1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

Discussion in 'اردو شاعری' started by intelligent086, Jan 26, 2021.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا
    دنیا سے ایک اور قلندر چلا گیا

    غربت کا اپنے حال تجھے اور کیا کہوں
    اک دن تو اک فقیر بھی اٹھ کر چلا گیا

    فرعون اپنے دور کا زندہ ہے آج بھی
    دنیا سمجھ رہی تھی ستم گر چلا گیا

    چاقو پہ ہے نشان کسی بے گناہ کا
    قاتل تو ہاتھ میں لئے خنجر چلا گیا

    وہ تنکا جوڑ کر کے نشیمن جو تھا بنا
    بستی کی آگ میں وہ مرا گھر چلا گیا

    امید کر چکا تھا نئے سال سے بہت
    اک اور زخم دے کے دسمبر چلا گیا

    لیلیٰ سے جو ملا تھا وہ پتھر لئے ہوئے
    جانبازؔ اپنے شہر سے باہر چلا گیا
     

Share This Page