1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا
    دنیا سے ایک اور قلندر چلا گیا

    غربت کا اپنے حال تجھے اور کیا کہوں
    اک دن تو اک فقیر بھی اٹھ کر چلا گیا

    فرعون اپنے دور کا زندہ ہے آج بھی
    دنیا سمجھ رہی تھی ستم گر چلا گیا

    چاقو پہ ہے نشان کسی بے گناہ کا
    قاتل تو ہاتھ میں لئے خنجر چلا گیا

    وہ تنکا جوڑ کر کے نشیمن جو تھا بنا
    بستی کی آگ میں وہ مرا گھر چلا گیا

    امید کر چکا تھا نئے سال سے بہت
    اک اور زخم دے کے دسمبر چلا گیا

    لیلیٰ سے جو ملا تھا وہ پتھر لئے ہوئے
    جانبازؔ اپنے شہر سے باہر چلا گیا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں