوتا تھا‘ گائیڈ نے بتایا عیسائی بادشاہ نے غرناطہ کے بادشاہ سے الحمرا کے معمار ادھار لیے اور محل کا یہ حصہ تعمیر کیا‘ کولمبس کا دفتر بھی القصر میں تھا‘ امریکا کی تمام تجارتی مہمات اسی دفتر سے روانہ ہوتی تھیں‘ کولمبس کے جہاز کا شناختی نشان اور کولمبس کی امریکا روانگی کی پینٹنگ دفتر کی دیواروں پر لگی تھی‘ پینٹنگ میں کولمبس کا دوست امریکانو ویسپیوسیو
    (Americono Vespucio) صاف نظر آ رہا تھا۔

    امریکانو نے سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی‘ امریکانو اطالوی تھا اور کولمبس کا دوست تھا‘ کولمبس موت تک امریکا کو انڈیا سمجھتا رہا‘ اس نے اسی لیے امریکا کے قدیم باشندوں کو ’’ریڈ انڈین‘‘ کا نام دیا تھا‘ امریکانو پہلا شخص تھا جس نے نقشے کی بنیاد پر ثابت کیا ’’کولمبس نے انڈیا کا نیا راستہ نہیں بلکہ ایک نئی دنیا دریافت کی ‘‘ امریکانو کی تھیوری بعد ازاں سچ ثابت ہوئی چنانچہ نئے ملک کا نام امریکانو کے نام پر امریکا رکھ دیا گیا‘ بادشاہ فرڈیننڈ نے 1508ء سیویا میں ’’نیوی گیشن‘‘ کی دنیا کی پہلی یونیورسٹی بنائی اور امریکانو کو اس کا سربراہ بنا دیا‘ یونیورسٹی کی عمارت آج تک موجود ہے۔

    مجھے وہاں جانے کا موقع بھی ملا‘ اسپین کے تمام جہاز ران کولمبس کے اس دفتر سے اجازت لے کر امریکا جاتے تھے اور بادشاہ ان کے تجارتی سامان سے اپنا حصہ وصول کرتا تھا‘ کولمبس کے دفتر کے بعد محل کے دو ہال بہت اہم ہیں‘ پہلا کارلو فائیو کی شہزادی ازابیلا دوم کے ساتھ شادی کا ہال تھا‘ ازابیلا پرتگال کی شہزادی تھی‘ وہ ہال کے دائیں دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی جب کہ کارلو فائیو بائیں دروازے سے‘ دائیں دروازے پر آج بھی پرتگال کا جھنڈا اور شناختی نشان موجود ہے جب کہ بائیں دروازے پر اسپین کا نشان اور جھنڈا تھا۔

    یہ ہال خصوصی طور پر اس شادی کے لیے بنایا گیا تھا‘ دوسرا ہال تیونس کی فتح کی یادگار تھا‘ 1535ء میں ترک بادشاہ سلطان سلیمان اول تیونس تک پہنچ گیا‘ وہ سیویا فتح کر کے یورپ داخل ہونا چاہتا تھا ‘کارلو فائیو نے یورپی فوج بنائی‘ بحری جہازوں پر تیونس پہنچا اور عثمانی خلیفہ کو شکست دی‘ اس شکست نے فیصلہ کر دیا عثمانی خلافت شمالی افریقہ سے آگے نہیں آئے گی‘ کارلو فائیو نے فتح کے بعد یہ وکٹری ہال بنوایا‘ ہال کی تین دیواروں پر طویل قالین لٹک رہے تھے‘ قالین بافوں نے قالینوں میں جنگ اور فتح کا سارا احوال نقش کر رکھا تھا‘ یہ کارپٹ پینٹنگز تھیں اور یہ پینٹنگزہر لحاظ سے ماسٹر پیس تھیں۔
     
    زنیرہ عقیل، پاکستانی55 اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی شئیرنگ کا شکریہ
     
    کنعان نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    سیویا کا ایک دن
    آرکائیوڈی انڈیا القصر کے مرکزی دروازے کے سامنے ہے‘ اسپین نے سولہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان میں اپنی پہلی کالونی بنائی اورتاجر تجارتی سامان لے کر انڈیا جانے لگے‘ بادشاہ نے جہازوں اور جہازرانوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے سیویا میں کمپلیکس بنا دیا‘ یہ شروع میں انڈین کاسا کہلاتا تھا‘ امریکا سے تجارت شروع ہوئی تو امریکی ریکارڈ بھی یہیں رکھا جانے لگا‘ اٹھارہویں صدی میں تجارت ختم ہو گئی تو حکومت نے اس عمارت کو آرکائیو ڈی انڈیا کا نام دے دیا‘ یہ دنیا کے چند بڑے آرکائیوز میں شمار ہوتی ہے۔

    [​IMG]
    Archive Building, Seville
    اس میں پانچ سو سال کے دوران امریکا اور انڈیا جانے والے لوگوں‘ تجارتی سامان‘ آمدنی‘ اخراجات اور تجارتی جہازوں کا ڈیٹا ہے‘ یہ ڈیٹا کتنا زیادہ ہے آپ اس کا اندازہ الماریوں سے لگا لیجیے‘ گائیڈ نے بتایا اگر آرکائیو ڈی انڈیا کی تمام الماریاں قطار میں کھڑی کر دی جائیں تو یہ نو کلو میٹر تک پھیل جائیں گی‘ یہ کلونیل طرز کی اسپینش عمارت ہے اور یہ دل میں کھب جاتی ہے‘ سیویا کا جدید محل آرکائیو ڈی انڈیا سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع ہے‘ یہ محل 1929ء کی نمائش کے لیے بنوایا گیا تھا‘ یہ سرخ اینٹوں کی سرخ عمارت ہے اور یہ دائیں سے بائیں دور تک پھیلی ہے‘ اسپین کے پچاس صوبے ہیں‘ محل میں بھی پچاس کمرے ہیں اور ہر کمرہ ایک صوبے سے منسوب ہے‘ ملک کے چار حصے ہیں چنانچہ محل میں مصنوعی نہر بنا کر اس پر چار پل بنا دیئے گئے۔

    پورے محل کے فیس پر نیلی ٹائلیں اور سنگ مرمر کے چھوٹے ستون ہیں‘ یہ مورش کلچر اوراسلامی تہذیب کی نشانی ہیں‘ عمارت مشہور آرکی ٹیکٹ اوسوریو (Ossorio) نے ڈیزائن کی‘ اوسوریو کا مجسمہ محل کے سامنے ایستادہ ہے لیکن اس شاندار ٹریبوٹ کے باوجود اوسوریو کی زندگی کا آخری حصہ المیے میں گزرا‘ بادشاہ یہ محل جلد سے جلد مکمل دیکھنا چاہتا تھا لیکن آرکی ٹیکٹ اپنے ڈیزائن پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ طاقت اور پروفیشنل ازم کا مقابلہ ہوا اور طاقت جیت گئی‘ بادشاہ نے کانٹریکٹ منسوخ کر دیا‘ آرکی ٹیکٹ اپنی پوری زندگی کی کمائی محل پر لگا چکا تھا‘ کمائی ایک دن میں ڈوب گئی اور آرکی ٹیکٹ کسمپرسی کے عالم میں انتقال کر گیا لیکن اس کا ڈیزائن آج بھی اسپین کو اربوں روپے کما کر دے رہا ہے‘ محل کے صحن میں برآمدے کے ساتھ ساتھ اسپین کی تاریخ کے اہم واقعات کے موزیک ہیں‘ یہ باریک پتھروں کی پینٹنگز ہیں۔

    میں سقوط غرناطہ اور کولمبس کی روانگی کے موزیک پر رک گیا‘ غرناطہ کے بوتھ میں ابوعبداللہ محمد الحمرا کی چابی فرڈیننڈ کے حوالے کر رہا تھا اور ملکہ ازابیلا مسکرا رہی تھی‘ میں نے آہ بھری اور آگے بڑھ گیا جب کہ کولمبس کے بوتھ میں کولمبس جہازوں کو روانگی کا حکم دے رہا تھا‘ محل کی بغل میں چند سو میٹر کے فاصلے پر دنیا کی سگریٹ کی پہلی فیکٹری تھی‘ یہ بھی ایک وسیع عمارت ہے‘ تمباکو‘ مکئی اور آلو امریکا سے یورپ آئے تھے‘ دنیا 1500ء تک ان کی شکل اور ذائقے سے نابلد تھی‘ ریڈانڈین تمباکو کے پتوں کا خشک چورا تمباکو کے پتے میں لپیٹ کر سلگاتے تھے اور اس کے کش لیتے تھے‘ یہ لوگ اسے سگار کہتے تھے‘ کولمبس امریکا سے ہزاروں سگار لے کر آیا‘ سگار اسپینش اشرافیہ کے لیے نئی چیز تھے چنانچہ یہ دھڑا دھڑ بکنے لگے۔

    امراء سگار پیتے تھے اور اس کا آخری حصہ گلی میں پھینک دیتے تھے‘ غریب لوگ وہ حصہ اٹھا کر کھولتے تھے‘ سگار کا تمباکو کاغذ میں لپیٹتے تھے اور سلگا کر پینا شروع کر دیتے تھے‘ یہ بیڑی کہلاتی تھی‘ بیڑی کو ہسپانوی زبان میں سگریٹی یعنی غریب آدمی کا سگار کہا جانے لگا‘ تاجروں نے اس ٹرینڈ کو کیش کرانے کا فیصلہ کیا‘ وہ تمباکو امپورٹ کرنے لگے اورعام لوگ یہ تمباکو کاغذ میں لپیٹ کر پینے لگے‘ یہ ٹرینڈ 1750ء میں سگریٹ فیکٹری میں تبدیل ہو گیا‘ سیویا میں پہلی سگریٹ فیکٹری بنی‘ بارہ سو خواتین بھرتی کی گئیں اور یہ ہاتھ سے سگریٹ بنانے لگیں‘ فیکٹری مالکان نے اربوں روپے کمائے‘ یہ فیکٹری 1950ء تک چلتی رہی‘ بند ہوئی تو حکومت نے اس میں آرٹ‘ کلچر اور زبان کی یونیورسٹی بنا دی‘ میں عمارت کے سامنے کھڑا تھا‘ عمارت کے سروں پر چرچ اور جیل تھی‘ چرچ میں کارکن خواتین عبادت کرتی تھیں جب کہ جیل میں سگریٹ چرانے والی خواتین بند کر دی جاتی تھیں‘ فیکٹری مالکان نے چوری سے بچنے کے لیے عمارت کے گرد خندق کھود رکھی تھی‘ وہ خندق آج تک موجود ہے۔

