1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏15 نومبر 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
    از واصف حسین

    عجیب سا سوال ہے مگر کبھی آپ نے سوچا کہ پیسا کہاں سے آتا ہے؟ کوئی کہے گا کہ میں جہاں کام کرتا ہوں وہاں سے آتا ہے اور کوئی کہے گا میرے کاروبار سے آتا ہے اور کوئی سادگی سے کہے گا بینک سے آتا ہے۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ پیسے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

    انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور معاشرے کے بغیر رہنا اس کے لیے ممکن نہیں۔پہلے پہل جب انسان نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا شروع کیا تو اس کا مقصد اپنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ کسی نے فصل اگائی تو کسی نے مٹی سے برتن بنائے تو کسی نے جانور شکار کیے۔جب ایک کے پاس اسکی ضرورت سے زیادہ اجناس ہوئیں تو اس نے اپنے اجناس کے بدلے دوسرے کی اجناس لینا شروع کیں۔ اس طرح اگر ایک کے پاس گندم ہوئی تو وہ اس نے دوسرے کو دے کر شکار کیا ہوا جانور لے لیا۔ایک کے پاس برتن اپنی ضرورت سے زیادہ ہوئے تو تو ان کے بدلے اس نے چاول لے لیے۔یوں جنس کے بدلے جنس کی تجارت شروع ہوئی۔ایک گروہ قبیلے یا بستی کی حد تک تو یہ طریقہ ٹھیک رہا مگر زیادہ فاصلے تک ان کو لے جانا ایک مشکل کام تھا اور پھر ساتھ ہی ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہوا کہ ایک برتن کے عوض کتنا چاول ہو یا کتنی گندم کے عوض ایک شکار کیا ہوا جانور ہو۔ اس کا حل یہ نکلا کہ قیمتی دھاتوں کو سکوں کی شکل دے کر تجارت شروع ہوئی مثلاً ایک جانور کے عوض ایک چاندی کا سکہ۔یوں تجارت کی بنیاد پڑی۔ بہت سے لوگوں نے کچھ بنانے کے بجائے اسی طرح لین دین شروع کیا اور تاجر کہلائے۔ایک کی بنی ہوئی چیز خرید کر دوسرے کو بیچ دی اور منافع کما لیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکمرانوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مختلف تجربات کے بعد قیمتی دھاتوں کو چھوڑ کر تانبے اور پیتل کے سکے بنائے گئے اور پھر کاغذ کے کرنسی نوٹ جاری ہونا شروع ہوئے۔

    غور کریں تو ان سکوں اور کاغذ کے نوٹوں کی حقیقی قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے ایک یقین دھانی ہے کہ اس کاغذ کی قیمت کیا ہے۔جیسے آپ اس پانچ سو روپے کے نوٹ کو دیکھیں تو یہ بینک دولت پاکستان کی طرف سے یقین دھانی ہے کہ حامل ہذا کو 500 روپیہ ادا کیا جائے گا۔اور اس پر گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخط ہیں۔
    [​IMG]
    سو ہمیں معلوم ہوا کہ تمام پیسہ بینک دولت پاکستان سے جاری ہوتا ہے۔تمام استعمال کرنے والے پیسہ اسٹیٹ بینک سے لیتے ہیں جن میں عوام، بینک، کاروباری اور حکومت سب شامل ہیں۔یہاں پر ایک اہم بات جاننا ضروری ہے کہ صرف نوٹ چھاپ لینے سے پیسہ نہیں بنتا بلکہ جو دعویٰ نوٹ پر کیا گیا ہے اسٹیٹ بینک کے پاس اس کو پورا کرنے کے لیے اصل زر ہونا بھی ضروری ہے۔اگر نہیں ہو گا تو پیسے کی قیمت گرے گی۔ پیسے کی قیمت گرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز ایک روپے میں ملتی تھی وہ اب پانچ روپے میں ملے گی۔

    اسٹیٹ بینک جو پیسہ دیتا ہے وہ بینکوں کو دیتا ہے۔ یعنی اسٹیٹ بینک بینکوں کا بینک ہے۔مگر کیا اسٹیٹ بینک پیسہ یوں ہی دے دیتا ہے؟ جی نہیں۔ اسٹیٹ بینک پیسہ قرض کے طور پر دیتا ہے اور اس پر سود بھی وصول کرتا ہے۔اور اس سود سے کسی کو بھی استثناء حاصل نہیں۔حکومت کو بھی نہیں۔یعنی جب بھی کوئی بینک اسٹیٹ بینک سے پیسہ لیتا ہے اس کو یہ پیسہ بمع سود واپس کرنا ہے۔اب ایک مزے کی بات کرتے ہیں۔فرض کریں بینک نے دو کروڑ روپے لیے اور اس پر 10 فیصد سود تھا تو جب واپسی کا مرحلہ آئے گا تو بینک کو دو کروڑ 20 لاکھ روپیہ واپس کرنا ہو گا۔اب یہ 20 لاکھ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ یہ بات ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ تمام پیسہ اسٹیٹ بینک نے دینا ہے تو یہ بھی وہیں سے آئے گا اور اس پر بھی سود لگے گا تو اس کی واپسی کے لیے دو لاکھ کا اور سود بن جائے گا۔اس طرح سود در سود کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلے گا جس سے نکلنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔

    اسٹیٹ بینک کا یہ طریقہ کیونکر وضع ہوا اس کے لیے ہم تاریخ کو اوراق دیکھتے ہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا اور صرف اہم واقعات کا ذکر کرؤں گا۔اسٹیٹ بینک یا مرکزی بینک سب سے پہلے سویڈن میں ایک یہودی جوہان پامسٹروچ Johan Palmstruch نے1668 میں قائم کیا۔ جبکہ دوسرا اسٹیٹ بینک برطانیہ میں 1694میں ولیم پیٹرسن نے قائم کیا۔ 1694 میں شاہ ولیم سوئم کو فرانس کے ساتھ جنگ کے لیے پیسے کی اشد ضرورت تھی۔ ولیم پیٹرسن نے 1.2 ملین پونڈ دینے کے لیے دو شرائط رکھیں۔نمبر ایک کہ اس کو ایک بینک بنانے دیا جائے جس کا نام بینک آف انگلینڈ ہو اور دوسرا کرنسی چھاپنے کا اختیار صرف اس کے پاس ہو۔ان شرائط پر شاہ ولیم سوئم کو مطلوبہ رقم 8 فیصد سود پر دی گئی۔اور کہا جاتا ہے کہ 1698 یعنی صرف چار سال بعد حکومت برطانیہ اس بینک کی 160,000,000یعنی 16 ملین پونڈ کی مقروض تھی۔امریکہ کی جنگ آزادی بھی اسی بینک کی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔امریکہ کا سنٹرل بینک جب 1811 میں ختم ہوا تو امریکہ میں ریاستوں کی مقامی کرنسی کو ختم کر کے بینک آف انگلیڈ کی کرنسی جاری کی گئی۔ سنٹرل بینکنگ کی باریکیوں جانتے ہوئے اس حکم کے خلاف امریکی ریاستوں نے بغاوت کی اور برطانیہ کے تسلط سے آزادی حاصل کی۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1913 میں اسی یہودی خاندان نے امریکہ کا سنٹرل بینک جس کو فیڈرل ریزو کا نام دیا گیا قائم کیا اور آج امریکہ سالانہ 400 بلین ڈالر اس بینک کو ادا کرتا ہے۔مذید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک بینک آف انگلینڈ اور امریکی فیڈرل ریزرو نجی ملکیت ہیں۔ اور ان کو کنٹرول کرنے والا ایک ہی خاندان ہے جس کو روتھ چائلڈ Rothschild کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    ۔۔جاری ہے۔۔
     
    Last edited: ‏8 دسمبر 2013
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    بہت خوب واصف بھائی بہت ہی معلوماتی شئیرنگ ہے
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    بہت ہی خوب اور معلوماتی مضمون ہے مزید انتظار رہے گا


    اس کے بعد یہ بھی لکھنا ہے کہ پئسہ جاتا کدھر ہے
     
  4. ایس کاشف
    آف لائن

    ایس کاشف ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    زبردست معلومات ہیں شکریہ
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    ضرور لکھوں گا کیونکہ پیسہ کہاں جاتا ہے بھی اس کا آخری حصہ ہے۔
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    واصف بھائی بہت عمدہ اور تحقیقی مضمون ہے۔ حیرت ہے یہ مضمون ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ معاشیات کے اصول اور افراطِ زر کے علاوہ سودی نظام کی چیرہ دستیوں کو خوب آشکار کیا ۔نیشنل ریزرو کے ڈانڈے تو فری مسینز کے ساتھ جا کر ملتے ہیں۔ جنہوں نے اس بینکنگ سٹرکچر کی بنیاد رکھی۔ اور میری معلومات کے مطابق اب امریکہ نیشنل ریزروز کا اتنا مقروض ہو چکا ہے کہ پوری دنیا کے ڈالرز بھی اکٹھے کر لے تو ان کا قرضہ اور سود ادا نہیں کر سکتا۔ مزید کا انتظار رہے گا۔
     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    بلال بھائی یہی تو سنٹرل ریزرو بینکنگ کا جال ہے۔ فرض کریں سنٹرل بینک نے صرف ایک ڈالر ایشو کیا ہے تو جب وہ واپس کرنا ہے تو 20 سینٹ کا سود ہے۔ یعنی جتنا مرضی ہے پیسہ لے لیں وہ واپس کرنے کے لیے کم ہے۔ اس لیے یہ بات درست ہے کہ پوری دنیا کے ڈالر بھی لے آئیں تو سنٹرل ریزرو کا قرضہ اتارا نہیں جا سکتا جب تک کہ اس نظام کو غیرسودی نہ کیا جإئے۔
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    حصہ دوئم:کام مت بدلو۔۔۔نام بدل لو

    بینکار، سرمایہ دار اور یہودی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مخالفت سے لڑنے کے بجائے جب مخالفت کا سامنا ہو تو نام بدل لو اور کام جاری رکھو۔اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی یا کمپنی بہادر کے نظریہ کے مطابق بغاوتِ ہند کے بعد کیا ہوا؟ فیصلہ یہ ہوا کہ ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کنڑول نہیں کرے گی بلکہ تاج برطانیہ یا کراؤن کنٹرول کرے گا۔کسی نے اس وضاحت کو ضروری نہیں سمجھا کہ کراؤن یا تاج برطانیہ کیا ہے۔لندن کے اندر ایک مربع میل کا ایک علاقہ ہے جس کو square mile کہتے ہیں اوروہاں بینکار بستے ہیں۔اس علاقے کی تمام سہولیات بشمول پولیس اسی بینکار طبقے کی ملکیت ہے اور اس میں برطانیہ کا قانون نہیں چلتا۔اسی مربع میل کو کراؤن کہتے ہیں اور یہی وہ تاج برطانیہ تھا جس کے کنٹرول میں ہندوستان دیا گیا تھا نہ کہ برطانوی حکومت یا برطانیہ کا شاہی خاندان۔اور یہ وہی بینکار تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے شئیر ہولڈر تھے۔یوں نام کی تبدیلی ہوئی جبکہ اصل میں کچھ تبدیلی نہ ہوئی۔

