1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏16 فروری 2010۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::


    بسم اللہ ، والحَمدُ للہ وَحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ مَن لا نبی بَعدَہُ ، امَّا بَعد ،
    السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ،
    بہت سی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ بھی ہم مسلمانوں میں داخل ہو چکی ہے کہ دِین کے معاملات اپنی اپنی طرف سے مقرر کی گئی کسوٹیوں پر پرکھ کر اپنا لیتے ہیں ، یا چھوڑ دیتے ہیں ، اپنے اپنے طریقے ، اپنے اپنے قوانین ، اپنے اپنے ڈھب و مسلک ، کے مطابق شریعت کے حکم لیے جاتے ہیں ، یا رد کر دیے جاتے ہیں ، عقائد بنا لیے جاتے ہیں ، اپنا لیے جاتے ہیں ، اور عِبادات بنا لی جاتی ہیں ، پھر اُن کے ذریعے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے عمل کیا جاتا ہے ، اور بظاہر ہر گروہ کا عنوان ، ''' قران و سنّت ''' ہوتا ہے ،اور اس عنوان سے مطابقت قائم رکھنے کے لیے اپنی بات ، اپنے عقیدے ، و عبادات کی لیے کوئی نہ کوئی دلیل کسی نہ کسی طرح قران و سنّت سے نکال بھی لی جاتی ہے ،
    اگر ہر کسی کی بات کی دلیل قران و سنت میں ہے تو پھر کہیں کوئی غلط نہیں ! اور یہ نا مکمن ہے کیونکہ کسی ایک معاملے میں ، کسی ایک مسئلے کے حل میں حق دو کے پاس نہیں ہو سکتا ، پس قران و سنّت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک کسوٹی بھی مقرر فرمائی ہے جِسے چھوڑنے کی وجہ سے ہم لوگ بالکل بنیادی ، عقائد ، اور عِبادات میں بھی اِختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،
    میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ ، قُران اورسُنّت کو سمجھنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کی حدود میں رہنا لازم ہے ، خاص طور پر عقیدے اور عِبادات میں ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے ہم سب کے لیے اِیمان اور فہمِ دِین کے لیے ایک کسوٹی، اور ایک معیار مقرر فرمایا ، اور یہود و نصاریٰ کو جواب دِلواتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے اصحاب کو حُکم دِیا ((((( قُولُوا آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا اُنزِلَ اِلَیْْنَا وَمَا اُنزِلَ اِلَی اِبرَاہِیمَ وَاِسمَاعِیلَ وَاِسحَاقَ وَیَعقُوبَ وَالاَسبَاطِ وَمَا اُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِم لاَ نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّنہُم وَنَحنُ لَہُ مُسلِمُونَ O فَاِن آمَنُوا بِمِثلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہتَدَوا وَّاِن تَوَلَّوا فَاِنَّمَا ہُم فِی شِقَاقٍ فَسَیَکفِیکَہُمُ اللّہُ وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ ::: تُم سب (رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے ساتھی) کہو ہم اِیمان لائے اللہ پر اور جو ہماری طرف اُتارا گیا اُس پر ، اور جو اِبراہیم اور اِسماعیل اور اِسحاق اور یعقوب (علیہم السلام ) اور اپنے پوتوں پر اُتارا گیا اُس پر ، اور جو کچھ دِیا گیا موسی اور عیسی اور (دوسرے) نبیوں ( علیہم السلام اجمعین) کو اُن کے رب کی طرف سے دِیا گیا اُس پر ، ہم نبیوں میں سے کِسی میں فرق نہیں کرتے (یعنی سب کی نبوت پر اِیمان رکھتے ہیں) اور ہم اللہ (اور اُسکے احکام ) کے لیے سر نگوں ہیں O اور اگر (اِس پیغام کے بعد ) یہ تُم لوگوں کی طرح اِیمان لاتے ہیں تو پھر یہ ہدایت پائے ہوئے ہیں اور اگر منہ پھیرتے ہیں تو وہ کھُلے اِختلاف میں ہیں اور جلد ہی اللہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )کو اِس سے کفایت فرما دے گا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور مکمل عِلم رکھنے والا ہے))))) سورت البقرۃ / آیت ١٣٦،١٣٧ ،
    اور مزید فرمایا ((((( وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدَی وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُؤمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء ت مَصِیراً ::: اور ہدایت (یعنی اللہ کی طرف سے ارسال کردہ احکامات و ہدایت )واضح ہو جانے کے بعد بھی جو کوئی رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )کو الگ کرے گا اور ''' المؤمنین '''( اہل سنت و الجماعت کے تمام مسلکوں کا اِس پر اتفاق ہے کہ ''' المؤمنین ''' صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں تو جو کوئی اُن )کے راستے کے عِلاوہ کِسی بھی اور کی اتباع (پیروی)کرے گا تو ہم اُسے اُسی طرف چلا دیں گے جِس طرف اُس نے رخ کیا ہے اور ہم اُسے جہنم میں داخل کریں گے (کیونکہ یہ ہی اُسکے اپنائے ہوئے راستے کی منزل ہے ) اور جہنم کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے ))))) سورت النساء /آیت ١١٥ ،
    آگے چلنے سے پہلے ، ایک گذارش ہے کہ اِس دوسری مذکورہ بالا آیت کی طرف ذرا خصوصی توجہ فرمایے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے دو دفعہ جمع کا صیغہ اِستعمال فرمایا ہے ، اِس لیے اگر کوئی اور اللہ تعالیٰ کا ذِکر جمع کے صیغے میں کرتا ہے تو وہ خِلاف توحید نہیں ، بلکہ اللہ کی کبریائی اور قوت و قدرت کی بڑائی اور عظمت کے لیے ہے اور اللہ کی طرف سے اجازت شدہ ہے ، جی ہاں قُران میں تو اللہ نے یہ ہی سکھایا ہے ، اب اپنی ذاتی آراء یا غیر مسلم مستشرقین کے فلسفے کو کسوٹی بنا کر یا اُس کی مدد سے قران کو سمجھا جائے تو پھر دِین میں کچھ بھی کہا اور بنایا جا سکتا ہے، ایسی حرکات بھی اسی بات کی ایک دلیل ہیں کہ اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں کو چھوڑ کر دِین کے معاملات سمجھنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ،
    اللہ تعالیٰ نے اُس کے احکام اور دین کے معاملات سمجھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک کے ساتھ ساتھ اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی معیار اور کسوٹی مقرر فرمایا ، اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ یہود و نصاریٰ کے لیے ہے ، بلکہ ہر ایک اِنسان کے لیے کہ اگر اُس کا اِیمان و عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتباع میں ہو گا تو وہ ہدایت والا ہوگا اور اگر نہیں تو وہ گمراہی والا ہوگا ، اور یہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ، ہر فرقہ مذہب و مسلک ظاہری طور پر قُران و حدیث کا نام لیوا ہوتا ہے ، لیکن جب اِن دنوں کو وہ اپنی عقل کے مُطابق سمجھتا اور سمجھاتا ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کو ترک کر دیتا ہے تو پھر وہیں پہنچتا ہے جہاں کی خبر اللہ نے اِس مندرجہ بالا آیات مُبارکہ میں فرمائی ،
    مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اِس معروف حدیث میں ملتی ہے کہ ((((( اِنَّ بَنِی اِسرَائِیلَ افتَرَقَت علی اِحدَی وَسَبعِینَ فِرقَۃً وَاِنَّ اُمَّتِی سَتَفتَرِق ُ علی ثِنتَینِ وَسَبعِینَ فِرقَۃً کُلُّہَا فی النَّارِ اِلا وَاحِدَۃً وہی الجَمَاعَۃُ ::: یقینا بنی اِسرائیل (یہودی) ٧١ فرقوں میں بٹے اور میری اُمت٧٢ فرقوں میں بٹے گی ، سب کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے ، اور وہ فرقہ ( جو جنّت میں جائے گا ) الجماعت ہے ))))) حدیث صحیح ہے اور سنن ابن ماجہ ، سنن ابی دواؤد ، المستدرک الحاکم ، مُسند احمد ، سنن البیہقی الکبریٰ اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ابو ہُریرہ ، انس ابن مالک ، عبداللہ ابن مسعود ، عوف بن مالک ، معاویہ بن ابی سُفیان ، ابو اُمامہ ، عبداللہ ابن عباس ، رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت کی گئی ہے ، اور المستدرک الحاکم اور سنن الترمذی کی ایک روایت میں نجات پانے والے کامیاب ہونے والے فرقے کے بارے میں فرمایا ((((( مَا اَنا عَلیہِ و اَصحَابی الیَوم ::: جِس پر میں اور میرے صحابہ آج کے دِن ہیں ))))) ، حدیث کا درجہ صحت ''' حسن ''' ہے ،
    (اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون بعنوان ''' نجات پانے والا فرقہ ، صفات اور نشانیاں ''' بھی موجود ہے ) جو مندرجہ ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے ،
    http://www.4shared.com/file/81825628/bd452549/ferqa_2_A4_col_stmpd.html
    اپنے اس مضمون کے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، اپنے عقائد اور عبادات کو قران اور صحیح ثابت شدہ سُنّت کی کسوٹی پر ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کی حدود میں رہتے ہوئے سمجھیے ، کوئی عقیدہ ، کوئی عِبادت اپنی مرضی سے نکالے گئے معنی و مفہوم کی بنیاد پر نہیں بنائی ، اپنائی جا سکتی ، بلکہ مکمل طور پر حرفاً حرفاً اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اپنانا ہے ، اور اگر ایسا نہیں تو کوئی بھی اپنی کِسی بات کو صحیح ثابت کرنے لے لیے کِسی آیت یا حدیث کو اپنے معنیٰ اور مفہوم دے کر کچھ بھی جائز اور ناجائز بنا سکتا ہے ، سوچنے اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ""""" اگر اُن آیات اور احادیث کا معنیٰ و مفہوم ، مطلوب و مقصود وہ ہی ہو ، جو کوئی بھی اپنے کسی عقیدے یا عِبادت کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ، یا صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت نے اُس پر کیا اُسی طرح عمل کیا تھا جِس طرح یہ حضرات بیان کرتے ہیں ؟؟؟ اگر ہاں تو اُن کی بات ٹھیک ہوئی ، اور اگر نہیں تو کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت سے زیادہ قُران و حدیث کو سمجھنے والے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں ؟؟؟ """"
    یہ تو کوئی معیار نہیں اور نہ ہی حق گوئی ، اور نہ ہی انصاف پسندی کہ جو بات اپنے مسلک و مذہب و سوچ و فکر کے مطابق نہ ہو ، یا جس بات کا عِلمی جواب ، یعنی قران اور صحیح ثابت شدہ سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال کی روشنی میں نہ دیا جا سکے ، اُسے فرقہ واریت کے کھاتے میں ڈال دِیا جائے ، یا اسی قسم کا کوئی دوسرا الزام لگا کر بات کو بدنام کیا جائے ، اور بات کرنے والے کو بھی ،
    مسلمانو ، کچھ تو خیال کیجیئے ، جو کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت نے نہیں کیا، جو عقیدہ اُن لوگوں نے نہیں اپنایا ، بلکہ صدیوں تک اُمت میں اُس کا نام و نشان نہیں ملتا ، اُسے اپنانا تو درست ہوا اورقران اور صحیح ثابت شدہ سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال کی روشنی میں اپنانا غلط ہوا ، اور غلط قرار دینے کی کوئی ثابت شدہ علمی دلیل نہیں بلکہ مختلف الزامات و فلسفوں کی بنا پر قران و صحیح سنت اور فہم صحابہ رضی اللہ عنہم کو رد کیا جاتا ، اورنہ ہی اپنے خود ساختہ عقائد و عِبادات و منہج کی تاریخ پر نظر کی جاتی ہے اور نہ ہی دلائل کے فہم پر،
    اللہ ہم سب کو حق جاننے ماننے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    السلام علیکم ۔ محترم عادل سہیل صاحب
    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو سچے غلامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ انکی حیثیت ہدایت کے ستاروں‌جیسی ہے۔ اور بلاشبہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی عزت و احترام برحق ہے۔

