1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ª!ªترتیب قرآن ª!ª

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از آبی ٹوکول, ‏22 اگست 2008۔

  1. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    [highlight=#FFFF40:17kknpu8]
    ترتیب قرآن​
    [/highlight:17kknpu8]


    یہ تو واضح ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں اور سورتوں کی آیات کی موجودہ ترتیب وہ نہیں جس ترتیب سے ان کا نزول ہوا تھا ، پھر اس موجودہ ترتیب کا ماخذ کیا ہے ؟ اور کس نے یہ ترتیب دی ہے ؟ اکثر عیسائی مستشرقین نے اس پر بڑی لے دے کی ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے بڑے جتن کیے ہیں کہ موجودہ ترتیب زمانہ نبوت میں نہیں دی گئی بلکہ اس کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین



    نے اس کو یوں مرتّب کیا آئیے حقائق کی روشنی میں ان کے اس مفروضہ کا جائزہ لیں ۔

    ہمارا یہ دعوٰی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق قرآن کی سورتوں اور سورتوں کی آیتوں کو مرتّب فرمایا اور یہ موجودہ ترتیب وہی ترتیب ہے ، اس کے لیے متعدّد دلائل ہیں جن میں سے چند ایک اپنے دعوٰی کے اثبات کے لیے ہدیہ ناظرین ہیں :-


    اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ان علینا جمعہ وقرآنہ ہ فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ ( 75: 17،18) یعنی قرآن کو جمع کرنا اور اسے پڑھنا ہمارے ذمّہ ہے اور جب ہم پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں ، اب آپ سوچیں کہ کیا ترتیب کے بغیر جمع قرآن کا تصوّر کیا جاسکتا ہے ، کیا کسی مخصوص ترتیب کے بغیر اس کی تلاوت ممکن ہے ؟ جب جمع کرنے اور پڑھنے کے لئے اس کا مرتب ہونا ضروری ہے تو معلوم ہوا کہ جس ذات پاک کے ذمہ اس کا جمع کرنا اور پڑھنا ہے اسی نے اس کو مرتّب فرمایا ہے ۔

    تاریخی لحاظ سے آپ سوچئے عہد رسالت صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں صحابہ کرام کو قرآن کریم یاد تھا ، بعض کو کچھ سورتیں اور بعض کو سارا قرآن صحابہ کرام نماز میں اور اس کے باہر اس کی تلاوت کیا کرتے ، حضور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خود بھی نماز تہجّد میں دوسری نمازوں میں ، عام خطبات میں کثرت سے قرآن کریم کی قرآءت فرماتے اور حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآءت وترتیب اور صحابہ کی قرآت وترتیب میں قطعاً سرمُو فرق نہیں ہوا کرتا تھا ۔ یہ وہ امور ہیں جن سے کوئی بھی انکار کرنے کی جرآت نہیں کرسکتا ، اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اگر نبی کریم علیہ الصلواۃ والتسلیم نے اسے حکم الہٰی سے مرتّب نہیں فرمادیا تھا تو صحابہ کیسے اس کو حفظ کرسکتے تھے ، کیسے اس کی تلاوت ان کے لئے ممکن تھی ، اور اگر حضور کی مقررہ ترتیب نہیں تھی تو ہر ایک کی قرآت دوسرے سے مختلف ہونی چاہئے تھی حالانکہ ایسا نہیں تھا ، تو ثابت ہوا کہ قرآن کریم عہد رسالت میں مکمل طور پر مرتّب فرمادیا گیا تھا اور تمام صحابہ اسی کی پیروی اور پابندی کیا کرتے تھے ، اس لئے عیسائی متعصّبین کا یہ شور و غوغا قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتا





    [tab=30:17kknpu8][highlight=#FFFFFF:17kknpu8]
    ضیاء القران ،



    وللہ الحجۃ البالغہ۔​
    [/highlight:17kknpu8]
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جزاک اللہ ۔ ابی صاحب
    علاوہ ازیں آقائے کریم :saw: نے اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں (غالباً رمضان المبارک میں) حضرت جبرائیل :as: کے ساتھ ختم القرآن بھی کیا تھا۔ یعنی پورے کا پورا قرآن مجید ایک دفعہ حضرت جبرائیل :as: نے آپ :saw: کو سنایا پھر آپ :saw: نے یہی عمل حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سامنے دہرایا۔
     
  3. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    قرآن کریم 23 سال تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحاق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ اس میں ایک روایت ہے ”جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئی عبارت نازل ہوتی تو آپ سب پہلے اسے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے۔”

    ابتدائی زمانے ہی سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہ قرآن کو حفظ کر کے نمازوں میں اس کی قرات کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ اپنے صحابہ میں سے لکھے پڑھے صحابی کو یاد فرماتے اور اسے وہ آیت یا آیات املا کرواتے تھے۔ اس کے بعد املا شدہ عبارت کو آپ خود سنتے اور اس کی اصلاح اور تصدیق فرماتے۔

    یہ ایک ایسی بات ہے جو پہلے کے انبیاء میں نظر نہیں آتی۔ قرآن پاک کی تعلیم کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک تھا کہ مستند استاد سے اس کی تعلیم حاصل کی جائے۔ بعد میں جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو آپ نے چند صحابہ کرام کو اجازت عطا فرمائی کہ وہ قرآن کی تعلیم دیا کریں۔

    قرآن کریم ابتدا ہی سے تحریری صورت میں لکھا جاتا رہا اور اس کی ترتیب و تدوین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہے۔ قرآن کریم کے تحریری صورت میں ملنے کا ثبوت نبوت کے پانچویں سال کے اس واقعہ سے بھی ملتا ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں جس کی آواز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہر سے سنی تھی اور آپ رضی اللہ عنہ کے مطالبے پر آپ رضی اللہ عنہ کی بہن نے آپ کو وہ تحریری آیات دکھائی تھیں۔

    بیت عقبہ ثانیہ یا اس کے قریب کا واقعہ ہے کہ مدینے کے کچھ لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کو اس وقت تک کی نازل شدہ صورتوں کا ایک تحریری مجموعہ عطا فرمایا تھا۔ یہ صحابی مدینہ منورہ جا کر اپنے قبیلے کی مسجد میں اس نسخے میں سے بلند آواز سے تلاوت فرماتے تھے۔

    قرآن کریم کے تحریری صورت میں موجود ہونے کی یہ دو قدیم روایات ہیں۔ اس کے بعد بھی مسلسل 23 سال کے عرصے میں نزول کے ساتھ ساتھ قرآن پاک لکھا جاتا رہا۔ ہر سال رمضان کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی۔ اس وقت تک جتنا بھی قرآن نازل ہو چکا ہوتا تھا اس کی تلاوت سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح فرماتے تھے۔ جس صحابی کے پاس بھی تحریری نسخہ ہوتا تھا وہ ساتھ لاتے اور اس کی اصلاح یا صحت کی تصدیق کرواتے تھے۔

    قرآن مجید کی تکمیل کے بعد آخری سال وفات سے چند ماہ قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے ماہ مبارک میں دو مرتبہ قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور اس وقت تک موجود تحریری قرآن کی اصلاح یا تصدیق فرمائی۔
     
  4. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  5. مانوس اجنبی
    آف لائن

    مانوس اجنبی ممبر

    شمولیت:
    ‏4 اگست 2008
    پیغامات:
    117
    موصول پسندیدگیاں:
    0

اس صفحے کو مشتہر کریں