1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏7 اکتوبر 2020۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    تورات میں دی گئی ان دونوں خوشخبریوں یعنی ہاحرہ {ع} اور حضرت ابراہیم {ع} کو جو دی گئیں ، ان پر اہل علم اسلامی روایات پر کہتے ہیں کہ پہلی خوشخبری صادق آتی ہے محمد {ص} پر اس لئے کہ عرب آپ {ص} کی وجہ سے لوگوں کے سردار بنے ، مشرق و مغرب تمام ملکوں کے مالک ہوئے ۔ اور اللہ نے ان کو وہ علم نافع اور عمل صالح عطا فرمایا جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دیا گیا تھا ۔ اور عرب کو یہ شرف نبی پاک {ص} کے تمام رسولوں پر اشرف ہونے سے ملا ۔ آپ {ص} کی رسالت کی برکت اور آپ {ص} کی بشارت کی برکت ، آپ {ص} کی کامل رسالت اور تمام اہل ارض کے لیے آپ کی بعثت کی وجہ سے یہ شرف امت محمدیہ اور عرب کو حاصل ہوا ۔
    دوسری خوشخبری بھی امت محمدیہ کے ساتھ پوری ہوتی ہے اور یہ بارہ عظیم افراد بارہ خلفاء راشدین ہیں جن کی بشارت عبدالملک بن عمیر راوی کی حدیث میں مذکور ہے کہ وہ حضرت جابر بن سمرہ {رض} سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ص} نے فرمایا " بارہ امیر ہوں گے " پھر آپ {ص} نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی ، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ {ص} نے یہ فرمایا کہ " وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے ۔ "
    اور جابر {رض} کی دوسری روایت میں ہے اسلام بارہ خلفاء تک غالب رہے گا ، سب کے سب قریش کے ہوں گے ۔ ان ہی کی دوسری روایت ہے ، بلاشبہ یہ دین غالب و مضبوط رہے گا بارہ خلفاء تک ، وہ سب کے سب قریش کے ہوں گے ۔
    واللہ اعلم
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ہاجرہ {ع} کے یہاں جب اسماعیل {ع} پیدا ہوئے تو اس سے سارہ {ع} کو سخت غیرت آئی ۔ تو پھر انہوں نے حضرت ابراہیم {ع} کو کہا کہ ہاجرہ کومجھ سے کہیں دور لے جاؤ ۔ تو پھر ہاجرہ {ع} اور اسماعیل {ع} کو ابراہیم {ع} لے گئے اور چلے حتی کہ ان کو اس جگہ اتار دیا جہاں آج مکہ شہر آباد ہے ۔ اسماعیل {ع} اس وقت ایک شیرخوار بچے تھے ۔ جب ابراہیم {ع} ان دونوں کو وہاں چھوڑ کر پلٹنے لگے تو ہاجرہ {ع} ان سے چمٹ گئیں اور عرض کیا " اے ابراہیم آپ ہمیں یہاں تنہا چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں ؟ ، جبکہ ہمارے پاس کوئی سامان بھی نہیں جس سے ہم گزر بسر کرسکیں
    حضرت ابراہیم {ع} خاموش رہے
    ہاجرہ {ع} نے اصرار و اضطراب کے ساتھ دوبارہ اپنا سوال دہرایا اور حضرت ابراہیم {ع} نے پھر کوئی جواب نہ دیا
    ہاجرہ {ع} بولیں " کیا اللہ نے اس کا حکم فرمایا ہے ؟ "
    حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا " ہاں "
    پھر ہاجرہ {ع} نے بھی کہا " پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا "
    ابن عباس {رض} نے بیان کیا ، عورتوں میں کمر بند باندھنے کا رواج اسماعیل {ع} کی والدہ سے چلا ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر بند اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ {ع} ان کا سراغ نہ پائیں پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم {ع} ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے ۔ مسجد کی بلند جانب میں ۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا ۔ ابراہیم نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا ۔ پھر ابراہیم روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں ، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟
    انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے ۔ آخر ہاجرہ نے پوچھا کیا اللہ تعالی نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا
    ابراہیم {ع} نے فرمایا کہ ہاں ۔
    اس پر ہاجرہ {ع} بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالی ہماری حفاظت کرے گا ، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم روانہ ہو گئے ۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا ، جہاں اب کعبہ ہے ، پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ۔
    قرآن میں آتا ہے " اے رب ہمارے ! میں نے اپنی کچھ اولاد ایسے میدان میں بسائی ہے جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت والے گھر کے پاس ، اے رب ہمارے ! تاکہ نماز کو قائم رکھیں پھر کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں میووں کی روزی دے تاکہ وہ شکر کریں { سورۃ ابراہیم 37 }"
    ادھر اسماعیل {ع} کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے ۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا پیچ و تاب کھا رہا ہے یا زمین پر لوٹ رہا ہے ۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بےچین ہوتا تھا ۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی ۔ وہ اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا ، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا " صفا اور مروہ کے درمیان لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا ۔ "
    جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی ، انہوں نے کہا " خاموش ! " یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے ۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں آب زمزم ہے ، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے ۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا ، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے ، جس سے وہاں پانی ابل آیا ۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں ۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا ۔
    ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : اللہ ! ام اسماعیل پر رحم کرے ، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ {ص} نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا ۔
    ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا کہ پھر ہاجرہ {ع} نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا ۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ " اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا ، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا " اب جہاں بیت اللہ ہے ، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی ۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا ۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا کہ اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا ۔ انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے ، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے ۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی ۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل {ع} کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی ۔ ہاجرہ {ع} نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا ۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا ۔
    ابن عباس{رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے ۔
    انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی ۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے ۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی ۔
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابن عباس {رض} آگے کہتے ہیں جوانی میں اسماعیل {ع} ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے ۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی ۔ اس عرصے میں ہاجرہ {ع} بھی عظیم قربانیاں دے کر اپنے پروردگار کے پاس چلی گئیں ۔ اسماعیل کی شادی کے بعد ابراہیم {ع} یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔ اسماعیل گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے ، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ ابراہیم نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ پھر جب اسماعیل واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا ، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، میں نے انہیں بتایا پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے ۔ اسماعیل نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اسماعیل نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں ، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی ۔ جب تک اللہ تعالی کو منظور رہا ، ابراہیم ان کے یہاں نہیں آئے ۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل اپنے گھر پر موجود نہیں تھے ۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ ابراہیم نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے ؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے ، بڑی فراخی ہے ، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی ۔ ابراہیم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت ! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو ؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم نے ان کے لیے دعا کی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما ۔
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    نبی کریم {ص} نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا ۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا ۔
    ابراہیم {ع} نے اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل {ع} تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے ۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا اور میں نے بتا دیا ، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں ۔ اسماعیل نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے ، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالی کو منظور رہا ، کے بعد ابراہیم ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زم زم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں اپنے تیر بنا رہے ہیں ۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گئے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا ۔
     
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    پھر ابراہیم {ع} نے فرمایا ، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے ۔ اسماعیل {ع} نے عرض کیا ، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں ۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف ! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی ۔ اسماعیل پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم تعمیر کرتے جاتے تھے ۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ خاص پتھر لائے اور ابراہیم کے لیے اسے رکھ دیا ۔ اب ابراہیم اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے ۔ اسماعیل پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے ۔ ہمارے رب ! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
    قرآن میں آتا ہے " اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے { سورۃ البقرۃ 127 } " ۔۔۔
    تو یہ مذکورہ طویل حدیث حضرت ابن عباس {رض} کا بیان ہے جو صحيح البخاری میں موجود ہے ، اس کے بعض حصے رسول اللہ {ص} سے بھی منسوب ہیں اور بعض حصوں میں غرابت ہے ۔ اس روایت کی بعض باتوں کی بنا پر لگتا ہے کہ حضرت ابن عباس {رض} کو یہ روایت اسرائیلیات سے ملی ہیں
    واللہ اعلم
     
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    مذکورہ روایت میں کئی باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے ہاجرہ {ع} اور اپنے لخت جگر کو وادی بیابان میں چھوڑنے کے بعد صرف تین چکر لگائے اور ان میں پہلی مرتبہ جب تشریف لائے تو ہاجرہ {ع} کی وفات اور اسماعیل {ع} کی پہلی شادی ہوچکی تھی تو یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ ابراہیم {ع} نے اپنے بچے کو بچپن سے شادی تک کیسے چھوڑا ؟ کہ ان کے حالات کی بھی خبر نہ لی ۔ جبکہ کتابوں میں آیا ہے کہ ابراہیم {ع} کے لیے زمین کو لپیٹ دیا گیا تھا ۔ اور یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ جب وہ ان کی طرف جاتے تو براق پر سوار ہوکر تشریف لے جاتے تھے ۔ دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ اس میں اللہ کی راہ میں اسماعیل {ع} کے ذبح ہونے کا ذکر نہیں اور بنی اسرائیل کے یہاں اسماعیل {ع} کے بجائے اسحاق {ع} کو اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والا سمجھا جاتا ہے ، اس لئے ان باتوں کی بنیاد پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس {رض} کی مذکورہ روایت اسرائیلیات میں سے لی گئی ہے اور کچھ کچھ باتیں احادیث صحیح مرفوعہ میں سے ملائی گئی ہے ۔ اس لئے اس اسرائیلی روایت میں قصہ ذبیح موجود نہیں ہے
    واللہ اعلم
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن کی سورۃ الصافات میں اللہ فرماتا ہے :
    اور کہا میں نے اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے راہ بتائے گا ۔ ( 99 )
    اے میرے رب ! مجھے ایک صالح عطا کر ( 100 )
    پس ہم نے اسے ایک لڑکے حلم والے کی خوشخبری دی ۔ ( 101 )
    پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے ! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے ، کہا اے ابا ! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے ، آپ مجھے ان شا اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ ( 102 )
    پس جب دونوں نے تسلیم کر لیا اور اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا ۔ ( 103 )
    اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم ! ۔ ( 104 )
    تو نے خواب سچا کر دکھایا ، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ ( 105 )
    البتہ یہ صریح آزمائش ہے ۔ ( 106 )
    اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا ۔ ( 107 )
    اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی ۔ ( 108 )
    ابراہیم پر سلام ہو ۔ ( 109 )
    اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ ( 110 )
    بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے ۔ ( 111 )
    اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی نیک لوگوں میں سے ہوگا ۔ ( 112 )
    اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں ، اور ان کی اولاد میں سے کوئی نیک بھی ہیں اور کوئی اپنے آپ پر کھلم کھلا ظلم کرنے والے ہیں ۔ ( 113 )
    اللہ اپنے دوست حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں فرماتا ہے جب انہوں نے اپنے علاقے کو خیرباد کہا اور اپنے پروردگار کے حضور التجاء کی کہ اسے کوئی صالح اولاد عدا فرما دے ۔ تو اللہ نے خوشخبری سنائی کہ ان کے یہاں ایک بردبار لڑکا جنم لے گا ۔
    وہ حضرت اسماعیل {ع} ہیں کیونکہ ابراہیم {ع} کی پہلی اولاد وہ ہی ہیں ۔ اس وقت ابراہیم {ع} کی عمر تقریبا چھیاسی سال تھی ۔ اور اس بات میں کسی مذہب والے کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اسماعیل {ع} ابراہیم {ع} کی پہلی اولاد ہیں
     
  11. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    فَلَمَّا بَلَـغَ مَعَهُ السَّعْىَ ( 102 ) کی تفسیر مجاہد {رح} نے یوں فرمائی ہے کہ جب اسماعیل جوان ہوگئے اور اتنی طاقت و قوت کے حامل ہوگئے کہ اپنے والد کے ساتھ کام کریں ۔
    جب اسماعیل {ع} اپنی عمر کی اس بہار کو پہنچ گئے تو آپ کے والد ابراہیم {ع} نے خواب میں دیکھا کہ ان کو اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کا حکم ہو رہا ہے
    ابن عباس {رض} سے مرفوع حدیث یوں مروی ہے کہ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں ۔ یہ عبید بن عمیر کا بھی فرمان ہے ۔
    واللہ اعلم
    یہ خواب اللہ کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم {ع} کا امتحان تھا کہ وہ اپنے بیٹے جو ان کو بڑھاپے میں بڑی دعاؤں سے ملا ان کو ذبح کریں اور اس سے پہلے وہ عظیم امتحان بھی گزچکا تھا جب وہ اپنی بیوی ہاجرہ {ع} اور اسماعیل {ع} کو جنگل بیابان میں تن تنہا چھوڑ آئے تھے ۔ جہاں نہ کوئی کھیتی تھی نہ دودھ دینے والا جانور اور نہ ہی کوئی دل بہلانے والی چیز ۔ بلکہ وہ ایک خشک صحرا تھا ۔ پھر بھی ابراہیم {ع} اللہ کے اس امتحان پر پورا اترے اور دونوں کو اس جگہ محض اللہ کے توکل چھوڑ دیا ۔ پھر اللہ نے بھی وہاں ان دونوں کے لیے کشادگی و فراخی کا راستہ کھول دیا اور ایسی جگہ سے ان کو رزق دیا جہاں ان کا گمان بھی نہ جاسکتا تھا
    الغرض جب پہلی قربانی پوری ہوگئی اور ابراہیم {ع} اس میں پورا اترے تو اللہ تعالی کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم {ع} کو دوسری قربانی یعنی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ملا ، یہ حکم ایسا تھا جو اللہ نے اپنے اس خاص دوست کو دیا تھا ۔ اسماعیل {ع} بھی اس وقت تک اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے ۔ اس کے باوجود ابراہیم {ع} نے حکم خداوندی پر لبیک کہا ۔ اور حکم کی فرمانبرداری میں دوڑ پڑے
     
  12. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی طرف سے مانگی اس قربانی کو اپنے بیٹے کے سامنے رکھتے ہوئے کہا " اے میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ۔ پس تیرا کیا خیال ہے ؟ "
    اسماعیل {ع} نے جواب دیا " اے میرے ابا ! جس کا آپ کو حکم کیا گیا ہے ، آپ کر ڈالئے ۔ انشاءاللہ آپ مجھ کو صابرین میں سے پائیں گے "
    حضرت اسماعیل {ع} کی یہ فرمانبرداری اپنے والد اور اپنے پروردگار کا حکم ماننے کی بہترین مثال ہے ۔
    فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّـهٝ لِلْجَبِيْنِ ( 103 ) کی تفسیر کے دو حصے ہیں
    ایک تو یہ ہے کہ دونوں تابعدار ہوگئے اور اس قربانی کا عزم کرلیا اور دونوں نے سر تسلیم خم کردیا
    دوسرا حصہ میں ہے کہ ابراہیم {ع} نے اسماعیل {ع} کو منہ کے بل لٹا دیا تاکہ گدی کی طرف سے ذبح فرمائیں اور ایسا کرتے وقت اسماعیل {ع} کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور کہیں باپ کی محبت نہ جاگ جائے
    ابن عباس {رض} ، مجاہد {رح} ، سعید بن جبیر {رح} ، قتادہ {رح} اور ضحاک {رح} کا یہی قول ہے
    لیکن دوسرا قول یہ بھی مروی ہے کہ اسماعیل {ع} کو اسی طرح لٹایا تھا جس طرح کے عام قربانی کے جانور کو لٹایا جاتا ہے
    سدی {رح} فرماتے ہیں کہ ابراہیم {ع} نے چھری اسماعیل {ع} کے حلق پر چلائی ۔ لیکن چھری نے کچھ خراش تک نہ لگائی ۔ کہا جاتا ہے کہ چھری اور اسماعیل {ع} کی گردن کے درمیان کانسی کی سطح قائم ہوگئی تھی ۔ واللہ اعلم
    تو ایسے وقت میں اللہ کی طرف سے ابراہیم {ع} کو آواز دی گئی کہ " اے ابراہیم ! بےشک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ، بےشک اسی طرح ہم بھی محسنین کو اچھا بدلہ دیتے ہیں " یعنی تیری فرمانبرداری کا جو امتحان مقصود تھا وہ پورا ہوگیا اور تم اس میں کامیاب ہوئے اور تم نے اس حکم کی اطاعت بہت جلدی کی اور اسی طرح تیرے بیٹے نے بھی بہت ہی عمدہ قربانی پیش کی کہ اپنے جسم و جان کو میری راہ میں ذبح ہونے کے لیے بےدریغ پیش کیا ۔ ۔ ۔ بےشک یہ تجھ پر ایک کھلی اور عظیم آزمائش تھی ۔
     
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} نے تو اپنی طرف سے اپنے بیٹے کی بازی لگا دی لیکن اللہ نے ابراہیم {ع} کو ان کے بیٹے کی قربانی کے بجائے ایک دوسرا جانور عطا فرما دیا ۔ جمہور سے یہ مشہور ہے کہ وہ مینڈھا تھا ۔ جس کا سفید رنگ ، عمدہ آنکھیں اور وہ سینگوں والا تھا ۔ کہتے ہیں ابراہیم {ع} نے اس کو مقام ثبیر میں ببول کے درخت کے ساتھ بندھا دیکھا تھا ۔ واللہ اعلم
    عبداللہ بن عباس {رض} سے مروی ہے کہ اس مینڈھے نے جنت میں چالیس سال چرا تھا
    سعید بن جبیر {رح} فرماتے ہیں کہ وہ جنت میں چرتا تھا ، حتی کہ وہ ثبیر میں آیا اور اس پر سرخی رنگ کا اوون تھا
    ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس {رض} سے مروی ہے وہ مینڈھا کوہ ثبیر سے اتر کر ابراہیم [ع} کی طرف آیا ، وہ عمدہ آنکھوں اور سینگوں والا تھا اور ممیاتا ہوا نیچے اترا اور یہ وہ ہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت ہابیل نے دی تھی اور اللہ نے اسے قبول فرمایا تھا
    مجاہد {رح} فرماتے ہیں ابراہیم {ع} نے اس مینڈھے کو مقام منی میں ذبح فرمایا تھا ۔ جبکہ عبید بن عمیر {رح} مقام ابراہیم پر ذبح کرنا فرماتے ہیں ۔
    حسن {رح} سے مروی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانور ایک پہاڑی بکرا تھا ، جس کا نام جریر تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان سے یہ صحیح مروی نہیں ہے
    واللہ اعلم
     
  14. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    جو یہاں اقوال مذکور ہیں وہ اکثر اسرائیلی روایتوں سے مذکور ہیں ۔ اور قرآنی رو سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہی کافی ہے کہ یہ قربانی ابراہیم {ع} کا عظیم کام تھا اور ایک کٹھن امتحان تھا ۔ پھر ابراہیم {ع} نے اللہ کے فضل سے مینڈھے کی قربانی دی اور حدیث کی رو سے بھی وہ جانور مینڈھا تھا
    مسند احمد میں بنوسلیم کی ایک خاتون جس نے بنوشیبہ کے اکثر بچوں کی پیدائش کے وقت دائی کا کام کیا تھا ، سے مروی ہے کہ نبی {ص} نے عثمان بن طلحہ کو قاصد کے ذریعے بلایا ، یا یہ کہ خود انہوں نے عثمان سے پوچھا کہ نبی {ص} نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی {ص} نے فرمایا میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تھا تو میں نے مینڈھے کے دو سینگ وہاں دیکھے تھے ، میں تمہیں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ انہیں ڈھانپ دو ، لہذا اب جا کر انہیں ڈھانپ دینا کیونکہ بیت اللہ میں کسی ایسی چیز کا ہونا مناسب نہیں ہے جو نماز کو غافل کردے ، راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں سینگ خانہ کعبہ میں ہی رہے ، اور جب بیت اللہ کو آگ لگی تو وہ بھی جل گئے ( مسند احمد ۔ جلد ششم ۔ حدیث 2445 )
    اسی طرح ابن عباس {رض} سے بھی مروی ہے کہ مینڈھے کا سر ہمیشہ سے کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکا رہتا تھا اور وہ خشک ہوچکا تھا ۔
    واللہ اعلم
     
