1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آتش کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏30 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نہ کر زیادہ بس اب اے فراق جاناں تنگ
    گلے کو کاٹتا ہے اپنے ہو کے انساں تنگ

    طلسم تازہ دکھاتا ہے دہدہ دل کو
    کشادہ چہرے کے اوپر دہان جاناں تنگ

    رہے نہ لالہ و گل سے کوئی جگہ خالی
    بہار باغ سے ہو عرصہ گلستان تنگ

    پنہائی زخموں کی بدھی جو تیغ نے تیری
    خوشی سے ہو گئے پیراہن شہیداں تنگ

    نصیب شانے کے پیدا کرے دل صد چاک
    بغل میں لیں اسے وہ گیسوئے پریشاں تنگ

    وہ دل ہے جس میں تصویر ہو خوش جمالوں کا
    وہ گھر ہے جس کو کہ رکھے ہجوم مہماں تنگ

    نکل کے خائہ زنداں سے میں کدھر جاؤں
    جنوں کے جوش میں ہے وہ جہاں کا میدان تک

    یہ گوش ہی ہیں کہ باتیں زباں کی سنتے ہیں
    نکل گئے ہیں دہن میں سے ہو گے دنداں تنگ

    بہار گل میں جو دل کو ہوائے صحرا ہے
    ہما ہے روح کو قالب سے اپنے زنداں تنگ

    شکار مومن و کافر کا کھیلتا ہے وہ ترک
    کمند زلف سے ہیں ہندو و مسلمان تنگ

    نقاب رخ سے جو دل کو وہ شمع رو الٹے
    یقین ہے کثرت پروانہ سے ہو ایواں تنگ

    بہار گل میں جو میں دھجیا نہ لوں اس کی
    گلا دبانے کو پھانسی سے ہو گریباں تنگ

    خواجہ حیدر علی آت۔شؔ
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    (حیدر علی آتش)

    فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
    خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا

    امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
    نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا

    لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
    زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

    بناوٹ کیفِ مے سے کُھل گئی اُس شوخ کی آتش
    لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
    کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

    کیا کیا الجھتا ہے تیری زلفوں کے تار سے
    بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا

    زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز بکف
    قاعدوں نے راستہ میں لٹایا خزانہ کیا

    اڑتا ہے شوقِ راحت منزل سے اسپ عمر
    مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا

    زینہ صبا کو ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
    بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

    چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
    دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

    صیاد اسیرِ دام رگ گل ہے عندلیب
    دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا

    طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
    ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

    آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
    دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

    ہوتا ہے زر و سن کے جو نا مرد مدعی
    رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

    بے یار ساز گار نہ ہو گا وہ گوش کو
    مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا

    صیاد گل غدار دکھاتا ہے سیرِ باغ
    بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

    ترچھی نظر سے طائرِ دل ہو چکا شکار
    جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا

    بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
    مہماں، سرائے جسم کا ہو گا ردانہ کیا

    یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ نہ دے
    آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    خواجہ حیدر علی آتؔش

    آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
    چہرۂ شاہدِ مقصُود عیاں ہے کہ جو تھا

    عِشقِ گُل میں وہی بُلبُل کا فُغاں ہے کہ جو تھا
    پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا

    عالَمِ حُسن ِخُداداد ِبُتاں ہے کہ جو تھا
    ناز و انداز بَلائے دِل و جاں ہے کہ جو تھا

    راہ میں تیری شب و روز بَسر کرتا ہُوں
    وہی مِیل اور وہی سنگِ نِشاں ہے کہ جو تھا

    روز کرتے ہیں شبِ ہجر کو بیداری میں
    اپنی آنکھوں میں سُبک خوابِ گراں ہے کہ جو تھا

    ایک عالَم میں ہو ہر چند مسیحا مشہوُر
    نامِ بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا

    دولتِ عِشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
    داغِ دل، زخمِ جگر مُہر و نِشاں ہے کہ جو تھا

    ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی
    عارضی حُسن کا عالَم وہ کہاں ہے؟ کہ جو تھا

    جاں کی تسکیں کے لیے حالتِ دل کہتے ہیں
    بے یقینی کا تِری ہم کو گُماں ہے کہ جو تھا

    اثرِ منزلِ مقصوُد نہیں دُنیا میں
    راہ میں قافلۂ ریگ رَواں ہے کہ جو تھا

    دہن اُس رُوئے کتابی میں ہے پر نا پیدا
    اسمِ اعظم وہی قرآں میں نہاں ہے کہ جو تھا

    کعبۂ مدِّ نظر، قبلہ نُما ہے تاحال
    کوُئے جاناں کی طرف دِل نگراں ہے کہ جو تھا

    کوہ و صحرا و گُلِستاں میں پھرا کرتا ہے
    متلاشی وہ تِرا آبِ رَواں ہے کہ جو تھا

    سوزشِ دِل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا !
    عود کے جلنے سے مجمر میں دُھواں ہے کہ جو تھا

    رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سُنتے سُنتے
    شمعِ محِفل صَنَمِ چرب زباں ہے کہ جو تھا

    پائے خُم مَستوں کی ہُو حق کا جو عالَم ہے سَو ہے
    سرِ منبر وہی واعظ کا بیاں ہے، کہ جو تھا

    کون سے دِن نئی قبریں نہیں اِس میں بنتیں
    یہ خرابہ، وہی عبرت کا مکاں ہے، کہ جو تھا

    بے خبرشوق سے میرے نہیں وہ نُورِ نِگاہ
    قاصدِ اشک، شب و روز رَواں ہے کہ جو تھا

    لیلتہ القدر کنایہ نہ شبِ وصل سے ہو؟
    اِس کا افسانہ میانِ رَمَضاں ہے کہ جو تھا

    دِین و دُنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے
    یہ گدا! سائلِ نقدِ دو جہاں ہے کہ جو تھا

    خواجہ حیدر علی آتؔش
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزلِ
    خواجہ حیدرعلی آتش

    ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
    کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام

    حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
    دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام

    ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
    خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام

    دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے یار
    غیرت سے ہوگئے ہیں حَسِیں مُنفعِل تمام

    عشق بُتاں کا روگ نہ اے دِل لگا مجھے
    تُھکوا کے خُون کرتا ہے آزارِ سِل تمام

    قُدسی بھی کُشتہ ہیں تِری شمشِیرِ ناز کے
    مارے پڑے ہیں مُتّصِل و مُنفعِل تمام

    دردِ فِراقِ یار سے ، کہتا ہے بند بند !
    اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مُضمحِل تمام

    ساری عدالت اُلفتِ صادِق کی ہے گواہ
    مُہروں سے ہے لِپی ہُوئی اپنی سجِل تمام

    کرتے ہیں غیر یار سے میرا بیانِ حال
    اُلفت سے ہوگئے ہیں موافق مُخِل تمام

    تیرِ نِگاہ ناز کا رہتا ہے سامنا
    چَھلنی ہُوا ہے سِینہ، مُشبّک ہے دِل تمام

    ہوتا ہے پردہ فاش، کلامِ دروغ کا
    وعدے کا دِن سمجھ لے وہ، پیماں گسِل، تمام

    خلوت میں ساتھ یار کے جانا نہ تھا تمھیں
    اربابِ انجُمن ہُوئے آتش خجِل تمام

    خواجہ حیدرعلی آتش
     
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
    یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتا ب آیا

    ان انکھڑیوں میں اگر نشئہ شرکاب آیا
    سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا

    اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
    جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا

    کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
    حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا

    شبِ فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
    جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا


    خواجہ حیدرعلی آتش
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا

    بے اجل واں ایک دو ہر رات مر جاتا رہا

    کوئے جاناں میں بھی اب اس کا پتہ ملتا نہیں

    دل مرا گھبرا کے کیا جانے کدھر جاتا رہا

    جانب کہسار جا نکلا جو میں تو کوہ کن

    اپنا تیشہ میرے سر سے مار کر جاتا رہا

    نے کشش معشوق میں پاتا ہوں نے عاشق میں جذب

    کیا بلا آئی محبت کا اثر جاتا رہا

    واہ رے اندھیر بہر روشنیٔ شہر مصر

    دیدۂ یعقوب سے نور نظر جاتا رہا

    نشہ ہی میں یا الٰہی میکشوں کو موت دے

    کیا گہر کی قدر جب آب گہر جاتا رہا

    اک نہ اک مونس کی فرقت کا فلک نے غم دیا

    درد دل پیدا ہوا درد جگر جاتا رہا

    حسن کھو کر آشنا ہم سے ہوا وہ نونہال

    پہنچے تب زیر شجر ہم جب ثمر جاتا رہا

    رنج دنیا سے فراغ ایذا دہندوں کو نہیں

    کب تپ شیرا اتری کس دن درد سر جاتا رہا

    فاتحہ پڑھنے کو آئے قبر آتشؔ پر نہ یار

    دو ہی دن میں پاس الفت اس قدر جاتا رہا
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا

    قمری کا طوق سرو کی گردن میں پڑ گیا

    چیں بر جبیں نہ اے بت چین رہ غرور سے

    تصویر کا ہے عیب جو چہرہ بگڑ گیا

    آئی تو ہے پسند اسے چال یار کی

    سن لیجو پاؤں کبک دری کا اکھڑ گیا

    پیچھے ہٹا نہ کوچۂ قاتل سے اپنا پاؤں

    سر سے تڑپ کے چار قدم آگے دھڑ گیا

    کھینچی جو میری طرح سے قمری نے آہ سرد

    جاڑے کے مارے سرو چمن میں اکڑ گیا

    شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہ کن

    شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون لڑ گیا

    اللہ رے شوق اپنی جبیں کو خبر نہیں

    اس بت کے آستانہ کا پتھر رگڑ گیا

    درماں سے اور درد ہمارا ہوا دو چند

    مرہم سے داغ سینہ میں ناسور پڑ گیا

    گلدستہ بن کے رونق بزم شہاں ہوا

    کوڑا جو اس فقیر کے تکیے سے جھڑ گیا

    نکلا نہ جسم سے دل نالاں شریک روح

    منزل میں رنگ ناقہ سے اپنے بچھڑ گیا

    پہنچا مجاز سے جو حقیقت کی کنہ کو

    یہ جان لے کہ راستے میں پھیر پڑ گیا

    فرقت کی شب میں زیست نے اپنی وفا نہ کی

    قبل سحر چراغ ہمارا نہ بڑھ گیا

    پاتا ہوں شوق وصل میں احباب کی کمی

    حسن و جمال یار میں کچھ فرق پڑ گیا

    لاشوں کو عاشقوں کے نہ اٹھو گلی سے یار

    بسنے کا پھر یہ گاؤں نہیں جب اجڑ گیا

    دیکھا تجھے جو خون شہیداں سے سرخ پوش

    ترک فلک زمیں میں خجالت سے گڑ گیا

    برسوں کی راہ آ کے عزیزاں نکل گئے

    افسوس کارواں سے میں اپنے بچھڑ گیا

    آیا جو شرح لعل لب یار کا خیال

    جھنڈا قلم کا اپنے بدخشاں میں گڑ گیا

    میں نے لیا بغل میں پری رو وصال کو

    دیو فراق کشتی میں مجھ سے بچھڑ گیا

    آتشؔ نہ پوچھ حال تو مجھ درد مند کا

    سینہ میں داغ داغ میں ناسور پڑ گیا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں