1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یزید بن معاویہ (اسلامی تاریخ کے آئینے میں)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از طارق راحیل, ‏4 جنوری 2009۔

  1. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    یزید بن معاویہ

    یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی) خلافت امویہ کے دوسرے خلیفہ تھے۔ وہ 23 جولائی 645 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے امیر معاویہ کے بعد 680ء سے 683ء تک مسند خلافت سنبھالا۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ یزید کی ماں کا تعلق شام کے ایک عیسائی قبیلہ سے تھا، تاہم اس بات کی تصدیق کسی مستند حوالے سے نہیں ہوسکی اس لیے جمہور مورخین اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے دور میں سانحۂ کربلا میں نواسہ رسول اور جگر گوشہ بتول سیدنا حسین علیہ السلام شہید کئے گئے۔

    یزید بن معاویہ نے امیر معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں مسند خلافت سنبھالی۔


    * 1 یزید بن معاویہ کے بارے میں اہل سنت کا موقف
    * 2 شیعہ موقف
    * 3 حوالہ جات
    * 4 بیرونی روابط
    * 5 بیرونی روابط

    یزید بن معاویہ کے بارے میں اہل سنت کا موقف

    امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کے امیر تھے جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے۔ اس لشکر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارت دی تھی : اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم[1]
    "میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا اللہ نے اس لشکر کی مغفرت کردی" امیر معاویہ کے دور خلافت میں، سن 55 ھ میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا۔ اس لشکر کی کمان (قیادت) یزید بن معاویہ کررہے تھے۔ اس حدیث میں دی گئی جنت کی بشارت کی وجہ سے قرون اولیٰ کے تقریباً تمام اہل سنت علماء یزید بن معاویہ کو برابھلا کہنے کے مخالف ہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں "علمائے کرام کی اکثریت یزیدبن معاویہ کو برابھلا کہنے کے خلاف ہے"[2]

    مفسر قرآن علامہ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ النہایہ میں سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی محمد بن حنفیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یزید بن معاویہ نیک انسان تھا اور وہ ان پر لگائے جانے والے الزامات کو درست نہیں مانتے۔[3]


    شیعہ موقف

    امام حسن علیہ السلام اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان صلح کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ ان کے بعد کوئی جانشین مقرر نہیں ہوگا مگر امیر شام نے اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کیا اور اس کے لئے بیعت لینا شروع کر دی۔ کچھ اصحاب رسول رضی اللہ تعالی عنہم نے اس بیعت سے انکار کر دیا جیسے حضرت عبداللہ بن زبیر۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ یزید کا کردار اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ یزید کی تخت نشینی کے بعد اس نے امام حسین سے بیعت لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ یزید نے مدینہ کے گورنر اور بعد میں کوفہ کے گورنر کو سخت احکامات بھیجے کہ امام حسین سے بیعت لی جائے۔ یزید نے جب محسوس کیا کہ کوفہ کا گورنر نرمی سے کام لے رہا ہے تو اس نے گورنر کو معزول کر کے ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا جو نہایت شقی القلب تھا۔ مورخین نےلکھا ھے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خاندان رسالت کو قتل کیااور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا ۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نےحسین علیہ السلام کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ھے [4]

    'کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئي فرشتہ آیا ہے'

    حوالہ جات

    1. ^ (صحیح بخاری ۔ کتاب الجہاد Bukhari:4.175)
    2. ^ (بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
    3. ^ البدایہ النہایہ
    4. ^ دمع السجوم ص 252
     
  2. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    Re: یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب

    السلام علیکم ۔
    یزید بدبخت کو جس حدیث پاک کی رو سے جنتی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔یہ علم حدیث پر بہت بڑا ظلم، اہلبیت اطہار سے بغض و عناد اور یزید بدبخت سے وفاداری کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث پاک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر قسطنطنیہ کا نام ہی نہیں لیا ۔ بلکہ مغفرت کی بشارت کی کسی بھی حدیث پاک میں قسطنطنیہ کا نام ہی نہیں‌ہے۔ قسطنطنیہ کا نام یزید کے پیروکاروں اور بنو امیہ کے پروردہ علماء نے زبردستی حدیث میں گھسیڑ کر یزید بدبخت کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اور یزید اس لشکر کا امیر بھی نہ تھا۔ یہ بھی غلط بات ہے۔ پھر مزید یہ کہ یہ بشارت پہلے لشکر کے لیے تھی ۔ جبکہ امام ابن اثیر کی تاریخ الکامل ، امام ابن کثیر کی تاریخ ابن کثیر کی رو سے یزید بدبخت نہ پہلے لشکر میں تھا، نہ دوسرے نہ تیسرے بلکہ ساتویں لشکر میں گیا تھا۔پہلے چھ لشکروں کی روانگی کے وقت یزید بدبخت نے جانے سے انکار کر دیا اور بدبخت شراب و شباب کی مستیوں میں دھت رہا اور جہاد پر جانے والے مجاہدین پر گذرنے والی مصیبتوں پر خوشی کے شعر پڑھتا تھا۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے زبردستی ایک سزا کے طور پر بھیجا تھا۔

    مزید تفصیل کےلیے حوالہ جات کے ساتھ مندرجہ ذیل کلپس سنئیے۔

    حصہ اول​
    [youtube:mt4rj3vz]http://www.youtube.com/watch?v=PlyKQWTw3ew[/youtube:mt4rj3vz]​

    ذرا ایمان سے سوچنے کی بات ہے کہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایک حدیث کو توڑ موڑ کر یزید کو جنتی ثابت کرنےسے پہلے اتنا تو سوچا ہوتا کہ سید الشباب اھل الجنۃ یعنی تمام جنتی مردوں کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر قلم کرکے ، انکے لبوں پر چھڑیاں مارتا پھرے۔ اہلبیت اطہار کی خواتین سے بدسلوکیاں کرتا پھرے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے خوشی و مسرت کے شعر پڑھے کہ میں نے آج جنگ بدر میں مارے جانے والے اپنے کافر آباء وا جداد کا بدلہ لے لیا ہے۔ تو کیا وہ بدبخت پھر بھی مسلمان رہا اور جنت کا حقدار رہا ؟ جنت کے تو سردار ہی امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو پھر دشمنانِ حسین رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی جنت میں بھیج کر معاذاللہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی جنت کی سرداری کا مذاق بنوانا چاہے گا ؟ ذرا مزید سنئے ۔۔۔
    حصہ دوم​

    [youtube:mt4rj3vz]http://www.youtube.com/watch?v=zdhSiGTNaXo[/youtube:mt4rj3vz]​

    یزید کا کردار ، بلکہ بدکرداری، ظلم و ستم ، مدینہ شہر کی بےحرمتی ، مسجد نبوی کی بے حرمتی ۔مزید تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں سنئے
    حصہ سوم​

    [youtube:mt4rj3vz]http://www.youtube.com/watch?v=Lj2T1UjZVdg[/youtube:mt4rj3vz]​
     
  3. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    Re: یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب

    معذرت چا ہتا ہوں مجھے ان تفصیل کا علم نہ تھا
    یہ تو بس وکی پیڈیا سے جو معلومات ملیں میں نے پیش کر دیں
    اللہ سے بھی معافی کا طلب گار ہوں
     
  4. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    Re: یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب

    السلام علیکم جناب طارق راحیل صاحب۔
    اللہ تعالی آپ کو اس کشادہ قلبی سے معذرت کرنے پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
    آپ نے بہت فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اتنی بڑی حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ جو ایک مسلمان کے ایمان کو بچانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اسی بہانے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جیسے مستند عالم دین سے تاریخ اسلام کی روشنی میں حقیقت بھی منظرِ عام پر آگئی ۔

    چھوٹی سی گذارش یہ کرنا چاہوں گا۔ کہ یزید بدبخت کو جنتی ثابت کرنے کا جو موقف اوپر اہلسنت والجماعت کے موقف کے طور پر پیش کیا ہے یا کہیں بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل خلافِ حقیقت ہے۔ یہ موقف صرف اس طبقے کا ہے جن کے دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہیں ، جو اہلبیت اطہار کی محبت سے بیزار ہیں۔ جو محرم الحرام شروع ہوتے ہی کہ جن ایام میں آقا کریم :saw: کو انکے پیارے نواسوں کو شہید کرکے اذیت دی گئی ۔ اہلبیت اطہار پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ ان دنوں نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر خاندان رسالت کے افراد کی دردناک شہادت کا ذکر کرنے کی بجائے ۔ انکے قاتل، دشمنِ رسول اور انتہائی بدکردار شخص یزید پلید کے ترانے گانے شروع کردیتے ہیں۔

    یہ موقف اہلسنت والجماعت کا ہرگز نہیں ۔ بلکہ امت مسلمہ کی اکثریت کا موقف وہ ہے جو آپ نے شیعہ موقف کے نام سے پیش کیا ہے۔ یزید پلید قاتلِ حسین ہے۔ دشمن اہلبیت اور دشمن رسول ہے۔ حضرت امام حسین :rda: کا کٹا ہوا سر مبارک جب اسکے دربار میں پہنچا تو اس نے خوشی سے جو شعر پڑھے تھے جن کا ترجمہ تھا

    کہ کاش میرے کافر آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے تھے۔ وہ آج دیکھتے کہ میں نے انکو قتل کرنے والوں سے آج کیسا بدلہ لیا ہے۔

    آئمہ کرام کی اکثریتی رائے ہے کہ یزید بدبخت یہ جملے کہنے سے اسلام سے ہی خارج ہوگیا تھا۔ اور یزید پلید کے جانشین اور اسکی محبت کا دم بھرنے والے حدیث پاک کو موقف پر ہی ظلم کرتے ہوئے ، جھوٹ کے پلندے باندھ کر یزید پلید کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    کاش ہم سب ذرا اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارے دل میں حضور اکرم :saw: کے لیے محبت کتنی ہے کہ جس محبت کے بغیر ایمان ہی نہیں ملتا۔ اور اس محبت کے صدقے اہلبیت اطہار اور امام حسین اور دیگر اہلبیت سے محبت کتنی ہے ۔ اور اگر محبت ہے تو امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہمارا دل کتنا مغموم ہے ؟
    اسکے برعکس
    یزید اور دیگر دشمنانِ اہلبیت کے لیے ہمارے دل میں کیا جذبات ہیں ؟

    واقعہ کربلا سے قطع نظر، بھی یزید بدبخت اپنے شخصی رزائل میں بھی ایک انتہائی گھٹیا و بدکردار انسان تھا۔ اس نے مدینہ طیبہ میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے قتل کی کھلی اجازت دے دی تھی ۔ مسجد نبوی میں 3 دن تک اذان اور نماز کا سلسلہ منقطع کروا ۔ شراب کا رسیا تھا۔ عورتوں سے زناکاری کرنا اسکے لیے عام تھا۔ اسلام تعلیمات کے برعکس ہٹ دھرمی سے اسلامی حکومت کے تخت پر قبضہ کرکے غاصب و خائن بھی کہلایا۔

    اللہ تعالی ہمیں ایمان کا نور اور اپنے نبی اکرم :saw: سے سچی محبت عطا فرمائے۔ اور اس محبت کے صدقے حضور اکرم :saw: کے اہلبیت اطہار اور انکے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم سے محبت ، عقیدت اور تعظیم و تکریم عطا فرمائے۔ آمین
    اور ان عظیم ہستیوں کے دشمنوں کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود فرمائے۔ آمین
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    Re: یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب

    میں مندرجہ بالا حوالوں سے متفق نہیں ہوں

    [youtube:uenq994n]http://www.youtube.com/watch?v=W_xysIQpMLM[/youtube:uenq994n]

    یہ ویکی پیڈیا کی رپورٹ تھی
     
  6. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بھائی طارق راحیل ،آپ کن حوالہ جات سے متفق نہیں ہیں ، ڈاکٹر صاحب کے دیے ہوئے حوالہ جات سے ، وکی پیڈیا کے حوالہ جات سے ، یا وسیم صاحب کی گفتگو سے جس میں‌عام طور پر معروف کہانیوں کی زبان استعمال کر کے اپنی حب اہل بیت کا اظہار کیا گیا ہے ، اور وہ شخصیات جنہیں اہل بیت کہا جاتا ہے یہ انداز گفتار دیکھیں تو اس ہر کبھی راضی نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قصے کہانیوں اور قران و حدیث کا مقام اور فرق جان اور مان سکیں ،
    بھائیو ، جس کا دل یزید کو جنت کی بشارت پانے والوں میں نہیں مانتا وہ اسے لعین یا پلید وغیرہ کہنے سے بھی گریز کرے ، تا کہ ان میں شمار نہ ہو جو تاریخی کہانیوں کی بنا پر صحیح حدیث کو رد کرنے والے ہیں ،
    اور یہ بھی یاد رکھیے """" تلک اُمۃ قد خلت لھا ما کسبت و لکم ما کسبتم و تُسالون عما کانوا یفعلون ::: وہ ایک امت تھی و گذر گئی اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کمایا اور تم لوگوں کے لیے وہ کچھ ہے جو تم نے کمایا اور تُم لوگوں سے اُن (تُم سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں( کے بارے میں کچھ نہ پوچھا جائے گا """
    تو کیا یہ زیادہ اچھا نہیں کہ ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرماین کے مطابق ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کے مطابق اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کریں اور ان کے بارے میں خاموش رہیں جن کے بارے ہماری کوئی بات انہیں فائدہ تو پہینچا نہیں سکتی لیکن ہمیں نقصان ضرور پہنچا سکتی ہے ، و السلام علیکم۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. سعد
    آف لائن

    سعد مبتدی

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2009
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں فورم کے معزز اور بااصول اور منصف کار پردازان سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں

    اسی نوعیت کے تھریڈ میں ہونے والی بحث کے نتیجے میں
    نعیم
    فرخ
    سیف
    ممبران کو بین کر دیا گیا تھا بعد میں نعیم صاحب کو جانبداری سے جسے انصاف کا نام دیا گیا، بحال کر دیا گیا تھا


    اب پھر ویسا ہی تھریڈ شروع ہو گیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اس کی کیا وجہ ہے؟

    کیا پہلے تجربات کافی نہیں تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تو شیعہ حضرات کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں ابو مخنف کی بے بنیاد روایات کی بنیاد پر۔۔۔۔

    کچھ لوگوں کو حدیث بھی گوارا نہیں کہ وہ اس کی تاویل اپنی مرضی و منشا سے کرنا پسند کرتے ہیں

    کچھ لوگ حب اہل بیت کی آڑ میں جو مرضی کہہ دیں تو جائز ہے

    لیکن

    فورم کی انتظامیہ اب پھر چپ چاپ تماشا دیکھ رہی ہے

    جب اس نوعیت کی اختلافی باتوں پر پابندی ہے تو یہ تھریڈ کس وجہ سے جاری ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  8. سعد
    آف لائن

    سعد مبتدی

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2009
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یزید اور اس کے خاندان کو جب شہادتِ حسین (رضی اللہ عنہ) کی خبر پہنچی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور روئے بلکہ یزید نے یہاں تک کہا :
    '' عبید اللہ بن زیاد پر اللہ کی پھٹکار ! واللہ ! اگر وہ خود حسین ص کارشتہ دار ہوتا تو ہر گز قتل نہ کرتا۔''
    ( تاریخ الطبری : ٤ / ٣٥٣ اور البدایہ : ٨ / ١٩٣ )
    پھر یزید نے حضرت حسین کے پسماندگان کی کی بڑی خاطر تواضع کی اور عزت کے ساتھ انھیں مدینہ واپس پہنچا دیا ۔
    اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ آخر وقت تک دمشق میں یزید کے پاس رہیں اور آج بھی ان کی قبر دمشق ہی میں ہے۔ مزید برآن حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولادوں میں سے کئی کی شادیاں یزید کی اولادوں سے ہوئیں۔ اگر یزید شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا مرتکب ہوتا تو کیا اس وقت کی قبائلی حمیت ان شادیوں کی اجازت دیتی تھی یا ایسا ممکن ہو سکتا تھا کہ ایک قاتل کے خاندان میں شادیاں کی جاتیں۔

    بدقسمتی سے آج کل یہ رواج عام ہو گیا ہے کہ بڑے بڑے علما ء بھی یزید کا نام برے الفاظ سے لیتے ہیں اور اُس پر لعنت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے اور اس کو '' حب حسین (رض)'' اور '' حب اہل ِ بیت (رض)'' کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں ۔ جب کہ محققین علمائے اہل سنت نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ قتل ِ حسین (رض) میں یزید کا نہ کوئی ہاتھ ہے ، نہ اس نے کوئی حکم دیا اور نہ اس میں اس کی کوئی رضامندی ہی شامل تھی ۔

    امام غزالی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب '' وفیات الاعیان '' میں ایک جگہ فرماتے ہیں :
    '' یزید کی طرف سے حضرت حسین (رض) کو قتل کرنا ، یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا ... تینوں باتیں درست نہیں ۔ اور جب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے متعلق ایسی بد گمانی رکھی جائے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے کہ مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے ... '' ( وفیات الاعیان : ٢ / ٤٥٠ )

    اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب '' احیاء العلوم '' میں ایک جگہ فرماتے ہیں :
    '' اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے کیونکہ وہ ( حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا) قاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا تھا ؟ تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک یہ باتیں ثابت نہ ہوں ، یزید کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا ۔ '' ( احیاء العلوم : ٣ / ١٣١ )

    مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی ، یزید کے بارے میں یہ وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ اُس کو کافر جانتے ہیں اور امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ اس کو مسلمان کہتے ہیں ، اپنا مسلک یہ بیان کرتے ہیں : ( احکام شریعت ، حصہ دوم ص : ٨٨ )
    '' اور ہمارے امام (ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر ، لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے ... ''

    اور یزید رحمہ اللہ کے فسق و فجور کے افسانوں کی تردید میں خود حضرت حسین کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کا یہ بیان کافی ہے :
    '' تم یزید کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ، میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انھیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائی شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے ۔ '' ( البدایۃ و النہایۃ ، جلد : ٨ ص : ٢٣٣ )


    ساری باتوں کو ایک طرف رکھیں صرف یہ دیکھیں کہ کربلا کے میدان میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا اور اگر یزید اتنا ہی فاسق و فاجر تھا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کیوں کیا؟ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اگر یزید کو کافر سمجھتے اور اس سے دشمنتی رکھتے تو یہ شرائط کیوں پیش کرتے

    ١۔ مجھے یا تو مدینہ واپس جانے دو۔۔۔
    ٢۔ یا مجھے کسی اسلامی ریاست کے سرحدوں تک پہنچا دو۔۔۔
    ٣۔ یا پھر مجھے میرے بھائی (ابن عم) یزید کے پاس جانے دو۔۔۔

    اگر یہ حق اور باطل کا معرکہ تھا جیسا کہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے تو پھر اس معرکہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس طرح کی شرطیں کیوں رکھتے؟؟؟
     
  9. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    السلام علیکم۔
    محرم الحرام کے مہینہ میں تقریبا 3 ماہ قبل میں نے طارق راحیل بھائی کی معلومات میں اضافے اور تصحیح کے لیے یزید کے حوالے سے کچھ جنرل سی گذارشات پیش کی تھی ۔ خیال تھا کہ معاملہ رفع دفع ہوچکا ہے۔
    لیکن محترم بھائی سعد نے ایک دفعہ پھر دفاعِ یزید کا علم بلند کیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں یزید کو پاک صاف ثابت کرنے کی جسارت کی۔
    ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوگیا ۔ کہ
    اس لڑی میں ۔۔۔

    ۔۔غیر جانبدار مضمون بھی موجود تھا۔
    ۔۔پھر اہل بیت اطہار رضوان اللہ عنھم سے محبت کرنے والے غلامانِ حسین رضی اللہ عنہ کا موقف بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں سامنے آیا۔
    ۔۔ اب آخر میں یزید یوں کا موقف ہی باقی تھا ۔ سو وہ بھی آ ہی گیا۔


    آئیے ۔ دشمنِ حسین رضی اللہ عنہ ، یعنی یزید بدبخت کے شخصی رزائل تاریخی حقائق کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے۔

    محترم بھائی نے جن تاویلوں کے ذریعے " اگر ۔۔۔ تو ۔۔۔ ثابت ہوا " کی منطق کے تحت یزید کو بری الذمہ از قتلِ حسین و اھلبیت اطہار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یقیناً بچگانہ ہے۔ ایسا کہنے والے عظیم خلیفہ ء راشد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ (کہ جن کی زبان پر حق بولتا تھا اور شیطان جن کی راہ سے دور بھاگ جاتا تھا (الحدیث) کا وہ مشہور زمانہ فرمان اور اصول نظر انداز کردیتے ہیں کہ " اگر دجلہ کے کنارے بکری کا بچہ بھی (اگر بھوک سے بھی ) مر گیا تو قیامت کے دن عمر (رضٰ اللہ عنہ)‌اسکا جواب دہ ہوگا۔
    حیرت ہے تربیت یافتہ نبی برحق کے صحابی اور مسلمانوں کے عظیم خلیفہ راشد تختِ خلافت پر بیٹھنے کے بعد بکری کے بچے کی موت کا بھی ذمہ قبول کریں۔ اور یزید پلید کے حواری اسکی یزیدی سلطنت میں بکری کا بچہ نہیں بلکہ محبوبِ خدا تعالی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشے اور جنتیوں کے سردار سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور اھلبیت اطہار کے ستر یا بہتر پھولوں کو شہید کردیا جائے اور یزید بدبخت پھر بھی معصوم فرشتہ ہی رہے ؟؟؟؟؟

    دوستانِ محترم ۔۔۔۔ واقعہ کربلا سے قطعِ نظر یزید کا شخصی کردار دیکھیے۔​


    ہم تاریخِ اسلامی کے مقبول، معتمد اور غیرمتنازعہ مورخین ۔امام ابنِ کثیر اور ابنِ عساکر (رح) کو پڑھتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ یزید بدبخت کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔
    یزید کے شخصی رزائل

    میں بحث میں بے جا الجھنے کی بجائے دوستوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہتا ہوں۔ واقعہ کربلا سے ہٹ کر یزید کے چند مزید خصائصِ رزیلہ کو دیکھیں اور پھر بھی نعرہ لگائیں کہ ایسے خبیث مردوں کو برا نہ کہیں بلکہ رضی اللہ عنہ یا رحمہ اللہ علیہ تک معاذ اللہ کہہ دیں۔ تو اس سے بڑا ظلم اور عداوت و بغضِ اہلبیت اطہار کیا ہوگا کہ جنہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتیء نوح کی مانند فرما کر انکی عظمت و اہمیت کو اجاگر فرمایا اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیھا کو جنت کے جوانوں کے سردار فرمایا۔

    حوالہ کے لئے عظیم مؤرخ و مفسر امام ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ کے چند جملے ملاحظہ ہوں:

    یزید شرابی ، بدکردار اور تارک الصلوۃ تھا۔

    یزید شرابی تھا، فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا اور نشے میں رہنے کے باعث تارک الصلوٰۃ بھی تھا۔ اُس کی انہی خصوصیات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی تھی، جس کا ذکر امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں یوں ملتا ہے:

    ذکروا عن يزيد ما کان يقع منه من القبائح في شربة الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعه فخلعوه. عند المنبر النبوي (البدايہ و النہايہ، 6 : 234)
    ترجمہ:
    یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی۔

    یزید کا اپنی بیعت کے منکروں کا قتل جائز سمجھنا

    اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کی گستاخی یا انکار کرنے والے کو قتل کر دیا جائے۔ جیسا کہ سیدنا علی مرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے کئی ماہ تک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ فرمائی، مگر ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہ ہوا۔ جب غلط فہمی دور ہو گئی تو آپ نے بیعت فرما لی۔ بیعت نہ کرنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ معاذ اللہ نہ کافر ہوئے اور نہ ہی ان کے خلاف قتال جائز ہوا۔ ادھر آپ کے یزید ملعون ہیں کہ ہر وہ شخص جو ان کی بیعت سے انکار کرے اسے زندہ رہنے کا حق ہی نہ دیں۔

    قرآن مجید کے اس حکم کے بارے میں آّپ کا کیا خیال ہے جس میں ایک عام مسلمان کو قتل کرنے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب اور لعنت کا ذکر فرمایا:

    وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء، 4 : 93)

    ترجمہ:
    اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

    مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائدہ، 5 : 32)
    ترجمہ:
    جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں

    ان آیاتِ کریمہ کی روشنی میں یزید کے بارے میں بآسانی ثابت ہوتا ہے کہ:

    • مسلمانوں کو عمداً قتل کرانے کی وجہ سے اس کا عذاب دوزخ ہے۔
    • ایک مسلمان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے۔


    اب ذرا اپنے عظیم راہنما یا آئیڈیل یزید کے مزید کرتوت سنیں کہ جس کو اللہ تعالی کی رحمت کا حقدار باور کراتے ہوئے آپ کے قلم اور زبان ذرا بھی خوفِ الہی سے نہیں تھرتھراتے ۔

    جب اس نے گورنرِ مدینہ کو سیدنا امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے بیعت لینے کا حکم دیا تو اس موقع پر ہونے والی شیطانی مشاورت میں کہا گیا کہ اگر وہ یزید کی بیعت پر راضی ہو جائیں تو درست ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ ملاحظہ ہو امام ابن اثیر کی کتاب الکامل:

    تدعوهم الساعة وتامرهم بالبيعة فان فعلوا قبلت منهم وکففت عنهم وان ابوا ضربت اغناقهم قبل ان يعلموا بموت معاويه. (الکامل لابن اثیر، 3 : 377)

    ترجمہ:
    انہیں اسی لمحے بلایا جائے اور انہیں حضرت امیر معاویہ (رض) کی موت کی خبر ملنے سے پہلے (یزید کی) بیعت کرنے کا حکم دیا جائے۔ پھر اگر وہ مان لیں تو اسے قبول کر لیا جائے اور انہیں چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ انکار کریں تو ان کی گردنیں توڑ دی جائیں۔

    اگر واقعہ کربلا (نعوذ باللہ) اتفاقی حادثہ تھا یا معرکہ حق و باطل نہ تھا بلکہ سیاسی جنگ تھی تو اہل مدینہ نے تو یزید کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے تھے، انہوں نے تو اہل بیعت کے قتل اور یزید کے کردار کے باعث محض بیعت سے انکار کیا تھا۔ ان سے جنگ و قتال کیونکر جائز ہو گیا؟

    فلما بلغ ذالک بعث اليهم سرية يقدمها رجل مسلم بن عقبه . . . . . فلما ورد المدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل في عضون هذه الايام بشراً کثيراً . . . . الف بکر (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

    ترجمہ:
    جب اسے اس بات کی خبر ملی تو اس نے ان کی طرف لشکر بھیجا، جس کی قیادت مسلم بن عقبہ نامی شخص کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے تین دن کے لئے مدینہ کو (قتل و غارت گری کے لئے) حلال کر دیا۔ ان دنوں میں کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے۔۔۔۔۔ (ایک روایت کے مطابق) وہ ایک ہزار (مقتول) تھے۔

    وقال عبدالله بن وهب عن الامام مالک قتل يوم الحره سبعمائة رجل من حملة القرآن (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

    ترجمہ:
    اور عبداللہ بن وھب امام مالک کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یوم الحرہ کو سات سو ایسے افراد قتل کئے گئے جو حافظ قرآن تھے۔

    حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے جرم میں نہ سہی، کیا 700 حفاظ قرآن کے قتل کے جرم سے بھی اسے بری قرار دلوانے کے لیے دشمنانِ اہلبیت اطہار کے راویوں سے روایات نقل کریں گے؟ کیا خدا کا خوف بالکل ہی ختم ہوگیا ؟

    یزید نے مدینہ کی طرف لشکر روانہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ اگر اہل مدینہ بیعت نہ کریں تو میں مدینہ کو تمہارے لئے حلال کر رہا ہوں

    اور پھر کیا ہوا، امام ابن کثیر سے پوچھئے کہ ایک بدبخت نے اپنے کردار کو دیکھنے اور کفر سے توبہ کرنے کی بجائے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کروایا۔ ہزاروں مسلمانوں، جن میں بیشتر صحابہ کرام بھی تھے، کو قتل کروانے والا جہنمی اگر لعنت کا مستحق نہ قرار پائے تو اور کیا اسے پھول مالا پیش کی جائے؟؟؟

    مسلمان عورتوں کی عصمت دری

    بدبخت یزیدی لشکر نے صرف سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو شہید ہی نہیں کیا بلکہ بے شمار عصمت شعار خواتین کی عزتیں بھی لوٹیں:

    ووقعوا علي النساء في قيل انه حبلت الف امرة في تلک الايام من غير زوج . . . . . قال هشام بن حسان ولدت الف امرة من اهل المدينه بعد وقعة الحرة من غير زوج (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 221)

    ترجمہ:
    اس واقعہ کے دوران میں انہوں نے عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔ ایک روایت ہے کہ ان دنوں میں ایک ہزار عورتیں حرامکاری کے نتیجے میں حاملہ ہوئیں۔۔۔۔۔۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک ہزار عورتوں نے جنگ حرہ کے بعد حرامی بچوں کو جنم دیا۔

    • بدبختوں نے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھوڑے باندھے۔
    • مسلمان صحابہ و تابعین کو شھید کیا۔
    • مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں۔
    • تین دن تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان اور نماز معطل رہی۔


    عن سعيد بن مسيب رايتني ليالي الحرة .... وما يتني وقت الصلاة الا سمعت الاذان من القبر.

    ترجمہ:
    سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حرہ کے شب و روز مسجد نبوی میں (چھپ کر) گزارے ۔۔۔۔۔ اس دوران میں مجھے صرف قبرِ انور میں سے آنے والی اذان کی آواز سے نماز کا وقت معلوم ہوتا۔

    اس ظلم و ستم کے باوجود آپ کے دل میں یزید کی محبت اس قدر گھر کر گئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے قاتل کے دفاع میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو صحابہ کرام کی شان میں گستاخی قرار دینے پر تل گئے ؟ بجائے اس کے قاتلِ صحابہ کرام یزید کو برا بھلا کہتے ۔ آپ یا آپکے قابل اساتذہ و علما الٹا اسے شہادتِ حسین رضی اللہ سے بری الذمہ قرار دے کر اسے رحمتِ الہیہ کا حقدار ٹھہرانے کی جسارت کرتے ہیں ؟ ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون

    ذرا سوچئیے۔ کل قیامت کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق “حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں“ کے مطابق آپ کا سامنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا نانائے حسین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا تو یزید کی شان میں آپ کے حوالہ جات اور لمبے لمبے مضامین کام آئیں گے ؟

    شہیدان کربلا سے بدسلوکی

    محترم دوست نے (اگر۔۔۔ تو۔۔۔ پس ثابت ہوا) کی منطقی تکرار کے ذریعے حقائق سے پردہ پوشی کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یزید نے تو حضرت حسین کی شہادت پر افسوس کیا تھا۔ یقیناً آپ لوگ درست کہہ رہے ہوں گے کہ یزید ملعون نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر افسوس کیا ہو گا کیونکہ آپ کے ہاں افسوس کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ ذرا تاریخ کھول کر دیکھیے۔

    ذکر ابن عساکر في تاريخه، ان يزيد حين وضع راس الحسين بين يديه تمثل بشعر ابن الزبعري يعني قوله

    ليت اشياخي ببدر شهدوا
    جزع الخزرج من وقع الاسل

    (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 204)

    ترجمہ:
    امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ جب یزید کے سامنے سیدنا امام حسین (ع) کا سر انور پیش کیا گیا تو اس نے اس موقع پر ابن زبعری کے اس شعر کا انطباق کیا:

    "کاش میرے غزوہ بدر میں مارے جانے والے آباء و اجداد دیکھیں کہ ہم نے کیسے ان کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے۔"

    یہ کیسی شرمندگی ہے اور یہ کیسا افسوس ہے۔ علامہ محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں کہ یزید نے جس لمحے کفار و مشرکینِ مکہ کو یاد کر کے یہ شعر پڑھے تھےوہ اسی لمحہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا تھا۔
    اگر آپ اب بھی اسکو رحمتِ الہی اور جنت کا حقدار کا قرار دینے پر ڈٹے رہیں تو ایک بار پھر انا للہ وانا الیہ راجعون

    بیت اللہ کی توہین

    دلوں میں بغضِ اہلبیت اطہار رکھنے والے دوستوں کو اظہار رائے کی یقیناً آزادی ہے، آپ یقیناً ایسے شخص کے دفاع کا حق رکھتے ہیں جو اپنی بیعت کے منکروں کو قتل کروانے کے لئے حرم نبوی اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا بھی حیاء نہیں کرتا۔ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے بیت اللہ کا محاصرہ کرواتا اور اس پر پتھر اور آگ کے گولے برساتا ہے۔

    ثم انبعث مسرف بن عقبه (مسلم بن عقبه) الي مکه قاصداً عبدالله بن الزبير ليقتله بها لانه فر من بيعة يزيد (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

    ترجمہ:
    پھر اس نے مسرف بن عقبہ (یعنی مسلم بن عقبہ) کو عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا، کیونکہ وہ یزید کی بیعت سے انکاری تھے۔

    آپ کے عقائد کے مطابق ان سب کا حکم یزید بدبخت نے نہیں دیا ہو گا یقیناً یہ سارے واقعات یزید کے علم میں ہی نہیں ہوں گے۔ وہ تو دودھ پیتا بچہ تھا، جسے تاریخ دان خواہ مخواہ میں برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ ہزاروں مسلمان غلط فہمی میں قتل ہوتے رہے ہوں گے اور یزید بیچارہ ہر ہر قتل کے بعد افسوس بھی کرتا رہا ہوگا۔ اسکی اصل معصومیت کی خبر تو پچھلے ڈیڑہ دوسوسال میں عبدالوھاب نجدی اور اسکے اہلحدیث و وہابی شاگردوں کو ہوئی ۔ وگرنہ اس سے پہلے امام ابن کثیر اور امام عساکر جیسے تاریخ دان تو مغالطے میں ہی رہے۔

    اللہ تعالی ہمیں حق کو پہچان کر اس پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین

    حوالہ جات بشکریہ ۔ محترم جی۔ ایم علوی۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    السلام علیکم۔
    محترم بھائی صاحب۔ جو انداز آپ نے اپنی ان سطور میں اور پھر یزید بدبخت کے دفاع میں لکھے گئے مضمون میں اختیار فرمایا ہے۔ اور یزید بدبخت کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بات کرنے والوں کو ۔۔ شیعہ ، شیعہ متاثر ، حبِ اہلبیت کی آڑ ۔۔۔ جو مرضی کہہ جسے الفاظ استعمال فرما کر ۔۔۔ احادیث نبوی :saw: اور تاریخ کے عظیم آئمہ کا جس انداز میں مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے۔ اس پر صرف نعیم صاحب ہی کیا، کوئی بھی صاحبِ ایمان شخص ، جس کے دل میں اللہ تعالی ، اسکے حبیب مکرم :saw: اور انکے جگر گوشوں کی محبت کی رمق بھی موجود ہے ۔۔ وہ جواب دینے کے لیے میدان میں آسکتا ہے۔
    یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نعیم صاحب کے ایمانی جذبات کو بھڑکا کر ایسی بحث مباحثہ میں‌گھسیٹا گیا تھا۔ جس کا ثبوت انکے بین ہونے کے بعد ہماری اردو کے 80 یا 85 فیصد سے زائد درجنوں دانشمند صارفین کا نعیم صاحب کے حق میں ووٹنگ کرنا ہے۔ جبکہ آپکے دیگر محبوب دوست جو آپ ہی کی طرح یزید کی محبت میں گرفتار تھے۔ انکے حق میں یہاں بات کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔

    لیکن شاید آپ کے نزدیک یہ انصاف نہیں ہے۔ کیونکہ آپ تو حسینی انصاف کی بجائے یزیدی انصاف کے علمبردار ہیں ۔ جہاں بےگناہ صحابہ کرام، بےگناہ اہلبیت اطہار کے خون سے ہولی بھی کھیل لی جائے، مسجد نبوی شریف :saw: میں گھوڑوں کو باندھ دیا جائے اور 3 دن تک نماز اور اذان بھی معطل کردی جائے تو یزید پھر بھی پاک صاف اور آپکے انصاف کے مطابق " جنتی "‌ہی ہوگا۔ :hasna:

    اب خدا جانے میرے ساتھ انتظامیہ کیا سلوک کرتی ہے۔ لیکن کیا کروں ۔ حق کی آواز بلند کیے بغیر رہ نہیں‌سکتا۔ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون سے یہی سبق ملتا ہے۔

    والسلام علیکم۔
     
  11. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    السلام علیکم ۔ محترم بڑے بھائی محمد وسیم صاحب
    یزید خبیث کے بارے میں اتنی تفصیلی معلومات نے میری تو آنکھیں کھول دیں۔ حق کو بیان کرنے کے لیے اتنی محنت و کاوش کو اللہ تعالی قبول فرمائے۔
    اورہم سب کو اللہ تعالی اپنے پیاروں کی سچی محبت عطا فرمائے۔ اورمنافقین کی پہچان عطا فرما کر ان سے پناہ عطا فرمائے۔ آمین
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. سعد
    آف لائن

    سعد مبتدی

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2009
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وسیم صاحب

    مجھے آپ کے عالمانہ انداز اور منصفانہ طرز گفتگو نے بے حد متاثر کیا ہے۔

    اس قسم کے مبحث میں شامل ہونے کا تو میرا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ایک انتہائی متنازعہ موضوع پر ایک مرتبہ پھر یہ تحریر دیکھ کر رہا نہ گیا اور یہ سطریں سرزد ہو گئیں۔

    اگر یزید کے بارے میں کوئی حوالہ دے کر بات کی جائے تو کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کے عقیدت سے گریز لازم ہو جاتا ہے؟

    بہر حال یہ بات ہماری آپ کی بحث سے حل اور طے نہیں ہو سکتی اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر چلنے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنے کی توفیق اور حوصلہ عطا فرمائے۔

    میں اس بحث کو یہیں پر تمام کرتا ہوں۔
     
  13. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    میں اس بحث کو یہیں پر تمام کرتا ہوں۔[/quote]

    آپ کی یہ بات آج کی خوبصورت بات لگی مجھے
     
  14. سعد
    آف لائن

    سعد مبتدی

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2009
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ جناب آپ کو اچھی بات اچھی لگی
     
  15. بہرام
    آف لائن

    بہرام ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2012
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ملک کا جھنڈا:
    یزید نے اپنے لشکر کے ذریعے سے اہل مدینہ کے دل میں خوف ڈالا نہ صرف خوف ڈالا بلکہ اہل مدینہ کی جان اور آبرو بھی یزیدی لشکر نے پامال کی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اہل مدینہ کو صرف ڈرانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ڈرانے والوں کے لئے وعید اور اللہ اور اس کے فرشتتوں اور تمام لوگوں کی لعنت


    من أخافَ أهلَ المدينةِ أخافه اللهُ وعليه لعنةُ اللهِ والملائكةِ والناسِ أجمعينَ
    الراوي: السائب بن خلاد المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 6/373
    خلاصة حكم المحدث: إسناد صحيح على شرط الشيخين
    سائب بن خلاد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس نے بھی اہل مدینہ کو ڈرایا اسکو خدا جلد ہی ( اپنے عذاب سے ) ڈرائے گا اور اسکے اوپر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو"
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. بہرام
    آف لائن

    بہرام ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2012
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ملک کا جھنڈا:
    کیا اس روایت کی سند صحیح ہے
    جبکہ البدایۃ و النہایۃ میں ہی اہل مدینہ کا ایک قول بھی ابن کثیر نے نقل کیا ہے

    اہل مدینہ سے مروی ہیں کہ وہ یزید کو شراب پینے والا اور بعض بری حرکات کرنے والا سمجھتے تھے-
    البداية والنهاية، ج 8، ص 258، الناشر: دار إحياء التراث العربي، الأولى 1408، هـ - 1988 م

    اگر اہل مدینہ کے اس قول کو مانا جائے تو صورت حال تو بالکل برعکس ہوجاتی ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. بہرام
    آف لائن

    بہرام ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2012
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ملک کا جھنڈا:
    اور اگر ان پر فوجیں مدینہ کے اطراف سے آتیں پھر ان سے کفر چاہتیں تو ضرور ان کا مانگا دے بیٹھتے اور اس میں دیر نہ کرتے مگر تھوڑی
    سورۃ الاحزاب: 14
    اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حرہ کی طرف اشارہ ہے جس میں یزیدی فوج نے مدینہ شریف کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا


    عن ابنِ عباسٍ قال جاء تأويلُ هذه الآيةِ على رأسِ ستين سنةً { وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لآتَوْهَا } يعني إدخالَ بني حارثةَ أهلَ الشامِ على أهلِ المدينةِ في وقعةِ الحَرَّةِ

    الراوي: [عكرمة مولى ابن عباس] المحدث:ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/76
    خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
     
  18. بہرام
    آف لائن

    بہرام ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2012
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ملک کا جھنڈا:
    فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( إن الله حبس عن مكة الفيل ، وسلط عليهم رسوله والمؤمنين ، ألا وإنها لم تحل لأحد قبلي ، ولا تحل لأحد بعدي ، ألا وإنما أحلت لي ساعة من نهار ، ألا وإنها ساعتي هذه حرام

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی

    الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم:6880
    الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 2434
    الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1355
    الراوي: أبو هريرة المحدث:الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 2017
    خلاصة حكم المحدث: صحيح
     

اس صفحے کو مشتہر کریں