  15. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابراہیم {ع} کے دو بیٹے تھے ، ایک اسماعیل {ع} اور دوسرے اسحاق {ع} ۔
    یہود کا گمان ہے کہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے والے اسحاق {ع} ہیں ۔ ان کے قول کے مطابق اللہ نے ابراہیم {ع} کو اسحاق {ع} کے ذبح کا حکم فرمایا ، تورات میں بھی لفظ اسحاق آیا ہے
    اور یہ بات کہ وہ اسحاق {ع} ہی تھے اس بات کو بھی دلیل بناتے ہیں کہ جب ذبح کرنے کا حکم آیا تھا تو اس وقت ان کا بیٹا ان کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا تھا یعنی ان کے ساتھ رہتا تھا جبکہ اسماعیل {ع} تو اپنی والدہ کے ساتھ سکونت پذیر تھے ، وہ ابراہیم {ع} کے پاس نہ تھے
    لیکن مسلمان اہل علم کہتے ہیں کہ ذبیح اللہ سماعیل {ع} ہیں اور تورات میں لفظ اسحاق تحریف شدہ ہے اوراس کا اضافہ جھوٹ اور بہتان ہے
    اہل کتاب کو اس بات پر عرب سے حسد نے ابھارا ہے ۔ کیونکہ اسماعیل {ع} عرب کے باپ ہیں ۔ وہ عرب جو حجاز مقدس میں رہتے تھے ۔ اور ان ہی میں سے ہمارے نبی محمد {ص} ہیں
    چونکہ اسحاق {ع} یعقوب {ع} کے والد ہیں اور یعقوب {ع} کا لقب اسرائیل تھا جس کی طرف بنی اسرائیل منسوب ہیں تو اس لئے بنی اسرائیل نے چاہا کہ یہ شرف و مرتبہ اپنی طرف کھینچ لیں ۔ پھر اس مذموم مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے اللہ کی کتاب کو بھی بدل ڈالا ۔ اور اس میں اپنی طرف سے زیادتی کی ۔ قوم بنی اسرائیل بہتان باندھنے والی جھوٹی قوم ہے جو اپنے حسد کی بناء پر یہ اقرار نہیں کرتی کہ فضل و شرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہے عطا فرمائے ۔
     
  16. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ( سورۃ ھود 71 ) "
    حضرت قعب قرظی {رح} نے اس آیت سے بہت بہترین استدلال نکالا ہے کہ جب اللہ نے ابراہیم {ع} کو اسحاق {ع} کی پیدائش سے پہلے ہی اسحاق {ع} کی خوشخبری اور اس کے بعد اسحاق{ع} سے یعقوب [ع} کی خوشخبری یعنی بیٹے کی پیدائش سے پہلے ہی پوتے کی پیدائش کی خوشخبری دے دی تو پھر اسحاق {ع} کی قربانی کا حکم ابراہیم {ع} کے لیے آزمائش ہی نہیں رہی کیونکہ ابراہیم {ع} کو پہلے علم ہوچکا تھا کہ ابھی اسحاق سے یعقوب کا جنم لینا باقی ہے لہذا اسحاق ذبح نہیں ہونگے ۔ تو اس بات سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل {ع} ہیں نہ کہ یعقوب {ع}
    اس کے باوجود بعض سلف اس بات کے قائل ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق {ع} تھے ۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ اکرام {رض} سے بھی یہ مروی ہے اس بات کو انہوں نے یا تو کعب احبار سے نقل کیا ہے یا تو اہل کتاب کے صحیفوں سے لیا ہے
    اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والے کون تھے ؟
    واللہ اعلم
     
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن کی سورۃ الصافات میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
    اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی نیک لوگوں میں سے ہوگا ( 112 )
    اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں ، اور ان کی اولاد میں سے کوئی نیک بھی ہیں اور کوئی اپنے آپ پر کھلم کھلا ظلم کرنے والے ہیں ( 113 )
    قرآن کی سورۃ ھود میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
    اور ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ، انہوں نے کہا سلام ، اس نے کہا سلام ، پس دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا ( 69 )
    پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس تک نہیں پہنچتے تو انہیں اجنبی سمجھا اور ان سے ڈرا ، انہوں نے کہا خوف نہ کرو ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ( 70 )
    اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ( 71 )
    وہ بولی اے افسوس کیا میں بوڑھی ہو کر جنوں گی اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے ، یہ تو ایک عجیب بات ہے ( 72 )
    انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ، تم پر اے گھر والو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ، بے شک وہ تعریف کیا ہوا بزرگ ہے ( 73 )
    قرآن کی سورۃ الحجر میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
    اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال سنا دو ( 51 )
    جب اس کے گھر میں داخل ہوئے اور کہا سلام ، اس نے کہا بے شک ہمیں تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے ( 52 )
    کہا ڈرو مت بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری سناتے ہیں جو بڑا عالم ہوگا ( 53 )
    کہا مجھے اب بڑھاپے میں خوشخبری سناتے ہو ، سو کس چیز کی خوشخبری سناتے ہو ( 54 )
    انہوں نے کہا ہم نے تمہیں سچی خوشخبری سنائی ہے سو تو نا امید نہ ہو ( 55 )
    کہا اپنے رب کی رحمت سے نا امید تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ( 56 )
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    یہ تین فرشتے تھے ۔ جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل {ع} ۔ جب یہ حضرت ابراہیم {ع} کے پاس تشریف لائے تو ابراہیم {ع} نے دیکھتے ہی ان کو مہمان سمجھا ۔ لہذا پھر ان کے ساتھ مہمانوں والا برتاؤ اور خاطر تواضع شروع کردی ۔ اور اپنی گایوں میں سے ایک بہترین عندہ موٹا بچھڑا ان کے لیے ذبح کیا ۔ لیکن ابراہیم {ع} نے دیکھا کہ ان کا تو کھانا کھانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے ۔ تو ابراہیم {ع} نے ان سے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہ دشمن تو نہیں کیونکہ دشمن ایک دوسرے کا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ فرشتوں نے ابراہیم {ع} کی اس کیفیت کو بھانپ لیا اور کہا " خوف نہ کیجئے ، ہم تو فرشتے ہیں اور قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ تاکہ ان پر عذاب برسائیں "
    اس وقت سارہ {ع} بھی وہیں کھڑی تھیں ۔ جیسا کہ عرب کے یہاں مہمانوں کے ساتھ اس وقت کا رواج تھا ۔ جب سارہ {ع} نے عذاب کی خبر سنی تو ان پر خوف کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ اور منہ سے بےساختہ ایک عجیب سی آواز نکلی ۔ جس پر فرشتوں نے ان کا خوف ختم کرنے کے لیے اللہ کے حکم سے اسحاق {ع} کی خوشخبری اور اسحاق کے بعد یعقوب {ع} کی خوشخبری سنائی ۔ ہاجری {ع} مزید تعجب میں آگئیں
    اور کہنے لگیں " ہائے افسوس کیا اب میں کسی اولاد کو جنم دونگی جبکہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہوچکے ہیں " یعنی ان کا مطلب تھا ایک تو میں بڑھیا اور میرے شوہر بھی بوڑھے اوپر سے میں بانجھ بھی ہوں تو کیسے مجھے اولاد ہوگی ، یہ بات تو میرے لیے تعجب والی ہے
    اس پر فرشتے بولے " کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ؟ ۔ جبکہ اے نبی کے گھر والوں تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اترتی رہتی ہیں ۔ بےشک اللہ تعریف کے لائق ہے ، وہ بزرگی والا ہے اور اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں "
     
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ان خوشخبریوں پر جیسے سارہ {ع} تعجب میں آئیں ویسے ہی ابراہیم {ع} کو بھی تعجب میں آنا ہی تھا ۔ وہ بھی فرشتوں سے بول اٹھے " جس اولاد کی میں نے تمنا اور دعائیں کی تھیں کیا تم مجھے اس کی خوشخبری دیتے ہو جبکہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا ہے ، پھر کس چیز کی خوشخبری دے رہے ہو ؟ "
    فرشتوں نے جواب دیا " ہم آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دے رہے ہیں لہذا آپ مایوس ہونے والوں میں سے نہ ہوں "
    اس طرح فرشتوں کے جواب نے ابراہیم {ع} کو مزید مضبوط کردیا ۔ دونوں میاں بیوی کو بچے کی خوشخبری نے سرشار کردیا ۔ ابراہیم {ع} اس خبر کو سن کر سجدہ ریز ہوگئے
    جیسا کہ قرآن ہی میں ایک اور جگہ آتا ہے کہ اللہ نے پہلے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بھی دی جس سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ ابراہیم {ع} اور سارہ {ع} اپنے بیٹے اسحاق {ع} سے نفع اٹھائیں گے جس کے بعد اسحاق کے یہاں یعقوب {ع} جنم لیں گے ۔ وہ ان سے یعنی اپنے پوتے سے بھی نفع اٹھائیں گے ۔
    اسحاق اور یعقوب ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہونگے ۔
    " پھر جب علیحدہ ہوا ان سے اور اس چیز سے جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا ، اور ہم نے ہر ایک کو نبی بنایا ( سورۃ مریم 49 ) "
    اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے
    صحيح البخاری میں ہے ابوذر {رض} نے نبی اپک {ص} سےعرض کیا : یا رسول اللہ ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے ؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ مسجد الحرام ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اور اس کے بعد ؟ ۔ فرمایا کہ مسجد الاقصی ( بیت المقدس ) ۔ انہوں نے عرض کیا ، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے ؟ ۔ آپ {ص} نے فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے ۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے ۔
    اور اہل کتاب کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کی بنیاد یعقوب {ع} نے رکھی ۔
    تو اس سے معلوم ہوا ابراہیم {ع} کے کعبتہ اللہ بنانے کے چالیس سال بعد ان کے پوتے نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ۔ ظاہر یہی ہے کہ یعقوب {ع} ابراہیم {ع} کی زندگی ہی میں پیدا ہوئے تھے ۔
     
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ اپنے بندے ، اپنے رسول ۔ اپنے دوست ، موحدین کے امام ، انبیاء کے والد ماجد یعنی ابراہیم {ع} کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہوں نے قدیم گھر کی تعمیر فرمائی جس کو تمام لوگوں کے فائدے کے واسطے سب سے پہلی مسجد و گھر ہونے کا شرف حاصل ہے تاکہ لوگ آئیں اور اس میں اپنے معبود برحق کی پرستش کریں ۔ اور ابراہیم {ع} کو اس گھر کی تعمیر کا حکم اور رہنمائی اور اس کو بنانے میں مدد سب اللہ عزوجل کی طرف سے حاصل ہوئی
    قرآن کی سورۃ الحج میں اللہ تعالی فرماتا ہے
    " اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے کعبہ کی جگہ معین کر دی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ ( 26 ) اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں ( 27 ) "
    قرآن کی سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے
    " بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے ( 96 ) اس میں ظاہر نشانیاں ہیں مقام ابراھیم ہے ، اور جو اس میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے ، اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو ، اور جو انکار کرے تو پھر اللہ جہان والوں سے بے پروا ہے ( 97 ) "
    قرآن کی سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے
    " اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نے انہیں پورا کر دیا ، فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا ، کہا اور میری اولاد میں سے بھی ، فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ( 124 ) اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا ، مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ ، اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو ( 125 ) اور جب ابراھیم نے کہا اے میرے رب اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے رہنےو الوں کو پھلوں سے رزق دے جو کوئی ان میں سے اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ، فرمایا اور جو کافر ہوگا سو اسے بھی تھوڑاسا فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں دھکیل دوں گا ، اور وہ برا ٹھکانہ ہے ( 126 ) اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے ( 127 ) اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا ، اور ہمیں ہمارے حج کے طریقے بتا دے اور ہماری توبہ قبول فرما ، بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے ( 128 ) اے ہمارے رب ! اور ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے ، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ( 129 ) "
     
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    علی بن ابی طالب {رض} سے مروی ہے کہ اللہ نے ابراہیم {ع} کو وحی فرمائی تھی کہ کعبتہ اللہ بیت معمور کے عین مقابل اور سامنے ہے ۔ بیت معمور آسمانوں میں فرشتوں کے لیے بیت اللہ و کعبتہ اللہ ہے جس کے ارد گرد ہر آن میں ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں اور پھر کسی فرشتے کی دوبارہ قیامت تک طواف کی باری نہیں آتی تو اس بیت معمور کے مقابل زمین پر کعبتہ اللہ ہے
    اسی طرح ساتوں آسمانوں میں عبادت خانے یعنی مساجد ہیں جیسا کہ بعض بزرگوں نے بیان فرمایا کہ ہر آسمان میں ایک گھر ہے جس میں آسمان والے عبادت کرتے ہیں اور بیت معمور آسمانوں میں ایسے ہی ہے جیسے زمین پر کعبتہ اللہ ۔ واللہ اعلم
    پھر اللہ نے ابراہیم {ع} کو حکم فرمایا کہ فرشتوں کے عبادت گھروں جیسا ایک گھر زمین والوں کے لیے زمین میں بناؤ ۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو بیت اللہ کی پہلے سے متعین جگہ سمجھا دی جو آسمانوں اور زمین کے پیدائش کے وقت سے متعین تھی ۔
    رسول اللہ {ص} سے کہیں بھی مروی نہیں ہے کہ بیت اللہ ابراہیم {ع} کے بنانے سے قبل تعمیر شدہ تھا
    اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ بنا ہوا تھا انہوں نے مَكَانَ الْبَيْتِ سے استدلال کیا یعنی اس کا مطلب لیا کہ پہلے سے وہاں عمارت یا گھر تھا
    لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے وہاں عمارت کی جگہ پہلے سے اللہ کے علم اور ارادے میں بیت اللہ کے لیے مقرر تھی اور حضرت آدم {ع} سے ابراہیم {ع} تک تمام کے نزدیک وہ جگہ مبارک اور عظمت والی تھی ۔ واللہ اعلم
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    کہتے ہیں آدم {ع} نے اس جگہ پر ایک قبہ سا بنایا تھا اور فرشتوں نے ان سے کہا تھا ہم آپ سے پہلے اس گھر کا طواف کر چکے ہیں اور کشتی نوح نے بھی تقریبا چالیس دن اس گھر کا طواف کیا تھا ۔ مگر یہ سب باتیں بنی اسرائیل سے مروی ہیں ۔ واللہ اعلم
    اللہ تعالی فرماتا ہے " بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے ( سورۃ آل عمران 96 ) "
    یعنی عام لوگوں کی ہدایت و برکت کے واسطے پہلا گھر جو بنایا گیا وہ مکہ میں ہے ۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ۔ مقام ابراہیم ہے ۔ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم {ع} نے کعبے کی دیواروں کو بلند کیا تھا ۔ پہلے نیچے کھڑے ہوکر تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں بلند ہونا شروع ہوئیں تو اس کا سہارا لیا تھا اور یہ پتھر اسماعیل {ع} نے لاکر رکھا تھا
    پھر یہ پتھر اس زمانے سے عمر فاروق {رض} کے دور خلافت تک کعبے کی دیوار کے ساتھ چپکا رہا ۔ پھر عمر {رض} نے اس کو تھوڑا وہاں سے دور کردیا تاکہ طواف کے وقت رکاوٹ نہ ہو ۔
    کئی کاموں میں اللہ تعالی نے عمر {رض} کے فیصلوں کی موافقت اور تائید فرمائی ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ عمر {رض} نے نبی پاک {ص} کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر ہم مقام ابراہیم پر نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوجائے ، لیکن نبی پاک {ص} خاموش رہے پھر اللہ نے قرآن میں نازل فرما دیا " وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى " یعنی اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو ۔
     
  23. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابراہیم {ع} نے سب سے عظیم و اشرف مسجد بنائی اور زمین کے سب سے اشرف ٹکڑے پر بنائی ۔ پھر اپنے اہل کے لیے وہاں برکت کی دعا کی اور دنیاوی رزق حلال کی بھی کہ اللہ ان کو پھلوں سے رزق عطا فرمائے ۔ کیونکہ یہ زمین پانی ، درختوں ، پھلوں اور کھیتوں سے بالکل خالی تھی اور یہ بھی درخواست کی کہ اس علاقے کو محترم حرم بنادے اور امن و امان کا گہوارہ بنادے
    پھر اللہ نے اپنے دوست کی درخواست و التجا کو قبول فرمایا ، بےشک اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں ، وہ ہی پکارنے والوں کی فریاد سنتا ہے ۔ اللہ نے ابراہیم {ع} کی دعا کو قبول فرمایا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے " اور کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں ، کیا ہم نے انہیں حرم میں جگہ نہیں دی جو امن کا مقام ہے جہاں ہر قسم کے میووں کا رزق ہماری طرف سے پہنچایا جاتا ہے لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے ( سورۃ القصص 57 ) "
    ان دعاؤں کے علاوہ ابراہیم {ع} نے ایک بہت بڑی اور پیاری دعا بھی فرمائی تھی کہ اللہ عزوجل ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیج دے جو انہی کی زبان کا ہو یعنی عرب سے ہو ، تاکہ اس طرح ان پر دین و دنیا دونوں عالم کی نعمتیں پوری ہوجائیں
    اور اللہ نے اپنے دوست کی یہ خواہش اور مراد بھی پوری فرمادی اور ایک رسول ان میں یعنی مکہ والوں میں بھیج دیا
    وہ رسول جس کے ساتھ انبیاء اور رسولوں کا سلسلہ ختم فرما دیا ۔ وہ رسول جس کو مکمل دین عطا فرما دیا جو اس سے پہلے کسی کو نہیں عطا کیا گیا ۔ اس عظیم رسول کی دعوت پوری روئے زمین کے لیے عام کردی ، خواہ وہ زمین والے کسی زبان کے ہوں ، کسی علاقے کے ہوں یا کسی ہی صفات کے حامل ہوں ۔ قیامت تک تمام شہروں ، علاقوں اور تمام اطراف میں اس رسول کی نبوت رکھ دی گئی ۔ اس عظیم پیغمبر کی تمام پیغمبروں اور رسولوں کے درمیان خاصیت تھی ۔ کیونکہ اس میں بہت سے شرف اور اعزاز اکٹھے ہوئے ، اس کی ذات کا شرف و مرتبہ اس کے ساتھ بھیجی گئی کتاب ، اس کی زبان تمام روئے زمین کی سردار ، اس عظیم پیغمبر کی اپنی گناہ گار امت پر انتہائی نرمی و شفقت لطف و رحمت ، اس کے ماں باپ بھی عظیم اور اس کی جائے پیدائش بھی عظیم
    اسی وجہ سے کہ ابراہیم {ع} نے اللہ کے گھر کی بنیاد رکھی تو اللہ نے بھی ان کی اولاد میں اس عظیم رسول یعنی محمد {ص} کو پیدا فرما دیا
     
  24. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر درود بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے اور محمد اور آل محمد پر اپنی برکت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہے ، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگ ہے
    سدی {رح} کا قول ہے کہ جب اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} اور اسماعیل {ع} کو اپنے گھر کو بنانے کا حکم فرمایا تو ان کو پتہ نہ چلا کہ اس کی جگہ کون سی ہے ۔ حتی کہ اللہ نے ہوا بھیجی جس کو خجوج کہا جاتا ہے اس کے دو پر تھے اور سر تھا اور وہ سانپ کے شکل میں تھی اور اس نے کعبہ کے ارد گرد کی جگہ کو صاف کردیا اور پہلی بنیادیں ظاہر کردیں ۔ پھر ابراہیم {ع} اور اسماعیل {ع} نے وہاں کھدائی کی حتی کہ بنیادیں رکھ دیں ۔ پھر جب بنیادیں اٹھ چکیں اور رکن بنانے لگے تو ابراہیم {ع} نے اسماعیل {ع} کو کو کہا " اے میرے بیٹے ! کوئی عمدہ حسین پتھر لاؤ جس کو میں یہاں رکھوں " ۔ اسماعیل {ع} جو کام کرکے تھک چکے تھے عرض کیا " میں مشقت کی وجہ سے سست ہوچکا ہوں " تو ابراہیم {ع} بولے " چلو میں اس کا بندوبست کرتا ہوں " پھر ابراہیم {ع} کے پاس جبرائیل {ع} ہند سے حجر اسود لے کر آئے جو اس وقت اسود نہیں تھا بلکہ سفید یاقوت تھا اور انتہائی سخت سفید تھا ثغامہ کی گھاس کی طرح ۔ آدم {ع} اس پتھر کو جنت سے لے کر اترے تھے اور اب یہ پتھر لوگوں کی خطاؤں کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہے ۔ اتنے میں اسماعیل {ع} بھی دوسرا پتھر لے آئے ۔ جب اپنا لایا ہوا پتھر ابراہیم {ع} کے پاس لائے تو وہاں حجر اسود کو دیکھا تو پوچھا " ابا جان یہ پتھر کون لایا ؟ "
    ابراہیم {ع} نے فرمایا " اس کو تجھ سے زیادہ چست شخص لایا ہے "
     
  25. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے کہ کعبتہ اللہ پانچ پہاڑوں یعنی حرا طور ، زیتا ، حیل ، لبنان اور طور سینا کے پتھروں سے بنایا گیا ہے ۔ واللہ اعلم
    آگے فرمایا اس وقت ذوالقرنین زمین کے بادشاہ تھے اور وہ ان کے پاس سے گزرے اور یہ تعمیر میں مصروف تھے پوچھا کس نے تم کو اس کا حکم کیا ؟ ۔ ابراہیم {ع} نے فرمایا " اللہ نے ہم کو اس کا حکم فرمایا ہے " پوچھا تمہاری بات کی مجھے تصدیق کون کرے گا ؟ ۔ تو پانچ مینڈھوں نے گواہی دی جس کا حکم ان کو اللہ نے فرمایا تھا ۔ تو ذوالقرنین ایمان لے آئے اور تصدیق کردی ۔
    ازرقی {رح} فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین نے ابراہیم {ع} کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا اور پھر عرصہ دراز تک بیت اللہ اسی طرح ابراہیم {ع} کی تعمیر پر برقرار رہا پھر قریش نے اس کی نئی تعمیر کی لیکن ابراہیم {ع} کی بنیادوں سے جانب شمال جو شام کی طرف ہے ، کم کردیا
    صحيح البخاری میں عائشہ {رض} سے مروی ہے کہ نبی پاک {ص} نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بےشک ایسا کر دیتا ۔
     
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح البخاری میں ہے ۔ ۔ ۔ ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین عائشہ {رض} نے کہ رسول اللہ {ص} نے فرمایا ، عائشہ ! اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا ، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ اس حصہ کو بھی داخل کر دوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کر دوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں ، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں ۔ اس طرح ابراہیم {ع} کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہو جاتی ۔ عبداللہ بن زبیر{رض} کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا ۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبداللہ بن زبیر {رض} نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اندر کر دیا تھا ۔ میں نے ابراہیم {ع} کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے ۔ جریر بن حازم نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا ، ان کی جگہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں ۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے ۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہو گی یا ایسی ہی کچھ ۔
    عبداللہ بن زبیر {رض} نے اپنے زمانے میں اسی طریقے پر کعبہ کو بنایا تھا ۔ جیسا رسول اللہ {ص} کی خواہش تھی جس کی خبر ان کو ان کی خالہ عائشہ {رض} نے دی تھی ۔ پھر جب حجاج نے تہتر ہجری میں ان کو شہید کر ڈالا تو خلیفہ عبدالملک بن مردان کو کعبہ کی نئی تعمیر کے متعلق لکھا تو خلیفہ نے خیال کیا کہ کعبہ کی اس طرح کی تعمیر عبداللہ بن زبیر {رض} نے اپنی طرف سے کی ہے لہذا اس کو واپس اپنی حالت میں لوٹانے کا حکم کر دیا ۔ اور پھر دوبارہ شامی دیوار کو توڑ دیا ، پتھر اس سے نکال دیے اور دیوار بند کردی اور کعبہ کے اندر پتھر بھر دیے اور باب شرقی بلند کردیا اور غربی بالکل بند کردیا
    بعد میں جب عبدالملک بن مردان کو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر {رض} کو اس تعمیر کا عائشہ {رض} نے بتایا تھا اور یہ تعمیر رسول اللہ {ص} کی خواہش کے مطابق تھی تو اپنے کئے پر سخت نادم ہوا اور افسوس کیا کہ کاش کعبہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیتے تو بہتر ہوتا ۔
    پھر جب مہدی بن منصور کا زمانہ خلافت آیا تو انہوں نے امام مالک بن انس {رح} سے مشورہ کیا کہ کعبتہ اللہ کو عبداللہ بن زبیر {رض} کی تعمیر کردہ صورت پر لوٹا دیا جائے تو کیسا ہے ؟
    مالک بن انس نے فرمایا " مجھے ڈر ہے کہ خلفاء اس کو کھیل بنالیں گے یعنی جب کوئی بادشاہ آئے گا تو اپنے خیال کے مطابق اس کو بنائے گا ۔ لہذا امام نے اس کو اسی حالت پر برقرار رہنے دیا ۔ جس پر آج تک ہے
    واللہ اعلم
     
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن میں میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور ہم نے نوح اور ابراھیم کو بھیجا تھا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی تھی ، پس بعض تو ان میں راہ راست پر رہے ، اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں ( سورۃ الحدید 26 ) "
    سورۃ الانعام میں اللہ عزوجل نے فرمایا " اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا ، ہم نے سب کو ہدایت دی ، اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی ، اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسی اور ہارون ہیں ، اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں ( 84 ) اور زکریا اور یحیی اور عیسی اور الیاس ، سب نیکوکاروں میں سے ہیں ( 85 ) اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط ، اور ہم نے سب کو سارے جہان والوں پر بزرگی دی ( 86 ) "
    لہذا جو بھی آسمانی کتاب نازل کی گئی کسی بھی پیغمبر پر ، وہ حضرت ابراہیم {ع} کے بعد نازل کی گئی اور آپ کی اولاد ہی میں سے کسی پیغمبر پر نازل ہوئی ۔ اور یہ ایسا عظیم مرتبہ عطا فرمایا ہے جس کا مقابلہ ممکن نہیں
    یہ یوں ہوا کہ اللہ نے ابراہیم {ع} کی پشت سے دو عظیم صالح لڑکے عطا فرمائے ۔ اسماعیل {ع} ہاجرہ {ع} سے پھر اسحاق {ع} سارہ {ع} سے اور آگے اسحاق {ع} سے یعقوب {ع} پیدا ہوئے ۔ اور انہی کا لقب اسرائیل ہے اور انہی میں سے انبیاء کے تمام گروہ ہیں
    ان میں نبوت بھی چلی اور بہت چلی ، حتی کہ ان کے انبیاء کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا سوائے اس ذات کے جس نے ان انبیاء کو مبعوث کیا اور ان کو رسالت و نبوت کے ساتھ خصوصیت مرحمت فرمائی ۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے انبیاء کا یہ سلسلہ عیسی {ع} پر پہنچ کر ختم ہوا
     
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اور دوسری طرف اسماعیل {ع} ہیں ان کی اولاد میں عرب کی مختلف جماعتیں ہی پیدا ہوئیں اور ان میں سے کوئی نبی نہ ہوا سوائے ایک نبی کے ۔
    ایک نبی جنہوں نے آ کر تمام انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا ۔ وہ آدم کی تمام اولاد کے سردار بنے ۔ اور وہ بنی آدم کے لیے سرمایہ افتخار ثابت ہوئے ۔
    یعنی محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم قریشی {ص}
    تو حضرت اسماعیل {ع} کی پشت میں پوری شاخ کے اندر سوائے اس عظیم خزانے ، اور قیمتی موتی ، اور بیش قیمت ہار کے اور کوئی نہیں آیا ۔ اور یہی وہ تمام گروہوں ، جماعتوں کے سردار ہیں جن پر قیامت کے روز اولین و آخرین سب کے سب رشک کرتے ہونگے
    صحيح البخاری میں ہے ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} حسن و حسین {رض} کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق {ع} کے لیے مانگا کرتے تھے ۔ " میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے " ۔
    نبی پاک {ص} نے ابراہیم {ع} کی خوب تعریف فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ {ص} کے بعد ابراہیم {ع} تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں اور وہ بھی دونوں جہاں میں ۔ اس عالم فانی میں بھی روز قیامت بھی ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
     
  29. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالی فرماتا ہے " اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا ، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے ؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے ، فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے ، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے ( سورۃ البقرۃ 260 ) "
    حضرت ابراہیم {ع} نے جب یہ سوال بارگاہ الہی میں پیش کیا کہ اے پروردگار مجھے دکھائیں کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ فرمائیں گے ؟ تو اللہ نے ان کی درخواست کو قبول فرمایا ۔ اور چار پرندے لینے کا حکم دیا ۔ وہ پرندے کون کون سے ہیں ان کے بارے میں اختلاف ہے اور کئی اقوال ذکر کئے گئے ہیں ، مگر ہر صورت میں مقصود سب سے حاصل ہوجاتا ہے ۔ پھر اللہ نے ابراہیم {ع} کو ان پرندوں کے ٹکرے ٹکرے کرنے کا حکم دیا ، پھر ان ٹکروں کو مختلف پہاڑوں پر دور دور پھیلانے کا حکم دیا اور پھر ان پرندوں کو بلانے کا حکم فرمایا
    حضرت ابراہیم {ع} نے اسی طرح ان کو بلایا تو ہر پرندے کا عضو اس پرندے کے ساتھ آکر مل گیا حتی کہ ہر پر اپنے دوسرے پر کے ساتھ مل کر اپنے پرندے کے ساتھ جڑ گیا الغرض سب پرندوں کا جسم بالکل پہلی حالت پر آگیا ۔ ابراہیم {ع} اس دوران اللہ کی قدرت کا مشاہدہ فرماتے رہے جس قدرت کا مطلب ہے کہ اللہ جس چیز کو " ہوجا " فرما دیتے ہیں وہ فورا ہوجاتی ہے
    یقینا ابراہیم {ع} اللہ کی مردے کو دوبارہ زندہ کر دینے کی قدرت کو خوب یقین کے ساتھ جانتے تھے جس میں کوئی شک نہیں لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کو پسند فرمایا تاکہ علم الیقین سے عین الیقین کی طرف ترقی کریں لہذا اللہ نے ان کو قبول فرمایا اور ان کی خواہش پوری فرما دی ۔
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن میں سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اے اہل کتاب ! ابراھیم کے معاملہ میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو اس کے بعد اتری ہیں ، کیا تم یہ نہیں سمجھتے ( 65 ) ہاں تم وہ لوگ ہو جس چیز کا تمہیں علم تھا اس میں تو جھگڑے ، پس اس چیز میں کیوں جھگڑتے ہو جس چیز کا تمہیں علم ہی نہیں ، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ( 66 ) ابراھیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن سیدھے راستے والے مسلمان تھے ، اور مشرکوں میں سے نہ تھے ( 67 ) لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراھیم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی تابعداری کی ، اور یہ نبی اور جو اس نبی پر ایمان لائے ، اور اللہ ایمان والوں کا دوست ہے ( 68 ) "
    یہود و نصاری کا دعوی تھا کہ ابراہیم {ع} ان کے دین پر تھے ۔ اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو ان سے بری کردیا ۔ کیونکہ اللہ نے تورات اور انجیل کو ابراہیم {ع} کے بعد نازل فرمایا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ابراہیم {ع} یہود یا نصاری کے دین پر ہوں
    اللہ تعالی یوں فرماتا ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی ، بلکہ ان سب سے بےتعلق ہوکر ایک اللہ کے پیروکار تھے اور " دین حنیف " پر تھے ۔ دین حنیف کہتے ہیں جس سے اخلاص مقصود ہو اور جان بوجھ کر باطل سے حق کی جانب آیا جائے اور دین حنیف یہودی ، عیسائی اور مشرکین کے مذہب کے بالکل خلاف ہے ۔ اسی کو اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا اور ابراہیم {ع} نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی
    تو اللہ نے ابراہیم {ع} کو یہودیت اور نصرانیت دونوں سے بالکل جدا قرار دیا اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے
    محمد {ص} کے لیے بھی اللہ نے وہی دین مقرر فرمایا جو ابراہیم {ع} کے لیے فرمایا تھا ۔ بلکہ اللہ تعالی نے محمد {ص} کے ہاتھوں پر اس دین کو مزید اضافے اور زیادتی کے ساتھ مکمل فرما دیا اور محمد {ص} کو وہ کچھ عطا فرمایا جو اور کسی نبی یا رسول کو دیا گیا ۔ جیسے اللہ نے سورۃ الانعام میں فرمایا " کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے ، ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا ، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا ( 161 ) کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے ( 162 ) اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں ( 163 ) "
     

اس صفحے کو مشتہر کریں