    سیویا کا کیتھڈرل شہر کی اہم ترین عمارت ہے‘ یہ عمارت ماضی میں مسجد ہوتی تھی‘ عیسائیوں نے اشبیلیہ کے زوال کے بعد مسجد شہید کر دی تاہم مسجد کا مینار‘ صحن‘ دیوار کا ایک حصہ‘ مین گیٹ اور برآمدہ بچ گیا‘ یہ پانچوں آج بھی وہاں موجود ہیں‘ یہ چرچ دنیا کا تیسرا بڑا کیتھڈرل ہونے کے باوجود شہید مسجد کا مقابلہ نہیں کر پا رہا‘ مسجد کا مینار پوری دنیا میں سیویا کا شناختی نشان ہے‘ آپ جب اور جہاں سیویا ٹائپ کریں گے اشبیلیہ کی شہید مسجد کا مینار سامنے آ جائے گا‘ مراکش کے مسلمان مسجد کے لیے چورس مینار بناتے ہیں‘ مینار پچاس بائی پچاس فٹ کا ایک کمرہ ہوتا ہے اور یہ کمرہ منزل بہ منزل اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے‘ انتہائی بلندی پر پہنچ کر مینار کی چھت ڈال دی جاتی ہے اور چھت پر نسبتاً چھوٹا نوک دار مینار بنا یا جاتا ہے۔

    [​IMG]
    مینار سازی کا یہ فن مراکش سے اندلس آیا‘ اس میں مقامی معماروں نے کھڑکیاں‘ جھروکے اور جالیاں بنائیں اور یوں یہ اصل سے زیادہ خوبصورت ہو گیا‘ عیسائی فاتحین نے 1401ء میں مسجد گرانا شروع کی اور یہ لوگ جب مینار تک پہنچے تو مینار کی خوبصورتی اور کروفر نے ان کے بازو شل کر دیئے‘ مینار بچ گیا اور یہ آج اسپین میں اسلام کے سنہری دور کا نقیب بن کر کھڑا ہے‘ آپ اگر کیتھڈرل کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوں تو آپ مسجد کے صحن میں آ جاتے ہیں‘ صحن میں آج بھی مالٹے کے درخت‘ فوارہ اور گہری سبز بیلیں ماضی اور حال کی گانٹھ بن کر موجود ہیں‘ بائیں جانب کیتھڈرل کے ہال کے دروازے سے پہلے مسجد کا برآمدہ بھی موجود ہے اور یہ برآمدہ اپنے منہ سے بول رہا ہے آپ نے جس دن مجھے ہٹانے کی کوشش کی۔

    آپ کا سارا چرچ گر جائے گا‘ برآمدہ دراصل چرچ کی بنیاد ہے‘ برآمدہ ہٹانے سے چرچ کی عمارت واقعی قائم نہیں رہ سکے گی چنانچہ شہید مسجد کی یہ آخری نشانیاں کیتھڈرل کے لیے چیلنج بن کر کھڑی ہیں‘ کیتھڈرل کا آلٹر (قربان گاہ) دنیا کا سب سے بڑا آلٹر ہے‘ حضرت عیسیٰ ؑکی پوری زندگی مجسموں کی شکل میں آلٹر میں موجود ہے اور یہ تمام مجسمے سونے کے ہیں‘ میں نے پوری دنیا میں کسی جگہ اتنا سونا نہیں دیکھا لیکن یہ سارا سونا اور یہ ساری دلفریبی شہید مسجد کے ایک مینار کا مقابلہ نہیں کر پاتی‘ کیتھڈرل آٹھ سو سال گزرنے کے باوجود سیویا کا شناختی نشان نہ بن سکا‘ شہر کا شناختی نشان آج بھی مسجد کا مینار ہے‘ کیتھڈرل کا مین گیٹ بھی آٹھ سو سال سے قائم ہے‘ یہ کبھی مسجد کا مرکزی دروازہ ہوتا تھا‘ یہ دروازہ بھی قائم ہے اور اس پر کندہ آیات بھی‘ بے شک اللہ کے نام کو کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی۔

    کولمبس کی قبر سیویا کے کیتھڈرل میں ہے‘ کرسٹوفر کولمبس ایک حیران کن کردار تھا‘ وہ 1451ء میں اٹلی کے شہر جنوا میں پیدا ہوا‘ 19 سال کی عمر میں مہم جوئی شروع کی‘ دھکے کھاتا ہوا پرتگال پہنچا‘ شادی کی‘ بیٹا ڈیگو کولمبس پیدا ہوا‘ بیوی کا انتقال ہوا اور وہ بیٹے کو لے کر سیویا آ گیا‘ ہندوستان کا قریب ترین روٹ دریافت کیا اور فنانسنگ کے لیے بادشاہوں کے پیچھے بھاگنے لگا‘ وہ آسٹریا‘ پرتگال اور سیویا کے بادشاہوں سے ملا لیکن کسی نے اس فضول کام میں دلچسپی نہ لی‘ وہ تھک ہار کر سیویا میں بیٹھ گیا تاہم وہ ملکہ ازابیلا کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا‘ ملکہ نے اس سے وعدہ کر لیا اگر وہ غرناطہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ اس کے منصوبے کو فنانس کر دے گی‘ وہ فنڈنگ کے لالچ میں عیسائیوں کے لشکر میں شامل ہو گیا۔

    قسمت نے یاوری کی اور غرناطہ فتح ہو گیا ‘ وہ تین جہازوں سانتا ماریا (Santa María)‘ نینا (Niña) اور پنٹا (Pinta) پر87 لوگ لے کر تین اگست 1492 کو سیویا سے نکلا‘ دریا وادی الکبیر سے ہوتا ہوا اٹلانٹک اوشن میں اترا اور 36 دن بعد بہاماس پہنچ گیا‘ یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو تھا‘ وہ 15 مارچ 1493 کو واپس لوٹ آیا‘ 25 ستمبر1493ء کو دوسری مرتبہ امریکا گیا‘ اس نے اس بار ڈومنیکا اور کیوبا دریافت کر لیا‘ یہ کامیابی سونے کی کان ثابت ہوئی اور ہسپانوی تاجر دھڑا دھڑ امریکا جانے لگے‘ کولمبس‘ تاجر اور سیویا کا شاہی خاندان نئی دریافت کو انڈیا کا قریب ترین راستہ سمجھ رہے تھے‘ کولمبس پوری زندگی امریکا کو انڈیا‘ ڈومنیکا کو چین اور کیوبا کو جاپان سمجھتا رہا‘ وہ شاندار جہازران لیکن ناکام ترین ایڈمنسٹریٹر تھا‘ وہ اپنی حماقتوں کی وجہ سے اپنے لوگوں کے ہاتھوں گرفتار تک ہو گیا‘ ملکہ ازابیلا نے فوج بھجوا کر اس کی جان بچا لی‘ حکومت نے اس کے سفر پر بھی پابندی لگا دی‘ وہ شدید ذہنی خلجان کا شکار ہوا اور 1506ء میں والا ڈولیڈ (Valladolid) شہر میں انتقال کر گیا۔

    اس کا بیٹا ڈیگو اس کی لاش سیویا لے کر آیا اور اسے شہر کے باہر دفن کر دیا‘ ڈیگو کی وفات کے بعد اس کی بیوی ماریا اپنے خاوند اور سسرکولمبس کی لاش ڈومنیکا ساتھ لے گئی اور انھیں ڈومنیکا میں سانتو ڈومینگوکیتھڈرل میں دفن کر دیا‘ کولمبس اڑھائی سو سال ڈومنیکا میں دفن رہا‘ 1795ء میں ڈومنیکا میں حالات خراب ہو گئے‘ کیوبا اس وقت اسپینش کالونی تھا‘ حکومت نے اس کی لاش نکالی اور کولمبس کو ہوانا میں دفن کر دیا‘ 1898ء میں جب کیوبا کے حالات بھی خراب ہو گئے تو کولمبس کی لاش ہوانا سے سیویا لاکر کیتھڈرل میں دفن کر دی گئی‘ کولمبس کا دوسرابیٹا ہرنانڈو بھی کیتھڈرل میں دفن ہے۔ 1877ء میں سانتو ڈومینگو کیتھڈرل میں کھدائی کے دوران ایک باکس دریافت ہوا تھا ۔

    جس کے اوپر کرسٹوفر کولمبس کا نام لکھا تھا اور اس کے اندر 13 بڑی اور 28 چھوٹی ہڈیاں تھیں‘ کھدائی کرنے والوں نے دعویٰ کیا کولمبس کی اسپین (سیویا) لے جائی جانے والی باقیات اصل نہیں ہیں‘ یہ بحث 125 سال چلتی رہی‘ یہ مسٹری حل کرنے کے لیے 2002ء میں سانتو ڈومینگو کیتھڈرل اور سیویا کیتھڈرل میں موجود دونوں قبروں کی کھدائی کی گئی‘ باقیات کا ڈی این اے کیا گیا اور ثابت ہو گیا سیویا کیتھڈرل کی باقیات ہی اصل میں کرسٹوفر کولمبس کی باقیات ہیں‘ کولمبس واقعی سیویا کیتھڈرل میں دفن ہے لیکن لاش کی بار بار کی نقل مقانی سے کولمبس کی باقیات صرف ڈیڑھ سو گرام بچی تھیں اور میں اس وقت ان باقیات کے سامنے کھڑا تھا۔

    جاوید چوہدری
    جمعہء 23 نومبر 2018
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    افریقہ کا پہلا شہر

    ہم نے طریفہ سے فیری لی اور آدھ گھنٹے میں اسپین سے طنجہ پہنچ گئے‘ طنجہ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے حیران کن شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ یورپ کی طرف سے براعظم افریقہ کا پہلا شہر ہے‘ یہ دو براعظموں‘ دو تہذیبوں اور دو جغرافیائی اکائیوں کا نقطہ اتصال بھی ہے‘ آپ سمندر میں بیس منٹ کا سفر کرتے ہیں اور ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے۔

    کہاں یورپ کا سکون‘ صفائی اور آرام اور کہاں افریقہ کی افراتفری‘ گندگی اور شور‘ کہاں چرچز کی گھنٹیاں اور حرام کھانا اور کہاں حلال اور اذان کی آوازیں غرض بیس منٹ کے سفر نے ہر چیز بدل کر رکھ دی‘ طنجہ (تانجیر) دو سمندروں کا مقام وصل بھی ہے‘ یہاں بحراوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) اور بحیرہ روم (میڈٹیرین سی) آپس میں ملتے ہیں‘ میڈٹیرین گرم اور اٹلانٹک ٹھنڈا سمندر ہے‘ یہ دونوں ملتے ہیں اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے سبز اور سرمئی پانیوں کو ساتھ ساتھ بہتا دیکھتے ہیں۔

    شہر کا ایک حصہ میڈٹیرین سی پر آباد ہے‘ دوسرا اٹلانٹک اوشن پر ہے اور تیسرا حصہ دونوں سمندروں کے مقام وصل پر۔ سمندروں کے درمیان ٹریفالگر نام کا وہ مقام بھی موجود ہے جہاں 1805ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان خوفناک بحری جنگ ہوئی‘ یہ مہم نپولین وار کا حصہ تھی‘ اسپین نے فرانس کا ساتھ دیا تھا‘ یہ مقام بحری جہازوں کا قبرستان بھی کہلاتا ہے کیونکہ یہاں دونوں فریقین کے درجنوں جہاز ٹوٹ کر ڈوب گئے تھے تاہم یہ جنگ برطانیہ جیت گیا اور اس نے اس جیت کی یاد میں لندن میں ٹریفالگر اسکوائر بنایا ‘ یہ اسکوائر لندن آنے والے ہر سیاح کی تصویر کا حصہ بنتا ہے‘ طنجہ میں زمانہ قدیم کے غار بھی ہیں‘ یہ غار ہرکولیس کیو کہلاتے ہیں‘ غار کا دھانہ سمندر کی طرف کھلتا ہے۔


    سمندر کی لہریں جوش میں چٹانوں سے ٹکراتی ہیں اور پانی اڑ کر غار کے اندر داخل ہو جاتا ہے‘ غار گیلریوں کی طرح اندر ہی اندر پھیلتا چلا جاتا ہے‘ زمانہ قدیم میں یہاں افریقہ کے قدیم باشندے رہتے تھے‘ غار کے دہانے کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ہو بہو براعظم افریقہ کا نقشہ محسوس ہوتا ہے‘ مراکش دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے امریکا کو تسلیم کیا تھا‘ امریکا نے 1776ء میں سول وار کے بعد برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا اور مراکش کے شاہ محمد الثالث بن عبداللہ نے 1777ء میں امریکا کو آزاد ملک تسلیم کر لیا ‘اس کے بعد دنیا بھر کے ملک امریکا کو امریکا مانتے چلے گئے۔

    سلطان سلیمان نے 1821ء میں امریکا کو طنجہ میں سفارت خانہ بنانے کے لیے زمین دی‘ یہ امریکا سے باہر امریکا کی پہلی جائیداد تھی‘ امریکا نے طنجہ میں سفارت خانہ بنایا‘ یہ افریقہ‘ جنوبی یورپ اور اسلامی ممالک میں پہلا امریکی سفارت خانہ تھا اور یہ آج تک شہر کے قدیم حصے میں موجود ہے‘ طنجہ ہی وہ شہر ہے جس میں پہلا امریکی شہری امریکا کے باہر آباد ہوا‘آئیون پردیکا ریس (Ion Pardicaris) نے 1872ء میں طنجہ کی ایک پہاڑی خریدی اور اس پر سمندر کے رخ گھر بنایا‘ 18 مئی 1904ء کو پردیکارس اور اس کے سوتیلے بیٹے کو مولائے احمد الرئیسونی نے اغواء کرلیا۔

    رئیسونی نے پردیکارس کے عوض سلطان عبدالعزیزسے 70 ہزار امریکی ڈالرزاور مراکش کے دو اضلاع کا کنٹرول مانگا‘ سلطان نے انکار کر دیا‘ امریکی صدر روزویلٹ نے پردیکارس کو چھڑوانے کے لیے ایک نیول دستہ طنجہ بھجوا دیا جب کہ امریکا کے وزیر خارجہ جان ہے (John hay) نے سلطان عبدالعزیز کو یہ مشہور زمانہ ٹیلی گرام بھیج دیا ’’ہمیں زندہ پردیکارس یا مردہ احمد رئیسونی چاہیے‘‘ سلطان یہ دباؤ برداشت نہ کر سکا‘ اس نے رئیسونی سے معاملات طے کر لیے اور یوں پردیکارس رہا ہو گیا‘پردیکارس کا گھر اور پہاڑی آج تک موجود ہے تاہم حکومت نے پہاڑی کے ایک بڑے حصے کو خوبصورت پارک میں تبدیل کر دیا ہے۔

    پارک کے قدیم درختوں کے نیچے سے سمندر کا نظارہ ایک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ ہالی ووڈ نے پردیکاریس کے اغواء پر 1975ء میں ’’ دی ونڈ اینڈ دی لائن‘‘ کے نام سے خوبصورت فلم بنائی‘ فلم میں شین کانری نے رئیسونی کا کردار ادا کیا‘ طنجہ میں برگد کا 9 ہزار سال پرانا درخت بھی ہے‘ برگد ہندوستان کا درخت ہے‘ یہ افریقہ یا یورپ میں نہیں اگتا‘ یہ درخت طنجہ کیسے پہنچا اور اس نے کس طرح افریقہ میں اپنی گنجائش پیدا کی اور یہ نو ہزار سال سے کیسے قائم ہے‘ یہ ایک مسٹری ہے۔

    یہ درخت کبھی گورنر ہاؤس یا شاہی محل کے صحن میں ہوتا تھا لیکن یہ شاہی محل اب کامرس منسٹری میں تبدیل ہو چکا ہے‘ درخت واقعی پرانا ہے اور یہ قدرت کا کرشمہ بھی‘ طنجہ ماضی میں بھی غیر ملکیوں کی آماجگاہ تھا اور آپ کو آج بھی یہاں دنیا بھر کی قومیتیں نظر آتی ہیں‘ مراکش 1947ء میں آزاد ہوا‘ طنجہ کی آبادی اس وقت ایک لاکھ تھی‘ ان ایک لاکھ لوگوں میں مقامی لوگ صرف 20 ہزار تھے‘ 80 ہزار غیر ملکی تھے‘ آج شہر میں پندرہ لاکھ لوگ ہیں۔

    ان میں اڑھائی لاکھ غیر ملکی ہیں‘ آپ کو نیویارک کے بعد دنیا کے ہر رنگ اور قومیت کا شخص یہاں مل جاتا ہے‘ کیوں؟ اس کا جواب طنجہ کی شاندار لوکیشن ہے‘ یہ شہر دنیا کی سب سے بڑی تجارتی گزر گاہ پر واقع ہے چنانچہ دنیا جہاں کے بزنس مینوں نے یہاں اپنے دفتر بنا رکھے ہیں یا یہ یہاں رہائش پذیر ہیں‘ یورپ کے مقابلے میں طنجہ کا موسم بھی خوش گوار ہے‘ سردیوں میں یہاں زیادہ سردی نہیں پڑتی اور طنجہ کی گرمیاں بھی زیادہ گرم نہیں ہوتیں‘ یہ ایک ایسا دلچسپ شہر ہے جس میں سمندر‘ پہاڑ اور ہموار زمین تینوں ہیں‘ آپ چند قدم اٹھاتے ہیں اور آپ پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں اور آپ چند قدم اٹھا کر ٹھوس زمین پر آ کھڑے ہوتے ہیں اور آپ چند کلو میٹر کا سفر طے کر کے ٹھنڈے اور گرم دونوں سمندروں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

    یہ ایک ایسا دلچسپ شہر بھی ہے جس میں آپ کو مسجدچرچ اور سیناگوگا تینوں ساتھ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں‘ شہر میں یہودیوں کے محلے‘ قبرستان‘ مارکیٹیں اور سینا گوگا بھی موجود ہیں‘ عیسائیوں کے محلے اور چرچ بھی ہیں اور مسجدیں تو سیکڑوں ہیں‘ مسجدوں کے مینار سیویا کی قدیم مسجد کے مینار جیسے ہیں‘ آپ دونوں کو دیکھیں تو یہ آپ کو ایک دوسرے کے کزن محسوس ہوں گے۔

    مجھے یہودیوں کے محلے اور قبرستان میں بھی جانے کا اتفاق ہوا‘ میرے گائیڈ نے سینا گوگا میں جانے کا بندوبست بھی کر دیا‘ یہ سینا گوگا پرانے شہر کی تنگ گلیوں میں تھا اور یہ خاصا قدیم تھا‘ سینا گوگا کی دیوار پر ربیوں کی تصویریں اور نام لکھے تھے‘ قبرستان میں دفن لوگوں کے نام بھی وہاں موجود تھے‘ میں زندگی میں پہلی بار کسی سینا گوگا میں داخل ہوا تھا چنانچہ میرے لیے وہاں کی ہر چیز انوکھی تھی۔

    یہودی صبح اور شام دو وقت سینا گوگا آتے ہیں‘ ان پر روزانہ دو نمازیں فرض ہیں‘ مرد نیچے عبادت کرتے ہیں اور خواتین بالائی منزل پر‘ عبادت عیسائیوں کی طرح لکڑی کے بنچوں پر کی جاتی ہے‘ سامنے آلٹر (محراب) پر ایک کھڑکی ہوتی ہے‘ کھڑکی کے پیچھے ہرن یا گائے کی کھال کی بڑی بڑی تین پھرکیاں ہوتی ہیں اور تورات ان پھرکیوں پر کندہ ہوتی ہے‘ یہ پھرکیاں قالین میں ملفوف ہوتی ہیں‘ ربی آلٹر کے دائیں طرف بیٹھتا ہے‘ اس کے ڈیسک پر تین رنگوں کی تورات پڑی ہوتی ہے۔

    میں بڑی دیر تک سیناگوگا میں بیٹھا رہا‘ سینا گوگا کے دروازے پر سفید لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا چپکا ہوا تھا‘ یہودی اس ٹکڑے کو چوم کر عبادت گاہ میں داخل ہوتے ہیں‘ یہ لکڑی سینا گوگا کے فنکشنل ہونے کی نشانی ہوتی ہے‘ شہر میں 1263ء میں بننے والی ایک قدیم مسجد بھی موجود تھی‘ مسجد کا مینار سیویا کے کیتھڈرل کے مینار جیسا تھا‘
    شہر کے تین حصے ہیں‘

    1. پہلا حصہ مدینہ کہلاتا ہے‘ یہ قدیم شہر ہے‘ گلیاں تنگ اور پتھریلی اور گھر قدیم اور پرشکوہ‘
    2. مدینہ سے باہر جدید شہر آباد ہے‘ یہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں بنا
    3. اور شہر کا تیسرا حصہ امراء کی جدید ترین آبادی پر مشتمل ہے۔
    یہ حصہ پہاڑوں کی اترائیوں پر قائم ہے‘ یہاں محلات ہیں اور ہر محل ارب روپے مالیت کا ہے‘ ان محلات میں مراکشی رئیس بھی رہتے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے امراء بھی اور عرب ملکوں کے تاجر‘ صنعت کار اور شہزادے بھی‘ طنجہ شہر میں پاکستان کے کل ہوٹلوں سے زیادہ ہوٹل ہیں اور یہ ہوٹل اس کی سیاحتی انڈسٹری کے طاقتور ہونے کی نشانی ہیں۔ میں اور سہیل مقصود ایک رات وہاں رکے‘ ہم رات کے وقت طریفہ سے طنجہ آئے‘ شہر کے قدیم علاقے میں گھر میں قائم مراکشی ریستوران میں کھانا کھایا اور عربی اور اسلامی روایات کی آغوش میں سو گئے۔

    ہم نے اگلی صبح گائیڈ لیا اور ہم طنجہ کی قدیم گلیوں میں اتر گئے‘ یہ آنت جیسی باریک اور طویل گلیاں تھیں جن کے ہر مکان‘ ہر کوچے اور ہر چوراہے میں تاریخ دفن تھی‘ ہم ان گلیوں میں گھومتے گھومتے دنیا کے پہلے امریکی سفارت خانے کی عمارت میں پہنچ گئے‘ یہ مراکشی طرز کی پرانی عمارت تھی‘چھوٹے پتھروں کا وہی صحن اور صحن میں وہی فوارہ اور صحن کی طرف کھلتی گھر کی تمام کھڑکیاں اور ہر کھڑکی اور ہر دروازے سے لٹکتی بیلیں اور بیلوں کے سرخ پھول‘ وہ عمارت ماضی اور حال کا خوبصورت گلدستہ تھی مگر اس کی خوبصورتی اپنی جگہ اور ابن خلدون اور ابن بطوطہ کا محلہ اپنی جگہ۔

    ہم اپنے مرشد ابن بطوطہ کی جائے پیدائش اور مزار تلاش کر رہے تھے‘ ہم تلاش میں مارے مارے پھرتے ہوئے بالآخر اس چوک میں پہنچ گئے جس کی ایک پتلی گلی پر ابن خلدون کا بورڈ لگا تھا اور دوسری پر ابن بطوطہ لکھا تھا‘ ابن خلدون نے چند ماہ طنجہ میں قیام کیا تھا‘ وہ گلی اس قیام کی یاد تھی جب کہ ہمارا مرشد ابن بطوطہ پیدا ہی اس گلی میں ہوا تھا‘وہ پہاڑی گلی تھی‘ اونچی نیچی اور اس اونچی نیچی گلی کے دونوں طرف کندھے سے کندھا اور سینے سے سینہ جوڑ کرکھڑے چھوٹے چھوٹے مکان تھے‘ میں گلی میں دوڑتا ہوا تیزی سے اوپرچلا گیا اور پھر ایک موڑ پر میری دھڑکنیں رک گئیں‘ سامنے ایک چھوٹا سا مزار تھا اور مزار پر ابن بطوطہ لکھا تھا‘ وہ دس بائی بارہ فٹ کا کمرہ تھا۔

    ابن بطوطہ نے زندگی کا آخری حصہ اس کمرے میں گزارہ تھا‘ مرشد نے دنیا کا شاندار ترین سفر نامہ بھی اسی جگہ لکھا تھا‘ اس نے آخری سانسیں بھی یہیں لی تھیں اور وہ انتقال کے بعد مدفون بھی یہیں ہوا تھا‘میں مزار کے ساتھ گلی میں بیٹھ گیا‘ دنیا جہاں کی تاریخ اور 44 ملک پاؤں کے بل میرے سامنے بیٹھ گئے اور طنجہ کی رونقیں دائیں بائیںقطار اندر قطار کھڑی ہو گئیں‘ ہم سب مرشد کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے

    جاوید چوہدری منگل 27 نومبر 2018
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت معلوماتی لڑی
    شئیر کرنے کے لیے شکریہ
     
    کنعان نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    فیض (فاس FES) شہر میں

    قیروان تیونس کا تاریخی شہر ہے‘ یہ شہر حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں حضرت عقبہ بن نافع ؓ (ان کے صحابی ہونے پر اختلاف پایا جاتاہے) نے 670ء میں تعمیر کیا‘ عقبہ بن نافع ؓ المغرب (شمالی افریقہ کے ممالک) کی فتح کے لیے نکلے تھے‘ یہ ایک ایسی فوجی چھاؤنی چاہتے تھے جو افریقہ میں آگے طنجہ اور پیچھے دمشق سے رابطے میں رہے‘ یہ جگہ پسند آئی اور آپ نے یہاں مضبوط قلعہ اور شہر تعمیر کرا دیا۔

    قیروان عربی کے قرآن اور فارسی کے کارواں کا مجموعہ تھا‘ یہ شہر بعد ازاں اسلامی دنیا کا علمی مرکز بن گیا‘ پوری دنیا سے تاجر‘ علماء‘ فقہاء‘ مورخ‘ محدث‘ آرکی ٹیکٹس اور جرنیل یہاں آئے اور آباد ہوتے چلے گئے‘آپ کو آج افریقہ مراکش اور اندلس کی مسجدوں کا آرکی ٹیکچرحیران کر دیتا ہے‘ اس آرکی ٹیکچر نے قیروان میں جنم لیا تھا‘ آپ اگر سیویاقرطبہ اور غرناطہ کے محلات اور مسجدوں کو ماضی میں ٹریک کرنا شروع کریں تو آپ کو مسجدوں کے مینار‘ محلوں کے فوارے‘ باغات اور ٹائلیں‘ شہر کی پتھریلی گلیاں اور مراکشی اسٹائل کے گھر سیدھے قیروان لے آئیں گے‘ یہ شہر مراکو اور اندلسی طرز تعمیر کی ماں تھا۔

    قیرواں کے لوگ غرور سے کہا کرتے تھے ہمارے شہر کے سات پھیرے (نعوذ باللہ) مکہ اور مدینہ کی زیارت کے برابر ہیں‘ یہ غرور بعد ازاں اس شہر کو لے ڈوبا‘ نویں صدی میں طاعون پھیلا اور قیروان سمیت تیونس کے زیادہ تر شہر ویران ہو گئے‘ لوگ تیزی سے نقل مکانی کرنے لگے‘ ہجرت کرنے والے ان لوگوں میں قیروان کے تاجر محمد الفیری بھی شامل تھے‘ یہ اپنی ساری دولت کے ساتھ قیروان سے مراکش کے شہر فیض (فاس FES) منتقل ہو گئے۔


    فیض اس دور کا شاندار اور تاریخی شہر تھا‘ یہ آج بھی دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ محمد الفیری فیض میں آباد ہو گئے‘ ان کی صرف دو صاحبزادیاں تھیں‘ فاطمہ الفیری اور مریم الفیری‘ محمد الفیری کا انتقال ہوا تو دونوں صاحبزادیوں کو وسیع جائیداد اور دولت ملی‘ بیٹیاں دین دار تھیں چنانچہ انھوں نے والد کی دولت کو فلاح عامہ کے لیے وقف کر دیا‘ مریم نے فیض شہر میں خوبصورت مسجد بنائی جب کہ فاطمہ نے مدرسہ اور مسجد دونوں تعمیر کرائیں‘ فاطمہ کا مدرسہ چند برسوں میں دنیا کی قدیم ترین یوینورسٹی بن گیا‘ یہ یونیورسٹی آج بھی قائم ہے اور یہ جامعہ القیروان کہلاتی ہے۔

    یہ 859ء میں قائم ہوئی تھی‘ یونیورسٹی کے تمام طالب علم عربی جبہ (جلابا) پہنتے اور سر پر ٹوپی رکھتے تھے اور یونیورسٹی فارغ ہونے والے طالب علموں کو سند جاری کرتی تھی‘ یہ تینوں روایات بعد ازاں گاؤن‘ کیپ اور ڈگری میں تبدیل ہوئیں اور پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں رائج ہوئیں‘ جامعہ الازہر دنیا کی دوسری یونیورسٹی تھی‘ یہ یونیورسٹی فاطمی خلیفہ المعد المعزالدین اللہ نے 972ء میں جامعہ القیروان سے متاثر ہو کر بنائی تھی‘ دنیا میں چیئر کا تصور جامعہ الازہر سے شروع ہوا تھا۔

    الازہر میں اساتذہ کو کرسی پر بٹھایا جاتا تھا جب کہ طالب علم کرسی کے گرد حلقہ بنا کر زمین پر بیٹھتے تھے‘یہ روایت بعد ازاں چیئرمیں تبدیل ہوئی اور اب دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں مختلف مشاہیر کے نام پر چیئرز ہیں‘ ابن خلدونابن رشدالدریسیابو عمران الفاسی اور ابن بطوطہ جیسے لوگ جامعہ القیروان سے منسلک رہے‘ فاطمہ الفیری اور مریم الفیری کی مساجد بھی آج تک قائم ہیں‘عبدالرحمن اول نے 784ء میں قرطبہ مسجد ان مساجد سے متاثر ہو کر بنائی تھی‘ آپ کو اسی لیے جامع القیروان اور مسجد قرطبہ دونوں کے آرکی ٹیکچر میں مماثلت ملے گی۔

    میں 13 نومبر 2018ء کو طنجہ سے فیض پہنچا‘ دونوں شہر چار گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہیں‘
    فیض آنے کی تین وجوہات تھیں‘

    1. پہلی وجہ قیروان یونیورسٹی تھی‘
    2. دوسری وجہ قدیم شہر مدینہ تھا‘
    3. یہ دنیا کا طویل ترین قدیم شہر ہے‘ یونیسکو نے اسے عالمی اثاثہ ڈکلیئر کر رکھا ہے‘
    قدیم علاقے میں تین لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ گلیوں کی مجموعی طوالت 9 ہزار چار سو کلو میٹر بنتی ہے‘ گلیوں کے اندر تین سو قدیم مسجدیں‘ تین سو حمام‘ تین سو فوارے‘تین سو سرکاری تنور‘ دو سو مدارس اور دو سو دس محلے ہیں‘ جیولری کو جیو (یہودی) کی وجہ سے جیولری کہا جاتا ہے‘ یہودیوں نے جیولری کا کاروبار بھی فیض سے شروع کیا تھا اور زیورات جیوز کی وجہ سے جیولری بنے۔

    دنیا کا سب سے بڑا اسلامی قبرستان بھی فیض میں ہے‘ فیض میں دس لاکھ قبریں ہیں اور یہ قبریں بارہ سو سال سے موجود ہیں اورتیسری وجہ اندلس کا آخری بادشاہ ابوعبداللہ محمد تھا‘ وہ غرناطہ کے سقوط کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ فیض آ گیا تھا‘ زندگی کا آخری حصہ کسمپرسی میں فیض میں گزارہ اور پھر اپنی نسل کو زکوٰۃ اور صدقات کے حوالے کر کے چپ چاپ انتقال کر گیا اور میں اس کی قبر پر پہنچنا چاہتا تھا‘ ہم فیض پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا‘ ہوٹل قدیم شہر (مدینہ) کے قریب لیا‘ صبح گائیڈ کے ساتھ فیض میں دفن تاریخ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ آغاز فیض کے محل سے ہوا‘ یہ محل نویں صدی میں بنا اور یہ دنیا کا قدیم ترین زیر استعمال محل ہے۔

    عربی میں گینتی کو فیض یا فاس کہا جاتا ہے‘ شہر کی بنیاد ادریس دوئم نے 808ء میں زمین پر گینتی مار کر رکھی چنانچہ یہ فاس یا فیض ہو گیا‘ زمین آتش فشانی اور مٹی دو رنگوں کی تھی‘ سرخ اور سیاہ‘ سرخ مٹی سے برتن بننے لگے اور سیاہ مٹی سے اینٹیں اور ٹائلیں‘ یہ دونوں فن فیض سے نکلے اور افریقہ‘ مڈل ایسٹ‘ سینٹرل ایشیا اور ہندوستان پہنچ گئے‘ شہر کو دو دریا اور 30 ندیاں سیراب کرتی ہیں‘ فصیل پندرہ کلو میٹر طویل تھی‘ شہر میں داخلے کے 14 دروازے تھے۔

    قبریں فصیل سے باہر شہر کی دونوں اطراف پہاڑوں پر ہیں‘ آپ اگر پہاڑ پر کھڑے ہو کر شہر کی طرف دیکھیں تو سفید قبریں آف وائیٹ گھروں کے ساتھ مل کر آپ کو ماضی میں لے جاتی ہیں‘ فیض کا قلعہ پہاڑوں پر قدیم شہر کے باہر تھا‘ گلیاں تنگ اور گھر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ بارہ سو سال پرانی بیکریاں‘ ریستوران اور قہوہ خانے بھی موجود ہیں‘ میں ایک گلی میں داخل ہوا تو میں دعویٰ کرنے پر مجبور ہو گیا یہ دنیا کی تنگ ترین گلی ہو گی‘ گائیڈ نے تصدیق کر دی‘ گلی سے ایک وقت میں صرف ایک شخص گزر سکتا تھا۔

    مریم مسجد اپنی بارہ سو سال کی تاریخ کے ساتھ موجود تھی‘ مینار کچی مٹی اور لکڑی کے ساتھ بنایا گیا تھا‘ ہال کے اندر مٹی‘ لکڑی اور گئے‘ بیتے اور برسے سالوں کی خوشبو تھی‘ قیروان یونیورسٹی اور قیروان مسجد دونوں لائف ٹائم تجربہ تھیں‘ یونیورسٹی کے لیکچر تھیٹروں اور لائبریری میں کلاسیں ہو رہی تھیں‘ محلے میں طالب علموں کے ہاسٹل تھے‘ اندر ایک تقدس‘ ایک پاکیزگی تھی جب کہ مسجد کے 14 دروازے 14 مختلف محلوں میں کھلتے تھے‘ یہ تمام دروازے جمعہ کے دن کھول دیے جاتے ہیں جس کے بعد 25 ہزار لوگ 12 سو سال پرانی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں‘ دن کے وقت دو دروازے کھلے رہتے ہیں جب کہ نماز کے اوقات میں خواتین کے لیے تیسرا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔

    خواتین مردوں کے پیچھے نماز ادا کرتی ہیں‘ جامع القیروان مسجد قرطبہ کی بڑی بہن محسوس ہوتی ہے‘ وہی ستون در ستون اور ان ستونوں پر صندل کی لکڑی کی چھتیں اور چھتوں پر باریک اندلسی نقاشی‘ دیواروں پر سفید سنگ مر مر اور اس سنگ مر مر میں نقش نگار اور ان نقش ونگار میں چھپی قرآنی آیات اور آخر میں مسجد قرطبہ جیسا صحن اور اس صحن میں فوارے اور وضو خانے‘ جامع القیروان حقیقتاً لائف ٹائم تجربہ تھا۔

    فیض کے مدینہ میں افریقہ کی قدیم ترین ٹینری بھی تھی‘ یہ چمڑہ رنگنے کا قدیم ترین کارخانہ ہے‘ کارخانہ گیارہویں صدی میں قائم ہوا تھا اور یہ نوسو سال بعد بھی چالو ہے‘ دنیا جہاں سے سیاح یہاں آتے ہیں اور چھتوں پر چڑھ کر چمڑہ رنگنے کا عمل دیکھتے ہیں‘ میں نے بھی یہ عمل دیکھا‘ میرے سامنے زمین پر درجنوں بڑے سائز کے تنورتھے اور ان تنوروں میں لوگ کھڑے ہو کر چمڑہ رنگ رہے تھے۔

    گائیڈ نے بتایا چمڑے کے لیے قدرتی رنگ استعمال کیے جاتے ہیں‘ وہاں ناقابل برداشت بو تھی‘ میں احمد تجانی اور ابن خلدون کے گھروں میں بھی گیا‘ حضرت احمد تجانی نے افریقہ میں اسلام پھیلایا تھا‘ وہ فیض میں مدفون ہیں‘ مقبرہ مسجد کے صحن میں ہے جب کہ ان کے گھر میں اب قالین کی دکان بن چکی ہے‘ ابن خلدون کا مکان بھی کارپٹ شاپ میں تبدیل ہو چکا ہے‘ یہ دونوں مکانات وسیع اور تین منزلہ تھے‘ گائیڈ نے بتایا حکومت نے فیض میں ایسے درجنوں مکان بنا رکھے تھے‘ یہ مکانات فیض آنے والے علماء کرام کو دے دیے جاتے تھے۔

    وہ لوگ جب تک دل چاہتا تھا یہاں رہتے تھے اور حکومت ان کے جانے کے بعد مکان کسی دوسرے عالم کو الاٹ کر دیتی تھی‘ ابن خلدون کا مکان حضرت احمد تجانی جیسا تھا‘ یہ دونوں بزرگ گرمیوں میں نچلی منزل پر منتقل ہو جاتے تھے اور سردیوں میں بالائی منزل پر چلے جاتے تھے‘ چھتوں پر بھی بیٹھنے کی جگہ موجود تھی‘ چھت سے پورے شہر کا نظارہ ہوتا تھا‘ ابن خلدون نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب تاریخ ابن خلدون فیض کے اس مکان میں لکھنا شروع کی تھی‘ وہ جامعہ القیروان میں پڑھاتا بھی تھا۔

    ‘ ابن خلدون ایک انتہائی دلچسپ کردار تھا‘ وہ بلا کا سازشی‘ چاپلوس‘ بادشاہوں کا کاسہ لیس‘ بے وفا اور مفاد پرست تھا‘ اس نے زندگی کا آدھا حصہ درباروں تک رسائی اورآدھا حصہ جیلوں اور نقل مکانیوں میں گزار دیا جب کہ دوسری طرف وہ بے انتہا ذہین‘ عالم اور ناقابل تردید مورخ تھا‘ اس نے تاریخ ابن خلدون اور اس تاریخ کا مقدمہ لکھ کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا چنانچہ دنیا میں جب تک تاریخ اور علم دونوں موجود ہیں ابن خلدون بھی اس وقت تک زندہ رہے گا‘ دنیا کا کوئی شخص اسے علم و ادب سے خارج نہیں کر سکے گا۔

    میں ابن خلدون کے گھر سے نکلا اور دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ٹریجڈی کے آخری کردار ابوعبداللہ محمد کے قدموں کے آخری نشانوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔


    جاوید چوہدری جمعرات 29 نومبر 2018
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    ابو عبداللہ محمد کی قبر پر

    ڈھائی لاکھ قبروں کے درمیان ایک پرانا‘ شکستہ اور سیلن زدہ کمرہ تھا‘ سریئے کے گیٹ پر زنگ آلود تالا لگا تھا‘ اندر پلاسٹک کی بوتلوں‘ کچرے کی بوریوں اور ٹوٹے گھسے سلیپروں کے درمیان تین قبروں کے نشان تھے‘ درمیانی قبر کے سرہانے دیوار پر عربی زبان کے چند مٹے ہوئے لفظ نظر آ رہے تھے اور بس یہ تھا غرناطہ کے آخری بادشاہ ابوعبداللہ محمد کا مزار‘ تاریخ کا سرا وہاں پہنچ کر ختم ہو گیا تھا۔

    قبرستان فیض شہر کے قدیم حصے سے باہر پہاڑی پر تھا‘ شہر کی فصیل اور قبرستان کے درمیان سڑک تھی لیکن قبرستان سے شہر اور شہر سے قبرستان دونوں صاف نظر آتے تھے‘ قبریں بھی آف وائیٹ کلر کی تھیں اور شہر پر بھی آف وائیٹ کلر کی یلغار تھی چنانچہ فاصلے سے قبرستان شہر اور شہر قبرستان دکھائی دیتا تھا‘ میں ابو عبداللہ محمد کے آخری دنوں کی نشانیاں کھوجتا کھوجتا قبرستان پہنچا تھا۔

    قبروں کے جنگل کے درمیان بھٹکتا بھٹکتا اس کے مزار غریباں پر آ گیا‘ جنگلے سے اندر جھانک کر دیکھا‘ کچرے کے درمیان قبر کو شناخت کرنے کی کوشش کی اور پھر تھک ہار کر مزار کی بائونڈری وال پر بیٹھ گیا‘ میرے سامنے پہاڑ کی اترائیوں پر قطار در قطار قبریں تھیں اور پشت پر فیض شہر‘ ابوعبداللہ محمد کی آخری منزل‘ فیض شہر۔


    ابوعبداللہ محمد یورپ (اسپین) میں آخری مسلم ریاست کا آخری بادشاہ تھا‘ وہ غرناطہ کے طلسماتی محل الحمرا میں 1460ء میں پیدا ہوا‘ 22 سال کی عمر میں والد نے اپنا تخت اس کے حوالے کر دیا‘ وہ ایک سال بعد عیسائیوں کے ہاتھ قید ہو گیا‘ والد مجبوراً دوبارہ بادشاہ بن گیا‘ باپ اور بیٹا دونوں سلطنت کے اہل نہیں تھے‘ خاندان کا صرف ایک شخص سلطنت سنبھال سکتا تھا اور وہ ابوعبداللہ محمد کا چچا عبداللہ الزاغل تھا‘ الزاغل بہادر بھی تھا‘ سمجھ دار بھی اور معاملہ فہم بھی‘ وہ اس وقت مالقا (آج کا مالگا) کا والئی تھا‘ وہ بڑے بھائی کو عیسائیوں کے عزائم اور حالات کی سنگینی کے بارے میں بتاتا رہتا تھا لیکن بڑے بھائی اور بھتیجے دونوں نے اسے اپنا دشمن سمجھ لیا۔

    ابو عبداللہ محمد کے والد اور چچا کے درمیان جنگ ہوئی اور چچا نے غرناطہ پر قبضہ کر لیا‘ عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے اس لڑائی کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ شہزادے ابوعبداللہ محمد کو رہا کر دیا گیا اور اس نے عیسائی فوجوں کے ساتھ چچا الزاغل پر چڑھائی کر دی‘ چچا بھتیجے کو بار بار سمجھاتا رہا لیکن ابو عبداللہ محمد باز نہ آیا‘ اس نے عیسائی فوج کی مدد سے 1487 میں الزاغل سے غرناطہ واپس لے لیا‘ الزاغل مالگا تک محدود ہو گیا‘ عیسائی فوجوں نے مالگا کا محاصرہ کر لیا‘ ابوعبداللہ محمد نے فرڈیننڈ کو لکھ کر دے دیا وہ چچا الزاغل کی مدد نہیں کرے گا‘ چچا اکیلا ہو گیا۔

    یورپ بھر کی فوج نے چڑھائی کی اورالزاغل پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا یوں 18 اگست 1487ء کو مالگا پر قبضہ ہو گیا‘ الزاغل مختلف محاذوں پر عیسائیوں سے لڑتا رہا لیکن وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا‘ وہ 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد مایوس ہو کرشمالی افریقہ کی طرف چلا گیا‘ وہ بھتیجے کو بار بار پیغام دیتا رہا ’’بیٹا میں غرناطہ کی آخری چٹان ہوں‘ میرے بعد تم بھی نہیں بچو گے‘‘ الزاغل 1494ء میں الجیریا کے شہر تلمسان میں انتقال کر گیا‘ الزاغل کی بات سچ ثابت ہوئی‘ 18 اگست 1487ء کو مالگا فتح ہوا اور1491ء میں غرناطہ کا محاصرہ ہو گیا‘ ابوعبداللہ محمد ایک نالائق‘ متلون مزاج اور بزدل انسان تھا‘ وہ عیسائی فوجوں کا دبائو برداشت نہ کر سکا۔

    صلح ہوئی اور اس نے دو جنوری 1492ء کو الحمرا کے گیٹ پر غرناطہ کی چابیاں فرڈیننڈ اور ازابیلا کے حوالے کر دیں‘ غرناطہ جنگ کے بغیر عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا‘ آپ آج بھی غرناطہ جائیں یا آپ اسپین کے بڑے شہروں کی سیاحت کریں‘ آپ کو ہر جگہ سقوط غرناطہ کی تصویریں‘ مجسمے اور پینٹنگز ملیں گی‘ آپ ہر پینٹنگز میں ابوعبداللہ محمد کو غرناطہ کی چابیاں فرڈیننڈ کے حوالے کرتے دیکھیں گے اور آپ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جائیں گے۔

    فرڈیننڈ اور ازابیلا نے غرناطہ کے سقوط کے بعد ابوعبداللہ محمد کو سرانویدہ اور میڈٹیرین سی کے درمیان چھوٹی سی جاگیر دے دی‘ وہ الحمراء سے اپنا سامان اور بزرگوں کی ہڈیاں نکال کر جاگیر کی طرف روانہ ہو گیا‘ غرناطہ کی آخری بلند پہاڑی پر پہنچا‘ مڑ کر الحمرا کی طرف دیکھا‘ سبز وادی کے درمیان سرخ اینٹوں کا محل دیکھا اور محل (عربی میں الحمرا کا مطلب سرخ ہوتا ہے‘ الحمرا کو سرخ اینٹوں کی وجہ سے الحمرا کہا گیا تھا) پر عیسائی پرچم دیکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا‘ اس کی والدہ عائشہ سمجھ دار خاتون تھیں‘ اس نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی میں کہا ’’بیٹا تم جس سلطنت کی مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے اب اس کے لیے عورتوں کی طرح آنسو نہ بہائو‘‘ ملکہ عائشہ کا یہ فقرہ اسپینش‘ عربی اور انگریزی کا محاورہ بن گیا۔

    وہ چٹان جہاں ابوعبداللہ محمد نے آنسو بہائے تھے وہ سسپیرو ڈل مورو (Suspiro Del Moro) یعنی مور کی آہ بھرنے کی جگہ بن گئی‘ مجھے اس چٹان پر بھی جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں اب سوئمنگ پول اور چھوٹا سا کلب بن چکا ہے‘ ابوعبداللہ محمد سال بھر خیرات میں ملی جاگیر میں رہا لیکن پھر وہ زیادہ دیر وہاں نہ ٹھہر سکا‘ عیسائی حکومت نے اندلس کے مسلمانوں کو تین آپشن دیے تھے‘ عیسائیت قبول کر لو‘ نقل مکانی کر جائو یا پھر قتل ہونے کے لیے تیار ہو جائو‘ ہزاروں قتل ہو گئے‘ ہزاروں مراکش میں نقل مکانی کر گئے اور لاکھوں عیسائی ہو گئے‘ مراکش میں اس وقت ابو ذکریا محمد المہدی کی حکومت تھی‘ ابو ذکریا نے اندلس سے آنے والے مسلمانوں کو پناہ دے دی۔

    یہ لوگ مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہو گئے اور ان کے محلے اندلوسیہ کہلانے لگے‘ یہ لوگ اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے اپنے گھروں کی بیرونی دیواروں کے آدھے حصے کو نیلا رنگ کر دیتے تھے‘ یہ روایت آج تک قائم ہے‘ آپ کو آج بھی طنجہ‘ فیض‘ رباط اور کاسا بلانکا سمیت مراکش‘ تیونس اور الجزائز کے زیادہ تر شہروں میں آدھی دیواریں نیلی نظر آتی ہیں‘ یہ دیواریں اندلس کے مہاجروں اور ان کی ہجرت کی نشانی ہیں‘ ابوعبداللہ محمد نے 1493ء میں مراکش کے بادشاہ ابو ذکریا محمد المہدی کو خط لکھا‘ اپنے بزرگوں کی زیادتیوں پر معذرت کی اور پناہ کی درخواست کی۔

    ابو ذکریا کو ابوعبداللہ محمد پر رحم آ گیا چنانچہ اس نے 1493ء میں اپنے 1130 ملازموں اور خاندان کے لوگوں کے ساتھ سمندر پار کیا اور روتا دھوتا ہوا فیض پہنچ گیا‘ بادشاہ نے اسے اندلوسیہ محلے میں شاہانہ مکان الاٹ کر دیا‘ وہ فیض پہنچ کر درویش ہو گیا‘ دن میں ایک روٹی کھاتا تھا‘ فرش پر سوتا تھا اور عام لوگوں جیسے کپڑے پہنتا تھا‘ خاندان اعتراض کرتا تھا تو وہ کہتا تھا
    ’’اللہ کو میری بادشاہی منظور نہیں تھی‘ وہ اگر چاہتا تو میں آج بھی بادشاہ ہوتا‘ وہ مجھے عام شخص دیکھنا چاہتا تھا‘ میں نے اللہ کی رضا پا لی چنانچہ میں عام انسان بن گیا‘‘
    وہ متلون مزاج تھا‘ وہ زیادہ عرصہ اندلوسیہ محلے میں بھی نہ ٹک سکا‘ وہ بادشاہ سے ملا اور بادشاہ نے اسے شہر کے بیرونی گیٹ کے قریب مکان دے دیا۔

    میں 14 نومبر 2018 کواس کے قدموں کے نشان تلاش کرتا ہوا اس کے آخری مکان تک پہنچ گیا‘ وہ چھوٹی سی تنگ گلیوں کا چھوٹا سا مکان تھا‘ کہاں الحمرا اور کہاں یہ مکان‘ ابوعبداللہ محمد روزانہ ان گلیوں سے گزرتا ہوا مسجد جاتا تھا اور نماز پڑھنے کے بعد اس قبرستان میں عین اس جگہ آ بیٹھتا تھا جہاں اس وقت میں بیٹھا تھا‘ وہ ان گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہا یہاں تک کہ وہ بیماری‘ کسمپرسی اور عبرت کا نشان بن کر 1533ء میں انتقال کر گیا‘ غرناطہ کا آخری چراغ بھی بجھ گیا‘ اسے اس کی وصیت کے مطابق اس جگہ خانہ کعبہ کے رخ دفن کر دیا گیا‘ ابوعبداللہ محمد کے بعد اس کی نسل برباد ہو گئی۔

    مورخین لکھتے ہیں ابوعبداللہ محمد کے پوتے 1618ء میں فیض کے امراء سے زکوٰۃ اور صدقات لینے پر مجبور ہو گئے‘ وہ اس کے بعد کبھی اپنے قدموں پر کھڑے نہ ہو سکے‘ میں اس وقت برباد سلطنت کے برباد بادشاہ کے برباد مزار کے سامنے بیٹھا تھا‘ قبریں میرے سامنے تھیں اور شہر پشت پر‘ فضا میں ایک اداسی‘ ایک نم ناک گریہ تھا‘ قبرستان میں دو نشئی پھر رہے تھے‘ میں نے ان سے مزار کی چابی کے بارے میں پوچھا‘ پتہ چلا چابی ابوعبداللہ محمد کی نسل کی ایک بوڑھی خاتون کے پاس ہے‘ وہ سارا دن شہر سے کچرہ اکٹھا کرتی ہے‘ وہ صرف جمعہ کے دن مزار پر آتی ہے‘ دروازہ کھولتی ہے‘ دعا کرتی ہے اور واپس چلی جاتی ہے۔

    میں نے پوچھا ’’کیا یہاں دعا کے لیے کوئی نہیں آتا‘‘ بتایا گیا ’’ہم نے آج تک آپ کے علاوہ کسی شخص کو یہاں آتے نہیں دیکھا‘‘ میرے تاسف میں اضافہ ہو گیا‘ میں نے موبائل فون نکالا اور دیوار پر بیٹھے بیٹھے ایک چھوٹی سی ویڈیو ریکارڈ کی‘ وہ دیوار‘ ابوعبداللہ محمد کا مزار اور وہ قبرستان دنیا کی سب سے بڑی سچائی تھی‘ بادشاہ آتے ہیں‘ اپنی خدائی کا اعلان کرتے ہیں اور پھر اس خدائی کے ساتھ زمین کا پیوند بن جاتے ہیں‘ مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتے ہیں اور ان کی داستان تک داستانوں میں نہیں رہتی‘ میرے پیچھے بھی ایک ایسی ہی داستان سسک رہی تھی۔

    غرناطہ اور الحمرا کا آخری مالک‘ وہ شخص جس کے پاس غرناطہ کو بچانے کا وقت تھا تو وہ مرد نہ بن سکا اور جب غرناطہ چلا گیا تو وہ عورت بن کر آنسو بہانے لگا‘ وہ بادشاہ جس نے زندگی کا آخری حصہ درویشی میں گزار دیا‘ وہ جو روز اپنے گھر سے اپنی قبر کی تلاش میں نکلتا تھا اور جب کوئی اس سے پوچھتا تھا ’’چچا کہاں جا رہے ہو‘‘ تو وہ کہتا تھا ’’بھتیجے میرا غرناطہ کھو گیا ہے‘ میں وہ تلاش کر رہا ہوں‘‘ اور وہ جو آخر میں غرناطہ تلاش کرتا تاریخ کی گلیوں میں گم ہو گیا۔

    مٹی‘ مٹی میں مل کر مٹی ہو گئی‘ ہم لوگوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں مٹی کے بنے ہوتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود خدا بن جاتے ہیں اور میں اس وقت ایک ایسے ہی ناکام خدا کے مزار کی بائونڈری وال پر بیٹھا تھا‘ ڈھائی لاکھ قبریں میرے سامنے تھیں اور تاریخ کا دریا بہہ رہا تھا

    جاوید چوہدری اتوار 2 دسمبر 2018
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مرشد کے قریب قریب
    میں کولمبس کی قبر کے سامنے کھڑا تھا‘ دنیا کے زیادہ تر لوگ موت کے بعد زمین میں دفن ہوتے ہیں لیکن کولمبس شاید دنیا کا واحد شخص تھا جو مرنے کے بعد چار بار دفن ہوا اور پانچویں مرتبہ اس کی لاش کو ہوا میں معلق کر دیا گیا‘ وہ 20 مئی 1506 کو میڈرڈ کے قریب والا ڈولیڈ (Valladolid) شہر میں فوت ہوا‘ آخری زندگی مایوسی‘ غربت اور بیماری میں گزری۔

    بادشاہ فرڈیننڈ نے اس سے وعدہ کیا تھا ہندوستان
    (وہ مرنے تک امریکا کو ہندوستان سمجھتا رہا) سے حاصل ہونے والی دولت کا دس فیصد اس کا ہو گا اور اسے نئی دنیا کا والئی بھی بنایا جائے گا لیکن پھر بادشاہ مکر گیا اور کولمبس کسمپرسی میں مارا مارا پھرنے لگا‘ کولمبس کے مرنے کے بعد پتہ چلا وہ سادگی میں جس سرزمین کو ہندوستان سمجھتا رہا وہ نئی دنیا ہے‘ نئی دنیا کو نئی دنیا کولمبس کے دوست امریکانو ویسپیوسیو نے ثابت کیا اور بادشاہ نے امریکا کو امریکانو کے نام پر امریکا ڈکلیئر کر دیا۔

    بادشاہ کو کولمبس کے بعد کولمبس کی قدر ہوئی‘ کولمبس کے بیٹے ڈیگو کو حکم دیا گیا اور وہ باپ کا تابوت والا ڈولیڈ سے نکال کر سیویا لے آیا‘ کولمبس کو دریا کے ساتھ قدیم درگاہ لا کارتوہا
    (Lacartuja) میں دفن کر دیا گیا‘
    کولمبس کا بڑا بیٹا ڈیگوکولمبس سیویا کے شاہی خاندان اور اشرافیہ میں پاپولر تھا‘ بادشاہ فرڈیننڈ نے ڈیگو کو امریکن اسپینش کالونی ڈومنیکا کا وائسرائے بنا دیا‘ ڈیگو کی وفات کے بعد اس کی بیوی ماریا جاتے جاتے سیویا سے اپنے شوہر اور سسر کولمبس کا تابوت بھی ساتھ لے گئی۔

    ماریا نے اسے سانتو ڈومینگوکیتھڈرل
    (Santo Domingo cathedral) میں دفن کر دیا‘ یہ کولمبس کی مرنے کے بعد دوسری قبر کشائی اور دوسری نقل مکانی تھی‘ کولمبس 258 سال ڈومنیکا میں دفن رہا‘

    1795 میں ڈومنیکا میں اسپین کے خلاف شورش برپا ہوئی‘ کیوبا اسپین کی کالونی تھا‘ کولمبس اس وقت تک عالمی اثاثہ بن چکا تھا چنانچہ تیسری بار اس کی قبر کھولی گئی اور اس کی لاش کو ڈومنیکا سے ہوانا (کیوبا) شفٹ کر دیا گیا‘ وہ 1898 تک ہوانا میں رہا‘ 1898 میں امریکا اور اسپین کے درمیان جنگ شروع ہو گئی‘کیوبا میں بھی اسپین کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔

    1898 میں چوتھی مرتبہ کولمبس کی قبر کھولی گئی اور اس کا تابوت سیویا منتقل کر دیا گیا‘ سیویا کا کیتھڈرل اس کی پانچویں اور شاید آخری منزل تھا‘ کولمبس بار بار کی قبر کشائیوں اور منتقلیوں کی وجہ سے ڈیڑھ سو گرام کی باقیات بن چکا تھا اور یہ باقیات بھی ہڈیوں کا چورا تھی چنانچہ اسے زمین میں دفن کرنے کے بجائے ہوا میں معلق کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ کولمبس کے لیے آبنوس کی لکڑی کا شاندار تابوت بنایا گیا‘ اسپین کے چار بڑے بادشاہوں کے مجسمے بنائے گئے اور تابوت ان چاروں کے کندھوں پر رکھ دیا گیا۔

    اُدھر1877ء میں ڈومنیکا میں سانتو ڈومینگو کیتھڈرل میں کھدائی کے دوران ایک باکس دریافت ہوا‘ اس کے اوپر کرسٹوفرکولمبس کا نام لکھا تھا اور اس کے اندر 13 بڑی اور 28 چھوٹی ہڈیاں تھیں‘ کھدائی کرنے والوں نے دعویٰ کیا کولمبس کی اسپین لے جائی جانے والی باقیات اصل نہیں ہیں‘

    2002 میں سانتوڈومینگو اور سیویا میں موجود دونوں قبروں کی دوبارہ کھدائی کی گئی‘ باقیات کا ڈی این اے لیا گیا اور یہ ڈی این اے سیویا کے کیتھڈرل میں دفن کولمبس کے دوسرے بیٹے ہرنانڈو کی لاش سے میچ کیا گیا تو ثابت ہو گیا سیویا کیتھڈرل کی باقیات ہی اصل میں کرسٹوفر کولمبس کی باقیات ہیں۔

    یہ بھی ثابت ہو گیا کولمبس جوڑوں کے درد‘ قلب اور جنسی امراض کا شکار تھا اور اس کی موت دل بند ہونے سے ہوئی تھی اور میں اس وقت کولمبس کی معلق قبر کے سامنے کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا انسان خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے‘ اس کا اختتام بہرحال ڈیڑھ سو گرام کی باقیات پر ہوتا ہے‘ وہ مشت خاک سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا‘ یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن کولمبس شاید دنیا کا واحد جہاز ران تھا جو موت کے بعد بھی بحری سفر کرتا رہا‘ وہ پانچ سوسال نئی اور پرانی دنیا کے درمیان رواں دواں رہا۔

    بادشاہوں نے اس کی دریافت کی قدر نہ کی‘ وہ اپنے وعدوں سے مکر گئے لیکن قدرت نے اس کی قدر بھی کی اور اس کے ساتھ علم اور دریافت کے وعدے بھی نبھائے لہٰذا دنیا میں جب تک امریکا موجود ہے اس وقت تک کولمبس کا نام بھی موجود رہے گا اور شناخت بھی‘ دنیا آج فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی قبر سے واقف نہیں لیکن لوگ پانچ سو سال بعد بھی کولمبس کی قبر کا طواف کرتے ہیں۔

    دنیا میں آج بھی پانچ مقامات پر اس کی قبریں موجود ہیں اور یہ تمام قبریں اصلی ہیں‘ کولمبس ان سب میں دفن بھی رہا اور ان کی مٹی نے اس کی لاش کی خوشبو کو بھی محسوس کیا ‘ بہرحال اللہ ہی سپریم رہے گا اور وہ جب کسی کو عزت دیتا ہے تو پھر کوئی اس سے وہ عزت چھین نہیں سکتا اور کولمبس اس حقیقت کی بہت بڑی نشانی تھا۔

    سیویا اندلس کے مشہور دریا وادی الکبیر پر واقع ہے‘ وادی الکبیرغرناطہ کے قریب کیزرولا (Cazrola) کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور یہ قرطبہ سے ہوتا ہوا سیویا آتا ہے اور پھر وہاں سے کادیز (Cadiz) کے مقام پر بحراوقیانوس میں جا گرتا ہے‘ سیویا بحراوقیانوس سے قربت کی وجہ سے اسپین کی سب سے بڑی منڈی بن گیا‘ بحری جہاز قرطبہ اور سیویا سے چلتے اورشام اور سعودی عرب تک جاتے‘ یہ واپس سیویا بھی آتے تھے۔

    مسلمان بادشاہوں نے آٹھویں صدی میں دریا کے دونوں کناروں پر مینار تعمیر کرائے اور ایک انتہائی وزنی زنجیر دونوں میناروں کے ساتھ باندھ دی‘ وہ زنجیر کے ذریعے تجارتی اور فوجی جہازوں کو کنٹرول کرتے تھے‘ زنجیر ختم ہو گئی لیکن ایک مینار آج بھی قائم ہے‘ یہ سنہری مینار کہلاتا ہے اور یہ کیتھڈرل کے مورش مینار کے بعد مورش مسلمانوں کی دوسری بڑی نشانی ہے‘ میں سفر کے آخر میں اس سنہری مینار کے سائے میں بیٹھ گیا‘ شہر کی فصیل میرے سامنے تھی اور وادی الکبیر کا پانی پیچھے‘ تاریخ اپنے رنگوں کے ساتھ میرے سامنے بکھری تھی۔

    اشبیلیہ نویں اور دسویں صدی میں دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ تھا‘ دنیا بھر سے کتابیں یہاں لائی جاتی تھیں‘ میں جہاں بیٹھا تھا وہاں نیلام گھر سجایا جاتا تھا‘ کتاب نیلامی کے لیے پیش ہوتی تھی اور پھر اشبیلیہ کے امراء بولی لگا کر وہ کتاب خرید لیتے تھے‘ اشبیلیہ کے امراء اس وقت اپنی جاگیر‘ محل اور خادموں کی تعداد کے بجائے کتابوں سے جانے اور پہچانے جاتے تھے‘ لوگ گلیوں میں چلتے پھرتے ہوئے امراء کے محلوں اور نوکروں کی طرف اشارہ کر کے کہتے تھے یہ وہ گھر ہے یا یہ اس شخص کا ملازم ہے جس کے گھر میں فلاں کتاب موجود ہے۔

    حضرت عثمانؓ نے اپنی حیات میں چھ قرآن مجید تیار کرائے تھے‘ آپؓ نے ایک نسخہ اپنے پاس رکھا اور باقی پانچ عالم اسلام کے اہم ترین مقامات پر بھجوا دیے‘
    تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب یہ چھ کے چھ نسخے اشبیلیہ کے امراء کے پاس تھے‘
    ابن رشد‘ ابن بطوطہ‘ ابن خلدون اور ابن عربی جیسے لوگوں نے بھی اپنی جدوجہد کے ماہ و سال اشبیلیہ میں گزارے تھے‘
    مولانا روم المغرب (مراکش) اور اندلس جانے والے ہر مسافر کے ہاتھوں اشبیلیہ کے علماء کو سلام بھجواتے تھے۔


    صحیح بخاری‘ صحیح مسلم‘ جامع ترمذی‘ سنن ابی دائود‘ سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کے اصل نسخے بھی اشبیلیہ پہنچے اور اشبیلیہ کے علم پرستوں نے وہ نسخے نیلامی میں خریدے لیکن پھر وہ دور ختم ہو گیا اور اسلامی علم اور آرٹ دونوں کی قندیلیں بجھ گئیں مگر علم کا دھواں اور فضل کی مہک ابھی تک سیویا کی گلیوں میں موجود ہے‘ شہر کی فضا میں آج بھی گئے دنوں کی طراوت زندہ ہے‘ یہ وہ شہر تھا جہاں کبھی اذانیں سانس لیتیں اور نمازیوں کے قدم لبیک لبیک کہتے تھے‘ جہاں علم سورج کی طرح پھوٹتا اور عرفان ہوا کی طرح بٹتا تھا۔

    جہاں تصوف کی نبضیں رک جاتی تھیں اور منطق بولتے بولتے حقیقت کا روپ دھار لیتی تھی‘ سنہری مینار ‘ اس سنہری مینار اور اس کے سائے میں بہتے وادی الکبیر میں آج بھی گئے‘ پرانے اور بیتے ہوئے وقتوں کی ہلکی ہلکی باس موجود تھی‘ سیویا کے چہروں اور گہری سیاہ آنکھوں میں بھی تاریخ کے پھٹے پرانے ورق زندہ تھے‘ وقت اور تاریخ کے قافلے گزر گئے لیکن قدموں کے نشان ابھی باقی ہیں۔

    ابن رشد‘ ابن بطوطہ‘ ابن خلدون اور ابن عربی بھی ابھی سیویا کی فضا میں زندہ ہیں اور دنیا میں جب تک کتاب‘ علم اور مسلمان تینوں موجود ہیں دنیا کی کوئی طاقت اس وقت تک سیویا کی فضا سے یہ نقش نہیں مٹا سکے گی‘ سیویا میں اس وقت تک اشبیلیہ قائم رہے گا‘ دنیا میں ازابیلا جیسی ہزاروں ملکائیں اور فرڈیننڈ جیسے لاکھوں بادشاہ آئیں گے‘ جائیں گے اور پھر ان کی قبروں کے نشان تک بکھر جائیں گے لیکن اشبیلیہ جیسے شہر‘ ان شہروں میں مسجدوں کے مینار اور ان میناروں کے سائے میں بیٹھی اسلامی تاریخ یہ ہمیشہ قائم رہے گی‘ یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔

    میں نے انگڑائی لی‘ سنہری مینار کا بدن نومبر کی دھوپ میں سرشار تھا اور پچھلے پہر کی طلائی کرنیں وادی الکبیر کے پانیوں کو گدگدا رہی تھیں‘ کیتھڈرل کی گھنٹیوں نے بھی انگڑائی لی اور فضا میں ٹن ٹن کی آوازیں گونجنے لگیں‘ میں اٹھا اور سہیل مقصود کے ساتھ پارکنگ لاٹ کی طرف چل پڑا‘ ہماری گاڑی سیویا کے جدید محل کی پارکنگ میں کھڑی تھی‘ ہم نے رات سے پہلے طریفہ پہنچنا تھا اور پھر طریفہ سے طنجہ (مراکش) کے لیے بحری جہاز (فیری) لینا تھا‘ طنجہ میرے جیسے پاگلوں کے مرشد ابن بطوطہ کا شہر ہے۔

    ابن بطوطہ 1304ء میں طنجہ میں پیدا ہوا‘ 22 سال کی عمر میں حج کے لیے نکلا اور پھر غائب ہو گیا‘ مرشد نے 30 سال میں 44 ملک پیدل گھومے‘ وہ افریقہ‘ مڈل ایسٹ‘ سنٹرل ایشیا اور ہندوستان سے ہوتا ہوا چین جا پہنچا‘ 1355 میں واپس آیا تو دماغ کی گٹھڑی میں ہزاروں ہیرے بندھے تھے‘ فیض شہر (FES) اس وقت المغرب (مراکش کا عربی نام) کا دارالحکومت تھا‘ بادشاہ نے مرشد کو فیض بلایا۔

    استاد کو احترام دیا اور اسے دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی القراویں میں پروفیسر لگا دیا لیکن ٹک کر بیٹھنا اور پڑھانا مرشد کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ ابن بطوطہ واپس طنجہ آ گیا اور بادشاہ کے حکم پر اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’رحلہ‘‘ لکھنا شروع کر دی‘ کتاب مکمل ہوئی تو مرشد 1368 میں طنجہ کی تنگ اور قدیم گلیوں میں فوت ہو گیا‘ میں نے 1984 میں منت مانگی تھی میں جب مرشد کے دیکھے 44 ملک دیکھ لوں گا تو اس کے مزار پر حاضری دوں گا‘ میرا سکور 80 ہو چکا ہے چنانچہ میں اندھیرے سے پہلے پہلے طریفہ پہنچنا چاہتا تھا‘ مرشد کے قریب پہنچنا چاہتا تھا

    جاوید چوہدری اتوار 25 نومبر 2018

    spain.png
     
    Last edited: ‏6 دسمبر 2018
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں