1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رابندر ناتھ ٹیگور پر افسردگی طاری رہا کرتی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏29 دسمبر 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    بھارت کے معروف بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی زندگي پر مبنی نئی کتاب میں اس بات کا انکشاف کیا گيا ہے کہ وہ احساسِ تنہائی کا شکار اور ان پر گہری افسردگی طاری رہا کرتی تھی۔

    ان کی سوانح حیات لکھنے والے سبیاساچي بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ انیس سو چودہ میں نوبل انعام جیتنے کے ایک برس بعد ہی ان کے گہرے اضطراب کا بدترین دور شروع ہوا۔

    رابندرا ناتھ ٹیگور کو بھارت کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ انہیں سنہ انیس سو تیرہ میں ان کی شاعری کی کتاب گيتانجلی کے لیے ادب کے نوبل انعام سے نوازہ گیا تھا۔

    ٹیگور نے بھارت اور بنگلہ دیش کے قومی ترانے لکھے تھے۔ ان کے بہت سے مضامین اور اور کتابیں بھی مشہور ہیں۔

    بھٹاّ چاریہ نے اپنی کتاب ’رابندرا ناتھ ٹیگور: این اٹرپرٹیشن‘ میں لکھا ہے ’جنوری انیس سو پندرہ میں ٹیگور دوبارہ رونے اور گہرے صدمے کے متعلق بات کرتے ہیں، لیکن بنگال میں دریائے پدما میں ایک کشتی میں تنہائي میں رہنے کے بعد وہ فروری میں اس سے راحت ملنے کا دعوٰی کرتے ہیں۔‘

    سوانح نگار بھٹّا چاریہ کے مطابق ٹیگور بچپن سے ہی قید تنہائي سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔

    ٹیگور نے اپنے ایک قریبی متعد کو لکھا تھا ’میں بالکل تنہا تھا، میرے بچپن کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ میں بہت تنہا تھا۔ میں نے اپنے والد کو بہت کم ہی دیکھا، وہ اکثر دور رہے۔ اپنی ماں کی وفات کے بعد سے میں اکثر گھر کے ملازمین کی نگرانی میں رہا۔‘

    "میں بلکل تنہا تھا، میرے بچپن کا ایک پہلو یہ تھا کہ میں بہت تنہا تھا۔میں نے اپنے والد کو بہت کم ہی دکھا، وہ اکثر دُور رہے۔ اپنی ماں کی وفات کے بعد سے میں اکثر گھر کے ملازمین کی نگرانی میں رہا۔"

    ٹیگور

    اپنی کتاب میں بھٹّا چاریہ نے دوست کو لکھےگئے ٹیگور کے ایک اقتباس کو نقل کیا ہے کہ ’ کبھی کبھی کئی مہینے تنہائي میں بغیر بات کیے گزار دیے یہاں تک کہ نا استعمال کرنے کے سبب میری خود کی آواز نحیف اور کمزور پڑگئی۔‘

    سوانح نگار نے لکھا ہے کہ شاعر کی افسردگی اور تنہائی کی بڑی وجہ ان کے اپنے لوگوں خاص طور بنگالیوں، کی طرف سے مایوس کن برتاؤ تھا۔

    نوبل انعام ملنے کے بعد ٹیگور نے لکھا تھا کہ ملک میں منائی جارہی تقریبات اور جشن وقتی ہے کیونکہ بہت کم ہی لوگ ان کے کام کو دل سے سراہتے ہیں۔

    سبیا ساچی بھٹا چاری کا کہنا ہے کہ ٹیگور نے اپنا مشہور نغمہ ’اکلا چلو رے‘ ( یعنی اگر کوئي ساتھ نا دے تو تنہا ہی منزل کی طرف رواں دواں رہو) انیس سو پانچ میں اس وقت لکھا تھا جب انہیں لگا کہ انہیں الگ تھلگ چھوڑ دیا گيا ہے۔

    ٹیگور سنہ اٹھارہ سو اکسٹھ میں کولکتہ میں پیدا ہوئے تھے اور بنگلہ زبان کے وہ اعلی پائے کے ادیب مانے جاتے ہیں۔ان کا انتقال انیس سو اکتالیس میں ہوا۔



    ٹیگور کو ان کی کتاب گیتانجلی کے لیے نوبیل انعام سے نوازہ گيا تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں