1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

Discussion in 'حالاتِ حاضرہ' started by نعیم, Jul 25, 2010.

  1. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اِسلام کو قابلِ نفرت بنانے کی عالمگیر مہم ۔ ۔ ۔ این کاؤنٹرٹو
    جاوید چودھری


    "این کاؤنٹر" ( اسے پیرس ریویو بھی کہتے تھے) دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد دنیا میں کمیونزم کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلو ع ہوا۔ آفسٹ پیپر پر جدید ترین پرنٹنگ سسٹم کے تحت شائع ہونے والا یہ رسالہ پیرس کی بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ریلوے اسٹیشنوں سے نکلتا اور پھر چند ہی روز میں دنیا بھر کے ٹی ہاؤسز، کافی شاپس اور شراب خانوں میں پہنج جاتا، جہاں نہ صرف اس کی ایک ایک سطر کو الہام سمجھ کر پڑھا جاتا بلکہ ایمان کا درجہ دے کر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ اگر ہم مار کسی نظریات، مارکسزم کے پیروکاروں کے حلیوں اور ان کے متشدد نظریات کے تاریخ کھود کر نکالیں تو ہمیں "این کاؤنٹر" ہی ملے گا، جس نے پوری دنیا میں بھوک کو مضبوط ترین فلسفہ بنا دیا۔ یہ این کاؤنٹر ہی تھا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے بال بڑھا لئے، غسل کرنے کے عادت ترک کر دی، مارکسی لٹریچر کو مقدس سمجھ کر ایک ایک لفظ رٹ لیا، بیویوں کو طلاقیں دے دیں اور بچوں کو "ان امیروں کو لوٹ لو" کا درس دینا شروع کر دیا۔

    رسالے کے پیچھے کروڑوں روبل تھے، دنیا کے ذہین ترین مار کسی دماغ تھے، ماہر صحافی تھے، انتہائے زیرک نقاد اور دانشور تھے، لہذا اس دور میں اس سے بڑھ کر معیاری، جامع اور پراثر جریدہ دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سپیڈر، آڈن اور مارلو جیسے دانشور اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک بین الاقوامی مجلس ادارت تھی، جو دنیا بھر سے موصول ہونے والے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا کڑی نظر سے جائزہ لیتی، انہیں مار کسے کسوٹی پر پرکھتی، زبان و بیان کے غلطیوں کی نشاندہی کرتی، اعداد و شمار اور حقائق کی صحت کا اندازہ لگاتی۔ تسلی کے بعد یہ مضامین سیلف ڈیسکوں پر چلے جاتے، جہاں اپنے وقت کے ماہرین ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے، ان کی نوک پلک سنوارتے۔ اس کے بعد ایک اور شعبہ اس ترجمے کا جائزہ لیتا، اس میں پائی جانے والی جھول، سقم اور لفظی کوتاہیاں درست کرتا۔ آخر میں جب اشاعت کا مرحلہ آتا تو انتظامیہ انگریزی ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اصل متن ( جو مختلف زبانوں میں ہوتا) بھی چھاپ دیتی، تاکہ اگر ترجمے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو قارئین اصل مضمون دیکھ کراسے درست کر لیں۔ اس کڑے معیار، انتخاب اور عرق ریزی کے باعث ناقدین "این کاؤنٹر" کو کمیونزم کی ترویج میں وہ مقام دیتے تھے جو شاید کارل مارکس اور لینن کو بھی نصیب نہیں تھا۔

    لیکن قارئین کرام! المیہ دیکھئے "این کاؤنٹر" کی اشاعت کے دس پندرہ برس بعد انکشاف ہوا کہ جسے دنیا کمیونزم کی بائبل سمجھ رہی تھی، دراصل سی آئی اے کا منصوبہ تھا اور امریکی خفیہ اِدارے کے ہیڈ کوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ڈپٹی سیکرٹری رینک کا ایک امریکی، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور کچھ خفیہ ٹیلیفون کالز کے ذریعے برسوں تک پوری اشتراکی دنیا کو بیوقوف بناتے رہے، ان کے نظریات میں زہر گھولتے رہے، یہاں تک کہ کمیونزم کے ٹارگٹ ممالک میں مقامی سطح پر کمیونزم کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔

    عرصے بعد جب این کاؤنٹر پراجیکٹ کا چیف، ثقافتی یلغار کے ایک سیمینار میں شرکت کے لئے پیرس گیا تو شرکاء نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ بوڑھے ریٹائرڈ امریکی نے ہیٹ اتار کر سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر جھک کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پوچھنے والوں نے پوچھا "سر! آپ نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟" بوڑھا امریکی مسکرایا اور پھر مائیک کو انگلی سے چھو کر بولا: "ینگ میں ویری سمپل، ہم نے کمیونزم کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا"۔ ایک اور نوجوان اٹھا اور بوڑھے سے مخاطب ہو کر بولا: "لیکن جریدے کے سارے منتظمیں تو کمیونسٹ تھے اور جہاں تک ہماری معلومات ہیں، سی آئی اے کا ان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا"۔

    بوڑھے نے قہقہ لگایا اور پھر دوبارہ مائیک کو چھو کر بولا: "نوجوان ہاں، ہمارا این کاؤنٹر کی انتظامیہ، اس کے ایڈیٹوریل بورڈ اور اس کے کمیونسٹ ورکرز سے کوئے تعلق نہیں تھا، لیکن دنیا کے مختلف کونوں سے این کاؤنٹر تک پہنچنے والے مضامیں تو ہم لوگ ہی لکھواتے تھے"۔ ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور بوڑھے کو ٹوک کر بولا: "لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟" بوڑھا آہستہ سے مسکرایا اور پھر مائیک چٹکی میں پکڑ کر بولا: "بہت کچھ ہوتا ہے، ینگ مین! تم خود فیصلہ کرو، جو بائبل ایسے احکامات دے جو انسانی فطرت سے متصادم ہوں، جو انسان کو آزادی سے سوچنے، بولنے اور عمل کرنے سے روکتے ہوں، جو لوگوں کو بدبودار کپڑے پہننے، شیو نہ کرنے، دانت گندے رکھنے، اور گالے دینے کا درس دیتی ہو، وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہو گی؟ ہم نے یہی کیا۔ این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کو بے لچک، متشدد اور سخت مؤقف کے حامل افراد ثابت کر دیا جس کے بعد تیسری دنیا میں ان لوگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اٹھیں اور ہمارا کام آسان ہو گیا"۔ یہاں پہنچ کر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بوڑھا نشست سے اٹھا، دوبارہ ہیٹ اتار کر ہوا میں لہرایا، سینے پر ہاتھ رکھا اور سٹیج کے اداکاروں کی طرح حاضرین کا شکریہ ادا کرنے لگا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں جب بھی محفلوں میں "پڑھے لکھے" خواتیں و حضرات کے منہ سے علماء کرام کے خلاف "فتوے" سنتا ہوں، نوجوانوں کو اسلام کو (نعوذ باللہ) قدیم، فرسودہ اور ناقابلِ عمل نظام قرار دیتے دیکھتا ہوں، شائستہ، خاموش طبعہ اورذکر اللہ سے جھکے ہوئے لوگوں کو "مولوی" کے نام سے مخاطب ہوتا دیکھتا ہوں، ہاں! میں جب مسجد کے سامنے کلاشنکوف بردار گارڈ دیکھتا ہوں، مختلف مذہبی رہنماؤں کو کیل کانٹے سے لیس باڈی گارڈز کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ اخبارات، رسائل و جرائد کی پھیلائی ڈس انفارمیشن پرمدرسوں کے معصوم بچوں کو سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے دیکھتا ہوں، تو میں سوچتا ہوں کہیں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے کسی کمرے میں بیٹھا کوئی ڈپٹی سیکرٹری، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور ٹیلی فون کی کچھ کالز کی مدد سے اسلام کو اسلامی دنیا میں اجنبی بنا رہے ہوں، اسے فرسودہ، ناقابلِ عمل اور انسانی فطرت کے خلاف نظام ثابت نہ کر رہے ہوں؟

    قارئین کرام! اگر آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو آپ مجھ سے پورا اتفاق کریں گے کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی، مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا، مدرسے کو مدرسے کے ذریعے جتنا قابلِ نفریں ثابت کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام (نعوذ باللہ) کیا گیا، اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بیانات، خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔

    یقین کیجئے، جب کوئی نوجوان بڑی نفرت سے کہتا ہے یہ "مولوی" تو فوراً میرے دماغ میں ایک بوڑھے امریکی کی تصویر اُبھر آتی ہے، جو مائیک کو چٹکی میں پکڑ کر کہتا ہے " ویری سمپل، ہم نے اسلام کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا" اور بوڑھا کہتا ہے: " ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ جس مذہب میں ایک مولوی دوسرے مولوی کے پاس بیٹھنے کا روادار نہیں، وہ مذہب جدید دنیا کے انسانوں کے لئے کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ جو لوگ معمولی سا اختلاف برداشت نہیں کرسکتے، اپنی مسجد میں کسی دوسرے مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے، وہ جمہوری روایات کی پاسداری کیسے کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں، جو ہر سوال کا جواب پتھر سے دیتے ہیں"۔

    ہاں، رات کے آخرے پہر جب گلی کی ساری بتیاں کہر کی چادر اوڑھے سو چکی ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو "این کاؤنٹر پراجیکٹ ٹو" کی فائل پڑھ سکے۔



    خبر کا حوالہ

    اتفاق یا اختلاف ۔۔۔ کسی بھی صورت میں اپنا تبصرہ ضرور ارسال کیجئے۔ شکریہ
     
  2. ھارون رشید
    Offline

    ھارون رشید برادر Staff Member

    Joined:
    Oct 5, 2006
    Messages:
    131,687
    Likes Received:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    اللہ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما
     
  3. ایم اے رضا
    Offline

    ایم اے رضا ممبر

    Joined:
    Sep 26, 2006
    Messages:
    882
    Likes Received:
    6
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہو ا ؟؟؟؟
     
  4. ایم اے رضا
    Offline

    ایم اے رضا ممبر

    Joined:
    Sep 26, 2006
    Messages:
    882
    Likes Received:
    6
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
     
  5. فواد -
    Offline

    فواد - ممبر

    Joined:
    Feb 16, 2008
    Messages:
    613
    Likes Received:
    14
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں نے يہ بات پہلے بھی کئ بار کہی ہے کہ نا تو امريکہ ہر عيب سے عاری ہے اور نہ ہی امريکی تاريخ غلطيوں سے پاک ہے۔ ليکن ايک تعميری تجزيہ صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب آپ تصوير کے دونوں رخ ديکھيں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اس بات کی نشاندہی کريں کہ کوکلکس کلين امريکی تاريخ کا حصہ ہے تو پھر آپ کو اس حقيقت کو بھی تسليم کرنا چاہيے کہ آج باراک اوبامہ امريکہ کے صدر ہيں۔

    جہاں تک "اين کاؤنٹر"، "پيرس ريويو" اور سی –آئ –اے کی ثقافتی جنگ کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو ميں آپ کی توجہ اس جانب دلواؤں گا کہ يہ حقائق تو 1960 کی دہائ ميں ہی تسليم کر ليے گۓ تھے اور اس وقت سے يہ حقائق عوام کی دسترس ميں ہيں۔ اس کی ايک مثال

    http://www.amazon.com/s/ref=nb_ss_g...ywords=The Cultural Cold War (2000)&x=16&y=20

    "اين کاؤنٹر" ايک ثقافتی رسالہ تھا۔ اس بات کا کوئ حتمی ثبوت نہيں ہے کہ کئ سال پہلے اختتام پذير ہونے والے اس پروگرام کے ذريعے اس رسالے کو سياسی عمل پر اثر انداز ہونے يا برسراقتدار افراد کے ايجنڈے کو آگے بڑھانے کے ليے استعمال کيا گيا۔ اس کے برعکس سی –آئ – اے کے اس پروگرام کا حدف نان کميونسٹ ليفٹ کے ممبران تھے۔ اس وقت يورپ کی سوچ پر اثرانداز ہونے کے لیے امريکہ اور سويت يونين دونوں ہی ميدان عمل ميں تھے۔

    اس رسالے کی فنڈنگ کے ذريعے ان لکھاريوں اور دانشوروں کو ايک پليٹ فارم مہيا کيا گيا جو کہ امريکی انتظاميہ سے اختلاف رکھنے کے باوجود ثقافتی ايشوز پر نان مارکسٹ نقطہ نظر رکھتے تھے۔

    حقيقت يہ ہے کہ سی –آئ – اے کی اس مہم کا مقصد راۓ عامہ اور خيالات کو دبانا نہيں بلکہ انھيں اجاگر کرنا تھا۔ يہ درست ہے کہ آج کے دور ميں اس پروگرام پر سخت گير رويہ اختيار کيا جا سکتا ہے ليکن اس دور ميں امريکہ اور سوويت يونين ايک سرد جنگ ميں مد مقابل تھے اور سويت يونين پورے يورپ پر اپنے اثرورسوخ کو وسيع کرنے کے ليے عملی کوششيں کر رہا تھا۔

    ليکن ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ 50 برس قبل کے حالات کا اطلاق موجودہ صورت حال ميں نہيں ہوتا۔ امريکہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مدمقابل نہيں ہے۔ جس دشمن کا ہميں آج سامنا ہے، وہ مسلمانوں کے ليے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ خود امريکہ کے ليے ہے۔ يہ ايک حقيقت ہے کہ خود مسلم ممالک ميں ميڈيا مہم، مذہبی بحث اور دانشوروں کی تقارير کے ذريعے دہشت گردی کی مذمت کی جا رہی ہے اور يہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گردی ايک جرم ہے اور اس کا مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

    آج ٹی وی پر حاليہ اشتہاری مہم جس ميں ايک خودکش حملہ آور کی ذہنی کيفيت اجاگر کی گئ ہے، اسی سلسلے کی ايک مثال ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  6. وسیم
    Offline

    وسیم ممبر

    Joined:
    Jan 30, 2007
    Messages:
    953
    Likes Received:
    43
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    فواد صاحب ۔ آپ نے یقینا مضمون کو پڑھا ہے اور اس پر بھرپور تبصرہ دیا ہے۔ نجانے مجھے کیوں شک ہے کہ یہاں پر اکثر بن پڑھے تبصرے جاری ہوتے ہیں۔

    نعیم بھائی ۔ آپکے ارسال کردہ مضمون سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ انتہا پسندی اسلام کا نہیں بلکہ دشمنان اسلام کا پیدا کردہ شاخسانہ ہے اور مولوی نما میر جعفر و میر صادق ۔۔ اس قدامت پسند و انتہا پسند ۔۔ اسلام کی ترویج و اشاعت میں دشمنوں کے ساتھ مل کر یہ مکروہ کام انجام دے رہے ہیں۔

    ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی دین اسلام کی سچی روشنی سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
     
  7. خوشی
    Offline

    خوشی ممبر

    Joined:
    Sep 21, 2008
    Messages:
    60,337
    Likes Received:
    37
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کو جتنا نقصان خود مسلمانوں کے ہاتھوں پہنچا ھے اتنا غیروں نے نہیں پہنچایا ، مسلمانوں ( مفکرین تو نہیں کہنا چاھہئے)
    کی اپنی لکھی ہوئی کتابیں اسلام کی شکل تو اس طرح پیش کرتی ھیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ھے کہ یہ تعلیم یا احکام حقیقی اسلام نے کب دیئے اور کہاں دہیے
     
  8. وسیم
    Offline

    وسیم ممبر

    Joined:
    Jan 30, 2007
    Messages:
    953
    Likes Received:
    43
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    جی بالکل ۔ اور آپ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ۔۔ جس اسلام کا نقشہ موجودہ مسلمان نما دہشت گردوں کے ذریعے دنیا کو دکھایا جارہا ہے ۔۔ ایسا اسلام اللہ اور اسکے رسول ص کی تعلیمات میں‌کہاں ہے ؟
     
  9. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    موضوع کو پڑھنے ، توجہ دینے اور اپنی آراء سے نوازنے کے لیے شکریہ
    مزید دوست احباب بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
     
  10. خوشی
    Offline

    خوشی ممبر

    Joined:
    Sep 21, 2008
    Messages:
    60,337
    Likes Received:
    37
    جواب: مسلمان پتھر زمانے کے لوگ ہیں۔ اسلام کو قابل نفرت بنانے کی عالمی مہم۔

    میری تو دلی دعا ھے کہ مسلمان اپنے خوبصورت مذہب کی صحیح شکل دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں
     

Share This Page