1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏2 جون 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔
    (آصفؔ احمد بھٹی)
    خدایا!۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ مگر خدایا تو جانتا ہی ہے کہ میں ساری عمر اور ہر دکھ پریشانی کے باوجود تیری رضا میں راضی رہا ہوںمیں نے کبھی تجھ سے سوال نہیں کیا، جو تُو نے دیا میں نے شکر پڑھ کر لے لیا،کبھی کوئی فرمائش نہیں کی، کبھی کسی دکھ کی فریاد نہیں کی ، کبھی اپنے کسی زخم کا کھلامنہ تجھے نہیں دکھایا، اور کبھی کسی درد پر میری کراہ بھی نہیں نکلی، میں ہر بار ہر دکھ پر ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ مگر میرے خدایا! مجھے معاف کر دینا کہ آج میرے ہونٹوں پر ایک شکوہ آہی گیا ہے۔ ۔ ۔ خدایاایک سوال ہے جو میرے دماغ میںکہیں ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ خدایا! ایک بس سوال! مگروہ سوال کیا؟اب یہ بھی مجھے یاد نہیں آرہا۔ ۔ ۔ مجھے وہ سوال یاد نہیں آرہا ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ اور یاد بھی کیسے آئے درد کی شدت کسی طور کم ہی نہیں ہورہی بلکہ لمحہ بہ لمحہ بڑھ ہی رہی ہے، پورا جسم ایک پھوڑا بن گیا ہے ایک ایسا پھوڑاکہ جس کے درد کی شدت ہر لمحہ تیز تر ہوتی جارہی ہے ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ مگرخدایا! میں اپنے سارے دکھ اپنے بیٹے علی کو بتانا چاہتاہوں کہ وہ اب پندرہ سال کا ہو چکا ہے اُسے کسی حد تک اچھے برے کی تمیز بھی ہو چکی ہے ، میں جانتا ہوں پندرہ سال کچھ اتنے زیادہ بھی نہیں ہوتے مگرخدایا! تیرے بعد مجھے اُسی کا تو سہارا ہے۔ ۔ ۔ مگرخدایا! تو ہی بتا! میں اپنے دُکھ اُسے کیسے بتاؤں میں کچھ کہنے کے قابل رہا ہی کب ہوں ، کہ درد ختم کرنے والی دوائیں مجھے ہوش میں رہنے نہیں دیتی اور درد مجھے ہوش کھونے نہیں دیتا،اوراب تو ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا ہے کہ بس چند گھنٹے مزید۔ ۔ ۔ دماغ درد اور اذیت سے ماؤف ہورہا ہے ، میں اپنے بیٹے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر لفظ جب بھی جوڑتا ہوں وہ ایک کراہ بن کر ہی میرے منہ نکلتے ہیں اور علی میری ہر کراہ پر تڑپ سا جاتا ہے ، بے چینی سے ٹہلنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ خدایا!میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ خدایا! پچھلے تیس گھنٹوں سے میری ماں نہیں سوئی تھی اور سو بھی کیسے سکتی تھی جس کا بیٹا ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بنا سُرخ و سفید پٹیوں میں لپٹا ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہو اُسے نیند کیسے آسکتی ہے میری ماں تو ہمیشہ سے بدنصیب رہی ہے، نانا کے مرنے کے بعد نانی نے دوسری شادی کرلی تھی اورمیرا سوتیلا نانا اچھا آدمی نہیں تھاوہ شرابی اور جواری تھا وہ میری کم عمر ماں کو جوئے میں ہار گیا مگر جیتنے والا اچھا آدمی تھااور اچھا کیوں نہ ہوتاوہ میرا باپ تھا اور باپ چاہے کیسا بھی ہو وہ اچھا ہوتا ہے اُس نے میری ماں سے شادی کر لی وہ میری ماں سے تیس سال بڑا تھا، اورپندرہ سال بعد جب میری ماں تیس سال کی تھی تب میرا باپ مر گیا میری بد نصیب ماں بیوہ ہوگئی میں اور میرے بہن بھائی یتیم ہوگئے میں سب سے بڑا تھا میری عمر صرف بارہ سال تھی مگر اچھے برے کی تمیز تھی یا شاید ہوگئی تھی میری ماں بھرپور جوان تھی گلی کے آوارہ نوجوان ہمارے گھر کے سامنے رالیں ٹپکاتے گھومنے لگے ، ماں کی جوانی ایک خوف بن کرمیرے دماغ میں بیٹھ گی اورایک ہی رات میں میں پچاس سال کا ہوگیامیں اپنی ماں اور اُسکے بچوںکاباپ بن گیامیں نے کبھی بھی اور کسی بھی ضرورت کے تحت اُسے گھر سے نکلنے نہیں دیا ،ننھے ننھے ہاتھوں سے ہوٹلوں میں برتن مانجھے، پیسے والوں کی گاڑیاں دھوئیں ، سگنلزاورچوراہوںپرکنگیاں بیچی، لوگوں کی گالیاں سنی ماریں کھائیں ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ خدایا! میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ اور میرا بھائی ڈاکٹرفرہاد جومجھ سے صرف ایک ہی سال چھوٹا ہے اور جو آج شہر کا ایک نامور ڈاکٹر ہے اُس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے روزانہ سینکڑوں مریض اُنکے کلینک پر آتے ہیں وہ بھی پچھلے تیس گھنٹوں سے گھر نہیں گیا حالانکہ اُس کی بیوی کئی بار اُسے فون کر چکی ہے مگر وہ میری محبت میں ماں کے کندھے سے لگا بیٹھا تھاوہ ہمیشہ مجھ سے کہتا تھا۔ ۔ ۔ لالہ! تم میرے بھائی نہیں میرے باپ ہو اورہر بیٹا اپنے باپ سے فرمائشیں کرتا ہے اور میں اُس کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے اوراُس کا باپ بنے رہنے کے لیے اپنے جسم کو محنت کی بھٹی میں جلاتا رہا ہوں ، اُس کے تعلیمی اخراجات اور اُس کا جیب خرچ پورا کرنے کے لیے میں نے کئی بار اپنا خون بھی بیچااور اُس نے بھی کبھی مجھے مایوس نہیں کیا ہمیشہ کلاس میں اول آتا رہا اور جب ڈاکٹر بنا تو پورے صوبے میں اول آیا تھااسی لیے تو ڈاکٹر ارشاد خان جیسے بڑے آدمی نے اُسے اپنا داماد بنالیا اور اعلی تعلیم دلوانے کے لیے اپنے خرچے پرامریکہ بھیجاوآپس آکر وہ دو سال تک اپنے سسر کے ہسپتال میںکام کرتا رہا ہے ابھی کچھ سال پہلے ہی اپنا کلینک بنایا ہے اور ڈیفنس کی ایک شاندار کوٹھی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ تو ُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ خدایا!میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ اور میری بہن کنول!بلکل پھولوں جیسی نرم و نازک ،مجھ سے پانچ سال چھوٹی تھی مگر ایک دم ہی جوان ہوگئی مجھے پتہ ہی نہیں چلاپتہ بھی کیسے چلتا میں گھر پر رہتا ہی تب تھا، ماں فجر کی نماز پڑھ رہی ہوتی تو میں گھر سے نکلتا تھا اور آدھی رات کے بعد گھر آتا تھاکبھی کبھار جب جلدی گھر آجاتا اور وہ جاگ رہی ہوتی تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی اورمیرے کندھے پر چڑھ کر کھیلتی تھی یاماں ہر مہینے اُس کی اسکول فیس مانگتی تھی تب مجھے اُس کے وجود کا احساس ہوتا تھا، اور ہر سال جب وہ اپنے پاس ہونے کی خبر سنانے کو رات دیر تک جاگتی اور میرا انتظار کرتی تھی تب مجھے بہت اچھا لگتامجھے لگتا کہ میرے باپ کی روح مجھ سے بہت خوش ہوگی ۔ ۔ ۔ ماں کو اُس کی شادی کی بہت فکر تھی وہ ہر مہینے اُس کے جہیز کے لیے کچھ نہ کچھ خرید کر رکھ لیتی تھی اور پھر اُس کی شادی بھی ہوگئی، عمر اچھا لڑکا تھااُس کے ماں باپ بھی اچھے لوگ تھے اُنہوں نے کسی شے کی مانگ نہیں کی تھی بس ہم نے جو دیا چُپ چاپ لے لیا تھا مگر ایک سال بعد ہی جب فرہاد کواُس کے سسر نے امریکہ بھجوایاتوعمر کوبھی انگلینڈ جانے کا خبط ہوگیا ایجنٹ آٹھ لاکھ روپے مانگتا تھا اور اُس کے پاس صرف تین لاکھ تھے تب میں نے اپنا ایک گردہ بیچ کر اُسے باقی پیسے دئیے تھے، دو سال بعد اُس نے کنول کو بھی انگلینڈ بلا لیا تھا وہ اب بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہیں ہے۔ ۔ ۔ اورآج جانے اُنہیں کسی نے بتایا بھی ہے کہ نہیںاور بتایا بھی ہو تو انگلینڈ کون سا قریب ہے آنے میں کچھ وقت تو لگ ہی جائیگا، ہوسکتا ہے نہ بھی آئیں ہر انسان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ خدایا!میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ اور پھر ندیم!میرا بچپن کا دوست ،میرے ہربرے وقت کا ساتھی میری طرح وہ بھی بہت محنتی ہے ، پندرہ سال پہلے ہم دونوں نے مل کر جو ایک چھوٹا سا ٹی اسٹال شروع کیا تھا آج وہ شہر کا ایک مشہور ریسٹورنٹ بن چکا ہے اور ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کے کبھی ہم صرف خواب دیکھا کرتے تھے ، مگر جانے کیوں ماں کو اُس کا گھر میں آنا جانا پسند نہیں ہے ، بلکہ علی بھی ندیم کو پسند نہیں کرتابلکہ ایک بار تو علی اُس سے اُلجھا بھی تھا مگر اُس نے میرے بار بار اصرار کے بعد بھی مجھے وجہ نہیں بتائی تھی مجھے توندیم میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ اور میری بیوی نزہت!فرہاد اور کنول کی شادی کے بعد ماں کو میری شادی کی فکر ہوئی نزہت ماں کی دور کی رشتہ دار تھی میری شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی دراصل نزہت کے ماں باپ بہت غریب تھے خود اُس وقت میرے اپنے حالات کچھ اتنے اچھے نہیں تھے ، سو سادگی تو کرنی ہی تھی شادی کے بعد ہمیشہ میں نے محسوس کیا کہ نزہت مجھ سے کچھ کھنچی سی رہتی ہے مگر میرے پاس وقت ہی کب ہوتا تھا کہ یہ سب باتیں سوچ سکتا ، اور پھرمیں نے اپنا ٹی اسٹال نیا نیا ہی شروع کیا تھا ، حالانکہ ماں نے کئی بار مجھے سمجھایا بھی مگر بچپن سے محنت کی عادت پڑ گئی تھی اور پھر مجھے علی کے مستقبل کی بھی فکر ہونے لگی تھی علی کی پیدائش کے بعد نزہت نے دوسری بار ماں بننے سے صاف انکار کردیا تھااور میںبھی کم آمدنی کی وجہ سے اُس کی بات مان گیا تھامگر اب تو ۔ ۔ ۔ تیس گھنٹے پہلے تک میں ایک گردے والا مگر صحتمند آدمی تھی اور پچھلے کچھ عرصے سے نزہت کا رویہ بھی قدرے بہتر تھا پرسوںہماری شادی کی سالگرہ تھی حالانکہ اِس سے پہلے ہم نے کبھی اپنی شادی کی سالگرہ نہیں منائی تھی مگرجانے نزہت کے دل میں کیا آئی اُس نے فرہاد اور اُس کے بیوی بچوں کی دعوت کر ڈالی وہ لوگ آئے ہوئے تھے تب ہی نزہت نے مری جانے کا پروگرام بنالیامری میںفرہاد کا ایک کاٹج ہے علی ،اماں ،فرہاداور اُسکے بیوی بچے بھی ہمارے ساتھ تھے ہم سب مری آگئے نزہت اپنے پچھلے رویئے پر شرمندہ تھی شام کو ہم سب ٹہلنے نکلے بہار کے ابتدائی دن ہیںابھی اِکا دُوکا لوگ ہی مری آئے ہیںاس لیے سڑک بلکل سنسان تھی علی اور اماں فرہاد اور اُس کے بچوں کے ساتھ ہم دونوں سے کچھ آگے جارہے تھے نزہت میرے ساتھ تھی سڑک کنارے کچھ خوبصورت جنگلی پھول نظر آرہے تھے نزہت نے مجھ سے پھول کی فرمائش کی میں پھول توڑنے کے لیے جھکا اور اپنا توازن نہ رکھ سکااور نیچے گہری کھائی میں گرتا چلا گیابس نزہت کی چیخ سنائی دی اور پھر کچھ ہوش نہ رہا۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ خدایا۔ ۔ ۔ وہاں میرے اور نزہت کے سوا اور کوئی بھی نہ تھا پھر مجھے کیوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا تھا۔ ۔ ۔ خدایا۔ ۔ ۔ میں نے تو کبھی نزہت پر شک نہیں کیا تھا،کبھی اماں کے کہنے پر بھی ۔ ۔ ۔ اماں کے منع کرنے باوجود۔ ۔ ۔ علی کے ندیم سے اُلجھنے اور پھر مجھے وجہ نہ بتانے کے باوجودمیں نے ندیم کو گھر آنے سے نہیں روکا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ توُتوسب جانتا ہے۔ ۔ ۔ تجھے کیا بتانا۔ ۔ ۔ خدایا!میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں تجھ سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ہاں! ہاں یاد آگیا۔ ۔ ۔ خدایا! مجھے یاد آگیا۔ ۔ ۔ خدایا!میں نے کبھی تیری کوئی نماز نہیں پڑھی۔ ۔ ۔ کیا کرتا مجھے کبھی اِس کی فرصت ہی نہیں ملی۔ ۔ ۔ کیا تو مجھے بھی دوزخ میں جلائے گا؟
    (آصفؔ احمد بھٹی)
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔

    اللہ اکبر!

    بے شک اللہ بہتر جانتا ہے
     
  3. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔

    ماشاء اللہ آصف بھائی بہت خوب
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔

    آصف پتر ایک بار پھر شاباش
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: توُ تو سب جانتا ہے۔ ۔ ۔

    آپ دونوں‌ کی محبتوں کا بہت بہت شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں