1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آصفانے افسانے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏17 اکتوبر 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    میں کوشش کرونگا کہ اپنے تمام [blink]افسانے [/blink]اس لڑی میں جمع کر دوں ۔
    آصف احمد بھٹی
     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    السلام علیکم
    آج میں آپ لوگوں سے اپنا دوسرا افسانہ شئیر کرنا چاہتا ہوں ، یہ بھی میرے غیر مطبوعہ مجموعہ ’’ میں باغی ہوں ‘‘ کا دوسرا افسانہ ہے ، ’’ میں باغی ہوں ‘‘ کے تمام افسانے مکالماتی افسانے ہیں ، اور ہر افسانہ ایک بغاوت ہے ۔

    اس بات کو ابھی ادھورا ہی رہنے دو!
    (آصف احمد بھٹی)​


    سنو! مجھے اپنے اندر عجیب سی گھٹن محسوس ہوتی ہے جیسے کچھ سلگ رہا ہو اورتھوڑا تھوڑا دھواں اُٹھتا ہو۔ میں نے کہا اور تم مسکرا دی۔
    یہ گھٹن کیسی ہے ؟ میں نے سوال کیا ۔
    تم سوال کرنے کا ہر اختیار کھو بیٹے ہو۔ تم نے جواب دیا۔
    کیوں ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔
    کیوں کہ غلاموں کو اپنی ذات پر بھی کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔
    مگر میں غلام نہیں ہوں ۔ میں نے کہا ۔
    ایسا تمہیں لگتا ہے ۔ تم دھیرے سے مسکرائی ۔ مگر اب غلامی تمہاری عادت بن چکی ہے ۔
    میں نہیں مانتا ۔ میں نے ضدی بچے کی طرح کہا۔
    کیوں؟ تم نے عجیب ساسوال کیا۔ تم کیوں نہیں مانتے ۔
    میری روح ہر روز آزاد ی کی قیمت ادا کرتی ہے۔ میں صاف گوئی سے کہا۔
    یہ بھی بغاوت ہے ۔ تم نے کہا۔ تمہاریں سانسیں تک تمہارے سردار کی غلام ہیں ۔
    میں کسی سردار کی غلامی کو تسلیم نہیں کرتا ۔ میں نے جواب دیا۔
    تو پھر جلد ہی تمہارا سر کسی نیزے کی اَنی پر ہو گا۔ تم نے جواب دیا۔
    آزادی کے بدلے یہ قیمت کچھ بھی نہیں ۔ میں مسکرایا۔
    تم ہر بار ایسا کیوں کرتے ہو؟ تم نے پوچھا۔
    میں نے جانتا۔ میں نے جواب دیا۔ شاید میں کسی کو کسی کا غلام نہیں دیکھ سکتا ۔
    ایسا کیوں ہے ؟ تم نے سوال کیا ۔
    اِک انجان سی قوت میرے اندر شعلے سے بھڑکا تی ہے۔میں نے جواب دیا۔
    کہیں تم خود تو سردار نہیں بننا چاہتے ؟ تم نے حیرت سے پوچھا۔
    نہیں ، بلکہ میں تو ہر سردار کو عام آدمی بنا دینا چاہتا ہوں ۔ میں نے جواب دیا۔
    کیوں ؟ تم نے پوچھا۔
    جب ہر کوئی عام آدمی ہو گا تو ہر کوئی آزاد ہو گا۔میں نے جواب دیا۔
    یہ لا یعنی خواہش ہے ۔ تم نے کہا۔
    کیسی لا یعنی خواہش ۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
    تم شاید خود کو پانے کی جستجو میں ہو ۔ تم نے جواب دیا۔
    خود کو پالینے کی خواہش لایعنی کیسے ہو سکتی ہے؟ میں نے پوچھا۔
    اِس بات کو ابھی ادھورا ہی رہنے دو۔ تم نے جواب دیا۔
    مگر میں تو صرف آزاد فضاؤں کی خواہش رکھتا ہوں۔ میں نے کہا۔
    یہی تو بغاوتوں کا ابتدائی کلیہ ہے ۔ تم نے مستحکم لہجے میں جواب دیا۔ اورغلام روحیں آزادی کی باتیں نہیں کرتی۔
    مگر! میری روح غلام نہیں۔ میں نے احتجاج کیا۔
    یہی بغاوت ہے۔ تم نے کہا۔
    اور میرے اندرون سلگتی اورجلاتی چنگاری کو تم کیا کہو گی ۔ میں نے پوچھا۔
    شاید تمہاری تکمیل ہورہی ہے۔ تم نے جواب دیا۔
    مگرمیں خود کو راکھ ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے کہا۔
    تو پھراپنی روح کو بے جان جسم کی مٹی میں دفن کردو۔ تم نے حکم دیا۔
    تو کیا اِس طرح میں ابدی خوشی پالونگا؟ میں نے پوچھا۔
    اِس بات کو ابھی ادھورا ہی رہنے دو۔ تم نے جواب دیا۔
    اچھا یہی بتا دویہ ہر طرف گھپ اندھیراکیوں ہے۔ میں نے کہا۔
    یہ توہمیشہ سے محکوموں کا مقدر ہے۔ تم نے جواب دیا۔
    اور میں اسی عادت کو بدلنا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا۔
    ناممکن ہے۔ تم نے حقارت سے جواب دیا۔ عادت تو شاید بدلی جاسکتی ہے مگریہ محکومی اب تمہاری خصلت بن چکی ہے اور خصلت بدلی نہیں جا سکتی ۔
    اچھا!اِس اندھیرے میں مجھے اِک جگنو ہی مل جائے۔ میں نے التجا کی۔
    یہ بھی ممکن نہیں۔ تم نے جواب دیا۔
    کیوں؟ میںنے پوچھا۔
    جگنو کو چنگاری بناتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ تم نے جواب دیا۔
    مگریہ راز اِک دن افشاں ہوکر رہیگا۔ میں نے کہا۔
    ہاں تم خواب دیکھ سکتے ہو۔تم نے جواب دیا۔ تم سے پہلے بھی کئی دیوانے ایسے ہی خواب دیکھتے رہے ہیں ۔
    مگر میں غلام ہاتھوں سے مٹی ہوئی ہر تقدیر کو پھر نئے سرے سے اُبھاروں گا۔ میں نے کہا۔
    تمہاری سب تقدیری بھی تو تم جیسی ہی ہیں۔ تم مسکرا کر بولی ۔ تمہاری تقدیریں بھی تو محکوم فطرت ہیں ۔
    اچھا! یہی بتادو کتنی صدیاں گزر گئی ہیں۔ میں نے پوچھا۔
    یہ شمار تو میں بھی بھول گئی ہوں۔ تم نے جواب دیا
    کیا چاند اب بھی اُتنا ہی دلکش ہے؟ میں نے سوال کیا۔ کیا اب بھی فاختاؤں کے بچے سفید ہوتے ہیں۔
    اِس بات کو ابھی ادھورا ہی رہنے دو۔ تم نے جواب دیا۔
    اچھا یہی بتا دو کہ یہ غلام گرشیں کب تک آباد رہینگی؟ میں نے پوچھا۔
    جب تک محکوم لوگ اپنا مسلک نہیں بدلتے۔ تم نے جواب دیا۔
    مگر میرا مسلک تو خودی ہے۔ میں نے احتجاج کیا۔
    خودی توخو دمحکوم ہو چکی ہے۔ تم نے جواب دیا۔
    شایداِسی لیے کبھی کبھی میں کچھ حبس سا محسوس کرتا ہوں۔میں نے کہا۔
    اِس بار بھی تازہ ہواتم پر حرام ہے۔ تم نے جواب دیا۔
    مگرمیری روح کے کچھ کونے روشن ہورہے ہیں۔ میں نے کہا۔
    یہ فنا ہونے کی نشانیاں ہیں۔ تم نے کہا۔
    توکیا سردار نے مرے قتل نامے پر دستخط کر دئیے ہیں؟ میں نے پوچھا۔
    اِس بات کو ابھی ادھورا ہی رہنے دو۔ تم نے جواب دیا۔
    تمہارا لہجہ کیوں بھیگا ہوا سا ہے۔ میں نے پوچھا۔
    اِس بات کو ابھی ادھورا ہی رہنے دو۔ تم نے جواب دیا۔
    (آصف احمد بھٹی)​
     
    شانی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    السلام علیکم
    اس فورم پر یہ میرا پہلا افسانہ ہے ، اور یہ میرے غیر مطبوعہ افسانوں کے مجموعے میں باغی ہوں کا پہلا افسانہ ہے ، میرے اس مجموعے میں شامل تمام افسانے عام افسانوں سے ہٹ کر ہیں بلکہ یہ مکالماتی افسانے ہیں ، اس سے پہلے بھی میں انہیں کئی فورمز پر پیش کر چکا ہوں ، اب ہماری اردو کے دوستوں‌اور صارفین کی خدمت میں‌بھی انہیں پیش کرونگا ۔

    میں جان گیا ہوں
    (آصفؔ احمد بھٹی)

    کیا بات ہے؟ تم پریشان کیوں ہو۔میں نے تمہیں ہراساں دیکھ کر پوچھا۔
    شہروں میں ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ تم نے وحشت بھرے لہجے میں جواب دیا۔ تمہاری تصویریں دیواروں پر چسپاں کر دی گئی ہیں، اور اب تمہارے سر پر بھاری انعام بھی رکھ دیا گیا ہے۔
    ہنہ! میں ہنس دیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا، شوریدہ سری شہنشاہوں کو کبھی پسند نہیں آئی۔
    تم معافی مانگ لو۔ تم نے کہا۔
    اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں نے جواب دیا۔ حکم شاہی وآپس نہیں لیے جاتے، اب اگر میں معافی مانگ بھی لوں توبھی بغضِ شاہی ہمیشہ میرے سر پر ننگی تلوار کی طرح لٹکتا رہے گیا۔
    تم تو فنکار ہو! لفظوں سے کھیلنا جانتے ہوں، خدمت شاہ میں کوئی مدح نامہ ہی لکھ ڈالوں۔
    سچا فن چاپلوسی کا محتاج نہیں ہوتا، اور پھر حرف کی حرمت مجھے ہر شے پر مقدم ہے ، مجھ سے یہ نہ ہو پائیگا۔ میں نے جواب دیا۔
    یہ چاپلوسی نہیں ہے۔ تم نے کہا۔ یہ تو مصلحت ہے، مفاہمت ہے۔
    پھر بھی یہ مجھ سے نہ ہوسکے گا۔ میں نے جواب دیا۔
    دیکھو! تم سے پہلے بھی بہت سے ’’ضدی‘‘ مصلحت سے کام لے چکے ہیں۔ تم نے کہا۔
    اگر یہ سچ ہے تو! مجھ سے پہلے کے تمام ’’ ضدیوں ‘‘ کو جوئے شبستان کی آہستہ گامی مبارک!۔ میں نے جواب دیا۔
    یہ اچھا شگن ہے۔ تم نے کہا۔ ہوا کے مقابل اگر پھول آئے گا تو پھر پنکھڑی پنکھڑی بکھر ہی جائے گی۔
    مگر میں توصحرائی بگولہ ہوں میرا پھولوں سے کیا تعلق۔ میں نے جواب دیا۔
    تم ہر بار نئی بغاوت کا بیچ کیوں بو دیتے ہو ؟ تم نے سوال کیا ۔
    میں کیا کروں ، ہر بار میرے لیے نئی بغاوت کے اسباب پیدا کر دیئے جاتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا ۔
    کیا بغاوت کا کوئی سبب بھی ہوتا ہے۔تم حیرت سے بولی اور میں ہنس دیا۔
    ہاں! میں نے جواب دیا، تمہاری دلکش آنکھوں میں غضب کا تجسس تھا۔
    کہوں! تم میری آنکھوں میں جھانک کر بولی۔ تمہاری بغاوتوں کے ا سباب کیا ہیں۔
    میری بغاوت کا پہلا سبب قوس قزح کے یہ سب رنگ ہیں۔ میں نے جواب دیا ۔
    قوس قزح کے رنگ ؟ تم حیرت سے بولی ۔
    ہاں قوس قزح کے رنگ ، جو ایک دوسرے سے ٹکرا کربھی ختم نہیں ہوتے بلکہ منکس ہوکر ایک نئے رنگ کے وجود کا سبب بنتے ہیں۔
    مگر یہ بغاوت کا سبب کیسے بن سکتے ہیں ؟ تم نے سوال کیا ۔
    بن سکتے ہیں۔ میں نے جواب دیا ۔ یہ سب خوش رنگ تتلیاں قوس قزح کے رنگوں سے سج کر ہی پھولوں پر مہکتی ہیں اورسب دل کش پرندے قوس قزح سے نہا کر ہی آزادی سے اُڑانے بھرتے ہیں ۔
    مگر اِس میں بغاوت کا سبب کیا ہے ؟ تم ہنوز پریشان تھی ۔
    پرندے جانتے ہیں کہ قوس قزح کے رنگوں میں ابھی بہت سے دلکش رنگ باقی ہیں، تتلیاں جانتی ہیں ابھی سب خوش رنگ پھول کھلنے ہیں، مگر ہم نہیں جانتے ہماری دھرتی کے کس حصے پر ہمارا سُرخ لہو بہہ جائے گا ، ہم نہیں جانتے ابھی کتنے بچے کڑی دھوپ میں بے سائباں ہو جائینگے ، ہم نہیں جانتے ابھی کتنی ماؤں کی گودیں اُجڑنے والی ہیں ، ہم نہیں جانتے ابھی کتنی بہنوں کی چادریں تار تار ہوں گی، ابھی کتنی دستاریں خاک آلودہ ہونگی، اور ہم نہیں جانتے ابھی کتنے خواب قوس کے رنگوں میں نکھرنے سے پہلے ہی جل گریں گے، اور یہ سب میری بغاوت کا پہلا سبب ہیں۔
    کیا تمہاری بغاوت کے کوئی اور سبب بھی ہے ؟ تم نے پوچھا ۔
    ہاں! میں نے جواب دیا۔ صبح دم جب بادلوں پر سُرخ بجلی کڑکتی ہے، وقت کی آندھی جب صحرا بردوں کے چہرے پر خاک ملتی ہے، محبتیں جب تڑپائی جاتی ہیں ،جب پروانے بے سبب جلائے جاتے ہیں ، جب پائلیں بجنے سے پہلے ہی بکھر جاتی ہیں اور چوڑیاں کھنکتی سے پہلے ہی لہو رنگ کر دی جاتی ہے تو مجھ جیسے باغی پیدا ہوتے ہیں ۔ تمہاری آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔
    کوئی اور سبب ؟ تم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔
    سنو! ظلم جب معصوم جسموں سے عمر کا خراج لہوکی صورت لیتا ہے تب بادلوں پہ قوس کے سب رنگ منعکس ہو کرصرف سرخ رہ جاتے ہیں۔
    یہ سب تم کیسے جانتے ہیں؟ تم نے سوال کیا۔
    میں نے معصوم جسموں کو لہو کا خراج دیتے دیکھا ہے۔ میں نے جواب دیا۔
    تمہیں بغاوت کے سوا کچھ اور بھی آتا ہے ؟ تم نے سوال کیا اور میں مسکرا دیا ۔
    مجھے محبتیں کرنی اور پھر نبھانی بھی آتی ہیں۔ میں نے جواب دیا۔
    محبتیں ؟ کیا محبت ایک سے زیادہ بار بھی ہو سکتی ہے ؟ تم نے حیرت سے پوچھا ۔
    ہاں ! محبت تو لامحدود ہے ۔ میں نے جواب دیا۔ جب جب ہم محبتوں کو محدود کرتے ہیں، تب تب ہی ہم ایک نئی بغاوت کا سبب بھی پیدا کر رہے ہوتے ہیں ۔
    تم کس کس سے محبت کرتے ہو؟ تم نے مسکرا کر پوچھا۔
    خدا کی کائنات میں موجود ہر شے سے مجھے محبت ہے ۔ میں نے جواب دیا۔
    تو پھر تمہاری بغاوتوں کا کیا جواز باقی رہا ۔تم نے پوچھا۔
    جب کوئی سردار اپنی خدائی کا علان کرتا ہے ، تو وہ مجھے بغاوت پر مجبور کرتا ہے ۔ میں نے جواب دیا۔
    کیسے ؟ تم اب بھی حیران تھی ۔
    مظلوم جسموں پر جب بھی ظلم لکھا جاتا ہے تو وہی میری بغاوت کا آغاز ہوتا ہے ۔ میں نے جواب دیا۔
    تم محبتوں کی بات کر رہے تھے ۔ تم نے یاد دلایا ۔
    ہاں محبتیں ! جو لامحدود ہوتی ہیں ۔ میں مسکرایا۔ اچھا چلو! میں تمہیں بلبل کی دلکش بولی سکھاتا ہوں!
    بلبل کی بولی ؟ اور دلکش ؟ تم نے حیرت سے کہا ۔
    ہاں۔ میں نے جواب دیا ۔ محبتوں کی سب بولیاں دلکش ہی ہوتی ہیں ۔
    یہ کچھ عجیب سا ہے ۔ تم نے کہا۔
    ہاں ! عجیب تو ہے مگر سچ ہے ۔ میں نے جواب دیا ۔اور پھر برف پہ لکھے وہ سب دلکش صحیفے بھی مجھے ازبر ہیں۔
    کیسے صحیفے ؟ تم نے سوال کیا ۔
    جوہر برگ و گل کے خاتمے کے بعد نئی بہار کے پیغام دیتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا ۔
    کیا اُمیدیں اب بھی قائم ہیں ؟ تم نے سوال کیا ۔
    ہاں! ابھی خدا انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ میں نے جواب دیا اور تم حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئی ۔
    کیا تم میلوں پھیلے سمندر کے سب جزیرے دیکھو گی؟ میں نے پوچھا۔
    تم تو صحرائی بگولہ ہو، تمہیں سمندروں سے کیا لینا ۔ تم نے کہا۔
    ہاں مگر خوبصورت وادیوں کی سب سبک و تند ہوائیں بھی میری ہمدم ہیں ۔ میں نے جواب دیا ۔
    یہ سب کیسے ممکن ہے۔ تم نے حیرت سے کہا۔
    پہلے مجھے بھی سب عجیب لگتا تھا۔ میں نے جواب دیا۔ مگر جب سے سر پر بغاوت کی دستار باندھی ہے روز قدرت کے کئی راز مجھ پہ کھلتے رہتے ہیں، میں نے پھولوں میں رنگ اور خوشبو ساتھ دیکھے ہیں! میں جان گیا ہوں ! شام ہوتے ہی سب پرندے کیوں چہکتے ہیں؟ بارشوں کے بعد سارے کھیت کیسے مہکتے ہیں؟ اُونچی اُونچی چوٹیوں پہ کُہرے کیسے جمتے ہیں؟ کچی عمر میں ہی دیوانے کیوں بہکتے ہیں؟ محبت کیسے ہوتی ہے دل کیسے کسی پہ آتاہے ؟ میں جان گیا ہوں کہ سوتا ہوا بچہ کیوں مسکراتا ہے۔
    (آصفؔ احمد بھٹی)
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔
    (آصفؔ احمد بھٹی)
    خدایا ! ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ مگر خدایا تو جانتا ہی ہے کہ میں ساری عمر اور ہر دکھ پریشانی کے باوجود تیری رضا میں راضی رہا ہوں ، میں نے کبھی تجھ سے سوال نہیں کیا ، جو تُو نے دیا میں نے شکر پڑھ کر لے لیا ، کبھی کوئی فرمائش نہیں کی ، کبھی کسی دکھ کی فریاد نہیں کی ، کبھی اپنے کسی زخم کا کھلا منہ تجھے نہیں دکھایا ، اور کبھی کسی درد پر میری کراہ بھی نہیں نکلی ، میں ہر بار اور ہر دکھ پر ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ مگر میرے خدایا ! مجھے معاف کر دینا کہ آج میرے ہونٹوں پر ایک شکوہ آ ہی گیا ہے ۔ ۔ ۔ خدایا ایک سوال ہے جو میرے دماغ میں کہیں ہتھوڑے برسا رہا ہے ۔ ۔ ۔ خدایا ! ایک بس سوال ! مگر وہ سوال کیا ؟ اب یہ بھی مجھے یاد نہیں آرہا ۔ ۔ ۔ مجھے وہ سوال یاد نہیں آ رہا ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ اور یاد بھی کیسے آئے درد کی شدت کسی طور کم ہی نہیں ہو رہی بلکہ لمحہ بہ لمحہ بڑھ ہی رہی ہے ، پورا جسم ایک پھوڑا بن گیا ہے ایک ایسا پھوڑا کہ جس کے درد کی شدت ہر لمحہ تیز تر ہوتی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ مگر خدایا ! میں اپنے سارے دکھ اپنے بیٹے علی کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اب پندرہ سال کا ہو چکا ہے اُسے کسی حد تک اچھے برے کی تمیز بھی ہو چکی ہے ، میں جانتا ہوں پندرہ سال کچھ اتنے زیادہ بھی نہیں ہوتے مگر خدایا ! تیرے بعد مجھے اُسی کا تو سہارا ہے ۔ ۔ ۔ مگر خدایا ! تو ہی بتا ! میں اپنے دُکھ اُسے کیسے بتاؤں ، میں کچھ کہنے کے قابل رہا ہی کب ہوں ، کہ درد ختم کرنے والی دوائیں مجھے ہوش میں رہنے نہیں دیتی اور درد مجھے ہوش کھونے نہیں دیتا ، اور اب تو ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا ہے کہ بس چند گھنٹے مزید ۔ ۔ ۔ دماغ درد اور اذیت سے ماؤف ہورہا ہے ، میں اپنے بیٹے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر لفظ جب بھی جوڑتا ہوں وہ ایک کراہ بن کر ہی میرے منہ نکلتے ہیں اور علی میری ہر کراہ پر تڑپ سا جاتا ہے ، بے چینی سے ٹہلنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ خدایا ! پچھلے تیس گھنٹوں سے میری ماں نہیں سوئی تھی اور سو بھی کیسے سکتی تھی جس کا بیٹا ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بنا سُرخ و سفید پٹیوں میں لپٹا ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہو اُسے نیند کیسے آ سکتی ہے میری ماں تو ہمیشہ سے بدنصیب رہی ہے ، نانا کے مرنے کے بعد نانی نے دوسری شادی کرلی تھی اور میرا سوتیلا نانا اچھا آدمی نہیں تھا وہ شرابی اور جواری تھا وہ میری کم عمر ماں کو جوئے میں ہار گیا مگر جیتنے والا اچھا آدمی تھا اور اچھا کیوں نہ ہوتا وہ میرا باپ تھا اور باپ چاہے کیسا بھی ہو وہ اچھا ہوتا ہے اُس نے میری ماں سے شادی کر لی وہ میری ماں سے تیس سال بڑا تھا ، اور پندرہ سال بعد جب میری ماں تیس سال کی تھی تب میرا باپ مر گیا میری بد نصیب ماں بیوہ ہو گئی میں اور میرے بہن بھائی یتیم ہو گئے میں سب سے بڑا تھا میری عمر صرف بارہ سال تھی مگر اچھے برے کی تمیز تھی یا شاید ہو گئی تھی ، میری ماں بھرپور جوان تھی گلی کے آوارہ نوجوان ہمارے گھر کے سامنے رالیں ٹپکاتے گھومنے لگے ، ماں کی جوانی ایک خوف بن کر میرے دماغ میں بیٹھ گی اور ایک ہی رات میں میں پچاس سال کا ہو گیا ، میں اپنی ماں اور اُس کے بچوں کا باپ بن گیا ، میں نے کبھی بھی اور کسی بھی ضرورت کے تحت اُسے گھر سے نکلنے نہیں دیا ، ننھے ننھے ہاتھوں سے ہوٹلوں میں برتن مانجھے ، پیسے والوں کی گاڑیاں دھوئیں ، سگنلز اور چوراہوں پر کنگیاں بیچی ، لوگوں کی گالیاں سنی ماریں کھائیں ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور میرا بھائی ڈاکٹر فرہاد جو مجھ سے صرف ایک ہی سال چھوٹا ہے اور جو آج شہر کا ایک نامور ڈاکٹر ہے اُس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے روزانہ سینکڑوں مریض اُن کے کلینک پر آتے ہیں وہ بھی پچھلے تیس گھنٹوں سے گھر نہیں گیا حالانکہ اُس کی بیوی کئی بار اُسے فون کر چکی ہے مگر وہ میری محبت میں ماں کے کندھے سے لگا بیٹھا ہے ، وہ ہمیشہ مجھ سے کہتا تھا ۔ ۔ ۔ لالہ ! تم میرے بھائی نہیں میرے باپ ہو اور ہر بیٹا اپنے باپ سے فرمائشیں کرتا ہے اور میں اُس کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے اور اُس کا باپ بنے رہنے کے لیے اپنے جسم کو محنت کی بھٹی میں جلاتا رہا ہوں ، اُس کے تعلیمی اخراجات اور اُس کا جیب خرچ پورا کرنے کے لیے میں نے کئی بار اپنا خون بھی بیچا ، اور اُس نے بھی کبھی مجھے مایوس نہیں کیا ہمیشہ کلاس میں اول آتا رہا اور جب ڈاکٹر بنا تو پورے صوبے میں اول آیا تھا ، اسی لیے تو ڈاکٹر ارشاد خان جیسے بڑے آدمی نے اُسے اپنا داماد بنا لیا اور اعلی تعلیم دلوانے کے لیے اپنے خرچے پر امریکہ بھیجا وآپس آ کر وہ دو سال تک اپنے سسر کے ہسپتال میں کام کرتا رہا ہے ، ابھی کچھ سال پہلے ہی اپنا کلینک بنایا ہے اور ڈیفنس کی ایک شاندار کوٹھی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ تو ُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور میری بہن کنول ! بلکل پھولوں جیسی نرم و نازک ، مجھ سے پانچ سال چھوٹی تھی مگر ایک دم ہی جوان ہو گئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا ، پتہ بھی کیسے چلتا میں گھر پر رہتا ہی کب تھا ، ماں فجر کی نماز پڑھ رہی ہوتی تو میں گھر سے نکلتا تھا اور آدھی رات کے بعد گھر آتا تھا کبھی کبھار جب جلدی گھر آجاتا اور وہ جاگ رہی ہوتی تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی ، اور میرے کندھے پر چڑھ کر کھیلتی تھی یا ماں ہر مہینے اُس کی اسکول فیس مانگتی تھی تب مجھے اُس کے وجود کا احساس ہوتا تھا ، اور ہر سال جب وہ اپنے پاس ہونے کی خبر سنانے کو رات دیر تک جاگتی اور میرا انتظار کرتی تھی تب مجھے بہت اچھا لگتا ، مجھے لگتا کہ میرے باپ کی روح مجھ سے بہت خوش ہو گی ۔ ۔ ۔ ماں کو اُس کی شادی کی بہت فکر تھی وہ ہر مہینے اُس کے جہیز کے لیے کچھ نہ کچھ خرید کر رکھ لیتی تھی اور پھر اُس کی شادی بھی ہو گئی ، عمر اچھا لڑکا تھا اُس کے ماں باپ بھی اچھے لوگ تھے اُنہوں نے کسی شے کی مانگ نہیں کی تھی بس ہم نے جو دیا چُپ چاپ لے لیا تھا مگر ایک سال بعد ہی جب فرہاد کو اُس کے سسر نے امریکہ بھجوایا تو عمر کو بھی انگلینڈ جانے کا خبط ہو گیا ایجنٹ آٹھ لاکھ روپے مانگتا تھا اور اُس کے پاس صرف تین لاکھ تھے تب میں نے اپنا ایک گردہ بیچ کر اُسے باقی پیسے دئیے تھے ، دو سال بعد اُس نے کنول کو بھی انگلینڈ بلا لیا تھا وہ اب بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہیں ہے ۔ ۔ ۔ اور آج جانے اُنہیں کسی نے بتایا بھی ہے کہ نہیں اور بتایا بھی ہو تو انگلینڈ کون سا قریب ہے آنے میں کچھ وقت تو لگ ہی جائیگا ، ہو سکتا ہے نہ بھی آئیں ہر انسان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور پھر ندیم ! میرا بچپن کا دوست ،میرے ہر برے وقت کا ساتھی میری طرح وہ بھی بہت محنتی ہے ، پندرہ سال پہلے ہم دونوں نے مل کر جو ایک چھوٹا سا ٹی اسٹال شروع کیا تھا آج وہ شہر کا ایک مشہور ریسٹورنٹ بن چکا ہے اور ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کے کبھی ہم صرف خواب دیکھا کرتے تھے ، مگر جانے کیوں ماں کو اُس کا گھر میں آنا جانا پسند نہیں ہے ، بلکہ علی بھی ندیم کو پسند نہیں کرتا ، بلکہ ایک بار تو علی اُس سے اُلجھا بھی تھا مگر اُس نے میرے بار بار اصرار کے بعد بھی مجھے وجہ نہیں بتائی تھی ، مجھے تو ندیم میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ اور میری بیوی نزہت ! فرہاد اور کنول کی شادی کے بعد ماں کو میری شادی کی فکر ہوئی نزہت ماں کی دور کی رشتہ دار تھی میری شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی دراصل نزہت کے ماں باپ بہت غریب تھے خود اُس وقت میرے اپنے حالات کچھ اتنے اچھے نہیں تھے ، سو سادگی تو کرنی ہی تھی شادی کے بعد ہمیشہ میں نے محسوس کیا کہ نزہت مجھ سے کچھ کھنچی سی رہتی ہے مگر میرے پاس وقت ہی کب ہوتا تھا کہ یہ سب باتیں سوچ سکتا ، اور پھر میں نے اپنا ٹی اسٹال نیا نیا ہی شروع کیا تھا ، حالانکہ ماں نے کئی بار مجھے سمجھایا بھی مگر بچپن سے محنت کی عادت پڑ گئی تھی اور پھر مجھے علی کے مستقبل کی بھی فکر ہونے لگی تھی ، علی کی پیدائش کے بعد نزہت نے دوسری بار ماں بننے سے صاف انکار کردیا تھا ، اور میں بھی کم آمدنی کی وجہ سے اُس کی بات مان گیا تھا مگر اب تو ۔ ۔ ۔ تیس گھنٹے پہلے تک میں ایک گردے والا مگر صحتمند آدمی تھی اور پچھلے کچھ عرصے سے نزہت کا رویہ بھی قدرے بہتر تھا ، پرسوں ہماری شادی کی سالگرہ تھی حالانکہ اِس سے پہلے ہم نے کبھی اپنی شادی کی سالگرہ نہیں منائی تھی مگر جانے نزہت کے دل میں کیا آئی اُس نے فرہاد اور اُس کے بیوی بچوں کی دعوت کر ڈالی وہ لوگ آئے ہوئے تھے ، تب ہی نزہت نے مری جانے کا پروگرام بنا لیا ، مری میں فرہاد کا ایک کاٹج ہے ، علی ،اماں ، فرہاد اور اُس کے بیوی بچے بھی ہمارے ساتھ تھے ہم سب مری آگئے نزہت اپنے پچھلے رویئے پر شرمندہ تھی شام کو ہم سب ٹہلنے نکلے بہار کے ابتدائی دن ہیں ، ابھی اِکا دُوکا لوگ ہی مری آئے ہیں ، اس لیے سڑک بلکل سنسان تھی ، علی اور اماں فرہاد اور اُس کے بچوں کے ساتھ ہم دونوں سے کچھ آگے جارہے تھے نزہت میرے ساتھ تھی سڑک کنارے کچھ خوبصورت جنگلی پھول نظر آ رہے تھے ، نزہت نے مجھ سے پھول کی فرمائش کی میں پھول توڑنے کے لیے جھکا اور اپنا توازن نہ رکھ سکا ، اور نیچے گہری کھائی میں گرتا چلا گیا ، بس نزہت کی چیخ سنائی دی اور پھر کچھ ہوش نہ رہا ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ خدایا ۔ ۔ ۔ وہاں میرے اور نزہت کے سوا اور کوئی بھی نہ تھا پھر مجھے کیوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا تھا ۔ ۔ ۔ خدایا ۔ ۔ ۔ میں نے تو کبھی نزہت پر شک نہیں کیا تھا ، کبھی اماں کے کہنے پر بھی ۔ ۔ ۔ اماں کے منع کرنے باوجود ۔ ۔ ۔ علی کے ندیم سے اُلجھنے اور پھر مجھے وجہ نہ بتانے کے باوجود میں نے ندیم کو گھر آنے سے نہیں روکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ توُ تو سب جانتا ہے ۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ ہاں ! ہاں یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ خدایا ! مجھے یاد آگیا ۔ ۔ ۔ خدایا ! میں نے کبھی تیری کوئی نماز نہیں پڑھی ۔ ۔ ۔ کیا کرتا مجھے کبھی اِس کی فرصت ہی نہیں ملی ۔ ۔ ۔ کیا تو مجھے بھی دوزخ میں جلائے گا ؟
    (آصفؔ احمد بھٹی)​
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    آپ سب کی خدمت میں اپنا ایک اور افسانہ پیش کر رہا ہوں‌ ۔


    بھول
    (آصفؔ احمد بھٹی)

    اب اُسے إحساس ہو رہا تھا کہ وہ کتنی بڑی بھول کر بیٹھی ہے اُسے احساس ہورہا تھا کہ عورت کے لیے گھر کی چار دیواری سے بہتر اور محفوظ اور کوئی جگہ نہیں اور وہ پگلی ! سوچ سوچ کر اُس کا دم نکلا جا رہا تھا کتنا مان تھا اُسے خود پر اپنے تعلیم یافتہ ہونے پر اور إسی لیے اُس نے سجاول کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔
    میں کوئی بھیڑ بکری نہیں کہ جس کھوٹے سے مرضی باندھ دو ! میں ایک إانسان ہوں جیتی جاگتی اإنسان ! ہوشمند ! پڑھی لکھی اور اپنے فیصلے میں خود کر سکتی ہوں میں اپنی زندگی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی کے خلاف نہیں ہونے دونگی ۔ اور سجاول حیرت سے بس اُسے دیکھتا رہ گیا تھا اور پھر اپنی ٹوٹی ٹانگ کو واکنگ اسٹک سے گھسیٹتا ہوا چلا گیا تھا اور تایا جی ! اُسے وہ نورانی چہرے والا شفیق سا بوڑھا یاد آیا جس نے ساری زندگی اُسے ہاتھوں کے چھالے کی طرح سنبھال کر رکھا تھا اور تائی ! وہ کتنی محبت کرتی تھی اُس سے کتنا لاڈ کرتی تھی اُس سے بلکہ اتنی محبت تو وہ اپنے اکلوتے بیٹے سجاول سے بھی نہیں کرتی تھی بے اختیار اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رونے لگی کتنی ہی دیر گزر گئی مگر کوئی اُس کے آنسو پونجھنے والا نہیں تھا جب دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو وہ خود ہی چُپ ہوگئی اور آنسو بھی پونجھ لیے وہ اب اپنے فیصلے پر پچھتا رہی تھی حالانکہ جنتے مائی نے بھی اُسے بہت سمجھایا تھا مگر اُس وقت اُس پر جنون سوار تھا اور وہ اُن سے بھی لڑ پڑی تھی اُس نے توتایا جی کو بھی خود غرض کہہ دیا تھا وہ کتنے حیران تھے اور کیسے حیرت سے اُسے دیکھ رہے تھے اور تائی بیچاری منہ پلو میں چھپا کر رورہی تھی اور اب وہ گھنٹے بھر سے قصبے کے ویران سے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھی تھی تھوڑی دیر پہلے ایک گاڑی آئی تھی مگر کوئی پسنجر نہیںا ُترا اور گاڑی بھی دو منٹ رک کر چلی گئی تھی وہ گھر سے تو نکل آئی تھی مگر اب جانا کہاں ہے اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ جا بھی کہاں سکتی تھی زیادہ سے زیادہ لاھور جہاں کے ایک ہوسٹل میں وہ کچھ سال رہی تھی اور جہاں اُس نے بی اے کیا تھا مگر اُن چند سالوں میں وہ بس کالج سے ہوسٹل اور ہوسٹل سے کالج تک ہی محدود رہی تھی حالانکہ ثوبیہ، عظمی، اور شبانہ سارے لاھور سے واقف تھیں اور کیوں نہ ہوتی وہ ہر ویک اینڈ پر وہ تینوں بن ٹھن کر نکل جاتی اور پھر شام کو بلکہ کبھی کبھی رات کو آتی کئی لڑکوں سے بھی اُن کی دوستی تھی پہلے پہل تواُنہوں نے اُسے بھی بہت کہا مگر وہ تائی جی کی نصیحتوں کو پلو سے باندھے ہوئے تھی دو تین بار ہی کالج کی سب لڑکیوں کے ساتھ یادگار ، شاہی قلعہ ، مینارِپاکستان اورکچھ دوسری تاریخی جگہیں دیکھنے گئی تھی دوبارہ وہاں بھی نہیں گئی اور شاید اإسی کا نتیجہ تھا کہ وہ جب گاؤں لوٹی تو اُس کے ہاتھ میں بی اے فرسٹ کلاس کی ڈگری تھی اُسے یاد آیا تایا جی اُس دن کتنے خوش تھے اور پوری حویلی میں بھاگے بھاگے پھرتے تھے۔
    اوئے فضلو ! اوہ رحیم ! اوئے کوئی جاؤ حیاتے کو بلا لاؤ ۔ تایا جی سارے نوکروں کو آوازیں دے رہے تھے ۔ اوئے اُسے کہنا چوھدری جی نے بلوایا ہے دیگیں پکانی ہیں۔
    رفیق ! پترڈیرے سے ویڑیاں کھول لاؤ ! اوئے ذبح کرو اُنہیں سفید بوری اور دونوں چتکبریاں اوئے چاروں کوذبح کرو میری تئی نے بی اے کیا ہے سارے پنڈ کی دعوت کرو ۔ اُسے یاد آیا چتکبریوں کا وہ جوڑا تایا جی کو بہت عزیز تھا ملک چاچا کے کئی بار اصرار پر بھی تایا جی نے اُنہیں وہ جوڑا نہیں بیچا تھا اور تائی جی ! اُنہوں نے ساری نوکرانیوں کو چاول کوٹنے کھیر اور مٹھائیاں پیڑے بنانے پر لگا دیا اور جنتے مائی ! وہ اپنے بوڑھے سر پر خوان رکھے سارے گاؤں میں گھوم کر مٹھائی پیڑے بانٹتی رہی تھی ، فضلو چاچا سارے گاؤں کے بچوں میں پیسے بانٹتے پھر رہے تھے وہ سب اُسے کتنا پیار کرتے تھے اور پھر سجاول ! دور کھڑا کبھی ماں اور کبھی باپ کو دیکھ رہا تھا پھر جب سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے تو وہ چپکے سے آیا اور اُسے مبارک باد اور ایک خوبصورت پین دے گیا جو آج بھی اُس کے پاس تھا۔
    سجاول ! اُس نے ایک سسکی لی ۔ جس کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اُس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا جو اُس کی وجہ سے اپنی ایک ٹانگ سے معزور ہوگیا تھا اُسے یاد تھا آج سے دس سال پہلے وہ اُس کے لیے ہی کیریاں توڑتے ہوئے ٹانگ تڑوا بیٹھا تھا تب سے ہی لنگڑا کر چلتا تھا إاسی وجہ سے اُس کی تعلیم بھی رہ گئی تھی اور وہ چُپ چُپ رہنے لگا تھا تایا جی نے اپنے سارے ارمان اُسے پڑھا کر پورے کیے حالانکہ گاؤں کی کو ئی بھی لڑکی پانچویں سے زیادہ نہیں پڑھی تھی ملک صاحب اور گاؤں کے سب بڑے بزرگ تایا جی کو کئی بار منع کر چکے تھے مگر تایا جی نے اپنی روایات سے بغاوت کر کے اُسے پڑھایا تھا وہ پھر سجاول کے بارے میں سوچنے لگی کیا کمی تھی اُس میں اچھا خاصا خوبصورت تھا وہ جانتی گاؤں کی کئی لڑکیاں اُسے دیکھ کر ہوکےؔ بھرتی تھی خود بڑے ملک صاحب کی بیٹی چاندنی جس کی خوبصورتی کے چرچے پورے گاؤں میں تھے کئی بار اُسے إاشاروں اسے سمجھا چکی ہے کہ وہ سجاول کو پسند کرتی ہے مگر سجاول کبھی کسی کی طرف مُڑ کر ہی نہیں دیکھتا تھا وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر یہ کوئی عیب نہیں تھا اور تھوڑا سا لنگڑا کر چلتا تھا تو وہ بھی اُس کی وجہ سے وہ سوچنے لگی اُسے کس بات پر غصہ آیا تھا وہ کیوں یوں بپھری تھی وہ سجاول کو نا پسند نہیں کرتی تھی بلکہ کل شام ہی چاندنی کا نام لیکر وہ اُسے چھیڑ رہی تھی اور وہ مسکرا کر باہر چلا گیا تھا اُس کے دل میں بھی کوئی اور بھی نہیں تھا جس کے لیے اُس نے یہ سب کیا ہو پھر آج جب تایا جی نے اُس سے اُس کی اور سجاول کی شادی کی بات کی تو اُسے غصہ کیوں آیا اور وہ اُن سے اُلجھ گئی زندگی میں پہلی بار وہ اُن سے یوں مخاطب ہوئی تھی وہ حیرت سے بس اُسے دیکھتے رہ گئے تھے۔
    تایا جی! آپ نے میری اإس لیے پرورش کی تھی مجھے اإس لیے پڑھایا تھا کہ ایک دن مجھے اپنے ان پڑھ اور معزور بیٹے کے پلے باندھ دینگے ۔ وہ چلا رہی تھی ۔ وہ محبتیں شفقتیں صرف اإس لیے تھی صرف إاس لیے ! تایا جی ! صرف إاس لیے ! تایا جی آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔
    تئیے! یہ تیرے باپ کی مرضی تھی ۔ وہ حیرت سے بولے ۔ وہ بہشتی ہی سجاول کو اپنا داماد بنانا چاہتا تھا۔
    تایا جی خدا کے لیے ! وہ چیخ کر بولی ۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ! تایاجی آپ ! تایا جی آپ بہت خود غرض ہیں ! آپ بہت خود غرض ہیں ۔ اور تایا جی حیرت سے اُس کا منہ دیکھتے رہ گئے تائی بیچاری تو کچھ کہہ بھی نہ سکی اور دروازے کے پاس کھڑا سجاول جو شاید کسی کام سے اندر آیا تھا ہکا بکا رہ گیا پھر وہ تیزی سے باہر چلا گیا مگرجب شام کو سجاول سے اُس کا سامنا ہوا تو وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی ۔
    میں کوئی بھیڑ بکری نہیں کہ جس کھوٹے سے مرضی باندھ دو ! میں ایک إنسان ہوں جیتی جاگتی إنسان ! ہوشمند!پڑھی لکھی اور اپنے فیصلے میں خود کر سکتی ہوں میں اپنی زندگی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی کے خلاف نہیں ہونے دونگی ۔ وہ کچھ بھی نہ بولا بس تھوڑی دیر اُس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے باہر نکل گیا۔
    وہ سوچنے لگی کیا تعلیم اإنسان سے ادب اورتہذیب چھین لیتی ہے اُسے إحسان فراموش بنا دیتی اپنے پرائے کی سمجھ چھین لیتی ہے وہ خود کو تعلیم یافتہ اور ہوشمندکہتی اور سمجھتی ہے مگر آج جوکچھ اُس نے کیا وہ کیا تھاکیا وہ ہوشمندی تھی اور جس لہجے میں اُس کے اپنے بوڑھے تایا سے بات کی تھی کیا وہ تہذیب کے دائرے میں آتا تھا کیا کوئی تہذیب یافتہ انسان یہ سب کچھ کر سکتا ہے کیا تعلیم إانسان کو إاخلاقی پستی کا سبق دیتی ہے اُسے اپنے آپ پر افسوس ہونے لگا وہ یونہی سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔
    کدھر جانا ہے سوھنیوں ۔ آواز پر وہ چونکی سر اُٹھاکر دیکھا تو وہ تین اوباش سے نوجوان تھے ۔ ہم چھوڑ آتے ہیں ۔ اُس کی آنکھوں تلے اندھیرہ چھا گیا وہ کچھ نہ بول سکی۔
    لے بئی شادے ! مجھے تو یہ گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہے ۔ ایک نوجوان دوسرے کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔
    تو یار! ہم پھر کس لیے ہیں ! وہ مسکرایا ۔ اإسے اصلی گھر پہنچا دیتے ہیں ۔ اُس کا گلہ خشک ہونے لگا۔
    کیوں بئی ! تیسرا بولا ۔ چلنا ہے ہمارے ساتھ۔
    اوئے! إاس سے کیا پوچھتا ہے ۔ شادہ بولا ۔ اگر إایسی ہی نیک پروین تھی تو گھر میں رہتی۔
    اکرم ! توگاڑی اإدھر لے آ۔ شادہ اپنے ساتھی سے بولا ۔ مجیدے توإ اسکا بیگ پکڑ لے سیدھی طرح نہ مانی تو اُٹھا کر لے جائیں گے ۔ مجید نے جھک کر اُس کا بیگ اُٹھا لیا۔
    ارے !‌ عظمی ! تم یہاں بیٹھی ہو ۔ اچانک ایک خوبصورت نوجوان کہیں سے آگیا ۔ سوری ! مجھے باجی نے ابھی بتایا ہے اور میں تمہیں لینے دوڑا آیا مگر شاید پھر بھی لیٹ ہوگیا ۔ پھر اُس نے آگے بڑھ کر مجید سے بیگ لے لیا ۔ شکریہ ! بھائی صاحب ۔ وہ تینوں حیرت سے اُسے دیکھنے لگے ۔
    باؤ ! ٹیم سر آجایا کرو ۔ شادہ جلدی سے بولا ۔ اکیلی لڑکی کب سے بیٹھی ہے کوئی بھی اُونچ نیچ ہو سکتی تھی ۔ وہ بیگ اور اُس کا بازوں پکڑ کر ایک طرف چلنے لگا وہ بھی ہکا بکا اُس کے ساتھ چل پڑی وہ تینوں وہیں کھڑے رہ گئے ۔
    مم میرا نام عظمی نہیں ہے ۔کچھ دور آکر وہ بولی۔آ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
    جانتا ہوں ! اُس نے جواب دیا۔
    پھپھ پھر ! وہ حیرت سے بولی۔
    چلتی رہیے ۔ وہ ساتھ چلتے ہوئے بولا ۔ وہ تینوں ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں ۔
    میں سمجھی نہیں ! وہ ابھی تک حیران تھی۔
    آپکوکہاں جانا ہے ؟ اُس نے اُلٹا سوال کیا وہ کچھ نہ بولی بس سر جھکا دیا۔
    آپ نے جواب نہیں دیا ۔ اُس نے پھر پوچھا۔
    کہیں نہیں ۔ وہ دھیرے سے بولی ۔ میں اإسی گاؤں کی رہنے والی ہوں۔
    جی ! وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگا پھر جیسے سب سمجھ گیا ہوں ۔ اوہ ! اچھا ۔ دونوں خاموشی سے کچھ دیر ساتھ چلتے رہے پھر وہ بولا ۔ مجھے حق تو نہیں پہنچتا !مگر یہ ضرور کہونگا کہ آپ نے گھر سے نکل کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ اُس نے سر جھکا دیا۔
    کیا میں اس کی وجہ جان سکتا ہوں ۔ نوجوان نے پوچھا۔
    تایا جی! میری شادی سجاول سے کروانا چاہتے تھے ۔ اُس نے جواب دیا۔
    سجاول ! وہ چونک کر رک گیا آپ ! سجاول کی کزن ہیں ۔ اُس نے سر ہلادیا ۔ اس گاؤں کی پہلی گریجویٹ ۔
    جج جی ! اُس نے جواب دیا ۔ آپ سجاول کو جانتے ہیں۔
    سجاول! کو اگر میں نہیں جانو گا تو پھر اور کون جانے گا ۔ وہ ہنس دیا۔
    اچھا ! وہ حیرت سے بولی ۔ مگر سجاول کا تو کوئی دوست نہیں ہے۔
    میں نے کب کہا ہے کہ میں اُس کا دوست ہوں ۔ وہ پھر مسکرایا۔
    تو پھر ! وہ مزید حیران ہوگئی۔
    چاندنی میری منگیتر ہے ۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔
    آپ کو شاید حیرت ہوئی ہے۔وہ پھربولا۔
    ہاں ! اُس نے سر ہلا دیا۔
    ہنہ ! وہ پھر ہنس دیا ۔ آپ شاید نہیں جانتی میں یہاں صرف سجاول کوقتل کرنے ہی آیا تھا ۔ وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔
    گھبرائیے مت ۔ وہ مسکرا کر اُسے دیکھنے لگا ۔ اب میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ وہ کچھ نہ بولی۔
    آپ جانتی ہے ایسا کیوں ہوا ۔ وہ پھر رک کر اُسے دیکھنے لگا اُس نے انکار میں سر ہلادیا ۔ سجاول کو دیکھ کر، اسے مل کر اور اُس کے بارے میں جان کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ ہے ہی ایسا چاندنی تو کیا کوئی بھی لڑکی اُسے دیکھنے کے بعد شاید اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکے ۔ اُس نے سر جھکا دیا ۔ مجھے تو آپ پر حیرت ہوئی ہے۔
    آپ چاندنی سے ناراض نہیں ہے۔اُس نے پوچھا۔
    نہیں ! وہ مسکرایا ۔ میں جانتا ہوں وہ یک طرفہ اس آگ میں جلتی رہی ہے اور ایسے لوگ نفرت کے نہیں ہمدردی کے قابل ہوتے ہیں ۔ وہ سر جھکا کر کچھ سوچنے لگی۔
    کیا آپ بھی ؟ وہ سوالیاں نظروںسے اُسے دیکھنے لگا۔
    نن نہیں ۔ وہ جلدی سے بولی ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
    تو پھر آپ نے اتنا بڑا قدم کیسے اُٹھایا ۔ اُس نے پوچھا۔
    مجھے خود نہیں معلوم ۔ اُس نے جواب دیا نوجوان مسکرا دیا وہ پلیٹ فارم کی آخری حد تک پہنچ چکے تھے۔
    کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو خود نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُترنے میں مدد کی۔
    آپ کیا سوچ رہی ہیں ۔ اُسے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر نوجوان نے پوچھا۔
    کچھ نہیں ! وہ دھیرے سے بولی ۔ میں نے تایا جی کا بہت دل دکھایا ہے ۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
    آپ إاس لیے پریشان ہیں ۔ اُس نے سر ہلا دیا ۔ آپ اُن سے معافی بھی تو مانگ سکتی ہیں اور بڑوں سے معافی مانگنے سے إانسان چھوٹا نہیں ہو جاتا ۔ وہ کچھ نہ بولی۔
    مگر شاید اب میں کبھی اپنے گھر والوں کا سامنا نہ کر سکوں ۔ وہ جلدی سے بولی۔
    یہ آپ ایک اور بھول کرینگی ۔ اُس نے جواب دیا۔
    جی ! وہ حیرت سے بولی۔
    آپ جانتی ہیں ۔ وہ اُس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا ۔ یوں گھرسے نکل کر آپ نے اپنی اور اپنے تایا کی عزت کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ وہ کچھ نہ بولی ۔ اور آپ خود دیکھ چکی ہیں ایک اکیلی لڑکی چاہے وہ کتنی بھی بہادر ہو ہمارے معاشرے میں اُسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا وہ اور اُس کی عزت ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں کچھ بھیڑیے ہمیشہ بو سونگھتے پھرتے ہیں جیسے وہ تین تھے آپ کو اکیلے دیکھ کر وہ کیسے رالیں ٹپکاتے ہوئے آگئے تھے ۔ وہ مسکرایا ۔ اور پھر آپ نے یہ بھی دیکھا کہ میرے آتے ہی وہ کیسے بھیگی بلی بن گئے حالانکہ وہ تین تھے اور تھے بھی مشٹنڈے میں بھلا اُنکے سامنے کیا تھا مگر وہ کچھ بھی نہیں بولے صرف اإس لیے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ آپ اکیلی نہیں ہیں کوئی مرد آپ کا رکھوالا ہے ۔ وہ رک کر اُسے دیکھنے لگا۔آپ میری بات سمجھ رہی ہیں۔اُس نے سر ہلادیا۔ آپ نے سوچا ہے صبح جب آپ کے تایا جی اور آپ کا کزن سجاول جاگے گا اور آپ گھر میں نہیں ہونگی تو کیا ہوگا کیا پھر وہ دونوں سر اُٹھا کر جی پائیں گے ۔ وہ خاموش تھی۔ کیا سرا ُٹھا کر چلنے والا اور اُونچے شملے والا آپ کا تایا کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہے گا ؟ وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی ۔ اور تائی وہ بیچاری تو ویسے ہی مر جائے گی ۔
    نن نہیں ۔ وہ اور کچھ نہ کہہ سکی یہ سب تواُس نے سوچا ہی نہ تھا۔
    اور کیا پھر روایات سے بغاوت کرکے إس گاؤں میں کوئی بچی پڑھ پائے گی۔
    خدا کے لیے چُپ ہو جائیے ۔ وہ جلدی سے بولی۔
    چلئے ! میں آپ کو گھر چھوڑ دوں ۔ وہ کچھ نہ بولی ۔ شاید ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ۔ وہ دونوں گاؤں داخل ہوگئے اُن کی حویلی کے پاس آکر وہ رک گیا ۔ اچھا ! تو پھر إاجازت دیجئے۔
    جی ! اُس نے سر جھکا دیا وہ وآپس مُڑ کر چل پڑا ۔
    سنئے ! اُس نے اُسے پکارا ۔ میں اپنے محسن کا نام جان سکتی ہوں ۔ وہ رک گیا اور مُڑ کر مسکرایا ۔
    بھائی ! آپ مجھے بھائی کہہ سکتی ہیں ۔ اور گنگناتا ہوا وآپس چلا گیا وہ تھوڑی دیر کھڑی اُسے دیکھتی رہی اور پھر اُسی راستے سے گھر میں داخل ہوگئی جس سے نکلی تھی اگلی صبح سب حیران تھے وہ اپنے تایا جی اور تائی جی کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھی اور معافیاں مانگ رہی تھی اور پھر تایا جی اُسے سینے سے لگائے ساری حویلی میں شور مچاتے پھر رہے تھے۔
    اوئے فضلو ! اوئے رفیق ! اوئے ڈیرے سے ویڑیاں کھول لاؤ ! اوئے میری تئی نے میری عزت رکھ لی ۔ اور دروازے میں کھڑا سجاول حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا جانے کیوں وہ اُسے بہت اچھا لگا وہ آپے آپ ہی شرما گئی۔

    (آصفؔ احمد بھٹی)​
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    آپ سب کی خدمت میں اپنا ایک اور افسانہ پیش کر رہا ہوں‌ ۔


    نوشی
    (آصف احمد بھٹی)

    اُس نے ٹیک لگا کریوں آنکھیں موندھ لیں جیسے طویل سفر سے لوٹا ہو اُسکے ساتھ والی سیٹ پرایک آٹھ دس سال کا لڑکا بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا ۔
    انکل !آپ اکیلے ہیں۔بچے نے پوچھاوہ شاید باہر ایک ہی منظر دیکھتے دیکھتے بور ہوگیا تھا۔
    ہنہ۔وہ چونکاپھر مسکرا کر بولا۔ہاں بیٹا !بلکل اکیلا۔
    آپکے ممی پاپا کہاں ہیں۔اُس نے پھر پوچھا۔
    نہیں ہیں۔وہ سوچتے ہوئے بولا۔
    اور بھائی بہن؟ بچے نے سوال کیا۔
    میرا کوئی نہیں ہے بیٹا۔ وہ مسکرا کر بولا۔
    علی! اگلی سیٹ سے کسی خاتون نے پکارا۔
    جی مما!بچہ چونکا۔
    انکل !کو تنگ مت کرو۔بچہ پھر باہر دیکھنے لگا اُس نے بھی آنکھیں موندھ لی دفتاایک مانوس سی خوشبو اُس کے ناک سے ٹکرائی اُس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک نوبیاہتاجوڑا اُس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ رہا تھا وہ چونک گیا اُسے لگا جیسے وہ جہاز کی آرام دہ سیٹ پر نہیں تپتے ہوئے صحرا میں پڑا ہو لڑکی بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔
    نوشی!نوجوان نے لڑکی کو پکارا تو وہ چونکی۔ بیٹھونا۔
    نوشی! نوشی! بیٹھونا! نوشی! بیٹھونا! اُس کے دماغ میں ہتھوڑے برسنے لگے وہ اُٹھ کھڑا ہوا ۔
    ایکس کیوزمی! وہ پاس سے گزرتی ائیر ہوسٹس سے بولا۔ مجھے کوئی اور سیٹ مل سکتی ہے۔
    آپ بیٹھئے! میں دیکھتی ہوں!۔ ائیر ہوسٹس نے جواب دیا وہ مایوس ہوکر بیٹھ گیا اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا طویل رن وے پرعملے کی کچھ چھوٹی بڑی گاڑیاں اإدھر اُدھربھاگ رہی تھیں بچہ بھی باہر ہی دیکھ رہا تھا جہاں ابھی تک جہاز کا عملا جہاز پر کارگو لاد رہا تھا اگتا کر اُس نے گود میں رکھا اخبار کھول لیا مگر ہر لفظ نوشی بن گیا اور ہر تصویر میں وہ دونوں نظر آنے لگا۔
    نوشی! تم بہت خوبصورت ہو ۔نوجوان خوابیدہ لہجے میں بولا۔ بہت خوبصورت۔
    اُس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور اُسے لگا جیسے کسی نے اُس پر منوں گند ڈال دیا ہوگندگی میں لتھڑنے کا إحساس إتنا شدید تھا کہ اُس کا جی متلانے لگا اور منہ کا ذائقہ بدل گیا اُس نے بے چین ہوکر نظریں اُٹھائیں لڑکی اُسے ہی دیکھ رہی تھی وہ پھر باہر دیکھنے لگا۔
    نوشی! تم نہیں جانتی ۔ نوجوان پھربولا۔ تمہیں دیکھنے کے بعد میں کتنا بے چین رہا ہوں ، نوشی ! تم نہیں جانتی منگنی کے بعدکے یہ دو مہینے میں نے کیسے گزارے ہیں۔ اُسے اُبکائی آنے لگی۔
    میں جانتی ہوں! میں جانتی ہوں! مجھے معلوم ہے! میں جانتی ہوں! مجھے معلوم ہے ! اُس کے سامنے نوشابہ آکھڑی ہوئی۔ مجھے معلوم ہے! میں جانتی ہوں! مجھے معلوم ہے! چاروں طرف سے ہزاروں پتھر اُس پر برسنے لگے اور اُس کا سارا بدن لہولہان ہوگیا اُس نے ایک بار پھر باہر کے منظر میں پناہ لی مگر باہر سب کچھ ویسا ہی تھا۔
    حمید ! گدھے کو بھی اسی سڑے ہوئے جہاز کی ٹکٹ ملی تھی ۔ اُس نے اپنے سیکرٹری کو گالی دی کچھ دور کھڑا اکلوتا جہاز ہنس دیا جیسے اُس نے اُس کی سوچ پڑھ لی ہو اور اب ساری چھوٹی بڑی بھاگتی گاڑیاں یہ بات دور کھڑے باقی جہازوں کو بتانے جا رہی ہوں اُس نے کھڑکی سے جھانک کر اُوپر دیکھا سفید سفید روئی جیسے چند بادل آسمان کی وسعتوں میں تیر رہے تھے وہ سوچنے لگا کاش وہ کوئی بادل ہوتا اور اپنی موج میں خوب آوارہ گردی کرتا اور پھر تھک کر کسی وادی پر برس جاتا یوں برس جانے کے خیال سے اُسے لذت محسوس ہوئی صحرا میں جلنے سے اورگند گی میں لتھڑنے سے توبکھر جانا برس جانا اور سیراب کرنا تو زیادہ بہتر تھا اُس نے تڑپ کر لڑکی کی طرف دیکھا مگر اب وہ اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں مصروف تھی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا دوسال پیچھے چلا گیا دو سال پہلے جب وہ کچھ نہیں تھا لا اُبالی اور بے پرواہ سا نوجوان تھا تب ایک خوبصورت سی صبح یونیورسٹی کے لان میں نوشابہ نے پہلی بار اُس سے اإظہار ِمحبت کیا تھا اور وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ۔ نوشابہ سرجھکا کر کہہ رہی تھی ۔ بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے میں جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شدید محبت ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ۔ اور وہ حیرت سے اُس گڑیا جیسی لڑکی کو دیکھ رہا تھا وہ کہہ رہی تھی ۔ میں کبھی إاظہار نہ کر سکی ڈرتی تھی کہیں تمہیں کھو نہ دوں ۔ اور پھر خوفزدہ رہنے والی وہ گول مٹول گڑیا جیسی لڑکی اُسے خوفزدہ کر گئی تھی محبتیں نچھاور کرنے والی واری جانے والی خوشیوں میں ساتھ دینے والی دُکھوں کو بانٹنے والی اور اُسے پوجنے والی ! کہیں دور جا چھپی تھی اور اب وہ دیوانہ ! صحرا صحرا اُسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا ۔
    اور پھرجب اُسے اپنا بزنس شروع کیا اور اُس کے لیے اُسے إسلام آباد جانا پڑا تو نوشابہ گھنٹوں روتی رہی اور اُسے روکتی رہی تھی اُس نے سوچا کاش وہ رُک جاتا مگر وہ اُسے سمجھا کر إسلام آباد آگیا اور پھر اُس جمعرات کی وہ چمکیلی شام وہ کیسے بھول سکتا تھا جب وہ کراچی سے آئے کلائنٹ سے میٹنگ کر کے اُٹھا ہی تھا کہ نوشابہ کا فون آیا ۔
    تم فورا لاہور آسکتے ہو ۔ نوشابہ نے پوچھا۔
    کیوں ؟ وہ چونکا ۔ خیریت تو ہے نا۔
    یہاں آؤگے تو بتاؤنگی ۔ وہ دھیرے سے بولی وہ گھبرا گیا فورا پہلی فلائٹ سے لاہور بھاگا فجرکے قریب وہ لاہور پہنچا پھر صبح دس بجے تک سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا دس بجے وہ اُسے اُس کی بتائی ہوئی جگہ ملا ۔
    مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! مجھے یقین تھا ! میں جانتی تھی ! وہ کھلی جا رہی تھی۔
    تم نے مجھے ایسے کیوں بلوایا ہے ۔ وہ بولا ۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔
    ہاں سب ٹھیک ہے ۔ وہ مسکرائی ۔ سب گھر والے ایک شادی میں گئے ہوئے تھے اور میں شام تک گھر میں اکیلے بور ہوجاتی إس لیے تمہیں بلوا لیا ہے ۔ پھر وہ شرمائی ۔ اور کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ۔ وہ نہال ہوگیا ساری تھکن ساری کوفت اُتر گئی سڑکوں پر پانچ گھنٹوں کی آوارگی اور بے چینی ایک دلچسپ کھیل بن گئی اور اإسلام آباد سے لاہور تک کا سارا فاصلہ سمٹ کر پنگوڑے کا إایک ہلارہ بن گیا ۔
    مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! مجھے یقین تھا ! میں جانتی تھی ! وہ مسکرا رہی تھی خوشی سے ناچ رہی تھی اُسے سامنے بٹھا کرآنکھوں کے کیمرے سے اُس کی تصویریں اُتار رہی تھی اوراُس کے قدموں میں بچھی جا رہی تھی مگر ! جانے کیوں اُسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ آج اُس سے کچھ چھپا رہی ہے اور اُس نے پوچھا بھی مگر وہ ہنس کر ٹال گئی اور پھر اُس کے بعد کی ہر ملاقات پر وہ یہ بات شدت سے محسوس کرنے لگا وہ اُس سے پوچھتا مگر وہ ہر بار ہنس کر ٹال دیتی اور اُس پر واری جاتی اُس کے قدموں میں بچھی جاتی اُس کے گرد گھومتی رہتی آنکھوں کے کیمرے سے اُس کی تصویریں اُتارے جاتی گھنٹوں سامنے بٹھائے اُس کی آنکھوں میں تکتی رہتی پہروں اُس سے باتیں کرتی رہتی( اور جانے کیوں وہ اب اُس کی ہتھیلیاں چومتی رہتی وہ منع کرتا تو ہنس دیتی ) اور ہنستی تو ہنسے جاتی مگر اس کی پلکیں چمکتی رہتی لہجہ بھیگا بھیگا رہتا اُسے یاد نہیں تھا کہ یہ کتنے لمحے ،دن، مہینے، سال یا صدیوں پہلے کی بات ہے وہ ہاتھ اُلٹ کر دیکھنے لگا اب بھی وہاں نوشابہ کے لبوں کے کچھ نشان تھے ۔
    نوشی ! سچ کہنا میں تمہیں کیسا لگا ہوں ۔ نوجوان اپنی بیوی کا ہاتھ تھامے ہوئے بولا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! میں جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شدید محبت ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ! تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! وہ کچھ نہ بولی اور مُڑ کر اُسے دیکھنے لگی وہ سمجھ گیا کہ اُس کی موجودگی اُسے بھی پریشان کر رہی ہے مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔
    تم نے جواب نہیں دیا ۔ نوجوان نے پھر پوچھا۔
    ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا جواب لفظوں میں دیا جائے ۔ وہ نظریں جھکا کر بولی ۔ کچھ باتیں آنکھوں سے بھی کہی جاتی ہیں ۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! بہت خوبصورت ! کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ! میں جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شدید محبت ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ! اُسے یاد آیا وہ ہمیشہ إسے اس زبان سے نابلد رہا ہے ہزار کوشش کے باوجود وہ نوشابہ کی آنکھوں میں لکھی وہ چمکتی بھیگی تحریر کبھی نہ پڑھ سکا تھا۔
    نوجوان ہنس دیا ۔ مگر مجھے یہ زبان نہیں آتی تم مجھے بھی سکھا دو ۔ وہ شرما گئی ۔
    مجھے بھی سکھا دو ۔ وہ کاسئہ لیے نوشابہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! بہت خوبصورت ! کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ! بہت خوبصورت ! وہ اُس کا سر کچلنے لگی اور ! اور پھر سے اُس کی ہتھیلیاں چومنے لگی۔
    ہم ہنی مون کے لیے ٹرین سے بھی تو جا سکتے تھے ۔لڑکی اپنے شوہر سے بولی وہ جھٹ سے ٹرین میں آبیٹھا بھاگتی دوڑتی پٹڑیوں کو کچلتی مٹی دھول اُڑاتی ٹرین طرح طرح کے بے فکرے لوگ آوازیں لگاتے شور مچاتے چائے پیسٹری اور ٹھنڈی بوتلوں والے اور ڈائیننگ کار کے بیرے بھلے شاہ میاں محمد اور دوسرے صوفیوں کے کلام سنانے والے میلوں پھیلے ہوئے کھیت اُن میں کام کرتے مرد اور عورتیں پگڈنڈیوں کے کنارے بیٹھے ہاتھ ہلاتے بچے درخت اور اُن کے سائے تلے چارپائیاں ڈالے بیٹھے بوڑھے کسان اوربندھے چرتے آوارہ گھومتے جانور اورکھیتوں میں قطاردر قطار گڑھے ٹیلیفون اوربجلی کے کھمبے چھوٹے بڑے پہاڑ ندی نالے چشمے اور پھر راوی کا پل ایک ہی لمحے میں سب اُس کی نظروں کے سامنے آگئے نوشابہ اُس کے سامنے آبیٹھی اور مسکراتے ہوئے بولی۔
    یہ ٹرین کا سفر بھی کتنا عجیب ہوتا ہے إانسان خواہ مخواہ تھک جاتا ہے وہ پھر جہاز میں آ بیٹھا ۔ مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! مجھے یقین تھا ! میں جانتی تھی ! تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! میں جانتی تھی ! مجھے یقین تھا ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! شدید محبت ! کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ! میں جانتی تھی ! بہت خوبصورت ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! اُس نے مُڑ کر اُسے دیکھا وہ اپنے شوہر کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی اُس کے سفید سفید دانت ایک دم نوکیلے اور خون آشام ہوگئے اُس نے جھرجھری سی لی۔
    تم مسکراتی ہو تو بہت اچھی لگتی ہو ۔ اُس کا شوہر اُس کی تھوڑی پکڑ کر بولا ۔ دل چاہتا ہے کہ ۔ وہ اُس پر جھکتے ہوئے بولا۔
    آپ بھی حد کرتے ہیں ۔ وہ اُسے دھکیلتے ہوئے بولی ۔ کوئی جگہ تو دیکھ لیا کریں ۔ وہ کھلکھلا کر ہنس دیا اُسے لگا جہاز میں سوار ہرشخص ہنس رہا ہے جہاز کا پائیلٹ ، ائیر ہوسٹس ، مسافر ، اُس کے ساتھ بیٹھا ہوا بچہ اور اُس کی ماں اور وہ دونوں سب اُس پر ہنس رہے ہیں اُس کا جی پھر متلانے لگا اور وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
    نوشی ! تم بہت خوبصورت ہو ۔ وہ پھر اُس کی تعریف کرنے لگا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! نوشابہ اُس پرجھکی کہہ رہی تھی۔ ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ! تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ۔ اُسے اُس کے خون آشام نوکیلے دانت اپنی گردن میں اُترتے محسوس ہوئے۔
    تم جھوٹ بولتی ہو ۔ وہ چلایا نوشابہ جہاز سے باہر جا گری بچہ سہم کر اُسے دیکھنے لگا اُس کی ماں بھی مُڑ کر دیکھنے لگی وہ دونوں بھی اُسے دیکھ رہے تھے ۔
    کوئی دیوانہ لگتا ہے۔نوجوان نے اُسے دیکھتے ہوئے کہااور پھر مڑ کر اپنی بیوی کو دیکھنے لگا اور مسکرا کر بولا۔ نوشابہ ! تمہیں پا کر میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت إنسان سمجھتا ہوں ۔ وہ کچھ نہ بولی مگر اُس کی آنکھ میں چمکتا ہوا تارہ اُس نے دیکھ لیا جیسے وہ پشیمان ہو تبھی جہاز نے ایک جھٹکا لیا اوراُس کے پہیے حرکت کرنے لگے اُس نے اطمعنان سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندھ لی ۔

    (آصف احمد بھٹی)​
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    سبز پری
    (آصفؔ احمد بھٹی)

    بہار کی خوبصورت دن تھے اور مری کی وادی میں بہار کا موسم تو ہمیشہ سے اپنی بھر پور جوانی پہ ہوتا ہے ، ہر طرف سبز قالین بچھ جاتی ہے ، خوبصورت اور مہکتے ہوئے جنگلی پھول کھل اُٹھتے ہیں جن کی مہک پوری فضا کر معطر کردیتی ہیں ایسے ہی خوبصورت دنوں میں وہ لوگ ہمیشہ کچھ دن اپنی مری والی کوٹھی میں ہی گزارتے تھے اور اِس بار بھی وہ لوگ اسلام آباد سے چل پڑے تھے ، ہمیشہ کی طرح آج بھی زاہد خود ڈرائیونگ کر رہا تھا اوراُس کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر ثوبیہ بیٹھی ہوئی تھی اسد اور نوال پچھلی سیٹ پر تھے اور نوال اپنی عادت کے مطابق سیٹ سے ٹیک لگائے اسد کے کندھے پر سر رکھ کر سو چکی تھی ، مری کے مضافات میں داخل ہوتے ہی اسد نے نوال کو جگانے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ نیند کی بہت گہری تھی مگر جب اُن کی گاڑی اپنی کوٹھی کے مین گیٹ پر رکی اور چوکیدار نے گاڑی کے لیے گیٹ کھول دیا تب اسد نے نوال کو تقریبا جھنجھوڑ ہی دیا ۔
    کیا ہے بھائی۔وہ جھنجھلا کر بولی، وہ اسد سے پانچ سال چھوٹی تھی۔
    اُٹھو بئی!ہم لوگ پہنچ گئے ہیں۔ثوبیہ نے کہا نوال اُٹھ بیٹھی اور آنکھیں مل کر دیکھنے لگی اسداورزاہد اُتر کر سامان اُتارنے لگے۔
    مجھے پہلے کیوں نہیں جگایا۔نوال نے منہ بنالیا۔
    کب سے تو جگارہاتھا۔اسد نے بیگ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
    اچھا!وہ شرمندہ سی ہوگئی یہ بات وہ بھی جانتی تھی کہ وہ نیند کی بہت پکی ہے چوکیدار بھی گیٹ بند کرکے آگیا۔
    السلام وعلیکم جی۔اُس نے سب کوسلام کیا زاہد اور اسد نے اُسے ہاتھ ملایاوہ مری کا ہی رہنے والا پکی عمر کا آدمی تھا۔
    کیسے ہوصیدعلی ۔زاہد نے پوچھا۔
    مالک کا بڑا کرم ہے جی۔وہ اسد سے بیگ لیتے ہوئے بولا۔میکی دیو جی(مجھے دیں جی)ہمیشہ کی طرح نوال اُسکی گلابی اردو پر ہنس دی وہ بھی ہنس دیا۔
    نکی بی بی جی !تساں(آپ) میرامذاق کرتی ہیں۔اور ہنستا ہوا دو بیگ پکڑکر گھر میں داخل ہوگیا باقی دو بیگ اسد نے اُٹھالیے وہ سب بھی اُس کے پیچھے گھر میں داخل ہوگئے اس نے بیگ لیونگ ہال میں رکھ دئیے اور ثوبیہ کی طرف دیکھنے لگا۔
    باقی ہم لوگ کرلینگے۔ثوبیہ اُسکے انداز سے ہی سمجھ گئی۔
    ہلاجی(اچھا جی)۔اُس نے سر ہلادیا۔
    صید علی! کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔زاہد نے پوچھا
    نا جی!وہ مسکرایا۔مالک کابڑا کرم ہے جی سوہنڑے دن گزررہے ہیں۔نوال پھر ہنس دی۔میں ہونڑ جُلاںجی(میں اب جاؤں جی)۔اُس نے پوچھا۔
    یہ کچھ پیسے رکھ لو۔زاہد نے جیب سے کچھ کرنسی نوٹ نکال کرکہا۔کچھ کھانے پینے کا سامان لے آنا۔
    سامان تو سب موجود ہے جی۔اُس نے جواب دیا۔فر وی بی بی جی دیکھی کِنُن کِجھ کاہٹ ہوتے لے آؤں (پھر بھی بی بی جی دیکھ لیں کچھ کم ہو تو میں لے آؤں)۔
    اچھا ٹھیک ہے تم جاؤآرام کرو۔زاہد نے کہا۔
    اچھا جی! وہ سلام کرکے باہر نکل گیا ثوبیہ سامان نکالنے لگی نوال بھی اُس کاہاتھ بٹانے لگی زاہد اپنے کمرے میںچلا گیااور وہ خود اُوپر ٹیرس پر آکر کھڑاہوگیاموسم بہت دلکش اور بھیگا ہوا تھااُسکی پلکوں کے کنارے بھی کچھ بھیگ گئے ایک عجب سی اُداسی اُس کی آنکھوں سے جھلکنے لگی تھی وہ وادی میں دور دورپھیلے چمکتی چھتوں والے گھروں کو دیکھنے لگا اور یہ سب اُس کے ساتھ پچھلے تین سالوںسے ہورہا تھا جانے کتنی دیر گزر گئی اُسے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
    بھائی!نوال نے اُسے پکارا۔
    ہنہ!وہ چونکا۔
    گھومنے چلیں۔نوال نے مسکرا کر پوچھا اسد کچھ کہے بغیر اُس کے ساتھ چل پڑا نیچے پہنچا توزاہد اور ثوبیہ بھی تیار تھے وہ چاروں پیدل ہی گھر سے نکل آئے کچھ دیر پہلے ہلکی سی بارش ہوئی تھی ہر شے نکھری ہوئی تھی ہر طرف سوندھی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ، وہ چاروں کافی دیر گھومتے رہے مگر ایک موڑ مڑتے ہوئے اسد کی دل کی دھرکنیں تیز ہوگئی ، تین سال پہلے یہیں پر اُس کا دل پہلی بار کچھ دیر کے لیے دھڑکنا بھولا تھا، یہیں پہلی باروہ دُکھی ہوا تھا اور یہیں پر اُداسی سے اُس کا تعارف ہوا تھا، اسد سڑک کے کنارے ٹوٹے ہوئے شیڈکے نیچے اُسی بینچ کے پاس جا کھڑا ہوا جہاں تین سال پہلے ایسی ہی اُس بھیگی سی شام اسد نے اُس چھوئی موئی سی لڑکی کو بارش میں بھیگتے ہوئے بیٹھے دیکھا تھاجو اُسے دیکھ کر مزید سمٹ گئی تھی اور اُس وقت یہاں صرف بینچ ہی پڑا ہوا تھا اب بھی اُس پر کوئی شیڈ نہیں تھا ،اسد کی نظریں نیچے وادی میں پھیلے چمکتی چاد رکی چھتوں والے گھروںپر جم گئی اُس نے سوچاجانے وہ کس گھر میں رہتی ہوگی کتنی ہی دیر ہوگئی وہ یونہی کھڑا رہا۔
    اسد!زاہد نے پکارا تو وہ چونکاوہ تینوں کچھ دور کھڑے اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔کیا ہوارک کیوں گئے۔
    کچھ نہیں بھیا۔وہ مسکرایا۔بس یونہی۔
    بس یونہی!زاہدکھلکھلاکر ہنس دیااورثوبیہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔اکثر یونہی بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں،میں اب اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں۔ اسد بھی ہنس دیا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اُن کے پاس آگیا۔
    بھائی!آپ جب بھی یہاں آتے ہیں اس شیڈ کے پاس کیوں رک جاتے ہیں۔نوال نے پوچھااسد نے کوئی جواب نہیں دیا بس مسکرا دیا۔
    بیٹا جی ! اس عمر میں یہ سب ہوتا ہے۔زاہد مسکرا کر بولا۔
    بھیا!آپ بھائی کی شادی کیوں نہیںکرواتے۔نوال نے پوچھا۔
    بیٹا جی شادی کے لیے ایک لڑکی کا ہونا بھی ضروری ہے۔زاہد ہنس کر بولا۔اوروہ آپ کے بھائی اب تک ڈھونڈہ نہیں سکے۔
    بھیا!ابھی تو اک عمر پڑی ہے۔اسد نے جان چھڑائی۔
    کتنی لکھوا کر آئے ہو۔زاہد نے پوچھا۔
    جی!وہ چونکا مگر پھر بات سمجھ کر مسکرادیا۔یہ تو معلوم نہیں۔
    تو میاں معلوم کرو۔زاہد ہنس دیا۔عمر کے یہ دن بہت قیمتی ہوتے ہیں۔وہ پھر ہنس دیا۔
    پھوپھی جی کچھ لڑکیوںکی تصویریں لائی تھیں۔ثوبیہ زاہد کی طرف مڑ کر بولی۔مگر اس نے دیکھی ہی نہیںاور اُنہیں لوٹا دیں۔
    ہاں بھیا!نوال جلدی سے بولی۔اُن میںایک لڑکی تو بہت ہی خوبصورت تھی مجھے بہت پسند آئی تھی۔
    کیوں میاں!زاہد نے اسد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اب تمہارا سوئمبر رچانا پڑے گا۔اسد اورثوبیہ ہنس دیئے۔
    سوئمبر!نوال چونکی۔بھیا!وہ کیا ہوتا ہے۔
    بیٹا! پرانے وقتوں میں ہندوستان کے راجہ اپنی راجکماریوں کی شادی سوئمبر رچا کر ہی کرتے تھے۔زاہد نے سمجھایا۔
    مگر یہ ہوتا کیا ہے۔نوال نے پھرپوچھا۔
    راجہ سب خوبصورت وبہادر راجکماروںاور راجوں کواپنے دربار میںبلاتاوہ سب قطارمیںکھڑے ہوجاتے پھرراجکماری پھولوں کی مالا لیکر اُن کے سامنے سے گزرتی جو راجکمار یا راجہ اُسے پسند آجاتا راجکماری اُس کے گلے میں وہ مالاڈال دیتی تھی اورپھر اُن کی شادی ہو جاتی تھی۔
    واؤ!نوال مسکرائی۔زبردست ،بھائی مزہ آجائیگا۔
    مزے کی بچی!اسد نے اُسکی چُٹیا پکڑلی۔سوئمبر لڑکیوں کا ہوتا ہے ۔
    کوئی بات نہیں!نول اپنے بال اُسے چھڑاتے ہوئے بولی۔ہم اپنے راجکمار کا کرلینگے راجکمارکو جو راجکماری پسند آئی وہ اُسکے گلے میں ہار ڈال دیگا۔اور چاروں ہنس دئیے ۔
    تین سال پہلے جب وہ سیکنڈائیرمیں تھاتب وہ اورعلی کچھ دنوں کے لیے مری آئے علی اُن کی پھوپھی جی کا بیٹا تھا اوراُس کی منگنی نوال کے ساتھ ہو چکی تھی ، اُن دنوں اُن کا چوکیدار صید علی اپنی بھتیجی کی شادی میںشرکت کے لیے قریب ہی واقع اپنے گاؤں گیا ہوا تھا ستمبر کے آخری دن تھے اُسے آج بھی یاد تھا کہ ستمبر کی اُس ہلکی سی سرد شام جب آسمان پر بادل گہرے ہوئے تھے اوربارش کا بھی امکان تھا علی دوپہر کا کھاناکھاکر کسی کام سے چلا گیااسدگھر میں اکیلا رہ گیا اور تنہائی سے اُکتا کر وہ بھی گھر سے نکل آیا ، ہلکی ہلکی ٹھنڈ بھی تھی اور بارش کا امکان بھی تھا اِس لیے اُس نے لیدر کا اوور کوٹ پہن لیا ، یہ اوور کوٹ زاہد اُس کے لیے اسپین سے لایا تھا اور اُسے بہت عزیز تھا کئی بار علی کے مانگنے پر بھی اُس نے وہ علی کو نہیں دیا تھا ، یونہی بے مقصد چہل قدمی کرتا ہوا وہ پنڈی پوائنٹ کی طرف چلا آیا وہاںکچھ اور لوگ بھی موسم کا لطف لے رہے تھے کچھ لوگ لفٹ چیئر کا مزہ بھی لے رہے تھے اسدبھی وہیں ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کردلکش نظاروں میں کھو گیاکچھ دیر بعدہلکی ہلکی بوندیں گرنے لگی اُس کا بدن سیراب ہونے لگا اُس پر سرشاری سی طاری ہونے لگی وہ کوٹ اُتار کر بھیگنے لگا ، کچھ دیر میں بارش قدرے تیز ہو گئی اور وہاں موجود لوگ اِک ایک کر کے وہاں سے جانے لگے آخر وہ وہاں اکیلا ہی رہ گیاکافی دیر بھیگتے رہنے کے بعد جب اُسے سردی لگنے لگی تواُس نے اُٹھ کراپناکوٹ پھر پہن لیا اورگنگناتے ہوئے وآپس گھر کی طرف چل پڑا، سڑک سے ہٹ کر ایک ٹیلے پر بنازرد رنگ کا وہ ویران کاٹج دور سے ہی نظر آرہا تھا جانے کیوںوہ ہمیشہ اُس کی توجہ کا مرکز رہا تھا وہ کاٹج ہمیشہ سے ویران تھا اور علی اُسے بھوت بنگلہ کہتا تھا کاٹج کی زرد رنگی عمارت کے پاس گزرتے ہوئے اُس کے قدم رک گئے اور گنگناہٹ کی آواز حلق میں ہی کہیں دب کر رہ گئی، کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے رکھے بینچ پر ایک لڑکی سکڑی سمٹی بیٹھی سہمی سہمی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی ، لڑکی نے ایک بڑی سی چادراوڑھ رکھی تھی جس میں صرف چہرہ نظرآرہا تھاچادر بھی بھیگ کر اُسکے بدن سے چپک گئی تھی وہ سردی سے بری طرح کانپ رہی تھی وہ چند لمحے بے خودسا اُسے دیکھتا رہالڑکی کچھ اور سمٹ گئی اسدکے قدم خودبخود لڑکی کی طرف اُٹھ گئے وہ مزید سکڑ گئی اسد اُس کے پاس آکر رک گیااتنی خوبصورت لڑکی اُس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی تھی رنگت اتنی گوری تھی کہ چہرہ چمکتا ہوا دکھائی دیتا تھا ہونٹ اتنے گلابی تھے کہ جیسے ابھی لہو پھوٹ پڑیگا وہ چھچھورا نہیں تھا مگر اُس کی نظریں لڑکی کے چہرے سے چپک کررہ گئی اُسے کسی چیز کا ہوش نہ رہاکتنی ہی دیر گزر گئی ۔ ۔ ۔ لڑکی خوف یاشایدسردی سے بری طرح کانپ رہی تھی اسد نے اپنااور کوٹ اُتارا اورلڑکی کی طرف بڑھادیامگر لڑکی اپنی جگہ ہلی تک نہیں، بس اُس کے ہاتھ میں پکڑے کوٹ کو دیکھتی رہی کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اسد نے کوٹ اُس کے پاس بینچ پر رکھ دیا ، لڑکی اب بھی چھوئی موئی بنی رہی ، اسد اپنے اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ محسوس ہوئی اُس کے لیے مزید وہاں رُکنا مشکل ہو رہا تھا ، وہ چند لمحے اُسے دیکھتا رہا پھرہمت کر کے آگے بڑھ گیاحالانکہ پاؤں من من بھاری ہو رہے تھے ، ہر ہر قدم جیسے زمین سے چپک چپک جا رہا تھا اور دل پلٹ کر اُسے دیکھنے کی التجائیں کر رہا تھا ،کچھ دور جاکر اُس نے مڑ کر دیکھ بھی لیا، لڑکی نے کوٹ اُٹھالیا تھا اور اب اپنا بھیگا بدن اُس میں چھپارہی تھی کوٹ اُسے کافی کھلا تھا اسدکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ، لڑکی نے بھی ایک پل کے لیے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اُس نے اپنی نظر جھکا لی اسد پھرمسکرادیااور گھر کی طرف چل پڑا، اب وہ قدرے مطمئن تھا ، گھر پہنچا تو بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اُسے ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی علی پہلے سے ہی موجود تھاوہ سیدھا باتھ روم میں گیا اور کپڑے چینج کئے۔
    کہاں نکل گئے تھے شہزادے۔علی نے پوچھا۔
    کہیں نہیںیار۔وہ مسکرایا اور تولیے سے بھیگاسرپونجھنے لگا۔یونہی گھومنے نکل گیا تھا۔
    اس ٹھنڈ میں بارش میں بھیگنے کی کیا تُک تھی۔علی نے پوچھا۔
    میں بارش شروع ہونے سے پہلے نکلا تھا۔اسد نے جواب دیا۔
    مگر بارش گھنٹے بھر سے ہورہی ہے۔علی نے چبتے ہوئے لہجے میں کہا۔
    بس یونہی آوارہ گردی کررہا تھا۔اسد نے جان چھڑاتے ہوئے کہاٹھنڈ سے اُسکے دانت بجنے لگے تھے۔
    تو کوٹ پہن جاتا۔علی بولامگر ہینگر خالی دیکھ کر چونکا۔اوئے!تیرااور کوٹ کہا ںہے۔
    وہ میں نے کسی کو ہدیہ کردیا ہے۔اسد نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا۔
    ہدیہ۔علی پھرچونکا۔
    جی ہاں!اسد نے جواب دیا۔
    یہ مہربانی کس پر ہوئی ہے۔علی نے پوچھا۔
    معلوم نہیں کون تھی۔اسد نے جواب دیا۔
    تھی!علی کے کان کھڑے ہوگے۔ کیا مطلب تھی؟
    وہ کوئی بہت ہی خوبصورت پری تھی!اسد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
    پری ! علی کی حیرت ابھی باقی تھی ۔ بہت ہی خوبصورت پری ۔
    ہاں ۔اسد پھر مسکرایا اور خیالوں میں کھو گیا۔بہت ہی خوبصورت پری ۔
    یہ پری تجھے ملی کہاں ؟علی نے پوچھا ۔
    ہاں۔ اسد کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا ۔ کیا کہا ۔
    حضور میں نے عرض کیا ہے کہ آپ کو وہ بہت ہی خوبصورت پری ملی کہاں ؟
    اُسی زرد کاٹج کے پاس ۔ اسد نے جواب دیا ۔
    پھر تو یقینا کوئی بھوت ہوگی ۔علی جلدی سے بولا۔
    اگر بھوت اتنے خوبصورت ہوتے ہیں تو پھر اللہ کرے تم بھی بھوت بن جاؤ۔ اسد ہنس کر بولا۔
    کوئی لڑکی تھی کیا ؟ علی نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا اور اسد نے صرف سر ہلا دیا ۔
    میںنے تجھ سے مانگا تھا تو تو نے نہیں دیا اور آج ایک انجان لڑکی کو دے آیا ہے ۔علی قدرے بگڑ کر بولا۔
    یار وہ کوئی انجان لڑکی نہیں تھی ۔اسد نے احتجاج کیا ۔
    تو کیا تیرے تایا کی بیٹی تھی ۔علی کو غصہ آگیا۔
    نہیں۔ اسد ہنس دیا۔ وہ میرے تایا کی بیٹی تو نہیں تھی مگر انجان بھی نہیں تھی۔
    تو اُسے پہلے سے جانتا ہے ؟ علی نے پوچھا ۔
    ہاں ۔اسد نے جواب دیا ۔
    کب سے ؟ علی نے حیرت سے پوچھا۔
    پتہ نہیں ۔ اسد نے جواب دیا۔ شاید ہمیشہ سے ۔
    گھاس تو نہیں کھا آیا ۔علی کو مزید غصہ آگیا اسداُس کی بات سنے بغیر ہی کچن میں جاگھسا اور اپنے لیے کافی بنانے لگا۔
    کافی پیو گے۔اسد نے کافی کا برتن چولہے پر رکھتے ہوئے کچن میں سے آواز لگائی مگر علی خاموش رہا ۔
    میں نے پوچھا ہے کافی پیو گیا؟مگر علی اب بھی خاموش رہا۔
    یہ بلب کیوں نہیں جل رہے؟اسد نے کچن سے جھانک کر پوچھا۔
    بارش کے بعد سے ہی لائٹ نہیں ہے ۔ علی نے جواب دیا۔
    یعنی آج کی رات اندھیرے میں ہی گزرے گی ۔اسد نے کہا اور دوبارہ کچن میں گھس گیا اور کچھ دیر بعد دو کپ لیے وآپس آیااور ایک کپ اُسکے سامنے رکھ دیاعلی نے کپ اُٹھا لیااور چُپ چاپ پینے لگا۔
    تجھے کیا ہوا ہے؟اسد نے پوچھا۔منہ کیوں لٹکا رکھا ہے ۔
    بکواس بندکرو!۔علی چڑگیااسد ہنس دیااور پھر اُسے ساری بات بتادی۔
    ہنہ!علی نے ایک گہری سانس چھوڑی۔
    یار وہ بڑی خوبصورت تھی۔اسد نے کہا۔پہلی ہی نظر میں کچھ ہوگیا ہے۔
    یقیناتو نے اُس کانام بھی نہیں پوچھا ہوگا۔علی نے کہا۔
    نام!اسد چونک کر بولا۔یہ تو میرے دماغ میں ہی نہیں آیا۔
    میاں!دماغ والے لوگ اور ہوتے ہیں۔علی اپنا کالر اُٹھاتے ہوئے بولا۔
    اُس کے حسن کی شدت نے میرے حواس چھین لیے تھے۔اسد نے اعتراف کیا۔
    ابے جب اتنی مہربانی کی ہی تھی تو اُسے گھر تک ہی چھوڑ آتا۔علی نے پھر کہا۔جانے جنگل میں کہاں بھٹکتی پھر رہی ہوگی۔
    تیری تو۔اسد ایک جھٹکے سے اُٹھااور جوتے پہننے لگا۔
    کیا ہوا۔علی نے پوچھا۔
    یہ سب تومیں نے سوچا ہی نہیں تھا۔اسدجلدی سے بولا۔وہ اکیلی گھر کیسے جائیگی۔
    جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی جائیگی۔علی نے جواب دیا ،پراسد نے جیسے اُس کی بات سنی ہی نہیں۔
    اسد ! اندھیرا پھیلنے لگا ہے اور لائٹ بھی نہیں ہے۔ علی نے پکارا مگر وہ تیزی سے گھر سے نکل بھاگاعلی آوازیں دیتا ہی رہ گیا بارش تیز ہوگئی تھی اور اندھیرا بھی قدرے پھیلنے لگا تھا ، وہ تقریبا بھاگتا ہوا وہاں پہنچا ،وہ وہاں نہیں تھی بینچ خالی تھا اسد نے آس پاس ہر جگہ دیکھ لیامگر وہ کہیں نہ ملی اسد پریشان ہوگیا اُس کا دھیان ویران کا ٹج کی طرف گیاوہ دوڑ کر کاٹج تک آیا کاٹج مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھااسد نے اُس کے چاروں طرف گھوم پھر کردیکھ لیامگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔
    کہاں گئی ہوگی؟اُس نے خود سے سوال کیا۔کسی غلط آدمی کے ہاتھ نہ لگ گئی ہو؟وہ بیچین ہوگیا علی بھی اُسے ڈھونڈتا ہواآگیا۔
    عجیب آدمی ہو تم۔علی غصے سے بولا۔پاگلوں کی طرح دوڑے چلے آئے ہو جانتے نہیں کتنا خطرناک علاقہ ہے۔
    یار وہ یہاں نہیں ہے۔اسد نے جیسے اُسکی بات سنی ہی نہیں۔
    وہ کوئی بھوت ہوگئی۔علی جلدی سے بولا۔ورنہ کوئی لڑکی اِس وقت یہاں اکیلے کیا کرنے آئیگی۔
    بکومت۔اسد چلایا۔
    بھائی کیوں ٹھنڈ سے مروانا چاہتا ہے۔علی پھر بولا اور اسدکو پہلی بار ٹھنڈ کا احساس ہوامگر وہ بولا کچھ نہیں۔
    اپنا نہیں تو میرا ہی خیال کر لے۔علی پھر بولا۔
    مگر یار!اسد کچھ کہنا چاہتا تھا پر علی نے ٹوک دیا۔
    دیکھ یار اگر وہ یہاں ہوتی تو نظر آجاتی۔اسد نے ایک گہری سانس چھوڑی۔
    چلو گھر چلیں۔علی نے اُسے نرم پڑتے دیکھ کر کہا۔
    مم مگر!اسد ہکلایا۔
    صبح دیکھ لینگے۔علی اُسکا ہاتھ تھپتھپا کر بولااور اُسکا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف چل پڑا گھر پہنچ کر بھی اسد کا دماغ وہیں اُلجھا ہوا تھا علی نے انگیٹھی میں مزید لکڑیاں ڈال دی تھی وہ دونوںکپڑے بدل کر اُسکے گردبیٹھ گئے۔
    یار وہ کہاں گئی ہوگی۔اسد نے پوچھا۔
    چُپکا بیٹھا رہ ورنہ بہت جوتے کھائیگا۔علی غصے سے بولا۔ٹھنڈ سے میری اُنگلیوں کے پورے تک سن ہوگئے ہیں اور تجھے اُس بھوتنی کی پڑی ہوئی ہے۔وہ ہاتھ رگڑ کر گرم کرنے لگا۔
    تو کیسا بھائی ہے یار۔اسد بھی چڑگیا۔بھائی کی حالت نہیں سمجھ رہا۔
    ابے گدھے!علی نے اُسکی گدی پر ایک چپت رسید کی۔یہ سب تو تجھے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔
    یار اُسے دیکھ کر میرے حواسوں نے کام کرنا ہی چھوڑدیا تھا۔اسد نے جواب دیا۔میں تو اُس سے کوئی بات بھی نہیں کرسکا جیسے وہ کوئی سبز پری تھا اوریہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔
    تواُسے شہزادے کا خواب سمجھ کر بھول جا۔علی نے جواب دیا۔
    شہزادے نے تو دشوار ترین پہاڑوں میںساٹھ برس کے سفر کے بعد اپنی سبز پری کو پالیا تھا۔اسد نے جواب دیا۔
    وہ سب تو بچوںکو بہلانے کے لیے قصے کہانیا ںہے۔علی نے جواب دیا۔ورنہ ساٹھ برس بعد تو اپنے بچے بھی نہیں پہچانتے وہ بھی کہتے ہیں بڈھے اب توجان چھوڑ۔اسد ہنس دیا۔
    مگر پھر بھی یاروہ کہاں گئی ہوگئی۔اسد نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
    وہ مجھے بتاکر گئی ہے کیا۔علی چڑگیا۔کسی جنگلی جانور کے ہتھے چڑھ گئی ہوگی۔
    بکو مت!اسد غصہ ہوگیا۔علی کچھ نہ بولا اور غصے سے اُسے دیکھنے لگاکچھ دیر یونہی گزر گئی پھراسد اُٹھ کر ٹہلنے لگا۔
    مجھے تو نیند آرہی ہے۔علی خمار بھرے لہجے میں بولا۔تم بھی جب پریڈ کرتے کرتے تھک جاؤ تو جاکر سوجانا۔
    یارعلی! نیچے گاؤں میں تو ہم نے معلوم ہی نہیں کیا۔اسد سوچتے ہوئے بولا۔
    گاؤں میں اس وقت تیرا کونساتایا جاگ رہا ہوگا۔علی غصے سے بولا۔
    رات کے نو ہی بجے ہیں۔اسد گھڑی دیکھ کر بولا۔
    اُلو کے پٹھے یہ پہاڑی علاقہ ہے۔علی کا غصہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔یہاں لوگ سرِشام ہی بستروں میں گھس جاتے ہیں۔
    تو پھرٹارچ لیجاکر چیک کرلیتے ہیں۔اسدجلدی سے بولا علی نے سر پکڑلیا۔
    بھائی!تجھے جو کرنا ہے کربس مجھے معاف رکھ۔علی ہاتھ جوڑ کرہار مانتے ہوئے بولا۔ وہاں الماری میں ٹارچ رکھی ہے لیجا اور جاکر اپنی محبوبہ کوتلاش کر اور اگر جنگل میں کہیں اُسکی کسی درندے کی ادھ کھائی لاش نہ ملے تو نیچے گاؤں میں چلے جانا شایدکسی اللہ کے بندے نے تمہاری اُس بھوتنی کومہمان بنا رکھا ہو۔
    تم کوئی اچھی بات نہ کرنا۔اسد بگڑ گیا۔
    اچھی بات اور اچھے کام کرنے کے لیے اللہ نے تمہیں جو پیدا کیا ہے۔علی نے جواب دیا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اسد کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر الماری سے ٹارچ نکال کر دوبارہ گھر سے نکل گیا ٹارچ انتہائی طاقتور تھی اوراتفاق سے پوری طرح چارج بھی تھی بارش رک چکی تھی مگرسردی کافی بڑھ گئی تھی یخ ہواؤں نے اُس پر کپکپی طاری کردی اُس نے آس پاس کا سارا علاقہ کئی بار دیکھ ڈالالائٹ ابھی تک نہیں آئی تھی اِس لیے نیچے پہاڑی کے دامن میں بسا گاؤں بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ،اسدنے اُس ویران اور تاریک کاٹج کے اطراف بھی کئی چکر لگا لیے آخر تھک ہار کر وہ اُسی بینچ پر آبیٹھا ایک احساس جرم اُسے اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا۔
    ساری عمر میں جو ایک ہی دل کو بھائی تھی میںاُسے اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟اُس نے خود سے سوال کیا مگر یہ ہو چکا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اب کس حال میں ہے وہ تڑپ کر اُٹھا اور پتھر پر کھڑا ہو کر ایک بار پھر چاروں جانب ٹارچ کی روشنی ڈالی مگر ٹارچ کی روشنی اور اُسکی نظر درختوں اور پتھروں سے ٹکرا کر ناکام لوٹ آئی۔
    اے معصوم اور خوبصورت پری!تم کہاں ہوں؟بے اختیار اُس کے حلق سے ایک چیخ سی نکلی اور پہاڑوں میں گھونج اُٹھی۔
    خدارا !مجھے جواب دو۔مگر اُس کی آوازپھر پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹ آئی اور کوئی جواب نہیںآیا، اب اُس پر وحشت طاری ہونے لگی تھی ،وہ خود کو مجرم سمجھنے لگا تھا اُس کا ضمیر اُسے بری طرح ملامت کر رہا تھا ، وہ ایک بار پھر ٹارچ لیکر اُسے تلاشنے لگا اور اِس بار وہ اُسے پکارتے ہوئے اور آوازیں دیتے ہوئے کافی دور تک گیا ، مگر وہ کہیں نہیں تھی ، اسد تھک ہار کر لوٹ پھر اُسی بینچ کے پاس لوٹ آیا اوراُس پر بیٹھ گیاسردی کی شدت سے اُس کا بدن کپکپا رہا تھا مگر اندرایک عجیب سی چنگاری بڑھک اُٹھی تھی جس میں وہ بری طرح سلگ رہا تھا۔
    اے خوبصورت پری! خدا را مجھ پر رحم کرو ۔دفعتا وہ چلایااور سسک پڑا۔
    اسد!بس کرو یار!اُسے علی کی آواز سنائی دی وہ اندھیرے کی چادر چیرتا ہوا سامنے آگیا ۔
    علی! وہ نہیں ملی۔اسد کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔خدا جانے کہاں چلی گئی ہے۔
    اُس کا گھر کہیں قریب ہی ہوگااور وہ اپنے گھر چلی گئی ہوگی۔علی نے جواب دیا ،اسد کی نظریں بے اختیارکاٹج کی زرد عمارت کی طرف اُٹھ گئیں ۔
    شاید وہ نیچے وادی میں رہتی ہو۔علی شایداُس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔
    اللہ تمہاری زبان مبارک کرے۔اسد نے بیاختیار کہا۔
    چلو گھر چلیں۔علی نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
    تمہیں یقین ہے نا وہ خیریت سے ہوگی۔اسد نے بچوں کی طرح پوچھاعلی غصے سے اُسے دیکھنے لگا۔
    ہاں!وہ ایک طویل سانس لیکر بولا۔جس کے لیے تم جیسا مخلص شخص تڑپ رہا ہوں اُسے یقینا کچھ نہیںہو سکتا۔اسد کچھ نہیں بولا۔
    چلو گھر چلیں۔علی نے پھر کہا اسد کچھ ہچکچایااور مڑکر پھر اطراف میں ٹارچ کی روشنی ڈالی مگر وہی مایوسی اُس نے دکھ سے سر جھکا لیا اورکچھ دیربعداُس کے ساتھ چل پڑامگر وہ مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا بھی جا رہا تھاوہ رات اُن دونوں نے آنکھوں میں کاٹی اسد کو تو ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اور علی کو یہ ڈر تھا کہ وہ پھر کوئی بیوقوفی نہ کر بیٹھے صبح ہوتے ہی اسد ایک بار پھر اُس طرف چل پڑا اس بار علی بھی اُس کے ساتھ تھااُنہوں نے پورے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا نیچے گاؤں میں بھی گئے صید احمد اُنہیں اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت حیران ہوا وہ لوگ مری دو دن رہے اور ان دو دنوں میں اسد کی حالت عجیب سی تھی علی کو اُس سے ڈر لگنے لگا تیسرے دن وہ اُسے زبردستی لیکر وآپس اسلام آباد آگیااُس کے کئی دن بعد تک اسد کی حالت خراب سی رہی مگر پھر دھیرے دھیرے سنبھلنے لگی اُنہوں نے اِس بات کاگھر میں کسی سے ذکر نہیں کیا مگر اُس کے بعد وہ جب بھی مری آیا اُسکی یہی حالت ہوجاتی رہی ۔
    ﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾

    وہ صبح ناشتہ کرتے ہی گھر سے نکل آیا تھااور پچھلے تین گھنٹوں سے اُسی شیڈ تلے بنے بنچ پر بیٹھا تھا آج وہ پھر شدت سے یاد آرہی تھی
    جنگلی پھولوں کی خوشبو نے فضا کو پوری طرح معطر کر رکھا تھاکئی شوخ و جوان جوڑے ادھر اُدھر بکھرے چہل قدمی کر رہے تھے اُنہیں دیکھ کر اُس کے سینے میں ایک ٹیس سی اُٹھی وہ آتی جاتی ہر اکیلی لڑکی کو غور سے دیکھنے لگا مگر اُن میں سے کوئی بھی اُس جیسی نہیں تھی اُسے اپنی بے بسی پر رونا آنے لگا اُس کی نظر آسمان کی طرف اُٹھ گئی۔
    مالک! تو کب تک میرا امتحان لے گا۔اُس کے لبوں پر ایک درد بھری التجا آہی گئی مگر آسمان خاموش تھا اُس کی التجا بے نیل و مرام لوٹ آئی اُس نے سر جھکا لیا اور سامنے والے کاٹج کو دیکھنے لگاایک لمحے کواُسے کھڑکی کا پردہ ہلتا ہوا محسوس ہواجیسے کوئی تاریک کھڑکی کے پیچھے کھڑاتھاوہ کھڑکی کو گھورنے لگاکافی دیر گزر گئی مگر کچھ نہ ہوا اُسے خود ہی اپنی سوچ پر ہنسی آئی وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کاٹج ہمیشہ سے ویران رہاہے مگر جانے کیوں اُسے آج یہ شک ہوا تھاوہ کچھ دیر مزید وہاں بیٹھا رہاپھر اُٹھ کرگھر آگیا مگر پورچ میںعلی کی جیپ دیکھ کر وہ چونک گیاعلی کے ساتھ پھوپھی جی بھی آئی ہوئی تھی اور سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تھے اور ثوبیہ کھانا لگا رہی تھی وہ علی اور پھوپھی جی سے ملا۔
    کیسی ہیں پھوپھی جی!اسد نے اُن سے پوچھا۔
    اچھی ہوں بیٹا۔پھوپھی جی نے جواب دیا۔تم اپنی سناؤ۔
    ہنہ!وہ جانے کیوں ہنس دیاپھوپھی حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔
    اسد!تم بھی جلدی سے فریش ہوکر آجاؤ۔ثوبیہ بریانی کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔
    جی اچھا بھابی!اُس نے کہا اور واش روم چلا گیاوآپس آیا تو بھابی کھانا لگا چکی تھی وہ علی کی ساتھ والی خالی کرسی پر بیٹھ گیاسب سر جھکا کر کھانا کھانے لگے کھانے کے بعد وہ اور علی ٹیرس پر آگئے۔
    تم کہاں تھے۔علی نے پوچھا۔
    بس یونہی گھومنے نکل گیا تھا۔وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔
    تم ابھی تک اُس بات کو بھولے نہیں۔علی نے کہا اسد نے کوئی جواب نہیں دیا۔
    اپنی حالت دیکھی ہے۔علی نے کہا اسد اب بھی خاموش رہا۔
    اسد وہ تمہارا وہم بھی تو ہوسکتا ہے۔علی نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
    ہنہ!اسد بس مسکرا کر رہ گیا۔
    یا پھر ممکن ہے وہ کسی اور شہر کی ہو اور وآپس اپنے شہر چلی گئی ہو۔علی نے ایک اور دلیل دی۔
    علی!اسد نے اُسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔وہ وہم نہیں میرا یقین ہے اور تم دیکھ لینا ایک دن وہ مجھے اِسی وادی میںملے گی ،اُسی جگہ ،اُسی شیڈ کے نیچے، یونہی بارش برس رہی ہوگئی اور وہ میرا کوٹ پہنے وہیں بیٹھی میرا اِنتظار کر رہی ہوگی۔علی نے ایک گہری سانس لی اور سامنے پھیلی وادی کی طرف دیکھنے لگا۔
    لگتا ہے !زاہد بھائی سے بات کرنی ہی پڑیگی۔علی نے کہا۔
    تم بھیاسے کوئی بات نہیں کروگے۔اسد نے اُسکا بازو پکڑکر کہا۔
    میرا بازو چھوڑو۔علی نے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی مگر اسد کی گرفت سخت تھی۔
    تم بھیاسے کوئی بات نہیں کروگے۔اسد نے اپنی بات دہرائی اور اُس کا بازو چھوڑ دیا۔
    تم خطرناک حد تک دماغی مریض بن چکے۔علی اپنا بازو مسلتے ہوئے بولا۔
    شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔اسد نے ایک گہری سانس لیکر کہا۔مگر میرا یقین کرو میں مجبور ہوں۔
    یار اسد!تم سمجھنے کی کوشش کرو۔علی اُسکی طرف مڑ کر بولا۔مری ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اورتم خود سوچو!پچھلے تین سالوں سے تم اُسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے ہواگر وہ یہاں ہوتی تو کب کی مل چکی ہوتی۔
    وہ ملے گی۔اسد یقین سے بولا۔تم یقین کرو وہ ضرورملے گی۔
    کب؟ علی نے سوال کیا۔جب تمہاری کمر جھک جائیگی اور ہاتھ میں لاٹھی ہوگی۔
    نہیں !اتنی دیر نہیں ہوگی۔اسد مسکرا کر بولا۔
    ہنہ! علی نے ایک گہری سانس لی اور پھرٹیرس سے نیچے جھانکنے لگا۔
    بھائی!نوال کی آواز پر وہ دونوں چونک کر پلٹے۔آپ کو پھوپھی جی بلا رہی ہیں۔اُس نے مڑکر علی کو دیکھا تو مسکرا رہا تھا۔
    اب بچ کر دکھانا۔علی مسکرا کر بولا۔
    تمہیں تو میں دیکھ لونگا۔اسد اُسے گھورتے ہوئے بولا اوراندر چلا گیا۔
    اور تم!علی شرماتی ہوئی نوال کو دیکھ کر بولا۔میں تمہیں نظر نہیں آتایا تم مجھے دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔
    کیا مطلب؟نوال نے سر اُٹھا کرحیرت سے کہا۔
    سلام دُعا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔علی جل کر بولا۔کب سے آیا ہوں نہ تم نے سلام کیا اور نہ میری خیریت پوچھی۔
    السلام و علیکم!وہ باقاعدہ کورنش بجا لائی۔اور آپ کی خیریت خدا وند کریم سے نیک مطلوب۔اورپھر ہنستی ہوئی اندر بھاگ گئی علی بھی مسکرا دیا اور اُس کے پیچھے اندر چلا آیا سب لیونگ میںبیٹھے تھے مگر نوال نظر نہیں آرہی تھی وہ مسکراتا ہوا اسد کے پاس جا بیٹھا۔
    یار !تم ایک بار دیکھ تو لو۔زاہد ایک البم اسد کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
    بھیا!جب وقت آئیگا تب دیکھ بھی لونگاابھی دیکھ کر کیا فائدہ۔اسد مسکرا کر بولااور البم وآپس کھسکا دی۔
    بیٹا تم دیکھو تو سہی!پھوپھی جی بولی۔شاید تمہیںکوئی پسند آجائے۔
    پھوپھی جی اب آپ لوگ خواہ مخواہ کی ضد کر رہے ہیں۔اسدنے جواب دیا۔
    ارے!ضد ہم لوگ کر رہے ہیں یا تم؟ثوبیہ حیرت سے بولی۔
    بھابی پلیز!اسد اُس کی طرف مڑ کر بولا۔
    یار! تم کچھ زیادہ ہی نخرے نہیں کر رہے۔زاہد حیرت سے بولا۔
    بھیا!میںنے ابھی میںکچھ عرصہ آزاد رہنا چاہتا ہوں۔اسد نے جواب دیا۔
    ارے!ہم کہیں خدانخواستہ تمہیں قید تو نہیں کر رہے۔پھوپھی جی غصے سے بولی۔
    کہیں!کسی سے کوئی وعدہ تو نہیں کر بیٹھے۔زاہد نے پوچھا۔
    ہاں بئی!کہیں تم نے خود ہی کوئی لڑکی تو نہیں پسند کر رکھی۔بھابھی نے پوچھا۔
    ہنہ!وہ ہنس دیاعلی کی بھی ہنسی نکل گئی۔تینوں انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔
    بئی!کون ہے وہ؟پھوپھی جی نے پوچھا۔کس کی بیٹی ہے؟
    ارے! پھوپھی جی ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔وہ مسکرا کر بولا۔
    مجھے پہلے ہی شک تھا۔پھوپھی جی غصے سے بولی۔یہ آج کل کی لڑکیاں بھی کمبخت خود ہی بر ڈھونڈنے نکل پڑتی ہیں۔
    اماں!کوئی بھی کمبخت لڑکی اتنی بھی بیوقوف نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ اِسے اپنا بر چنے۔علی ہنستے ہوئے بولا۔
    کیوں کیا کمی ہے میرے لال میں۔پھوپھی سب کچھ بھول کر اُس کی بلائیں لینے لگی۔
    اے لو!علی ہنس کر بولا۔ابھی لڑکیوں کو کوسنے دے رہی تھی اور ابھی اِس کی لاڈیاں کرنے لگی۔
    اسد!سچ بتاؤکیا بات ہے۔زاہد قدرے تشویش سے بولا۔
    بھیا!ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔اسد نے مسکرا کر جواب دیا۔اور اگر ایسا کچھ ہوا تو میں سب سے پہلے آپ کو ہی بتاؤنگا۔
    تو پھر یہ سب کیا ہے۔زاہد نے حیرت سے پوچھا۔
    بس!میں ابھی کچھ دن اور اِس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔اسد نے جواب دیا۔
    ہنہ!ٹھیک ہے۔زاہد نے سر ہلادیا اور اسد مسکرا دیادو دن بعدوہ سب وآپس اسلام آباد لوٹ گئے۔
    ہر سال ستمبر کے آغاز سے ہی اُس کی بیچینی بڑھنے شروع ہو جاتی تھی اور اِس سال بھی ایسا ہی ہو رہا تھا ، ستمبر شروع ہوتے ہی اُس کی بیچینی بڑھنے لگی وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی جتنی کوشش کرتا دل اُتنی ہی شدت سے دھڑکنے لگتا تھااور جب آسمان پہ بادل گھر آتے تو اُسے لگتا کہ جیسے کوئی اُس کے کانوں میں سر گوشیاں کر رہا ہو یا جیسے کسی نے اُس کا دل مٹھی میں پکڑ کر مسل دیا ہو، جیسے اندروں اندری سلگتی چنگاری انگارہ بن چکی ہے اور اب کسی بھی لمحے شعلہ بننے کو بیتاب ہے اورستمبرکا وہ خاص دن آتے آتے تو اُس کی بیچینی انتہاؤں پر پہنچ گئی وہ صبح ناشتہ کرتے ہی وہ مری کے لیے نکل کھڑا ہواحالانکہ غیر متوقع طور پر رات سے ہی وقفے وقفے سے بارش ہورہی تھی زاہد اور ثوبیہ اُسے منع ہی کرتے رہ گئے مگر وہ خود کو روک نہیں پایا۔ ۔ ۔ اُس نے گاڑی زرد رنگی عمارت سے کافی فاصلے پر ہی روک لی اور اُتر کر ٹہلتا ہوا زرد رنگی کاٹج کی طرف بڑھا بارش کا سلسلہ جو کچھ دیر پہلے رکا تھاوہ پھر شروع ہوگیا اسد جینز کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے خراماں خراماں چلتا ہوازرد رنگی عمارت کے سامنے بنے شیڈتلے رکھے بینچ پرآبیٹھاشیڈ موسم کی سختیاں جھیلتے جھیلتے مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا بینچ کی حالت بھی بہت خستہ ہو چکی تھی ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی مگر اُسکے اندر آلاؤ جل رہا تھااچانک ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
    اے میری سبز پری!تم کہاں ہوں۔پوری وادی اُس کی آواز سے گھونج اُٹھی۔
    دیکھو!میرا اور امتحان مت لو۔ ۔ ۔ میں بہت کمزور پڑ گیا ہومجھے بکھرنے سے بچا لو۔ ۔ ۔ تم سن رہی ہونا؟مگر وہاں سوائے اُس کی اپنی آواز کی بازگشت کے کچھ بھی نہ تھا۔
    اچھا چلو ایک بار ہی ، صرف ایک بارآجاؤ، میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اُس نے التجا کی ، مگر اِس بار بھی التجا محض بازگشت سےٓگے نہ بڑھ سکی ،وہ پھر بینچ پر بیٹھ گیابارش تیز ہوگئی مگر وہ یونہی بیٹھا رہااُس کی نظر زرد کاٹج کی طرف اُٹھ گئی اُسے لگا کہ جیسے آج پھرکوئی کھڑکی کے پردے کے پیچھے کھڑا اُسے دیکھ رہا ہے وہ کھڑکی کو گھورنے لگا مگر تیز بارش کی وجہ سے اُسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا کتنی ہی دیر گزر گئی بارش تھی کہ جیسے آسمان پھٹ پڑا ہوٹھنڈ سے اُس کا بدن اکڑنے لگا اندھیرہ پھیلنے لگاتھا یا شاید اُس کا دماغ اپنا کام چھوڑ کر دھیرے دھیرے کہیں تاریکیوں میں ڈوبتا جارہا تھااُسے بھی اپنی ممکنہ موت کا یقینا ہونے لگاتھااُس کی آنکھیں بند ہونے لگی مگر وہ ابھی مرنا نہیں چاہتا تھاوہ اپنی سبز پری کو دیکھے بنا مرنا نہیں چاہتا تھااُس نے اپنے جسم کی باقی مانندہ پوری توانائی صرف کرتے ہوئے ایک بار آنکھیں کھولی وہ سامنے کھڑی تھی اُس کی سبز پری۔ ۔ ۔ ویسے ہی بڑی سی بھیگی چادر میں لپٹی ہوئی اُس کا اوور کوٹ ہاتھ میں پکڑے۔ ۔ ۔ اُس کے نیلے پڑتے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی وہ اُسے اُس کے اوور کوٹ میں چھپا رہی تھی۔
    سس !سبزپپ! پری!تت تم نے بب بہت دیر کردی۔وہ مسکرا کر بولااور اُس کی پلکیں بوجھل ہوتی چلی گئی ۔اُس کے دماغ کا آخری احساس یہی تھا کہ جیسے کسی نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔
    ﴿۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾

    اُس کے دماغ میں بیداری کی پہلی رو دوڑ گئی اور ایک پل میں ہی ہاتھ میں اُس کا اوور کوٹ لیے بارش میں بھیگتی سبز پری اُس کی نگاہوں میں گھوم گئی اُس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیںوہ کسی اجنبی کمرے میں تھا اور اُس کے جسم پرتہہ در تہہ کئی گرم لحاف پڑے ہوئے تھے وہ حیرت سے ادھر اُدھر دیکھنے لگاکمرہ نہایت ہی دلکش تھاایک دیوارکے ساتھ گیس ہیٹر بھی جل رہا تھا جس نے کمرے کو کافی گرم کر رکھا تھااُسے اپنے دائیں طرف کسی کی موجودگی کا احساس ہوااُس نے پلٹ کر دیکھا تووہ کوئی لڑکی تھی جو کرسی پر بیٹھی تھی مگر اپنے دونوں بازواُسکے بیڈ پر رکھے اُن پر سر رکھے سو رہی تھی لڑکی کاچہرہ تو نظر نہیں آرہا تھامگر جسم پر وہی بڑی سے چادر تھی وہ بستر پر اُٹھ بیٹھا آہٹ پاکرلڑکی نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھاوہ وہی تھی اُس کی سبز پری اسد اُسے دیکھتا ہی رہ گیاوہ بھی بت بنی رہ گئی کتنی ہی دیر ہوگئی وقت کی دھڑکن رک گئی کائنات کی ہر شے تھم گئی اجرام فلکی اپنے مداروں میں برف ہوگئے۔
    آپ کی طبیعت اب کیسی ہے۔جیسے کسی نے صور اسرافیل پھونک دیا ہو۔ ۔ ۔ اور سارے اجرام فلکی ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرا گئے ۔ ۔ ۔ اسد نے آواز کا تعاقب میں نظر دوڑائی تو ایک اور لڑکی کمرے کے دروازے سے اندر آچکی تھی اور اُس نے ہاتھ میں سوپ کا پیالہ پکڑ رکھا تھا۔
    میں کہاں ہوں۔اسد نے پوچھا اُس کی نظریں پھر اپنی سبز پری کے چہرے سے چپک گئی تھی جو اُسے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی دوسری لڑکی بھی کرسی کھینچ کر سبز پری کے پاس بیٹھ گئی۔
    آپ وہیں ہیں جہاں آپ کو ہونا چاہیے تھا۔لڑکی نے جواب دیا۔
    کک کہاں۔اُس نے چونک کر ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لیا۔ یہ کونسی جگہ ہے۔
    آپ کی سبز پری کا گھر۔وہ سبز پری کے کندھوں پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
    سبز پری کا گھر؟اسد نے دہرایا۔میری سبز پری کا گھر۔سبز پری نے شرما کرسر جھکا دیادوسری لڑکی ہنس دی۔
    یہ وہی زرد کاٹج ہے جس کے باہر آپ دیوانوں کی طرح سبز پری، سبز پری تم کہاں ہو! چلاتے رہتے ہیں۔اُس نے جواب دیا۔
    زرد کاٹج؟وہ ایک بار پھر چونکا۔مگر وہ تو ہمیشہ ویران رہتا ہے۔
    ہاں ۔وہ مسکرائی۔مگرپچھلے کچھ سالوں سے ہم دونوںہر سال پوراستمبر میں یہیں بتاتی ہیں۔
    ہنہ!اسد نے ایک گہری سانس لی اور پھر سے سبز پری کو دیکھنے لگا۔
    آ آپ کون؟اسد نے پوچھا۔
    نیلی پری۔وہ ہنس کر بولی اور دونوں کھلکھلا کر ہنس دی اسد دونوں کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
    میرا نام سلمی ہے۔وہی لڑکی پھر بولی۔
    اور؟وہ سوالیاں نظروں سے سبز پری کو دیکھنے لگا۔
    یہ پروشہ ہے۔لڑکی نے جواب دیا۔ہم آپس میں چچا ذاد بہنیں ہیں۔
    پروشہ!اسد کا منہ مٹھاس سے بھر گیا سبز پری مزید شرما گئی۔
    یہ خود کیوں نہیں بولتی؟اسد نے سوال کیا۔
    یہ بول نہیں سکتی۔سلمی نے جواب دیا۔
    ہنہ!اسد چونک کر اُسے دیکھنے لگاسبز پری کا چہرہ تاریک ہوگیا و ہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
    رکو۔اسد نے فورا اُسکا ہاتھ پکڑ لیا اور بستر سے اُٹھنے لگا۔
    ہنہہ!وہ گھبرگئی اور اُسے بازوؤں سے پکڑکر وآپس بستر پر لٹانے لگی۔
    آآپ لیٹے رہیے۔سلمی بھی گھبرا گئی۔ڈاکٹرنے آپ کو مکمل آرام کا کہاہے۔
    آرام !اسد حیرت سے بولا۔جس کی زندگی داؤ پر لگی ہو وہ کیسے آرام کر سکتا ہے۔
    پلیز!آپ لیٹے رہیے۔سلمی نے کہا اسد نے مڑ کر پروشہ کو دیکھاجو اُسے پکر کر لٹانے کی کوشش کر رہی تھی اُس کی پلکیں بھی بھیگی ہوئی تھی اسد ڈھیلا پڑ گیا۔
    مگر اِسے کہو یہ میرے پاس ہی بیٹھے۔اسد نے سلمی سے کہا۔
    میں کیوں کہوں۔سلمی نے کندھے اچکائے۔پاس ہی توکھڑی ہے آپ خود کہہ لیجئے۔
    یہ میری بات کیسے سمجھے گی۔اسد نے حیرت سے پوچھا۔میں اِشاروں کی زبان نہیں جانتا۔
    اِشارے کس لیے؟سلمی مسکرا کر بولی۔یہ بول نہیں سکتی مگر سن تو سکتی ہے۔
    کیا مطلب۔اسد حیرت سے بولا۔
    یہ پیدائشی طور پر ایسی نہیں ہے۔سلمی نے جواب دیا۔
    تو پھر؟اسد اُلجھ کر رہ گیا۔
    پانچ سال پہلے اِس کی گردن پر پتنگ کی ڈور پھر گئی تھی ۔سلمی نے جواب دیا۔یہ بچ تو گئی مگر گردن کی کچھ حساس رگیں کٹ جانے کی وجہ سے یہ گویائی سے محروم ہوگئی ہے۔سلمی نے اُس کا چہرا پکڑ کر اُٹھایا گردن پر ہلکا سا نشان اب بھی تھا۔
    بہت تڑپایا ہے تم نے۔وہ پروشہ کو دیکھتے ہوئے بولااور اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیاوہ شرماکر اپنا ہاتھ چھڑانے لگی اور سلمی ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
    تمہیں ذرا بھی ترس نہیں آیا تھا۔اسد نے پوچھاپروشہ بری طرح شرما گئی اورہاتھ چھڑا کر کمرے سے بھاگ گئی۔
    یہ ڈر رہی تھی کہ آپ اصلیت جان کر اِسے ٹھکرا نہ دیں۔سلمی نے کہا ۔
    یہ پہلے لمحے سے ہی آپ کو پسند کرنے لگی تھی۔سلمی نے کہا اوراسد نے حیرت سے سلمی کو دیکھا۔ایسی ویران جگہ پر کوئی خوبصورت لڑکی کسی نوجوان لڑکے کو اکیلی مل جائے تو !سلمی نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
    آپ کی شرافت اور انسانیت نے پروشہ کو ایک ہی لمحے میں گھائل کر دیا تھا۔سلمی مسکرا کر بولی۔اورپھر ہم آپ کی دیوانگی تو دیکھتے ہی رہے ہیں۔
    وہ اُس دن باہر کیوں بھیگ رہی تھی۔اسد نے پوچھا۔کیا آپ گھر میں نہیں تھی۔
    وہ بہت ضدی ہے۔سلمی نے جواب دیا۔ اُس دن مجھ سے خفا ہوگئی تھی اِس لیے ناراض ہوکر باہر چلی گئی تھی۔
    ہنہ!اسد نے سر ہلادیا۔
    ارے آپ کا سوپ ٹھنڈا ہوگیامیں ابھی گرم کر کے بھجواتی ہوں۔سلمی نے کہا اور سوپ کا پیالا اُٹھا کر باہر نکل گئی اسد نے بیڈ کے پشتے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں اُس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا کمرہ کافی گرم تھا اِس لیے وہ بہتر محسوس کر رہاتھا کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے آنکھیں کھولی تو وہ پروشہ تھی جو ٹرے میں سوپ کا پیالہ رکھے شرماتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی اسد اُسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا اُس کا سر جھکا ہوا تھا اور وہ ویسی ہی ایک بڑی سی چادر میں اوڑھ رکھی تھی وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی وہ اسد کے پاس اُسی کرسی پربیٹھ گئی اور پیالی ٹیبل پر رکھ دیاپھر دھیرے سے پلکیں اُٹھا کر اُسے دیکھااُسے اپنی طرف متوجہ پاکر پھر شرماگئی۔
    پروشہ!اسد نے اُسے پکارا تو وہ چونکی۔ مجھے سوپ نہیں پلاؤگی۔ وہ مسکرا دی اور چمچ سے اُسے سوپ پلانے لگی۔
    تم بہت ظالم ہو۔اسد نے کہا اور وہ مسکرا دی۔
    یاد رکھنا گن گن کر سارے بدلے لونگا۔اسد نے کہااوروہ ہنستے ہوئے خالی پیالہ اُٹھا کر ایک بار پھر کمرے سے بھاگ گئی اور اسد نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا فون اُٹھالیا اُسے علی کو بھی تو فون کرنا تھا گھر والے یقینا اُس کی وجہ سے پریشان ہونگے۔
    (آصفؔ احمد بھٹی)
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    بہت اعلیٰ ۔۔۔۔مختلف لڑیوں میں بکھرے افسانے اگرچہ پڑھ چکا ہوں‌مگر سب یکجا ہو کر موتیوں کی ایک مالا کا روپ اختیار کر گئے ہیں اور پہلے پڑھ چکنے کے باوجود آخری حرف تک لطف میں‌کوئی کمی نہیں آئی۔

    بہت زبردست۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. شاہ جی
    آف لائن

    شاہ جی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2011
    پیغامات:
    146
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    بہت خوبصورت مگردل کی اتھاہ گہرائیوں تک اتر جانےوالے
    لفظ تحریر خدا آپ کے علم میں اورسخن میں اور وسعت فرمائے ​
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    واصف بھائی ! اور شاہ جی !
    آپ احباب کا بہت بہت شکریہ ، انشاء اللہ باقی افسانے بھی جلد ہی یہاں موجود ہونگے ۔ ایک بار پھر آپ دونوں‌ کا بہت بہت شکریہ ۔
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    سارے کچھ نہیں پڑھا لیکن جتنا پڑھا بہت ہی اعلی کاوش ہے۔۔۔۔خدا کرے زور قلم اور زیادہ
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    آصف بھائی
    جو بھی لکھا عمدہ لکھا۔ بہت خوب تخیل پایا آپ نے۔ ابھی سارے افسانے نہیں‌پڑھا پایا۔ لیکن یقینا پہلے افسانے کی طرح باقی بھی شاندار ہوں گے۔ فرصت میں ضرور پڑھوں گا۔
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    بلال بھائی ! اور صدیقی بھائی !
    آپ بھائیوں کا بہت بہت شکریہ ، آپ دوستوں کی محبت ہمت بڑھاتی رہتی ہے ، حوصلہ دیتی ہے ۔ ایک بار پھر آپ دونوں‌ کا بہت بہت شکریہ ۔
     
  14. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    شاباش پتر
    مجھے آپ کی ذہانت پر فخر ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    بہت بہت شکریہ چاچا جی ۔ یہ سب آپ کی محبتوں کے طفیل ہے ۔
     
  16. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    سلام آصف بھای ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھت مزہ آیا۔۔۔۔ سارے افسانے اچھے ھیں۔۔۔ بھت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
     
  17. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آصفانے افسانے

    بہت اچھے افسانے ہیں ۔ اچھی کاوش ہے ۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں