1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اثر پارے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از این آر بی, ‏22 فروری 2008۔

  1. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    ہم نے ایک جرنلسٹ سے پوچھا "میدی حسن کے بارے میں‌آپ کی کیا رائے ھے" ؟ بولے" مجھے وہ بہت پسند ھیں‌خاص کرکے

    ان کی شاعری ،" ہم نے بھی مہدی حسن کی کئی غزلیں دیوان میر میں‌پڑھیں مزا آگیا، وہ شہنشاہ غزل ھیں اور ان کے ساتھ

    وہی سلوک ھو رھا ھے جو جہمہوریتوں میں شہنشاھوں کے ساتھ ھوتا ھے، ان کی غزلیںسن کر ہم یوں‌حیرت زدہ ھوتے

    ھیں جیسے کسی ہروفیسر عامل سے اپنے مستقبل کا حال سن کر- مہدی حسن کہتے ھیں " میں ایک بار اپےن شاگرد پرویز

    مہدی کو گانا سیکھا رھا تھا میں نے ایسی تان لگائی کہ سامنے پڑا گلاس ٹوٹ گیا" ان میں اور بھی کئی پروفیسر والی

    خوبیاں ھیں تجریدی آرٹ اتنا برا نہیں جتنا نظر آتا ھے ، ایسے ہی کلاسیکا موسیقی اتنی بری نہیں جتنی سننے میں‌آتی

    ھے ،ہم کلاسیکل موسیقی یوں سنتے ھیں جیسے کسی پروفیسر کی باتیں سن رھے ھوں ۔ اس کے باوجود اگر کوئی پوچھے کہ

    گلوکاروں کو کیا کہا جائے ؟ تو ہم یہی کہیں گے " انہیں کچھ نہ کہا جائے"

    مزاح بخیر -------- ڈاکٹر محمد یونس بٹ
     
  2. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ایران میں کون رہتا ہے؟ ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے۔انگلستان میں کون رہتا ہے؟ انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے۔ فرانس میں کون رہتا ہے؟ فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔ یہ کون سا ملک ہے؟ یہ پاکستان ہے۔ اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟ نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی۔ اس میں سندھی قوم رہتی ہے۔ اس میں پنجابی قوم رہتی ہے۔ اس میں بنگالی قوم رہتی ہے۔ اس میں یہ قوم رہتی ہے اس میں وہ قوم رہتی ہے۔ لیکن پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ پھر یہ ملک الگ کیوں بنایا تھا؟ غلطی ہوگئی معاف کردیجئے، آئندہ نہیں بنائیں گے۔

    (ابنِ انشاء)
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :hasna: :hasna: :hasna: اچھا ہے ۔۔ بہت اچھا ہے :hasna: :hasna: :hasna:
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    یقینا این ار بی کے انتخاب کی تعریف ھو رہی ھے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پہلی ہنسی اور " اچھا تھا " آپ کے مضمون کے لیے تھے۔
    دوسری تعریف این آر بی بھائی کے لیے تھی ۔

    اب یہ پھول صرف آپ کے لیے :dilphool:
     
  6. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    خوشی جی، نعیم بھائی نے آپ کے عتاب سے بچنے کے لئے یہ کہا ہے، ورنہ اوپر "اچھا تھا" تو کہیں بھی نہیں لکھا ہوا :soch:
     
  7. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    ارے واہ خوشی جی۔۔۔بہت خوب۔۔

    بہت خوب این آر بی صاحب۔۔۔۔۔

    اللہ کا شکر ہے کوئی ابنِ انشاء صاحب ۔۔۔۔کو۔۔۔۔ غلطی ہو گئی معاف کر دیجئے آئندہ نہیں بنائیں گے بولنے پر۔۔۔۔ انڈیا کا ایجنٹ نہیں‌ بولا۔۔۔۔اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خوشی جی، نعیم بھائی نے آپ کے عتاب سے بچنے کے لئے یہ کہا ہے، ورنہ اوپر "اچھا تھا" تو کہیں بھی نہیں لکھا ہوا :soch:[/quote:2iilzw55]
    این آر بی بھائی ۔ آپ تو لفظ لفظ کرید ڈالتے ہیں :212:
    اور ہاں ۔ خوشی جی کو مجھ سے لڑوانے کی سب کاوشیں رائیگاں جائیں‌گی ۔
    انہیں پتہ ہے کہ چیز پسند آنے پر میں تعریف کرنے میں کنجوس نہیں ہوں۔ :no:
     
