1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آؤ مل کر نظام بدلیں۔ نظام بدل کر سماج بدلیں۔ ڈاکٹرمجاہد منصوری

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏2 مارچ 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آئو مل کر نظام بدلیں، نظام بدل کر سماج بدلیں ...
    ۔ڈاکٹر مجاہد منصوری
    [​IMG]

    23-18-16اور 25فروری کے میرے کالم ’’آئین نو‘‘ میں زوال کی سی کیفیت اختیار کئے گئے جاری قومی بحران کا تجزیہ کرتے ہوئے خاکسار نے اپنا یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ ’’ہمارے تمام سنگین مسائل کا تعلق مالی وسائل سے نہیں ‘‘ بلکہ ’’بیمار سماجی رویے ‘‘ کو اس کا بڑا سبب بتایا گیا ۔واضح کیا گیا کہ اس پختہ منفی رویے میں مطلوب تبدیلی برپا کرنا وقت کا فوری اور اہم ترین تقاضا ہے ۔ قومی مرض کا حل یہ پیش کیا گیا کہ یہ ایک مخصوص اور منظم ابلاغی معاونت سے ہی ممکن ہے ۔ 25فروری کے ’’آئین نو‘‘ بعنوان’’ قومی زوال اور اس کا ابلاغی حل ‘‘ میں ابلاغی معاونت کے مجوزہ قومی نظام پر بات شروع کی گئی ۔اس سے پیشتر کہ اس کی مزید وضاحت کرکے جاری سلسلہ ختم کیا جائے، درج ذیل پہرے میں قارئین کرام کی سہولت کے لئے چاروں شائع شدہ ’’آئین نو‘‘ کا خلاصہ پیش خدمت ہے ،خصوصاً ان قارئین کی خدمت میں جو متذکرہ کالم نہ پڑھ سکے۔
    ’’عوام کو جملہ مصائب میں جکڑے گھمبیر مسائل کی جڑ پاکستانی قوم کا ’’بیمار سماجی رویہ ‘‘ ہے ۔ اس کے دو بڑے اجزائے ترکیبی (COMPONENTS)ہیں ۔ ایک غالب حکمران طبقے کا رویہ جسے اختیار کرکے حکمرانی کی مطلوب صلاحیت سے محروم ہمارا حکمران طبقہ، موروثی سیاست برادری اور جاگیر کی طاقت ، علاقہ و زبان کے امتیاز، ناجائز دولت حتیٰ کہ مسلک اور عقیدے کو بطور سیاسی حربے کے استعمال کرکے اقتدار اور عوامی نمائندگی کا حق حاصل کرنے کو زندگی کا مطمح نظر بنائے ہوئے ہے۔ اس دائرے سے باہر کسی نارمل لائف اسٹائل میں اب ان کے لئے زندگی گزارنا محال ہے ۔ حکمران طبقے کی کرپشن، اقربا پروری، انتظامی اختیارات کا غلط استعمال ،خودقانون کی پیروی سے گریز اور عوام پر اطلاق، جمہوریت کو جزوی طور پر اختیار کرنا اور خلاف آئین انتخابات کے انعقاد کے رویے، اسی لائف اسٹائل کی پیداوار ہیں۔ طبقہ حکمران کو ناجائز مفادات سے نوازنے والا یہ عوام دشمن سیاسی کلچر ان (عوام) کے لئے مسلسل اذیتیں پیدا کرنے کا سامان مسلسل ہے ۔ ’’بیمار سماجی رویے‘‘ کا دوسرا جزو خود مظلوم عوام کا اپنا رویہ ہے کہ انہوں نے بآسانی اپنے استحصال کی اس صورت کو برداشت کیا ہوا ہے اور وہ اپنی بہتری کی توقع اسی طبقے سے کرتے ہیں جو ان کی مشکلات کا باعث (اسٹیٹس کو میں ڈوبا حکمران طبقہ ) ہے وہ اسی کے رحم وکرم کے لئے طویل انتظار کے مسلسل متحمل ہیں ۔ ہر دو (حکمران طبقے اور عوام ) کے رویوں میں تبدیلی مالی وسائل کی متقاضی نہیں بلکہ عوام کے مالی مسائل کو محدود کرنے والے حکمران طبقے کے خود غرضانہ رویے کی تبدیلی اور مالی وسائل میں وسعت پیدا کرنے والے رویے برپا کرنا، مخصوص نوعیت کی اس ابلاغی معاونت سے ممکن ہو گا جو حکمرانوں کے خودغرضانہ رویے کے خلاف رائے عامہ کی طاقت پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو ۔ ابلاغ عامہ کا عمل تو پورے ملک میں زور شور سے جاری ہے لیکن یہ ہمارے بیمار رویے میں تبدیلی کے عظیم مقصد سے خالی ہے ۔ ابلاغی اداروں کو اپنے مفادات عزیز ہیں، پھر طاقتور طبقات کے اور اپنی آزادی غیر جانبداری اور پیشے کے بھرم کے لئے کچھ عوام کے بھی، گویا یہ ذرائع ابلاغ مکمل عدم توازن کا شکار ہیں ۔ کچھ عرصے سے میڈیا حکمران طبقے کے عوام دشمن رویوں کی نشاندہی کا فریضہ تو انجام دے رہا ہے تاہم اس رویے میں تبدیلی اس کی صلاحیت ابھی محدود ہے ۔ اس کی مختلف فنی وجوہات ہیں۔ سو، ایک جاندار، موثر، قابل مزاحمت ملک گیر اور نتیجہ خیر ابلاغی معاونت کا نظام مطلوب ہے، جو غالب مین اسٹریم روایتی میڈیا کی رویہ تبدیل کردینے والی گنجائش میں بھی اضافہ کرے گا۔
    یہ National Communication Support Systemکیا ہے ؟اس کی عملی شکل کیا ہو گی؟ پہلے بھی واضح کیا جا چکا ہے کہ اس کے دو بڑے اجزائے ترکیبی ہیں ۔ ایک ملک میں جاری وساری سرگرم آزاد ماس میڈیا دوسرا نظام تعلیم، جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے ’’درس و تدریس ‘‘ بنیادی طور پر اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابلاغی سرگرمی ہے ۔میڈیا کا محدود مقصد تعلیم عامہ ہے جبکہ فارمل اسکولنگ مخصوص نالج کے حصول اور اس کے اطلاق، شخصیت سازی اور رویوں کو بہتر انسانی زندگی کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کا منظم ذریعہ، مجوزہ ابلاغی نظام کی تیسری جہد اب ’’سوشل میڈیا ‘‘ کے طور پر ظہور پذیر ہے ،جس نے اب ایک عام شہری کو ابلاغ عامہ کے پیشہ ورانہ ادارے سے وابستہ ہوئے بغیر ’’شہری صحافی ‘‘ (Citizen Journalism)کا تصور پیش کیا ہے ۔جسے اختیار کرکے سول سوسائٹی کا ایک عام رکن وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو صحافی پیشے کی پریکٹس کرتے ہوئے انجام دیتا ہے ۔ وہ اپنا ویب ریڈیو اور ٹی وی بھی قائم کرسکتا ہے ۔ حالات حاضرہ پر ناصرف اظہار خیال کرسکتا ہے بلکہ دنیا بھر کے صاحبان رائے سے شیئر کر سکتا ہے ۔ خود نیوز بریک اور بلاگ پر کالم اور اپنے تجزیے ڈسپلے کر سکتا ہے پبلک انٹرسٹ کی وہ خبریں جو بوجوہ میڈیا دینے سے ہچکچاتا ہے انہیں سٹیزن جرنلسٹ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لاکر ہلچل مچا سکتا ہے۔آنے والے وقت میں سوشل میڈیا کی ادارہ سازی اور Professionalization تیزی سے طاقتور رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریگی۔ ان تینوں اجزائے ترکیبی کے علاوہ بھی کتنی ہی شکلیں اور ابلاغی طریقے مطلوب کمیونی کیشن سپورٹ سسٹم کے اجزائے ترکیبی ہوں گے جو عوامی رویوں کی تشکیل نو میں اہم کردار کریں گے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظام تشکیل کون دے گا ؟ روایتی حکمران طبقہ تو کبھی اس طرف نہیں آئے گا کہ یہ اس کے مفادات سے براہ راست اور شدت سے متصادم ہے۔ میڈیا کی آزادی کا حساس پہلو اور میڈیا کا تبدیلی برپا کرنے کے لئے اپنا اعتماد اور طنطنہ بھی جاری روایتی میڈیا کی یہ کپیسٹی بنانے میں رکاوٹ ہے ۔ لیکن بالاخر میڈیا کو ٹیکنالوجی کے معجزاتی نتائج کے پیش نظر اپنے کردار میں وسعت کا شعور اور علم دونوں بڑھانے ہی ہوں گے یہ اس کی اپنی اہمیت اور سوشل میڈیا کے مقابل بقاء کا معاملہ ہے ۔ سوشل میڈیا کی ادارہ سازی اور پیشہ واریت مین سٹریم روایتی میڈیا کو اس پر مجبور کریگی ،لیکن اس کا انتظار کئے بغیر مجوزہ ابلاغی نظام کی تشکیل کے لئے خود عوام خصوصاً باشعور طبقات ،سیاسی دانشور، تبدیلی کے علمبردار صحافی ، ماہرین تعلیم ،یونیورسٹیاں، بلدیاتی ادارے اور قومی سوچ و اپروچ کی حامل این جی اوز اس قومی ضرورت کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
    حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقے کے متذکرے عوام دشمن رویے اور اس کے مقابل خود عوام کے دولاشاہی رویے میں تبدیلی پوری قوم (بشمول حکمران طبقے ) کو آئین و قانون کے ڈسپلن میں لانے، بنیادی اخلاقیات پر کاربند ہونے، حقیقی جمہوریت اور ا حتساب کو نظام ریاست میں مضبوط اور نتیجہ خیز بنانے کےلئے حکومت کی کسی معاونت کے بغیر تبدیلی کے علمبردار سیاسی دانشور، صحافی، ماہرین ابلاغیات و تعلیم سول سوسائٹی کے تعاون سے شدت سے مطلوب ابلاغی معاونت کا وہ نظام قائم کر سکتے ہیں جس کا آغاز قومی رویوں میں تبدیلی کے ایک بڑے عوامی قومی ادارے کی تشکیل سے ہو گا، جس کی پہلی پراڈکٹ یہ مجوزہ نظام ہی ہوگا ۔آئو مل کر نظام بدلیں، نظام بدل کر سماج بدلیں

    بشکریہ جنگ ادارتی صفحہ
     
    Last edited: ‏2 مارچ 2014
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں