1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آزادیِ نسواں! دام ہم رنگ زمیں

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏22 جون 2010۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حقوق نسواں ، آزادیِ نسواں اور اسی سے ملتے جلتے عناوین اور مضامین کی باز گشت ادھر مسلسل کئی سالوں سے پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور اس کے لیے بڑے بڑے ادارے ،تنظیمیں اور جماعتیں تشکیل دی جارہی ہیں ،بڑے منصوبہ بند طریقہ سے یہ بات عام کی جارہی ہے کہ آج کا معاشرہ اور خاص طور سے اسلامی معاشرہ عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دے رہا ہے، ان کے دائرہٴ کار کو تنگ کیا جارہا ہے ، یہ ایک طرح سے خواتین کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کے مرادف ہے اور اسلام زدہ معاشرہ ترقی نہیں کرپا رہا ہے،جب کہ مغرب اور وہاں کے آزاد خیال لوگوں نے اسے محسوس کیا،عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق دیے ، آزادی نسواں کے اصول اپنائے، سماج اور معاشرہ میں انھیں مردوں کی برابری کا حصہ دیا اور آج ان کا معاشرہ ترقی کررہا ہے اور عورتیں احساس کمتری سے نکل کر احساس برتری سے مالا مال ہورہی ہیں، اسی وجہ سے انھیں معاشرتی استحکام اور سماجی اعتبار سے اوج وبلندی حاصل ہورہی ہے ۔اس انداز کے مضامین اور مقالے بڑی منصوبہ بندی سے عام کیے جارہے ہیں اور آئے دن نظروں سے گذرتے رہتے ہیں،دنیا میں ایک خاص فکر اور نظریہ رکھنے والی ایک جماعت (یہود)جو پوری دنیا میں اپنی تہذیب اور اپنی فکر کی بالا دستی چاہتی ہے، دراصل یہ حقوق نسواں اور آزادی نسواں وغیرہ کا نعرہ اسی مخصوص فکر رکھنے والے یہودیوں کی دین ہے، اپنے نظریات اور افکار کو سنہرے عناوین سے مرصع کر کے اس انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اس دام ہم رنگ زمین کا شکار افراد تو افراد، حکومتیں تک ہوجاتی ہیں ،ہندوستانی پارلیمنٹ میں ابھی حال ہی میں خواتین ریزرویشن بل کی منظوری اسی فکر اور اسی نظریہ سے متأثر ہونے کی وجہ سے ہے ،ایک طرح سے اس بل کی منظوری اسلامی اصولوں کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب اور یہاں کی ثقافت سے بھی کھلا مذاق ہے ۔

    دراصل یہ تمام تر کوششیں ساری دنیا کو عقائدواعمال بالخصوص مسلمانوں کو ان کے اپنے دین ومذہب اور تمدن وثقافت سے بے گانہ اور منقطع کر ڈالنے کی مذموم چالوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سیاسی، معاشی ،تعلیمی اور اخلاقی ہر لحاظ سے نہایت ہی پسماندہ بناکررکھ دینے اور بیش ازبیش جانی اور مالی تباہی وبربادی کی نذر کر دینے کی منصوبہ سازی کا ایک حصہ ہیں۔

    چوں کہ یہودی عالمی حکومت کااصل ہدف اسلام کو مٹاڈالنا، مسلمانوں کو زیر تسلط لانا ،انہیں محکوم بنا لینا اور مسلمانوں کی نام نہاد حکومتوں کو براہ راست اپنی تحویل میں لے لینا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپر یل 1991ء میں قرار داد پاس کر کے عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا فیصلہ کر لیا ۔ چناں چہ اس فیصلے کے مطابق عرا ق کو تبا ہ و برباد کر نے کے ساتھ ساتھ غذائی اشیاء کی در آمد اور بر آمد پر پابندی عائد کردی گئی، یہاں تک کہ پیٹرول کی قیمت پر بھی پہرے بٹھادیے ۔او رپھر تمام ملکوں میں اسی طرح کی مداخلت کادروازہ چوپٹ کھول دیا گیا۔

    موجودہ عالمی نظام جو قوم یہود کا ساختہ پر داختہ ہے، جس کے تمام تانے بانے یہودیوں کی اسلام اور مسلم دشمنی کے ناپاک عزائم اور منصوبہ کا نتیجہ ہیں اورعالمی نظام کی وضع کردہ تہذیب وثقافت، جسے مغربی تہذیب وثقافت کہاجاتا ہے، کی سربر اہی بحیثیت قوم مکمل طور پر قوم یہود کے ہاتھوں میں ہے اور بحیثیت ملک امریکہ کے ہاتھوں میں ۔ظاہر ہے کہ ان کامشن نظام خداوندی ،دین حق اور فطرت انسانی کومنہدم کرکے ان کی جگہ شیطانی نظام فکر وعقیدہ اور اعمال و اشغال کوجاری اور نافذکرناہے۔چناں چہ نظام حق کی ہر طرح سے اور ہر حال میں مخالفت کرنااوردین فطرت وانسانیت کے بالکل بر عکس نظام زندگی اور تہذیب وثقافت کو جاری اور نافذکرنے کی کوشش کرناان کا نصب العین ہے ۔

    مخصوص تہذیب وثقافت کو سارے عالم میں برپا کرنے کے لیے کثیر الاقوامی ادارہ جات Multi'National'Corporations کے نام سے ایک زبر دست مالی فوج کو میدان میں اتارا گیاہے۔

    یہ کثیر الاقوامی ادارہ جات اقوام متحدہ کے ذریعہ مختلف طریقوں سے شیطانی نظام کے قیام واستحکام اور ان کی بالادستی کی کوششیں کرر ہے ہیں۔

    تہذیب وثقافت کے نام پربے غیرتی ، بے حیا ئی ، بے وفائی ، بد اخلاقی ، بدکرداری، بد چلنی ، بدزبانی ، بدنظمی اور تمام مخرب اخلاق کردار و اعمال کو ہر چہارجانب خوب رواج دیا جارہا ہے ۔

    آزادئ نسواں اور حقوق نسواں کا زوردار راگ الاپ کر عورتوں کو بازاروں، کلبوں اور ہر طرح کی مجلسوں میں لاکر، انہیں بے حیائی ، بد کرداری اور بے وفائی کے راستے پر ڈال دیا جاتاہے۔

    اس ”تہذیب وثقافت “ کی ترویج واشاعت کے لیے اور اسے رواج دینے کے لیے سیٹیلائٹ اورجدیدمواصلاتی ٹکنیک کے تحت ٹیلی ویژن ’انٹرنیٹ‘ موبائل فون وغیرہ جیسے ذرائع کا استعمال کیا جاتاہے، جو عام لوگوں تک جلد پہنچانے کے آسان ذرائع ہیں ۔پھرادب وثقافت کے نام پر اخبارات ورسائل اور جرائدمیں مخرب اخلاق، عریاں اور فحش تصاویر کی بھر مار اس تہذیب و ثقافت کو تمام گھروں سے لے کر دفتروں ،دکانوں اور کارخانوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اس طرح کہ کوئی بھی نظر ان سے بچ کرنہیں رہ سکتی ۔دنیا کی دوسری قوموں کے شانہ بشانہ مسلمان بھی ان میں رچے بسے اور گھلے ملے ہوتے ہیں ، دوسری قوموں اور مسلمانوں میں کوئی فرق وامتیاز باقی نہیں ہے۔

    شروع میں جب عام مسلمانوں کابھی نصب العین خو ف خدا ،آخرت طلبی ، شرافت و دیانت اور حق وانصاف کی علَم برداری تھا ،وہ نظام حق کے متبع اور اسلام کے چلتے پھرتے نمونے تھے اور شریعت کو اور اس کے احکام کی پا بندی کو عزیز رکھتے تھے تو جہاں کہیں بھی گئے اور جس جگہ بھی رہے وہاں نہ صرف انہوں نے اپنے اخلاقی اور شرعی اثرات لوگوں پر مرتسم کیے بل کہ بیش از بیش لوگ ان کے ہاتھوں اسلام قبول کرتے چلے گئے ،اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں ہی جانب کے لوگ با لعموم ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف ہوتے تھے اورکہاں اب حال یہ کہ یہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں ،زندگی کے جملہ امور ومعاملات میں، خواہ وہ تہذیبی ہو ں کہ ثقافتی ،سیاسی ہو ں کہ معاشی، خانگی ہو ں کہ معاشرتی، دوسرے کے شیطانی اثرات قبول کرتے چلے جاتے ہیں اور شریعت اوردین حق کی قطعی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انہیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔

    جب مسلمان دین حق سے منحرف ہوگئے ،اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشن ہدایات و تعلیمات سے چشم پوشی اختیار کرلی ،احکام خداوندی کو یکسر بدل ڈالا، دنیا پرستی ،عیش پسندی ،جھوٹی شان وشو کت او رظلم و زیادتی کے دلدادہ ہو گئے، مختلف قسم کے آپسی اختلافات میں مبتلا ہو گئے ،ایک دوسرے کے خون کو حلال کرلیا ، یہود ونصاری او ردوسری قوموں کی نقالی شروع کردی ،انہیں دوست بنانے اوران کی حمایت کے حصول کے لیے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے شروع کردیے اور یہود و نصاری اوردوسری قوموں کی ان تمام خرابیو ں او ر برائیوں میں مبتلا ہو گئے، جن سے انتہائی سخت تاکیدکے ساتھ باز رہنے کو کہا گیا تھا ۔ایسی صورت میں وہی دشمن عناصر او روہ قومیں جنہیں مغضوب اور ضالین کے خطابات سے نوازا گیا تھا، نظام عالم پر بڑی ہی آسانی اور سرعت کے ساتھ قابض اور متصرف ہو نے لگیں۔ یہ تمام اسلام دشمن عناصر تو موقع ہی کی تلاش میں تھے اور پھر وہ قابض و متصرف ہی نہیں ہو گئے، بل کہ مغلوب اور محکوم مسلمانوں پر ہر طرح کا ظلم و تشدد روا رکھا، ان کا عرصہ حیات تنگ کرکے رکھ دیا،ان کو صحیح دین سے اکھاڑ پھینکنے کی انتہائی کوشش کر ڈالی ،ان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیا، انہیں محکومی و غلامی کی ذلت آمیز زنجیروں میں جکڑ دیا اور ذلیل و خوار بنا کر رکھ چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزمانے لگے ،حتی کہ وہ سب کچھ کرنے لگے، جو شیطان ،اس کی ذریت اور اس کے شاگرد کر سکتے تھے۔

    یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلادیا اور ایمان کا جھوٹا دعوی کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھلا دیا اور ان پر ظالموں اور سفا کوں کو مسلط کردیا ۔جب مسلمانوں نے دوسروں کی بندگی واطاعت شروع کردی تو اللہ نے بھی انہیں بھلادیا اور ان ہی کے حوالے کردیا جن کی بندگی و اطاعت کا وہ دم بھر نے لگے کہ جیسا وہ چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں:

    ﴿وما أصابک من سیئة فمن نفسک﴾. (النساء:79)
    ”اور جوبھی مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیر ے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے “۔

    ﴿ان اللہ لا یظلم الناس شیئا و لکن الناس انفسھم یظلمون﴾․ (یونس :44)
    ”حقیقت یہ کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا لو گ خو د اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں “۔

    اور ان کی یہ حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک کہ اس کے بدلنے کے لیے خود کو نہ بدلا جائے :

    ﴿ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسھم﴾․ (الرعد :11)
    ”بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی ۔“

    اغیار کا ظلم ،دشمنان اسلام کی مذموم سازشیں،کفار ومشرکین کی مخالفتیں یقیناً مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب ہیں، لیکن اس سے قطع نظر یہ بات بھی برحق ہے کہ انابت الی اللہ اور اللہ رب العزت اور اس کے احکامات کی پاس داری کا جتنا لحاظ ہونا چاہیے وہ نہیں ہے ،اس کی طرف توجہ اور اس سے رجوع ہماری تمام تر مشکلات کا خاتمہ کرسکتی ہے اور اس کی عملی شہادتیں بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
     
  2. انسان
    آف لائن

    انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جولائی 2009
    پیغامات:
    98
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: آزادیِ نسواں! دام ہم رنگ زمیں

    مجیب منصور صاحب نے بہت اچھا لکھا ہے۔


    شروع میں جب عام مسلمانوں کا نصب العین خو ف خدا ،آخرت طلبی ، شرافت و دیانت اور حق وانصاف کی علَم برداری تھا ،وہ نظام حق کے متبع اور اسلام کے چلتے پھرتے نمونے تھے اور شریعت کو اور اس کے احکام کی پا بندی کو عزیز رکھتے تھے تو جہاں کہیں بھی گئے اور جس جگہ بھی رہے وہاں نہ صرف انہوں نے اپنے اخلاقی اور شرعی اثرات لوگوں پر مرتسم کیے بل کہ بیش از بیش لوگ ان کے ہاتھوں اسلام قبول کرتے چلے گئے ،اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں ہی جانب کے لوگ با لعموم ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف ہوتے تھے اورکہاں اب حال یہ کہ یہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں ،زندگی کے جملہ امور ومعاملات میں، خواہ وہ تہذیبی ہو ں کہ ثقافتی ،سیاسی ہو ں کہ معاشی، خانگی ہو ں کہ معاشرتی، دوسرے کے شیطانی اثرات قبول کرتے چلے جاتے ہیں اور شریعت اوردین حق کی قطعی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انہیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔

    جب مسلمان دین حق سے منحرف ہوگئے ،اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشن ہدایات و تعلیمات ۡقرآن سے چشم پوشی اختیار کرلی ،احکام خداوندی کو یکسر بدل ڈالا، دنیا پرستی ،عیش پسندی ،جھوٹی شان وشو کت او رظلم و زیادتی کے دلدادہ ہو گئے، مختلف قسم کے آپسی اختلافات میں مبتلا ہو گئے ،ایک دوسرے کے خون کو حلال کرلیا ، یہود ونصاری او ردوسری قوموں کی نقالی شروع کردی ،انہیں دوست بنانے اوران کی حمایت کے حصول کے لیے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے شروع کردیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں