1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آگ سے کھلا نئی تہذیب کا راز ...... اخلاق احمد قادری

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 فروری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    آگ سے کھلا نئی تہذیب کا راز ...... اخلاق احمد قادری

    شمالی شام کے مقام حلب (الیپو) سے 55 کلومیٹر جنوب مغرب میں ایک بڑا ٹیلا واقع ہے۔ یہ ٹیلا اس قدیم تہذیب کا مدفن ہے جو ابلا یا عبلا (Ebla) نامی قدیم شہری ریاست کے نام پر ابلائی تہذیب کہلاتی ہے۔ ابلا 2400 ق م سے 2000 ق م تک معلوم دنیا کا ایک اہم تجارتی شہر بھی تھا۔ اگر تقریباً 4100 برس پہلے اس شہر کے ایک شاہی محل میں واقع ایک لائبریری میں آگ نہ لگتی تو آج ہم اس قدیم تہذیب اور اس کے اس اہم تجارتی شہر کے وجود سے قطعاً واقف نہ ہو سکتے۔ لائبریری کی آگ کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اس آگ نے شاہی لائبریری کو جلا کر راکھ بنا دینے کی بجائے اس کی کتابوں کو صدیوں کے لیے محفوظ کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آگ صرف کاغذ کی کتابوں کو جلا کر راکھ بنا سکتی ہے، مٹی کی لوحوں کو نہیں۔ ابلا کی یہ شاہی لائبریری اپنی ہم عصر سمیری اور عکادی لائبریریوں کی طرح مٹی کی لوحوں پر مبنی کتابوں پر مشتمل تھی۔ یہ لوحیں شاہی محل کی اس آگ نے پکا کر پختہ کر دیں۔ آگ میں پختہ ہو کر یہ لوحیں 1975ء تک زیرزمین دفن رہیں۔ اطالوی ماہرین اثریات کی ایک ٹیم نے جو پاؤلو میتھائی کی سرکردگی میں کام کر رہی تھی، نے 1975ء میں مٹی کی یہ تقریباً 15000 لوحیں دریافت کیں۔ پاؤلو اور اس کے ساتھی 1954ء سے ابلا میں اثریاتی کھدائی کا کام کر رہے تھے۔ 1974ء میں انہوں نے وہ شاہی محل دریافت کیا تھا جس میں یہ لائبریری واقع ہے۔ بعدازاں مٹی کی انہیں لوحوں سے ہمیں ابلا کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کا سراغ ملا۔ ریاست ابلا کی آبادی اگرچہ اس قدیم دور میں 260000 سے زائد نفوس پر مشتمل تھی مگر دارالحکومت کی آبادی 30 ہزار سے زائد نہیں تھی۔ 30 ہزار کی آبادی میں سے تقریباً 11 ہزار افراد کا تعلق افسر شاہی سے تھا۔ لائبریری سے ملنے والی لوحوں سے پتا چلتا ہے کہ افسر شاہی کی اتنی بڑی تعداد کے لیے جو گندم، الکحل اور دوسری اشیائے صرف ذخیرہ کی جاتی تھیں، ان کی مقدار کا اندراج بھی ان لوحوں پر کیا جاتا تھا۔ ابلا کا حکمران افسر شاہی کی ایک بڑی کونسل کی مدد سے حکومت کرتا تھا۔ ان الواح پر یہاں کے کئی بادشاہوں کے نام بھی درج ملے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ابلا کی شہری ریاست میں بادشاہ بھی سات سال کے لیے منتخب کیے جاتے تھے۔ ابلا کی شہری ریاست کی اقتصادیات عمارتی لکڑی، ریشمی پارچہ جات، قیمتی پتھر اور دھات کی بنی ہوئی اشیا کی صنعت اور تجارت پر مبنی تھی۔ ابلائی تاجر اس وقت دنیا کی معلوم دنیا میں دور دراز کے مقامات مصر، سمیری شہری ریاستوں، ایران اور جزیرہ قبرص تک اپنا مال تجارت لے جاتے تھے۔ کاتب یا منشی اسی مال و اسباب تجارت کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنے پر مامور تھے۔ اس مقصد کے لیے منشی مٹی کی لوحوں پر سمیریوں کے ایجاد کردہ میخی رسم الخط کی مدد سے ریکارڈ تحریر کرتے تھے۔ ابلائیوں کے ہاں سمیری زبان کے ساتھ ساتھ ان کی ایک اپنی الگ زبان بھی مستعمل تھی لیکن دونوں زبانیں میخی رسم الخط میں تحریر کی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے ان کے ہاں میخی رسم الخط سکھانے کے لیے باقاعدہ سکول قائم تھے۔ اس کا ثبوت ایسی الواح سے ملا ہے جن پر تحریر کرنے والے طالب علموں نے اپنا نام ثبت کر دیا تھا اور ساتھ ہی انہیں لوحوں پر ان کے استادوں کی اصلاح کے نشانات بھی ملے ہیں۔ جب یہ لوحیں دریافت ہوئیں تو انہیں کوئی پڑھ نہیں سکتا تھا لیکن خوش قسمتی سے ان میں ایسی لوحیں بھی دریافت ہو گئیں جن پر ابلائی اور سمیری دونوں زبانوں کے الفاظ کی فہرستیں دی گئی تھیں۔ ان فہرستوں نے ماہرین کے لیے ابلائی زبان کو سمجھنا آسان کر دیا۔ ابلائی لوگ نسلاً سامی تھی اور ان کی زبان بھی سامی زبانوں کے گروہ میں سے قرار دی گئی ہے۔ زبانوں کے اس گروہ میں عبرانی اور عربی کے نام بھی آتے ہیں۔ دوسرے ہم عصر معاشروں کی طرح ابلائی معاشرے میں بھی بہت سے دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی تھی لیکن ابلائیوں نے زیادہ تر دیوی دیوتا اپنے ہمسایہ معاشروں سے مستعار لیے ہوئے تھے۔ لوحوں پر درج تاریخی حقائق کے مطابق ابلائی بادشاہوں نے بہت سے ہمسایہ ممالک کو فتح کیا تھا۔ دوسری طرف ٹیلے پر ملنے والے اثریاتی شواہد اس بات کے گواہ ہیں کہ خود ابلا بھی غنیموں کے ہاتھوں کئی بار فتح ہوا۔ شاہی لائبریری میں لگنے والی آگ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ تقریباً 2250 ق م میں یہ آگ ایک دشمن کے ابلا پر حملہ کے وقت لگی تھی۔ اس حملے میں دشمن ابلا پر قابض بھی ہو گئے تھے مگر دشمنوں کی اس فتح سے ابلائی تہذیب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ابلائیوں نے آگ سے پہنچنے والے نقصان کو شہر کی دوبارہ تعمیر سے جلد پورا کر دیا۔ لیکن دشمنوں کے ان بار بار حملوں سے وہ کمزور تر ہوتے چلے گئے۔ دو ہزار ق م کے قریب ان کی اپنے ہمسایوں سے جنگ ہوئی جس سے ان کی ریاست کو بڑا نقصان پہنچا لیکن پھر بھی ابلا ایک تجارتی مرکز کے طور پر بحال رہا۔ 1650 ق م میں حتیوں نے بالآخر ابلا اور اس کی تہذیب کے تابوت میں آخری کیل اپنی فتح سے ٹھونک دی جس کے بعد یہ تہذیب صدیوں کے غبار میں گم ہوتی چلی گئی۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں