1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کاشفی کی پسندیدہ شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مبارز, ‏10 ستمبر 2008۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ صاحب واہ ۔
    کیا عمدہ اور قرینِ حقیٗقت کلام ہے۔
    کاشفی بھائی ۔ بہت خوب۔
     
  2. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ نعیم بھائی۔۔بہت بہت۔۔
     
  3. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (سرور عالم راز سرور)

    دل ہی دل میں ڈرتا ہوں کچھ تجھے نہ ہوجائے
    ورنہ راہِ اُلفت میں جائے جان تو جائے

    میری کم نصیبی کا حال پوچھتے کیا ہو
    جیسے اپنے ہی گھر میں راہ کوئی کھو جائے

    گر تمہیں تکلف ہے میرے پاس آنے میں
    خواب میں چلے آؤ، یوں ہی بات ہو جائے

    جھوٹ مسکرائیں کیا، آؤ مل کے ہم رو لیں
    شاعری ہوئی اب کچھ گفتگو بھی ہو جائے

    یہ بھی کوئی جینا ہے؟ خاک ایسے جینے پر
    کوئی مجھ پر ہنستا ہے، کوئی مجھ کو رو جائے

    میرے دل کے آنگن میں‌ کس قدر اندھیرا ہے
    کاش چاندنی بن کر کوئی اُس کو دھو جائے

    یاد ایک دھوکا ہے، یاد کا بھروسا کیا
    آؤ اور خود آکر یاد سے کہو، جائے!

    سوچ کر چلو سرور، جانے کون اُلفت میں
    پھول تم کو دِکھلا کر خار ہی چبھو جائے
     
  4. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (نسیم مخموری)

    ٹوٹ گئے اشکوں کے موتی اب یہ دامن خالی ہے
    کھو گئیں قدریں انسانوں کی اور پیراہن خالی ہے

    ہاتھ میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، راہ میں کوئی ساتھ نہیں
    تنہائی کی برکھا برسی، وصل کا آنگن خالی ہے

    کس موسم کی بات کروں میں، کس رُت کو شاداب کہوں؟
    ہر موسم کا وعدہ جھوٹا، شام سہاگن خالی ہے

    میرے دامن کو تو تم سے اشکوں کی برسات ملی
    اب یہ راتیں سونی سونی، اب یہ درپن خالی ہے

    میرا قصور، مری مجبوری اس کے سوا کچھ اور نہ تھا
    اس کی سب دیواریں اونچی، میرا آنگن خالی ہے

    سچا موتی مجھے بنا کر، کیسا کھیل رچایا ہے
    لوٹ لیا دُنیا نے سب کچھ، میرا تن من خالی ہے

    ماں کی شفقت، باپ کا سایہ دونوں مجھ سے روٹھ گئے
    اُجلی دھوپ سفر میں بھر دی، ابر سے بچپن خالی ہے

    میری خوشبو ختم ہوئی ہے ایک ہوا کے جھونکے سے
    اُٹھو
    نسیم سحر ہوتی ہے، روح سے اب تن خالی ہے
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بہت خوب بہت عمدہ مبارز جی
     
  6. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ خوشی جی۔۔
     
  7. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (کرامت علی کرامت - اڑیسہ، ہندوستان)

    مری گردن پہ گرتے ہیں تو خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
    جو دشمن مجھ سے ٹکراتے ہیں اکثر ٹوٹ جاتے ہیں

    کبھی ساحل سے ٹکرا کر مری کشتی بکھرتی ہے
    کبھی کشتی سے ٹکرا کر سمندر ٹوٹ جاتے ہیں

    اک ایسا دور بھی آتا ہے کوشش کے علاقے میں
    عمل بیکار ہوتا ہے، مقدر ٹوٹ جاتے ہیں

    یہ دل ہے، ہاتھ میں لینے سے پہلے یہ سمجھ رکھو
    ذرا سی ٹھیس لگ جانے سے ساغر ٹوٹ جاتے ہیں

    جو تصویریں بناتا ہوں، وہ میرا منہ چڑاتی ہیں
    اُبھرتے ہیں تصور میں جو پیکر ٹوٹ جاتے ہیں

    تکبر اک بری شے ہے، اِسے سر پر نہ بٹھلاؤ
    جو سر اوپر اُوچھلتے ہیں، وہی سر ٹوٹ جاتے ہیں

    نَفَس میں نَفَس ملتا ہے تو ایمان ڈگمگاتا ہے
    جہاں اُمت بہکتی ہے، پیمبر ٹوٹ جاتے ہیں


    کرامت خواب میں یوں خواب کا منظر نہ دیکھو تم
    حقیقت جاگ اُٹھتی ہے تو منظر ٹوٹ جاتے ہیں
     
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    مری گردن پہ گرتے ہیں تو خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
    جو دشمن مجھ سے ٹکراتے ہیں اکثر ٹوٹ جاتے ہیں

    واہ بہت خوب زبردست مبارز جی ، عمدہ کلام ھے شکریہ شئیرنگ کا
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب کاشفی بھائی ۔ مقطع بہت پسند آیا ۔ سو اسی پر بہت سی داد قبول کر لیجئے۔


    وگرنہ باقی غزل میں‌ بہت تضاد پایا جاتاہے۔
    مثلا ایک طرف مطلع میں جناب شاعر تکبر کی بلندیوں‌پر یوں‌رقم طراز ہیں

    اور پھر خدا جانے کسے "میاں نصیحت " بنتے ہوئے فرماتے ہیں

    (معذرت کے ساتھ۔۔ میں نے اپنی رائے عرض کی ہے وگرنہ کاشفی بھائی کے اعلی ذوق میں‌عرصہ دراز سے معترف ہوں۔)
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ کاشفی بھائی ۔ خوبصورت کلام ہے۔ ماشاءاللہ
     
  11. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بہت بہت خوشی جی۔۔۔

    شکریہ بیحد نعیم بھائی۔
     
  12. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (من موہن تلخ - ہندوستان)

    بہت ہیں روز ثواب و گناہ دیکھنے کو
    کہ ہم ہیں زندگیء بے پناہ دیکھنے کو

    بنے گی اب نظر انکار سو رُکے ہیں سبھی
    خود اپنی آنکھ سے اپنی نگاہ دیکھنے کو

    جو بخش دے مجھے پاکیزگی ترستا ہوں
    وہ رنگِ جذبہ، وہ معصوم چاہ دیکھنے کو

    نہ سنگ راہ کہو دل کے اس دوراہے پر
    کھڑے ہوئے ہیں فقط اپنی راہ دیکھنے کو

    ملا دیا ہمیں اپنوں سے، شکریہ اے وقت!
    یہی ملے تھے ہمیں یوں تباہ دیکھنے کو

    تنک مزاج ہیں ہم، یوں نہ روز روز ملو
    بہت ہے آؤ اگر، گاہ گاہ دیکھنے کو


    جو میرے بارے میں مجھ سے بھی معتبر ہے کوئی
    میں جی رہا ہوں ترا وہ گواہ دیکھنے کو


    سن اے ہمارے سفید و سیاہ کے مالک
    ہم آئے ہیں وہ سفید و سیاہ دیکھنے کو

    تم آنکھ تک نہیں ملتے مچا ہو جب کہرام
    تم آنکھ کھولتے ہو صرف راہ دیکھنے کو

    یہ کس کی آہ لگی گھر کوئی نہیں‌ملتا
    ہر اک مکان ہے خود سب کی راہ دیکھنے کو

    کھلا کہ دیدہء عبرت نگاہ کوئی نہ تھا
    اٹھی تھی یوں تو ہر اک کی نگاہ دیکھنے کو

    جو سب کی جان کا جنجال یہ نباہ ہے
    "تلخ"
    میں سب کے ساتھ ہوں بس وہ نباہ دیکھنے کو
     
  13. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    کلامِ امین
    (خواجہ امین الدین عظیم آبادی)

    امین تخلص، خواجہ امین الدین نام، عظیم آبادی۔ عالم دوستی اور اتحاد میں باقرینہ ہیں۔ علی ابراہیم خاں مرحوم کے یار دیرینہ ہیں۔ شعر فہمی اور سخن رسی میں زمانے کے یادگار ہیں۔ مضمون تراشی اور ادا بندی میں نادرِ روزگار ہیں۔ ذہن کو ان کے بندش کی صفائی میں نہایت ارجمندی ہے۔ اور طبیعت کو ان کی تلاش معنی میں اپنے ہمعصروں سے بلندی ہے۔ چند مدت نواب میر محمد رضا خاں مظفر جنگ بہادر کی رفاقت میں اوقات اُنہوں نے بہ کیفیت کاٹی ہے۔ بعد اس روزگار کے قناعت اور جواں مردی کے ساتھ خانہ نشینی میں زندگی بسر کی ہے۔ ایک دیوان چھوٹا سا زبان ریختہ میں ان کی تصنیف سے ہے۔ منتخب اس کا یہاں لکھا گیا بہت تخفیف سے ہے۔

    دنیا میں جو آکر نہ کرے عشق بتاں کا
    نزدیک ہمارے ہے یہاں کا نہ وہاں کا

    مانند نگیں آپ سے کاوش میں پڑا ہے
    مشتاق جو کوئی ہے یہاں نام و نشاں کا

    کرتا ہوں امیں میں تو ثنا اُس کی ولیکن
    مُنہ لال ہوا جاتا ہے خجلت سے زباں کا

    پردے سے جو وہ شہرہء آفاق نکلتا
    تب دیکھتے خورشید کا یہ نام نکلتا

    تھا کچھ بھی مناسب کہ نکلوادیا تونے
    گر صبح نہ نکلا تھا امیں شام نکلتا​

    --------------------------------------------------------------------------
    کیا کہوں یار سے اپنی سی کئے جاتا ہوں
    گالیاں کھاتا ہوں غصہ کو پئے جاتا ہوں

    جی نکلتا ہے، یہ لب یاد میں ہلتے ہیں تری
    مرتے مرتے بھی ترا نام لئے جاتا ہوں

    چاک سینہ کا مرے لوگ عبث سیتے ہیں
    ہم تو زخمی ہیں نگاہوں کے، کوئی جیتے ہیں

    سیل آتی ہے تو آنے دو مرا کیا لے گی
    گھر میں ایک میں ہوں پڑا، اور کئی بہتے ہیں

    فائدہ کیا ہے بھلا ہم جو کریں فکر معاش
    غم کو کھاتے ہیں
    امیں خون جگر پیتے ہیں

    ماخذ: گلشنِ ہند - از: مرزا علی لطف - بشکریہ: علیگڑھ اردو کلب - دیدہ ور
     
  14. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    کلامِ مصحفی
    (غلام ہمدانی مصحفی امروہوی)

    مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، ساکن امروہے کا ۔ اپنی قوم کا اشراف ہے، سچ تو یہ ہے کہ گفتگو اس کی بہت صاف صاف ہے۔ بندش نظم میں اس کے ایک صفائی اور شیرینی ہے، اور معنی بندش میں اس کے بلندی اور رنگینی۔ ایک مدت شاہ عالم بادشاہ غازی کے عہد سلطنت میں مقیم شاہ جہاں آباد کا رہا ہے۔ بالفعل کہ 1215ھ بارہ سو پندرہ ہجری ہیں، ایک چودہ برس سے اوقات لکھنؤ میں‌ بسر کرتا ہے۔ ضیقِ معاش تو وہاں ایک مدت سے نصیبِ اہلِ کمال ہے، اسی طور پر درہم برہم اُس غریب کا بھی احوال ہے۔ دیوان اس عزیز کا بھرا ہوا نظم کے جمیع اقسام سے ہے۔ یہ اس کے منتخب کلام سے ہے:

    پیری میں اور بھی ہوئے غافل ہزار حیف
    بے اختیار لے گئی ہم کو یہ خواب صبح


    ہوئی ہے بس کہ یہ فصلِ بہار دامنگیر
    چلیں چمن سے تو ہوتا ہے خار دامنگیر

    سمجھ کے رکھیو قدم دل جلوں کی تربت پر
    مبادا ہو کوئی تیرا شرار دامنگیر


    آگیا خط پہ سرِ مو نہ گیا ناز ہنوز
    ہے اسی ڈھب پہ نگاہِ غلط انداز ہنوز


    ایک دن رو کی نکالی تھی وہاں کلفتِ دل
    اب تلک دامن صحرا ہے غبار آلودہ


    -----------------------------------------------

    زبس آئینہ رو ہے طفل حجام
    نہیں بِن دیکھے اُس کے دل کو آرام

    جو دیکھیں اُنگلیاں وہ گوری گوری
    بنا خورشید پانی کی کٹوری

    وہ جس کے روبرو ناگاہ آیا
    اُسے حیرت نے آئینہ دکھایا

    ملا جب آئینہ کو ایسا نائی
    بنائی چار ابرو کی صفائی

    نہ کھینچے نامہء مو اُس کی تمثال
    کہ وہ ہے عاشقوں کی ناک کا بال

    سنے ہے مصحفی اب تو بھی فی الحال
    منڈا کر سر کو ہو جا فارغ البال


    ماخذ: گلشنِ ہند - از: مرزاعلی لطف ۔ بشکریہ: دیدہ ور - علیگڑھ اردو کلب
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کاشفی بھائی ۔ آپکے ارسال کردہ سارے کلام بہت گہرے ، دقیق اور عمدہ ہیں۔
    خوب انتخاب پر بہت سی داد قبول کیجئے۔
     
  16. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بیحد
     
  17. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل

    غزل
    (سید محمد حنیف اخگر - ہندوستان)

    دشواریوں نے راہ کو آساں‌بنا دیا
    ہر مرحلے کو منزلِ جاناں بنا دیا

    کتنی تھی تابِ حسن کہ اُس کی نگاہ نے
    ہر آرزو کو شعلہ بداماں بنا دیا

    چارہ گروں کی شعبدہ بازی پہ دل نثار
    درماں کو درد، درد کو درماں بنا دیا

    محدودِ آرزوئے مسرت تھا دل مرا
    وسعت نے غم کی اس کو بیاباں بنا دیا

    اک ذرہء حقیر کی قوت تو دیکھئے
    تسخیر کائنات کو آساں بنا دیا

    رُخ پر ترے ٹھہر کے مری چشم شوق نے
    آرائش جمال کو آساں بنا دیا

    اک جنبشِ نگاہ بڑا کام کر گئی
    تارِ نظر کو جزوِ رگِ جاں بنا دیا

    آیا ہے وہ بھی وقت کہ اکثر بہار نے
    ہرچاکِ گل کو میرا گریباں بنا دیا


    اخگر نقاب اُلٹ کے کسی خوش جمال نے
    کارِ دل و نگاہ کو آساں بنا دیا
     
  18. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    اک ذرہء حقیر کی قوت تو دیکھئے
    تسخیر کائنات کو آساں بنا دیا

    رُخ پر ترے ٹھہر کے مری چشم شوق نے
    آرائش جمال کو آساں بنا دیا

    اک جنبشِ نگاہ بڑا کام کر گئی
    تارِ نظر کو جزوِ رگِ جاں بنا دیا
    --------------------------------

    خوب انتخاب ۔ مبارز بھائی !
     
  19. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    مبارز صاحب ۔ بہت خوب انتخاب ہے۔ ماشاءاللہ
     
  20. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بیحد۔۔۔خوش رہیں۔۔
     
  21. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بہت بہت۔۔خوش رہیں۔۔
     
  22. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (سہیل ثاقب)

    شریر بچے کا یہ مان اچھا لگتا ہے
    کہ چاند چھونے کا ارمان اچھا لگتا ہے

    خموش رہتا ہے سنتا ہے مسکراتا ہے
    وہ بکھرا بکھرا سا انسان اچھا لگتا ہے

    تمہارے جانے کا دُکھ تو ضرور ہے لیکن
    تمہارے آنے کا امکان اچھا لگتا ہے

    نظر جھکان جھجکنا سمٹنا شرمانا
    وہ پہلا پہلا سا رومان اچھا لگتا ہے

    یہ ڈھلتی رات ہوا منجمد رُکا دریا
    یہ انتظار کا سامان اچھا لگتا ہے

    جتا دیا تو کہاں اُس کی رہ گئی وقعت
    کہا نہ جائے وہ احسان اچھا لگتا ہے

    کھٹن تو ہے یہ سفر زیست کا مگر ثاقب
    گزارنا جسے آسان اچھا لگتا ہے
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کاشفی بھائی ۔ ہمیشہ کی طرح بہت دلپذیر انتخاب لائے ہیں آپ ۔
    بہت شکریہ اس کرمفرمائی کا۔ :hands:
     
  24. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بیحد۔۔
     
  25. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (سید انجم کاظمی)

    جھرنوں کی بات کیجئے گاگر اُچھالئے
    رسموں کو توڑ تاڑ کے ساغر اُچھالئے

    الفت کے پھول توڑئیے در در اُچھالئے
    پیغام روشنی کا یہ گھر گھر اُچھالئے

    آنکھیں لگیں ہیں شہر کی کچھ معجزہ سا ہو
    حرفِ دعائے خاص کے گوہر اُچھالئے

    رائج ہیں شہرِ فن میں بلندی کے کچھ اُصول
    اک شے تو آپ قد کے برابر اُچھالئے

    خلقت ہے عام کردے گی سو سو کہانیاں
    اشکوں کی آڑ لے کے نہ منظر اُچھالئے

    تعبیر سو رہی ہے مقدر کو اوڑھ کر
    خالی ہوا میں‌خواب کے پیکر اُچھالئے

    ساحل سے دور کس لئے تنہا کھڑے ہیں آپ
    پانی کے پاس بیٹھئے کنکر اُچھالئے

    خاموش رتجگے تو تھکن کا پیام ہیں
    دل میں چھپا ہوا ہے سمندر اُچھالئے

    ٹوٹے سکوتِ شام کا آخر یہ سلسلہ
    جو بھی ہے دسترس میں وہ ہنس کر اُچھالئے

    دہرا رہے آپ سے ہم پھر وہی سوال
    اک قہقہہ فضا میں ستمگر اُچھالئے

    شامِ حسیں کو آج بنانا ہے بے مثال
    اپنی ادائے ناز کے جوہر اُچھالئے

    ردِعمل عمل سے ہے ہر حال میں سِوا
    ہر چیز آپ سوچ سمجھ کر اُچھالئے

    انجم کو زخم کھانے کا خاصہ ہے تجربہ
    اُس کی طرف نہ دیکھئے پتھر اُچھالئے
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب کاشفی بھائی ۔ اچھا کلام ہے۔
     
  27. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ بیحد۔
     
  28. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    ساحل سے دور کس لئے تنہا کھڑے ہیں آپ
    پانی کے پاس بیٹھئے کنکر اُچھالئے

    خاموش رتجگے تو تھکن کا پیام ہیں
    دل میں چھپا ہوا ہے سمندر اُچھالئے

    ٹوٹے سکوتِ شام کا آخر یہ سلسلہ
    جو بھی ہے دسترس میں وہ ہنس کر اُچھالئے

    دہرا رہے آپ سے ہم پھر وہی سوال
    اک قہقہہ فضا میں ستمگر اُچھالئے

    ردِعمل عمل سے ہے ہر حال میں سِوا
    ہر چیز آپ سوچ سمجھ کر اُچھالئے

    انجم کو زخم کھانے کا خاصہ ہے تجربہ
    اُس کی طرف نہ دیکھئے پتھر اُچھالئے



    بہت خوب مبارز جی بہت خوبصورت کلام ھے
     
  29. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ خوشی جی۔۔
     
  30. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی

    غزل
    (جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ)
    شاگرد رشید
    (حضرت نجم الدولہ دبیرالملک اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)


    ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات
    کل ایک لمحہ ہم نے نہ پائی تمام رات

    بیدار ایک میں ہی فراق صنم میں ہوں
    سوتی ہے ورنہ ساری خدائی تمام رات

    اپنی شب وصال تھی یا جنگ غیر تھا
    تھی ہر سخن پہ اُن سے لڑائی تمام رات

    بارے اس اضطراب کا کچھ تو اثر ہوا
    گھر میں اُنہیں بھی نیند نہ آئی تمام رات

    وہ اور اُن کے منہ کا دکھانا تو اک طرف
    صورت نہ موت نے بھی دکھائی تمام رات

    کیا ناز کی ہے واہ کہ گجروں کے بوجھ سے
    دُکھتی رہی وہ نرم کلائی تمام رات

    بننے سنورنے ہی میں اُنہیں صبح ہوگئی
    فرصت نہ عرضِ شوق کی پائی تمام رات

    اپنی نہ کوئی شب ہوئی آرام سے بسر
    رہتا ہے فکر روز جدائی تمام رات

    زخم دل و جگر میں‌ رہی ٹیس اس قدر

    مجروح مجھ کو نیند نہ آئی تمام رات
     

اس صفحے کو مشتہر کریں