    1781 میں انہی بینکاروں نے بینک آف نارتھ امریکہ بنایا۔ یہ بینک انہی سودی بنیادوں پر نجی بینک پر تھا جوکہ پانچ سال تک چلا اور اس کے بعد اس کی تجدید منسوخ ہو گئی۔ بینکاروں نے چھ سال انتظار کیا اور نئے سیاسی ڈھانچے کا انتظار کیا اور 1791 میں نئے نام کے ساتھ پرانا کام شروع کیا۔ اس طرح امریکہ کا فرسٹ بینک آف امریکہ 20 سال کےلیے بنایا گیا۔ اس مدت کے دوران اس بینکنگ کا اصل روپ سیاسی رہنماؤں پر آشکار ہوا اس لیے جب1811 میں اس کی تجدید کی قرارداد پیش ہوئی تو اس وقت کے صدر اینڈریو جیکسن Andrew Jackson نے اس کو ویٹو کر دیا اور فرسٹ بینک آف امریکہ کا خاتمہ ہوا۔اگلے سو سال بینکار مختلف ہتھکنڈے آزماتے رہے مگر امریکہ میں سنٹرل ریزرو بینکنگ کا نظام رائج نہ کر سکے۔1907 میں ان بینکاروں نے مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا۔اس بحران کو پیدا کرنے میں جے پی مورگن کا نام سرفہرست ہے۔اور اسی جے پی مورگن کی مشاورت سے 1914 میں فیڈرل ریزرو بینک قائم کیا گیا جو کہ پہلے والا نظام نئے نام کے ساتھ تھا۔

    اوپر کی دو مثالوں سے واضع ہوتا ہے کہ نام تبدیل کر کے اپنا کام جاری رکھنا سرمایہ کار اور بینکار کا طریقہ ہے۔جب یہ بینک بین الاقوامی سطح پر آئے تو آبادی کا ایک بڑا حصہ جو کہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ان کے خلاف اعتراض جڑنے لگا کہ یہ سودی بینکاری ہے اور اسلام میں سود حرام ہے۔اسی بنیاد پر انشورنس کی بھی مخالفت ہوتی رہی۔اس مخالفت پر بھی وہی آزمودہ نسخہ استعمال کیا گیا کہ کام وہی جاری رکھو نام تبدیل کر دو۔اس طرح اسلامک بینکنگ اور تکافل وجود میں آئے۔سود کا نام منافع رکھا گیا اور نفع اور نقصان میں شراکت کا نعرہ لگایا گیا۔

    اگر کنویں میں کتا گر جائے تو کتا نکالے بغیر جتنا مرضی ہے پانی نکال لو کنواں پاک نہیں ہوگا۔اسی طرح جب تک سنٹرل بینک کو سود سے پاک نہیں کیا جائے گا اسلامی بینکنگ کا نعرہ صرف نام کی تبدیلی ہے اور کچھ بھی نہیں۔اور گزشتہ کئی صدیوں سے جب بھی کسی ایسے شخص نے جوکہ سودی بینکاری سے قوم کو نکال سکتا تھا اس سمت میں جانے کی کوشش کی ہے اس کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان کوششوں میں سب سے پہلا نام روس کے زار ایلگزینڈر دوم کا آتا ہے۔اس کا سنٹرل بینکنگ کے نظام کو قبول نہ کرنا ہی وہ وجہ تھی کہ سرمایہ داری نظام نے کمیونزم کی مدد کی اور یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ سرمایہ داری نظام کے پیسے سے سوشل ازم کامیاب ہوا اور ایلگزینڈر سوئم یعنی اس کے اگلا زار 1918 میں اپنے تمام خاندان کے ساتھ مار دیا گیا۔امریکی صدر ابرہام لنکن جوکہ غیر سودی پیسے کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد اس کو کلی طور پر رائج کرنا چاہتا تھا 1865 میں دوبارہ منتخب ہونے کے 41 دن بعد قتل کر دیا گیا۔ابرہام لنکن کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنے والا صدر جان ایف کینیڈی 1963 میں قتل کر دیا گیا۔

    ان تمام حقائق کے پیش نظر جب میں سڑکوں پر یہ اشتہار دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بینک کی مشہوری کی جگہ ایک چبھتا ہوا طنزیہ جملہ محسوس ہوتا ہے کہ "ہم سمجھتے ہیں آپ کے ایمان کے تقاضوں کو"۔اور یہ دعویٰ ایک ایسے بینک کی طرف سے ہے جو خالصتاً یہودی بینک ہے۔ طنز یوں کہ ہم کنویں سے کتا نکالے بغیر پاک پانی کی امید رکھے ہوئے ہیں۔

    [​IMG]

    ۔۔جاری ہے۔۔
     
    Last edited: ‏8 دسمبر 2013
  9. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    بہت سے چھپے حقائق سامنے لانے کا شکریہ ۔۔۔۔۔مزید کا انتظار رہے گا
     
  10. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    ہمارے ایمان کے تقاضوں کو یہودی ہی سمجھیں گے اپنے مفاد کے مطابق----
    ابلیس کی مجلس شوری میں اقبال نے کہ دیا تھا
    یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
    صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
    اور بنکوں کے لیے کہا
    ایں ملوک ایں فکر چالاک یہود
    نور حق از سینہ آدم ربود
     
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
    محترم واصف بھائی!
    جزاک اللہ!
    سودی نظام بینکاری کے بارے میں‌بہت تحقیقی اور مدلل مضمون لکھ رہے ہیں ۔ ان معلومات کو ہمیشہ چھپایا گیا۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں یہ سب باتیں سمجھنا ہوں گی۔ وقت تو خیر بہت پہلے آ گیا تھا۔ لیکن اب بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بہت دیر ہو جائے گی۔ ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے ۔ کہ اگر بینک کو دی گئی رقم پر سود نہیں ملے گا تو اس کا نظام کیسے چلے گا۔ مطلب بلاسود بینکاری کا سٹریکچر کیا ہوگا۔ اس بارے میں بھی کچھ لکھیے گا۔
     
  12. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہر بار پرانے شکاری نیا جال لے آتے ہیں
     
  13. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    اور ہم سادہ و معصوم لوگ ہر بار اس جال میں پھنس جاتے ہیں
     
  14. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    فی زمانہ میڈیا میں ایک سازش اور تعلیمی اداروں میں جہاں معاشیات پڑھائی جاتی ہے یعنی ماسٹر آف بزنس وغیرہ وہاں پر ایک مجرمانہ اتحاد کے تحت ان باتوں کو نہیں بتایا جاتا کیونکہ فی زمانہ ہر جگہ پر معاشیات کی بنیاد اس سو د کے کافرانہ سسٹم پر قائم ہے۔
    واصف بھیا آپ نے بہت اچھی معلومات شیئر کیں ہیں۔شکریہ
     
  15. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    واصف بھائی بہت ہی اعلی اور بہترین۔۔۔مضمون۔۔۔مگر اس قدر سادہ انداز کہ۔۔۔۔کہ صرف انداز بیان پر بھی واہ واہ کرنے کو بے اختیار دل کرتا ہے۔۔۔۔۔پھر اس میں‌موجود جو فکری مواد ہے ہے وہ تو چیز دیگر ہے۔
     
  16. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے ۔

    بہت ہی معلوماتی مضمون تحریر کیا ہے آپ نے ۔

    خوش رہیں‌
     
  17. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    حصہ سوئم:پیسہ جو ہے ہی نہیں

    سودی بینکنگ کا نظام ایک بہت سادے اصول پر قائم ہے وہ پیسہ سود پر دو جو ہے ہی نہیں۔جو پیسہ ہے ہی نہیں وہ سود پر دے کر حکومتوں، کاروباریوں اور عوام سے سود کی مد میں وہ پیسہ سمیٹ لو جو اصل میں موجود ہے۔اس کی بنیاد بینکوں کو وہ پیسہ قرض دینے کی اجازت ہے جو کہ ان کے پاس ہے ہی نہیں۔سادہ الفاظ میں اس کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس ۱یک لاکھ روپیہ ہے تو آپ کسی کو بھی ایک لاکھ روپیہ قرض دے سکتے ہیں لیکن اگر بینک کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے تو وہ دس لاکھ روپیہ قرض دے سکتا ہے اور اس پر سود بھی وصول کر سکتا ہے۔بات ہضم نہیں ہوتی نا۔۔۔۔۔
    جتنے لوگوں کا بینک میں پیسہ موجود ہے ان میں سے دس فیصد لوگ بھی بینک سے ایک ساتھ پیسہ نکلوانے جائیں تو بینک کو بند ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ بینک کے پاس پیسہ ہے ہی نہیں۔بینک کے پاس پیسہ ہونا ایک جھوٹ ہے اور اس پر ہمیں یقین کروایا جاتا ہے۔ یہ صرف اعتماد کا فریب ہے۔جب بھی بینک کسی کو قرض دیتا ہے تو کوئی نیا نوٹ یا سکہ نہیں چھاپا جاتا۔صرف آپ کے اکاونٹ میں حروف لکھے جاتے ہیں۔اور ان حروف پر آپ کا سود واجب الااداء ہو جاتا ہے۔آپ اس پیسے پر سود ادا کر رہے ہوتے ہیں جو موجود ہی نہیں ہے۔ہاں اگر آپ یہ رقم جو کہ اکاونٹ میں موجود حروف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے واپس کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو بینک قانونی طور پر آپ کا کاروبار، زمین، گھر، گاڑی، زیوارات اور دیگر اثاثے نیلام کر کے اس رقم کے بدلے لے سکتا ہے اور یہ اصل پیسہ ہے۔
    مارکیٹ میں جو پیسہ موجود ہوتا ہے اس کا بہت کم تناسب اصل زر، یا کرنسی نوٹ یا سکوں کی شکل میں ہوتا ہے۔اس پیسے کا بڑا حصہ بینک ٹرانسفر، بینک چیک، کریڈٹ کارڈ وغیرہ کی شکل میں ہوتا ہے۔یوں پیسے کی بڑی ترسیل کمپیوٹر میں درج کیے گئے شماریات سے زیادہ کچھ نہیں۔بینک اور بینکار کرنسی یا نوٹ کی شکل میں پیسہ نکالنے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔اس کے ثبوت کے لیے آپ ایک تجربہ کریں۔کسی بھی کمپنی یا دکان پر دو لاکھ روپے کا سودا کریں۔ ایک لاکھ کیش نکلوا کر دیں اور ایک لاکھ بینک ٹرانسفر کریں اور اپنی بینک سٹیٹمنٹ نکلوا کر جائزہ لیں۔جو ایک لاکھ آپ نے کیش نکلوا کر دیا ہے اس پر 200 روپے کا ٹیکس لگا ہے جبکہ بینک ٹرانسفر پر کوئی ٹیکس نہیں لگا۔اگرچہ 200 روپیہ کو ئی بڑی رقم نظر نہیں آتی مگر اس کو اس تناظر میں دیکھیں کہ جب کروڑوں روپے کا روزانہ لین دین ہوتا ہے۔اس برقی ٹرانسفر اور چیک پیمنٹ کا تمام فائدہ بینک کو ہوتا ہے کہ بغیر اصل پیسہ استعمال ہوئے صرف حروف ایک اکاونٹ سے دوسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
    ماہر اقتصادیات کی اکثریت آپ کو یہ کہتی نظر آئے گی کہ معاشی اتار چڑھاؤ بشمول معاشی بحران اقتصادی عمل کا حصہ ہیں مگر یہ بات صرف ان کی تسلی کے لیے کہی جاتی ہے جو معاشی بحران میں نقصان اٹھاتے ہیں۔یہ معاشی خوشحالی اور بحران صرف ایک چیز کے مرہون منت ہیں کہ مارکیٹ میں کتنا پیسہ ہے۔اور یہ پیسہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک اور دوسرے بینک مل کر کنٹرول کرتے ہیں۔معاشی بحران ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لایا جاتا ہے تاکہ اصل دولت پر قبضہ کیا جا سکے۔اسٹاک ایکسچینج بھی اسی کا ایک دوسرا رخ ہے جس پر ہم اگلے حصے میں بات کریں گے۔
    معاشی خوشحالی اور بحران کیسے تیار ہوتا ہے؟ پہلے معاشی خوشحالی پھیلائی جاتی ہے جس کا دارومدار پیسے کی فراہمی پر ہے۔بینک کھل کر قرضے اور کرنسی (کریڈٹ کارڈ، بینک ٹرانسفر کی شکل میں) فراہم کرتے ہیں۔اس سے عام آدمی کی قوت خرید بڑھتی ہے اور طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔جب طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو مانگ کو پورا کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی اور پیداوار بڑھانے کےلیے اور قرضے لیے جاتے ہیں کیونکہ کاروباری کو معاشی خوشحالی اور سامان کی بِکری سے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ قرض واپس کر دے گا۔اور اسی موقع پر مارکیٹ سے پیسہ کم کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے سود کی شرع بڑھائی جاتی ہے اور قرضوں کی واپسی کا مطالبہ شروع ہوتا ہے۔اس کا انجام یہ ہوتا ہے قرض ملنا بند ہو جاتا ہے اور مارکیٹ سے پیسہ خارج ہو کر بینکوں میں پہنچ جاتا ہے۔لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور کاروبار اتنا کما نہیں سکتا جتنا اس نے سود دینا ہے۔ مجبوراً کاروباری شخص کو اپنے اثاثے بیچنا پڑتے ہیں اور قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے یہی بینکار اس کو اونے پونے داموں خریدتے ہیں۔ اس لوٹ کے بعد شرح سود پھر کم کر دی جاتی ہے اور قرضے پھر کھول دیے جاتے ہیں اور معاشی خوشحالی کے ایک اور دور کا آغاز ہوتا ہے۔
    یہی کام ملکوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ بلاسود کرنسی کو فروغ دیا جائے یہی بینکار ملکوں کو سود پر قرض لینے کی ترغیب دیتے ہیں اور جب سود ان کی بساط سے باہر ہو جاتا ہے تو ایک اور عمل جس کو پرئیوٹائزیشن یا نج کاری کہتے ہیں شروع ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک قرضے کی رقم اپنے اثاثے بیچ کر پورا کرے۔اسی سود کی ادائیگی کے لیے بہت سے ٹیکس جن میں انکم ٹیکس سر فہرست ہے عوام پر لگائے جاتے ہیں۔یوں یہ بینکار ہر شخص کا خون چوس کر تجوریاں بھرتے ہیں۔
    آج یہ خونی کھیل سنٹرل بینکوں کی مدد سے کھیلا جاتا ہے جو کہ اگرچہ خودمختار اور بعض صورتوں میں حکومتوں کے قبضے میں نظر آتے ہیں مگر ان کے تانے بانے بینک آف انگلینڈ، بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹس، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے ملتے ہیں۔

    ۔۔جاری ہے۔۔
     
  18. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    واصف بھائی بہت بہت بہت شاندار۔۔۔۔۔معلومات اور اس قدر آسان انداز میں اس مشکل کام کو آپ نے سرانجام دیا ہے کہ ماشاء اللہ۔۔۔۔۔۔اور ایک بہت ہی نازک۔۔۔گھمبیر معاشی نظام کو جس کا دارو مدار بنکوں پر ہے۔۔۔۔کو اس قدر سادہ اور جامع بیان کیا ہے۔۔۔۔کہ شک ہوتا ہے کہ آپ نے معاشیات اور اسلامیات دونوں پڑھے ہونگے۔۔۔۔۔۔ویسے یہ تو مجھے پتہ ہے کہ آپ صاحب مطالعہ شخص ہیں۔۔۔۔مگر بیان پر قدرت آپ کے ان مشکل مضامین کو پڑھ کر ہوا۔۔۔۔۔۔ماشاء اللہ۔
     
  19. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

    محبوب بھائی بہت شکریہ کہ آپ نے ایسے الفاظ میرے لیے لکھے۔ میں نہ تو ماہر اقتصادیات ہوں اور نہ ہی دینی عالم۔ بس جو بات دل میں ہوتی ہے لکھ دیتا ہوں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں