درد و غم سے نڈھال ہوں جاناں یہ نہ پوچھو کہ حال کیسا ہے؟ غم ہے ، غم بھی مگر قیامت کا درد ہے، درد بھی قیامت کا.. زنیرہ گُل
آج اک پیار ے رشتے کو نقصان ہوا سب کچھ بس اک لمحے کے دوران ہوا جاں سے بھی پیارا تھا جو کل تک مجھکو آج اس سے ہر رشتہ ہی انجان ہوا زنیرہ گل
انکی نزاکت دیکھ کر نازش سمجھ بیٹھی تھی میں چہرے پہ چہرہ دیکھ کر سازش سمجھ بیٹھی تھی میں جس جگہ کھجلی نہ تھی اور وہ کھجاتا ہی رہا ان کی اس حرکت کو بھی خارش سمجھ بیٹھی تھی میں زنیرہ گل
روئی ہوں اتنی اب تو رویا بھی نہیں جاتا اس دردِ دل کے ہوتے سویا بھی نہیں جاتا آنسو بہا بہا کے بے نور ہوئی ہیں آنکھیں اب کام مجھ سے کوئی ہویا بھی نہیں جاتا زنیرہ گل
کسی کو فرق نہیں پڑتا میرے ہونے نہ ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا میرے رونے نہ رونے سے وہ جو پورے ہیں اپنی ذات میں اک دن بھلا دینگے انہیں کیا فرق پڑتا ہے میرے کھونے نہ کھونے سے زنیرہ گل
جو بھی آتا ہے میرا امتحان لیتا ہے اور اس عمل کو وہ حق بھی مان لیتا ہے دردِ گل کا انہیں احساس تک نہیں شاید جو گل کو توڑ کر گل کی جان لیتا ہے زنیرہ گل
دیکھ لی ہے تشنگی بیکار کی پیروی کرنی ہے اب افکار کی ہم نے جو دولت کو درجہ دیا اب ضرورت ہے بھلے کردار کی زنیرہ گل
پریشاں ہوں مرے دل کی حقیقت جان لو اب تو عداوت چھوڑ دو میری محبت مان لو اب تو طلاطم ہے پبا سینے میں اب طوفاں کو آنا ہے خدارا روک لو طوفاں کو دل میں ٹھان لو اب تو زنیرہ گل
تم عظمتوں کا نشاں ہو تم حقیقتوں کا بیاں ہو تم صبح، تم ہی شام ہو تم ہی وفاؤں کا نام ہو عبدالقیوم خان غوری
کوئی گل اور کوئی گلاب کہتا ہے مجھے کوئی محبت کی کتاب کہتا ہے مجھے حقیقت میں جو گل کو جانتا ہے وہ نظر کا دھوکا اورسراب کہتا ہے مجھے زنیرہ گل
کیوں جنازے یہ حرمت کے نکالے جاتے ہیں کیوں قصیدے یہ عصمت کے اچھالے جاتے ہیں کائنات میں رنگ گر وجود زن سےہے پھول پھر کیوں یہ بھٹی میں ڈالے جاتے ہیں زنیرہ گل
پھر یہ کیوں انداز و رنگِ انجمن پھیکا ہوا میرے اشکوں سے دلِ اہل چمن کو کیا ہوا عادت ہے زخموں کی اور یہ مری فطرت بھی ہے میرے ٹوٹے لفظ تھے اہل سخن کو کیا ہوا زنیرہ گل
پھر یہ کیوں انداز و رنگِ انجمن پھیکا ہوا میرے اشکوں سے دلِ اہل چمن کو کیا ہوا عادت ہے زخموں کی اور یہ مری فطرت بھی ہے میرے ٹوٹے لفظ تھے اہل سخن کو کیا ہوا زنیرہ گل
سارے ہی اشعار بہت خوب ہیں ۔ ۔ ۔ بہت ہی عمدہ خیال ۔ ۔ ۔ ماشاء اللہ ۔ ۔ ۔ قطعہ کی تعریف کچھ یوں ہے کہ دو یا دو سے زیادہ ایسے ابیات جن میں کسی ایک ہی موضوع کو سخن میں ڈھالا گیا ہوں ، وہ قطعہ کہلاتا ہے ۔ اب یہ قطعات کسی غزل کا حصہ بھی ہو سکتے ہیں یا الگ سے ، البتہ ان میں بحر ، اوزان ، قافیہ اور ردیف کا خیال رکھا جاتا ہے ۔
آگ نفرت کی وہ جلا کے چلا اپنا دامن مگر بچا کے چلا چار سُو تھی منافقت اے گل مرا خلوص سر اٹھا کے چلا زنیرہ گل
جو بھی سچ ہے قلم وہ کہتا ہے جب بھی جذبات میں یہ بہتا ہے مزاجِ گل میں نازکی ہے بہت موسموں کے ستم بھی سہتا ہے زنیرہ گل
ان کو پتہ نہیں ہے کہ سوتی رہی ہوں میں یا اپنے ہی خیالوں میں کھوتی رہی ہوں میں رخ پر عیاں نہ ہو سکی پژمردگی گل کی چہرے کو اپنے اشک سے دھوتی رہی ہوں میں زنیرہ گل
زندہ ہوئی جو مردہ محبت کبھی کبھی کھل اٹھتی ہے آزردہ طبیعت کبھی کبھی محسوس ہو فضا میں جو خوشبو کبھی کبھار پھر سوچتی ہوں جب بھی ہو فرصت کبھی کبھی زنیرہ گل