  9. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    [glow=red:2oar62tc]کرامات[/glow:2oar62tc]
    لُوٹا ہوا مال برآمد کرنے کیلیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کئے۔

    لوگ ڈر کے مارے لُوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں پاہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

    ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔

    شور سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔ دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔

    دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کیلیے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔

    اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیئے جل رہے تھے۔



    ( سیاہ حاشیے، سعادت حسن منٹو)​
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :happy: بہت خوب :happy:
    مزار پر کتبہ لگ گیا ہوگا

    بابا میٹھے کنوئیں والا
     
  11. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ واہ :a165:
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب، این آر پی جی،!!!!!!! کیا بات ھے آپکی شئیرنگ کی،!!!
     
  13. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    سید انکل، نعیم بھائی اور خوشی جی آپ سب کی پسندیدگی کا شکریہ۔ کمال سارا منٹو کا ہے کہ اتنے مختصر افسانے میں‌ کتنے پتے کی بات کہہ دی۔

    اقبال نے ہماری اسی سادگی پر کہا ہے:

    تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
    ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
     
  14. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    حلال اور جھٹکا*


    "میں نے اس کی شہ رگ پر چھری رکھی۔ ہولے ہولے پھیری اور اس کو حلال کردیا۔"

    "یہ تم نے کیا کیا۔"

    "کیوں"

    "اس کو حلال کیوں کیا۔"

    "مزا آتا ہے اس طرح۔"

    "مزا آتا ہے کے بچے، تجھے جھٹکا کرنا چاہیئے تھا۔ اسطرح"

    اور حلال کرنے والے کی گردن کا جھٹکا ہوگیا۔​


    (سیاہ حاشیے، سعادت حسن منٹو)​

    *ہندو مسلم اختلافات کا ایک رخ
     
  15. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ خوب :a180:
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ۔ کیا بات ہے۔
    بکرا عید کی مناسبت سے قصائی حضرات کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔ منٹو کا یہ پیغام :hasna:
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اپنے آپ کو پہچانو

    حکماء کا اصرار ھے کہ اپنے آپ کو پہچانو لیکن تجربات سے ثابت ہوا ھے کہ اپنے آپ کو کبھی مت پہچانو ورنہ مایوسی ہو گی بلکہ ہو سکے تو دوسروں کو بھی مت پہچانو

    ایمرسن فرماتے ھیں کہ " انسان جو کچھ سوچتا ھے وہی بنتا ھے"

    کچھ بننا کس قدرآسان ھےکچھ سوچنا شروع کر دواور بن جاؤاگر نہ بن سکو تو ایمرسن صاحب سے پوچھو :201:
     
  18. نادر سرگروہ
    آف لائن

    نادر سرگروہ ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2008
    پیغامات:
    600
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ۔
    ۔
    اِیک پُر مغز گفتگو کا مایوس کُن اختتام
    :soch: :soch: :soch:
     
