1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داغ دہلوی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از فاطمہ حسین, ‏8 جنوری 2012۔

  1. فاطمہ حسین
    آف لائن

    فاطمہ حسین مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    734
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    داغ دہلوی ایک ایسا نام جو کسی بھی تعارف کا متحاج نہیں۔۔
    پورا نام نواب مرزا خاں تھا ۔ داغ کو تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ 25مئی 1831ءکودہلی میں پیدا ہوئے
    ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔
    داغ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے۔ان کی پرورش وہیں ہوئی۔
    بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے ۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔

    داغ کے بارے میں غالب کا کہنا ہے کہ
    ” داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی!ذوق نے اردو کواپنی گو دمیں پالا تھا۔ داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے۔“

    رام پور میں انہیں''حجاب'' سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔

    نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ ۔ فصیح الملک ، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔

    داغ کی شاعری کا چُلبلا پن اور شوخی ان کی خاص ادا ہے۔
    جیسا کہ اس غزل کے کچھ اشعار دیکھیں:

    تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
    نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
    وہ قتل کرکے مجھے ہر کِسی سے پوچھتے ہیں
    یہ کام کس نے کیا یہ کام کس کا تھا
    وفا کریں گے ،نبھائیں گے ،بات مانیں گے
    تمھیں بھی یاد ہے یہ کلام کس کا تھا
    ہر اک سے کہتے ہیں داغ بے وفا نکلا
    یہ پوچھے اُن سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

    داغ کی شاعری آپ کو بناوٹ اور تصنع سے پاک ملے گی۔۔ اکثر ان کی شاعری میں آپ کو صاف گوئی جا بجا نظر آتی ہے۔ سادہ الفاظ کا استعمال ان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے

    ایک جگہ کچھ اس طرح کہتے دکھائی دیتے ہیں:
    پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے
    ایک کے بعد دوسرا کہیے
    آپ اب میرا منہ نہ کھلوائیں
    یہ نہ کہیے کہ مدّعا کہیے
    وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
    مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے
    دل میں رکھنے کی بات ہے غمِ عشق
    اس کو ہرگز نہ برملا کہیے
    ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر
    مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے
    ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
    داغ کو اور با وفا کہیے

    یہ شعر دیکھئے:

    تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
    تو نہیں اور سہی، اور نہیں، اور سہی

    داغ کی ایک اور بات جو ان کو دوسروں سے الگ جا کھڑا کرتی ہے وہ ان کی مکالمہ نگاری ہے۔۔۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ دوسرے کو سامنے بٹھا کر اس سے مخاطب ہیں۔۔
    ایک جگہ کچھ ایسے کہتے ہیں:

    کیا کہا ؟ پھر تو کہو ! ہم نہیں سنتے تیری“
    نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

    دوسری جگہ ایسے مخاطب ہیں:

    خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں
    مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا

    کہیں پر ایسے:

    حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
    مر گئے لاکھوں اسی ارمان میں

    داغ کی ایک اور خوبصورت غزل پڑھیے:

    خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
    جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
    دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
    اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
    دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
    ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
    افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
    لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
    گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
    مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
    بزمِ عدو میں صورتِ پروانہ دل مرا
    گو رشک سے جلا ، تیرے قربان تو گیا
    ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے
    اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا

    داغ کو جتنے شاگرد ملےاتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھاجگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن ماہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔

    1905ءمیں فالج کی وجہ سے حیدر آباد میں وفات پائی ۔
    لیکن اپنی شاعری کی وجہ سے آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دہلوی

    فاطمہ حسین جی!
    داغ جیسے عظیم شاعر کے بارے میں بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ارسال کیا آپ نے۔ بلاشبہ داغ نے اردو شاعری کو ایک نیا رنگ دیا۔ ان کے لہجے کی بے ساختگی کمال کی ہے۔ ایک اور بات کا اضافہ کر دوں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی داغ سے بہت متاثر تھے۔ اور شاعری کی ابتداء میں‌جب ان کا رجحان غزل گوئی کی طرف مائل تھا تو انہوں نے داغ کے لہجے میں بھی کچھ شاعری کی جس میں ان کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان کی مشہور غزل کے دو اشعار دیکھیں۔

    نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
    مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی

    تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھی

    علامہ اقبال کی داغ سے کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی لیکن وہ انہوں نے خط و کتابت کے ذریعے داغ سے اصلاح لیتے رہے۔

    آپ کا بہت شکریہ!
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داغ دہلوی

    شکریہ ۔۔۔اتنی اچھی اور معلوماتی تحریر کے لیے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں