کُچھ وعدوں قَسموں نے مار دیا کُچھ ہم کو رسموں نے مار دیا کُچھ طعنے غیروں کے مار گئے کُچھ تیری نظروں نے مار دیا کُچھ چاہت کی خواہش مار گئی کُچھ تیرے نخروں نے مار دیا تھا یادوں کا طُوفاں تیز بہت کُچھ ظالم لہروں نے مار دیا کُچھ بیگانوں نے بے حال کیا کُچھ اپنے رِشتوں نے مار دیا جب نفرت کی راہیں ختم ھُوئیں چاہت کے رستوں نے مار دیا سُلطاں غیروں سے کُچھ گِلہ نہیں ہم کو تو اپنوں نے مار دیا ۔
سلطان میر صاحب بہت خوب ---------- بہت اچھا ویسے ایک مزاح کی بات ہے “آپ کو کچھ زیادہ ہی مار نہیںپڑ گئی“ :lol:
کتنے خوش بخت ہیں میر بھائی کہ زمانے کی اتنی مار کھا کر بھی اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ماشاء اللہ بہت خوب کلام ہے۔ داد قبول ہو۔
محترمہ ثناء صاحبہ و محترم ع س ق صاحب! السلامُ علیکم ریپلائیز کیلئے جزاک اللہ، اور تبصرے کے جواب میں اتنا ھہ عرض کر سکتا ھوں کہ : جب درد حد سے سِوا ہو گیا پھر آپ اپنی دوا ہو گیا۔والسلام اللہ نگہبان۔
جواب: “مار دِیا“ بڑے خوش نصيب هو جو بس اپنوں كے دكھ ملے هيں هميں تو نا اپنوں نے چہوڑا نا پرايوں نے بهت خوب سلطان بهائ
جواب: “مار دِیا“ تانیہ جی اور المسافر الغربی جی! اپ کی رعپلائیز اور خوبصورت کمینٹس کیلئے جزاک اللہ خیر۔
جواب: “مار دِیا“ سلطان میر صاحب بہت عمدہ انداز ہے ، اور نہایت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ، میری طرف سے داد قبول کیجئے ۔
جواب: “مار دِیا“ قاسم کیانی جی، اور آصف احمد بھٹی جی! آپ دوستوں کی ریپلائیز اور ھہصلہ افزائی کیلئے جزاک اللہ خوش رہیں سدا ۔ (آمین)