  19. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    دوسروں کو متاثر کرنا


    اگر آپ ہر شخص سے اچھی طرح پیش آئے ہاتھ دبا کر مصافحہ کیا قریب بیٹھے اور گرمجوشی سے باتیں کیں تو نتائج نہایت پریشان کن ہو سکتے ھیں وہ خوامخواہ متاثر ہو جائے گا اور نہ صرف دوبارہ ملنا چاہے گا بلکہ دوسروں سے تعارف کرا دے گا۔ یہ تیسروں سے ملائیں گے اور وہ اوروں سے ، چنانچہ اتنے ملاقاتی اور واقف کار اکٹھے ہو جائیں گے کہ آپ چھپتے پھریں گے۔
    ممکن ھے کہ لوگ متاثر ہو کر آپ کو بھی متاثر کرنا چاہیں وہ بلا ضرورت بغل گیر ہوں گے ہاتھ دبائیں گے اور قریب بیٹھنے کی کوشش کریں گے،
    لہذا کسی کو متاثر کرنے کی کوشش مت کیجئے ، بالفرض اگر آپ کسی کو متاثر کر رھے ہوں تو خیال رکھیے کہ آپ اور اس شخص کے درمیان کم ازکم تین گز کا فاصلہ ہو ورنہ وہ آپ سے بغل گیر ہونے کی کوش کریں گے ( ہو سکتا ھے کہ کہیں آپ بھی اس سے متاثر نہ ہو جائیں ------ زندگی پہلے ہی کافی پیچیدہ ھے)
    !
    کبھی مت کہیئےکہ ------------" آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی " بلکہ اس سے پوچھئے کہ کہیں وہ تو آپ سے مل کے خوش نہیں‌ہو رہا ، اگر یہ بات ھے تو خبردار رہیئے


    مزید حماقتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شفیق الرحمن
     
  20. نابی
    آف لائن

    نابی ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مارچ 2009
    پیغامات:
    186
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    زبردست
    ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ؟
     
  21. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    نابی جی سمجھ کے تعریف کی تھی یا ہاتھ کنگن کو آرسی کے بعد
     
  22. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    اور وہ جدا ہونے سے پہلے اپنی زندگی کے اثاثے بانٹ رہے تھے سب سے پہلے انہوں نے ہنسی آدھی آدھی بانٹ لی ۔تو وہ بولی
    “تم اپنے حصے کی ہنسی کا کیا کرو گے “
    “یتیم خانے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دے دونگا“
    اس نے جواب دیا ۔ وہ بڑی فراخ دل نکلی اور جب اداسی بانٹنے کا وقت آیا تو کہنے لگی “میں اس میں سے کچھ نہیں لیتی ساری اداسی تم رکھ لو “
    اس طرح اس نے سارا سفر ، سارا انتظار، خزاں کے سارے موسم ، سردیوں کی تنہا شامیں اسے دے دیں اور کہنے لگی
    “آج تو تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں کنجوس نہیں ہوں “
    وہ بہت خوش ہوا اور بولا “وہ دوپہر بھی ساری مجھے دے دو جب ہم پہلی بار ملے تھے “ وہ مان گئی تو س نے وہ دوپہر بھی ، اداسی ، خزاں کے موسموں ، تنہائی اور سفر کے ڈھیر پر رکھ دی ۔
    اتنے میں اس نے فراخدلانہ لہجے میں پوچھا “ان سب کا کیا کرو گے “ وہ بڑے مطمئن لہجے میں بولا“اپنی اداسی کو جو حصہ تم نے مھجے دیا ہے اسے زندگی بھر اپنے ساتھ رکھونگا ۔ شامیں بوڑھے لائیبریرین کے نام کر دونگا ، انتظار منڈیر پر رکھے اس دیئے میں ڈال دونگا جسے سرِ شام جلا کر کوئی لڑکی کسی کی چاپ کی منتظر ہو گی ، سارا سفر خط میں ڈال کر پوسٹ کر دونگا ، جنکا محبوب دور ہو گا اور اس سے ملنے کے لیئے بے چین ہو گا “
    ریت پر انگلی سے ایک لمبی لکیت کھینچ کر وہ بولی “ سارا ماضی بھی تم رکھ لو“ یکدم خوشی کی ایک لہر اسکے چہرے پر اٹھی اور آنکھوں میں اکر ٹھہر گئی ۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور بولا
    “تم نے اپنا سارا ماضی بھی مجھے دیکر بہت اچھا کیا “
    “اسکا کیا کرو گے “ اس نے پوچھا
    “اسے اوڑھ کر پھرونگا آنے والی گرم تنہا دوپہروں اور سرد شاموں میں ۔۔۔۔ “
    وہ مسکرائی “ سارے لفظ بھی تم لے لو “ وہ ممنون سا ہو گیا اور بولا “ میں سارے لفظ بھی پوسٹ مینوں میں بانٹ دوں گا ۔ مگر ہمارے درمیان کچھ گیتوں کی سانجھ بھی ہے “
    “ہاں وہ بھی تم لے لو
    “ٹھیک ہے“ وہ مطمئن سا ہو گیا
    “انکا کیا کرو گے “
    “ملاحوں ، ساربانوں اور چرواہوں میں بانٹ دونگا ۔ کسی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی لڑکی کو دے دونگا “]
    یونہی وہ کتنی دیر اپنے اثاثے بانٹتے رہے ۔
    (مظہر الاسلام ۔۔۔افسانہ، آؤ بچھڑ جائیں )
     
  23. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جو بھی آتا ہے اللہ کی شکایت کرتا ہے کوئی کھل کر شکایت کا اظہار کرتا ہے ، کوئی دبے دبے الفاظ میں ، کوئی صاف صاف کہہ دیتا ہے ۔ کوئی کہے بغیر جتا دیتا ہے ۔ کوئی شکر کے پردے میں اپنی شکایت کو چھپا دیتا ہے ۔جیسا کہ شاعر نے کہا ہے
    جب کھینچ کے آہ سرد
    کہتا ہے کوئی بندہ
    جس حال میں بھی رکھے
    صد شکر ہے اللہ کا
    میں سوچنے لگتا ہوں
    یہ شکر کیا اس نے
    یا طعنہ دیا اس نے
    رزاق دو عالم کو
    سب ہی اس پہ گلے کرتے ہیں ، شکایات کرتے ہیں ، اعتراضات کرتے ہیں ۔ وہ سب کی سنتا ہے اور مسکراتا رہتا ہے ۔ہماری نا شکر گزاریوں پر اسے کبھی غصہ نہیں آتا ۔ اسکا دل کبھی ہماری جانب سے میلا نہیں ہوتا ۔
    ہماری گلی میں ایک بقیر آتا ہے ۔ وہ صدا دیتا ہے ۔ ہر چند منٹ کے بعد اسکی صدا ساری گلی میں گونجتی ہے
    “ میری باری کیوں دیر اتنی کری“
    اسکی صدا سنکر مجھے غصہ آتا ہے ۔ میر ے اندر کی بھٹیارن چڑ چڑ دانے بھونتی ہے۔ ایک روز میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ میں نے دوڑ کر فقیر کو پکڑ لیا ۔
    “ یہ تو کیا کر رہا ہے بابے ؟ “ میں نے غصے سے پوچھا
    “صدا دے رہا ہوں بابو جی ! “ وہ بولا
    “کیا مطلب ہے تیرا اس صدا سے ؟ “ میں نے اسے ڈانٹا
    “ میں منگتا ہوں ۔ مانگ رہا ہوں “ وہ بولا
    “ کیا ایسے مانگا کرتے ہیں ۔ احمق پہلے مانگنا سیکھ ۔ جو مانگنا ہے منت کر کے مانگ ، ترلے کر ، سیس نوا ، دینے والے کا ادب کر ، احترام کر ۔ تُو تو اسکے خلاف شکایت کر رہا ہے ‘میری بار کیوں دیر اتنی کری ‘ بے وقوف دینے والے کی مرضی ہے چاہے جلدی دے چاہے دیر سے دے ، چاہے کم دے چاہے زیادہ دے ، چاہے دے چاہے نہ دے “
    فقیر بولا “ جا بابو جی ! اپنا کام کر ہمارے معاملے میں دخل نہ دے ، مانگنے والا جانے اور دینے والا جانے تُو ماما لگتا ہے ۔ میں نے ساری زندگی یہی صدا دی ہے ۔اس نے کبھی ٹوکا نہیں مجھے ، کبھی غصہ نہیں کیا ۔ الٹا وہ مجھے دیتا رہا ہے ، دیتا رہا ہے “
    (تلاش از ممتاز مفتی )
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب بےباک بھائی ۔
    واقعی اثر آفرین تحریر ہے۔ خوبصورت انداز ہے۔ :a180:
     
  25. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    شکریہ نعیم بھائی :flor:
     
  26. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    اپنی زندگی میں ہم جتنے دل راضی کر لیں اتنے ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے ، ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں سخی کی سخاوت اسکی اپنی قبر کا دیا ہے ، ہماری اپنی صفات ہی ہمارے اپنے مرقد کو خوشبودار بناتی ہیں ۔ زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ ، زندگی میں ہی جلائے جاتے ہیں ، کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی
    (واصف علی واصف۔۔۔۔۔کرن کرن سورج)
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔بہت قیمتی بات کہی جناب واصف نے۔
    بہت خوب بےباک بھائی ۔
     
  28. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    شکریہ نعیم بھائی :flor:
     
  29. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا ہے ، انتطار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی ، میں نے مضطرب نگاہوں اور بے چین بدنوں کو دیکھا ہے ۔ آہٹ پہ لگے ہوئے کانوں کے زخموں کو دیکھا ہے ، انتظار میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا ہے ۔
    منتظر آدمی کے دو وجود ہوتے ہیں ایک وہ جو جگہ مقررہ پر انتظار کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جو جسدِ خاکی سے جدا ہو کر پذیرائی کے لیئے بہت دور نکل جاتا ہے ۔
    جب انتظار کی گھڑیاں دنوں ، مہینوں اور سالوں پر پھیل جاتی ہیں تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں آتا اور انتظار کرنے والے کا وجود اس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے جسے لوگ خوبصورت سمجھ کر سینت کر رکھ لیتے ہیں اور کبھی اپنے درمیان سے جدا نہیں کرتے ، یہ خالی ڈبہ کئی بار بھرتا ہے ۔ قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتا ہے لیکن اس میں وہ لوٹ کر نہیں آتا جو پذیرائی کے لیئے آگے نکل گیا تھا
    اشفاق احمد کی سفر در سفر سے انتخاب
     
  30. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    “ارے میاں ضربِ کلیم ! کہاں ہو ضربِ کلیم“ ۔
    “میاں ضرب کلیم ۔۔۔ابھی تک زبورِ عجم کو سکول لیکر نہیں گئے ، جاؤ ذرا پیامَ مشرق کو میرے پاس بھیج دو “
    “مولوی صاحب یہ کیا ہیں ؟“ میں نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا “یہ ضرب کلیم ، زبور عجم ۔۔۔۔“
    ‘ہاں میاں ‘ مولوی عبدالصمد خان نے فخر سے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے ہوئے کہا ۔۔۔“مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے ، وہ میرے محسن ہیں وہ میرے رزاق ہیں ، انہوں نے میرا گھر بھر دیا ۔ میں انکا معتقد ہوں ۔ مین نے اظہار عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام انکی تصانیف پر رکھ دیئے ہیں “
    “ضربِ کلیم چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے ، بی بی زبور عجم دوسری جماعت کی طالبہ ہے ، پیامِ مشرق گھڑی ساز کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے اور بال جبریل قرآن پاک حفظ کررہا ہے اور میری بڑی بیٹی اسرارِ خودی کالج کی طالبہ ہے اور میں نے اپنی بیوی کا نام بھی غفورن بی بی چھوڑ کر بانگِ درا رکھ چھوڑا ہے “
    اتنے میں اندر سے دستک ہوئی
    “ذرا سنیئے مولوی صاحب“!
    “ہاں پھوپھی فاطمہ کوئی خوشخبری ہے کیا “
    “ہاں مولوی صاحب مبارک ہو ، خدا نے آپکو جڑواں بچے دیئے ہیں اور دونوں ہی لڑکے ہیں “
    مولوی صاحب آ کر بیٹھ گئے ، خوشی سے انکا چہرہ تمتما رہا تھا
    “خدا نے دو بچے ایکدم عطا کیئے ہیں میاں “
    “مبارک باد قبول کریں مولوی صاحب“
    “ہاں میاں خدا کا احسان ہے۔۔۔اچھا میاں ! خدا تمھاری خیر کرے انکے نام تو بتاؤ ۔ اقبال کی کتابوں کے نام تو قریب قریب ختم ہو گئے ہیں ، تاہم دماغ لڑاؤ اور کوئی اچھے سے دو نام سوچو “
    “سوچ لیئے مولوی صاحب“
    “شکوہ اور جوابِ شکوہ“
    (ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب “سدا بہار سے اقتباس)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں