تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرا نہیں ملتا زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے مگر میرے لیے اس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا مسافت میں دعائے ابر ان کا ساتھ دیتی ہے جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا ٕ جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے اُسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملت
اس کا انداز زمانے سے جدا لگتا ہے وہ کسی اور کا ہو کے کیوں میرا لگتا ہے جس کی تمنا میں ہوا یہ بدن کرچیاں بکھرتا مجھے دیکھ کر کتنا کھلا لگتا ہے اُس کے بنا کچھ بھی نہیں اس بے درد زمانے میں ہر پل میری یہ مجبوری مجھکو یاد دلانے لگتا ہے پیار کرے بھی تو ظاہر ہونے نہیں دیتا اسی ادا پر وہ تو اپنا اپنا لگتا ہے اتنا مانو س ہوا ہوں محبت کے سفر میں ساتھ سایہ بھی اپنے اُلجھااُلجھا لگتا ہے زندگی بھر جس کو مسیحا جانا فاروق وہ کسی اور کا مقروض وفا لگتا ہے