    لیکن یہ کہنا کہ ہدایت کا سارے کا سارا معیار۔ نہ قرآن ہوا۔ نہ سنت رسول ہوئی ۔ بلکہ صرف عمل صحابہ ہو گیا۔
    یہ اصول کہاں سے نکلا ہے ؟

    اگر سارے کا سارا معیار بقول آپکے صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہی رہ جاتے ہیں تو قرآن مجید کا بطور ہدایت کیا مقام اور درجہ ہے؟ ھدی للمتقین کا کیا مفہوم ہوا؟ ھدی للناس کا کیا مفہوم ہوا؟
    کیا معاذ اللہ قرآن میں تفکر و تدبر کرنا اور اللہ تعالی کی دی ہوئی عقل سے قرآن حکیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت کا نور حاصل کرنے کی کوشش کرنا گناہ کبیرہ اور گمراہی ہے؟
     
  3. راجہ اکرام
    آف لائن

    راجہ اکرام ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2008
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    جزاک اللہ خیر عادل بھائی
    لیکن محترمہ زاہرا جی کی طرح میرا بھی یہ سوال ہے کہ کیا صحابہ معیار حق ہیں؟
    کیا صحابہ کا وہ عمل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیر نگرانی کے عرصہ کا ہے وہ معیار ہے یا ہر صحابی رسول رضی اللہ عنہ کا عمل معیار ہے؟
    کیا عمل صحابہ کو مطلق رکھا جائے یا اسے صرف خلفاء راشدین تک محدود رکھا جائے کیوں کہ اس بارے میں واضح حکم ہے کہ ۔۔ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذ۔۔۔ او کما قال علیہ ا لسلام

    اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔۔ آمین
     
  4. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیرا ، زاہرا بہن ،
    میری بہن میں نے کہیں بھی کبھی بھی معاذ اللہ ، قران اور صحیح سنت مبارکہ کو چھوڑ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہدایت کا معیار نہ کہا ہے اور نہ لکھا ہے ،
    اگر کوئی قران اور صحیح سنت مبارکہ کو ایک طرف رکھ دے تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا سیکھے گا ؟؟؟
    زاہرا بہن ، میں نے لکھا :::


    میری لکھی ہوئی اس عبارت میں وضاحت کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ قران اور سنت کو سمجھنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کی حدود میں رہنا لازم ہے اور خاص طور پر عقیدے اور عبادات میں ،
    تو میری بہن ، یہ اس لیے کہ عقیدہ اور عبادات کسی کے تدبر اور فہم سے سمجھی جانے والی چیزیں نہیں ، انہیں بالکل اسی طرح اپنانا اور ادا کرنا ہے جس طرح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو بتایا ، اور انہوں نے اپنے صحابہ کو ،
    عقیدہ اور عبادات وقت کے ساتھ بدلنے والی چیزیں نہیں ہیں پس لازم ہے کہ ہم انہیں اسی طرح سیکھیں جس طرح صحابہ رضی اللہ ونہم اجمعین نے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیکھا ،
    اسلامی تاریخ میں مذکور فرقے اور گروہ آپ کے علم میں ہی ہوں گے ، جنہوں نے یہ راستہ چھوڑا اور اپنے طور پر اپنی ذاتی سوچ و عقل کی بنا پر قران کو سمجھا ، قرانی آیات میں سے اپنے طور پر عجیب و غریب عقائد اور مسلمانوں کا خون اور مال اور عزت تک حلال کر لی ، میں کسی کا نام نہیں لیتا ، امید ہے آپ سمجھ جائیں گی ،
    اور ایسے بھی ہوئے اور ہیں جنہوں نے اپنے طور پر اپنے ذاتی فہم کی بنا پر نئی نئی عبادات بنا لیں ،
    زاہرا بہن یہ اصول اللہ تبارک و تعالی کے ان فرامین سے نکلا ہے اور کسی تاویل کے طور پر نہیں صاف الفاظ کے سیدھے معانی کے طور پر نکلا ہے جن کو میں نے اصل مضمون میں نقل کیا ہے ،
    و السلام علیکم۔
     
  5. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::


    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    زاہرا بہن ، ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ :::
    """"""" میں نے کہیں بھی کبھی بھی معاذ اللہ ، قران اور صحیح سنت مبارکہ کو چھوڑ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہدایت کا معیار نہ کہا ہے اور نہ لکھا ہے ،
    اگر کوئی قران اور صحیح سنت مبارکہ کو ایک طرف رکھ دے تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا سیکھے گا ؟؟؟ """""""

    یقینا قران اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ لوگوں کے ہدایت اور روشنی ہیں ، لیکن اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالی اسی قران پاک ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اسی سنت مبارکہ کو اپنی اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کا نتیجہ ہمیشہ دین میں تفرقے اور فتنے کا سبب بنا ہے ،
    اللہ تبارک و تعالی کے فرامین میں غور و فکر کا حکم سب سے پہلے جن کو ہوا ، انہی کو اللہ نے ہمارے لیے اس غور و فکر کی راہ اور طریقہ سکھانے والا متعین کیا ،
    میری بہن ، آپ نے اپنے آپ کے منقولہ بالا مراسلے کی آخری سطر شاید کچھ زیادہ جذبات میں لکھی ہے ،
    عقل کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رکھتے ہوئے استعمال کرنا ہوتا ہے میری بہن ، جب وہ ان حدود سے تجاوز کر کے ذاتی پرواز کرنے لگے تو عثمان شہید ہوتے ہیں ، علی شہید ہوتے ہیں ، حسن اور حسین شہید ہوتے ہیں ، رضی اللہ عنہم اجمعین ،
    زکوۃ کا انکار ہوتا ہے ، ستر وحجاب کے معانی بدل جاتے ہیں ، سنت کے مفاہیم بدل جاتے ہیں ، اللہ تعالی کی صفات بدل دی جاتی ہیں ، اللہ کی ذات بدل دی جاتی ہے ، بندے کو رب بنا دیا جاتا ہے ،ا ور پھر اس رب کی رضا کے لیے طرح طرح کی عبادات بنائی جاتی ہیں ، اور ، اور ، اور، ،،،،
    زاہراہ بہن یہ سب کچھ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ اس کسوٹی کو ترک کرنے کی بنا پر ہوا اور ہوتا ہے ،
    بہن میری ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ رتبہ اللہ نے دیا ہے کہ انہیں اللہ اور اللہ کے رسول کی بات سمجھنے کی کسوٹی بنایا ہے ،
    اللہ کرے کہ یہ گذارشات آپ کے سوالات کے جوابات کے طور پر کافی ہوں ، والسلام علیکم۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    السلام علیکم محترم عادل سہیل صاحب۔
    ایک علمی موضوع شروع کرنے پر مبارک باد قبول فرمائیے۔ اللہ تعالی آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
    گزارش ہے کہ خدارا قرآن حکیم و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تحقیق و تفکر و تدبر کو " ذاتی عقل " کا الزام دے کر اس راہ کو مسدود مت کیا جائے۔ اعتدال کی راہ ہی اسلام کا منشاء ہے۔
    علمائے امت ، آئمہ حدیث ، مفکرین و مفسرین ہر دور میں‌ موجود رہے ہیں۔ اللہ تعالی ہر دور میں جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اور جس کے ذریعے سے مخلوق کو راہ راست پر لانا چاہتا ہے اسکا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ اور تاریخ اسلام ہزارہا علما، آئمہ، مفکرین و محدثین سے بھری پڑی ہے۔
    یہ زاویہ نگاہ کہ ہدایت کا معیار صرف اور صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی ہیں۔ اور اسکے علاوہ قرآن و حدیث‌ سے براہ راست روشنی لینا معاذ اللہ منشائے اسلام نہیں ہے تو اس سے نہ صرف ہم دین اسلام کی جدیدیت کو محدود کریں گے بلکہ براہ راست قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی صدیاں پیچھے لے جانے کی بالواسطہ کوشش کریں گے جو کہ طالبان اور اس طبقے کے لوگوں کی سوچ ہے۔
    اسلام کا مزاج معتدل ہے۔ دیانت و امانت دین کا جزو ہے۔ اور اللہ کریم اگر کسی عالم دین کو شرح صدر عطا فرماتا ہے تو اسے دیانت و امانت بھی عطا کرتا ہے۔
    ظاہر ہے قرآن وسنت میں تحقیق ہوگی تو مختلف نکتہ ہائے نظر بھی سامنے آئیں گے۔ اور اسی سے دین اسلام بطور زندہ دین (ہردور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے) قیامت تک قائم رہے گا۔ انشاءاللہ
    لہذا گذارش کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ راہ اعتدال کو اپناتے ہوئے دین اسلام کے ماخذ قرآن و سنت ہی کو تسلیم کیا جائے ۔اور اسکی اہمیت پر بھی زور قلم صرف کیا جائے۔ آپ جیسے صاحبان علم " بھی " اور " ہی " کا فرق اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
    اگر یہ فرمایا جائے کہ قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کو " بھی " لیا جائے تو بات اعتدال کی ہے۔
    لیکن اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ " ہی " معیار ہدایت ٹھہرے تو یہاں اعتدال و توازن بگڑ جاتا ہے۔
    کم از کم مجھے بھی اس دھاگے کے پہلے مضمون سے یہی تاثر ملتا ہے کہ جیسے سارے کا سارا دین اسلام قرآن و سنت کی بجائے صرف عمل صحابہ ہی کا نام ہے۔
    یقینا یہاں‌آپ کی مراد وہی گروہ ہوں گے جو آپکے نکتہ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث سے براہ راست دلیل لے کر کوئی عمل کرتے ہیں۔ جو کہ آپ کےنزدیک "عقائد و عبادات بنا لیا جانا ہے" ان الفاظ کی شدت آپ بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ گویا اگر ایک مسئلہ پر ہدایت قرآن مجید یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو میسر آرہی ہے لیکن وہ عمل اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق بوجوہ انجام نہیں دے پائے یا وہ عمل ہم تک کسی ضعیف روایت سے پہنچ رہا ہے تو وہ عمل مردود ہوگیا ۔ اور ایسا کرنے والا آپ کے نکتہ نظر کے مطابق " عقائد و عبادات بنا لینے والا" یعنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا ؟؟؟؟ کیونکہ دین میں "عقائد و عبادات بنا لینے والے" کی تعریف آپ ہی خوب کرسکتے ہیں"
    حیرت ہے کہ قرآن و حدیث کی آیات کو اگر کوئی دوسرا طبقہ ہدایت کے لیے استعمال کرے تو وہ "عقائد و عبادات" بنا لینے والا ہوگیا ۔ لیکن اسی قرآنی آیات کو آپ اپنے موقف کے استدلال کے لیے پیش فرمائیں تو وہ جائز ہوا ۔ اور آپ نے اپنے اسی مضمون میں جابجا قرآنی آیات کا استدلال پیش فرمایا ہے۔
    اگر معیار عمل صحابہ ہےتو پھر قرآنی آیات کی دلیل کی اہمیت ؟
    اور اگر قرآنی آیات کی اہمیت آپ اپنے موقف کو تسلیم کروانے لیے تو تسلیم کرتے ہیں تو پھر دوسروں کو بھی یہی حق دیا جانا چاہیے کہ قرآن حکیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عقیدہ و عمل ثابت ہوتا ہے اس سے اللہ تعالی کی عطا کردہ توفیق کے مطابق سمجھنے اور اس پر عمل کی آزادی ہونی چاہیے۔ ان پر " عقائد و عبادات بنا لیے جانے" کا فتوی چہ معنی دارد ؟
    غور کریں کہ اللہ پاک ہدایت " قرآن مجید " اور اسوہ حسنہ کا معیار "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ " کو قرار دے۔ لیکن کوئی شخص اپنے زور استدلال سے قرآن حکیم کی کسی اور آیت سے شریعت کا سارے کا سارا معیار صرف عمل صحابہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرے تو یہ بھی تو انسان کی اپنی عقل و دانش ہی کا نتیجہ ہے نا ؟
    محترم ! بہتر ہوتا کہ واشگاف الفاظ میں ہم سادہ لوح مسلمانوں کو اس فلسفیانہ اور خودساختہ عقائد و عبادات والے طبقے کا نام یا حوالہ دے کر ہمیں اس کے شر سے ہی آگاہ فرما دیتے تاکہ ہمارا ایمان آپکی تحریروں کی روشنی میں بچ جاتا اور یہ بھی فرما دیتے کہ وہ کون کون سے اعمال ہیں جن سے ہمیں پرہیز کرکے اپنا ایمان بچانا ہے۔ جہاں اتنی تگ و دو فرمائی ہے۔ تھوڑی سی زحمت کرکے اس گمراہ طبقے کا نام اور اعمال بھی درج فرما دیں جس کے لیے آپ نے اتنی تمہید طولانی باندھی ہے۔
    کیونکہ آپ یقینا اپنے قارئین کرام کسی خاص منزل مقصود تک پہنچانا چاہ رہے ہوں گے۔

    واسلام
     
  7. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    محترم بھائی نعیم رضا صاحب،
    جزاک اللہ خیرا ، کہ آپ نے بہت اچھے انداز میں‌تنقید فرمائی ، ایسی باتیں بہت فائدہ مند رہتی ہیں ان شاء اللہ ،
    نعیم بھائی ، آپ کے سابقہ مراسلے کے جواب میں صرف اتنی گذارش کروں گا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کو اللہ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حجت قرار دیا ہے ، کیسی کی ذاتی سوچ و فکر نہیں ، اور یہ منہج آغاز سے ہی موجود ہے جس کو """" اہل سنت و الجماعت """" کہا جاتا ہے ، """ سنت""" تو سب کے لیے معروف ہے و للہ الحمد ، لیکن یہ """ جماعت """ سوائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کونسی ہے ؟؟؟
    نعیم بھائی میں بڑی وضاحت سے عرض کر چکا ہوں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کی جماعت کے اقوال و افعال کو قران و صحیح سنت مبارکہ میں سے عقائد اور عبادات کی صحیح سمجھ کی کسوٹی مقرر کیا گیا ، اور ایسے معاملات جو ان کے دور میں ظاہر ہوئے ان معاملات اور مسائل کے حل کو سمجھنے کے لیے بھی ہم قران و سنت کے دلائل فہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعے ہی سمجھیں گے ،
    ایسے معاملات اور مسائل جو اس وقت ظاہر نہ ہوئے تھے ، جو کہ بقول آپ کے """ جدیدیت """ کے ضمن میں آئیں گے ، ان معاملات کے حل کے لیے مجتہد ائمہ اور علماء اپنے اپنے وقت میں """ اجتہاد """ کرتے ہوئے قران و سنت کی نصوص پر کچھ """ قیاس """ کر کے حل پیش کرتے ہیں ،
    نعیم بھائی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فہم کو حجت اور معیار جاننے کے بارے میں میری بات خاص طور پر """"""" عقائد اور عبادات """""""" کے بارے میں ہے ، اور وہ اس لیے کہ جیسا کہ زاہرا بہن کے لیے جواب میں لکھا تھا کہ :::

    اور اب مزید عرض کرتا ہوں کہ """"""" عقائد اور عبادات """"""" توقیفی ہیں ، یعنی اللہ اور رسول اللہ‌ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام اور ارشادات اور رسول اللہ‌ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اعمال مبارکہ تک رکی ہوئی ہیں ، اور ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کی جماعت سے ہی سمجھنا ہے ، اپنی اپنی سمجھ کے مطابق نہ کوئی عقیدہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عبادت ، ورنہ گمراہی ہو گی ، اور ایسی گمراہیوں کی کئی مثالیں ہماری تاریخ میں میسر ہیں ،
    اللہ تعالی ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے ،
    نعیم بھائی ، کسی خاص ضرورت کے علاوہ کسی کا نام لے کر اس کی غلطی بیان کرنا میرا منہج نہیں ، کیونکہ میں نے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ میں سے یہ بھی سیکھا ہے ،
    محترم بھائی ، میں کچھ اور کہہ رہا ہوں اور آپ کچھ اور سمجھ رہے ہیں ، لہذا برادرانہ گذارش ہے نعیم بھائی کہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس پر ہولے ہولے غور کیجیے ، ان شاء اللہ غلط فہمیاں دور ہوں گی، اللہ تعالی ہم سب کو، ہر ایک مسلمان کو ایک دوسرے کے بارے ہر غلط فہمی سے محفوظ رکھے ، و السلام علیکم۔
     
  8. گلاب خان
    آف لائن

    گلاب خان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2010
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    ایک سوال میری طرف سے بھی سن لیں کہ صحابہ میں‌ بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ تو ان میں‌ کس کی بات کو مانا جائے گا اور اس کا معیار کیا ہو گا۔ متفق علیہ مسائل تو بہت کم ہیں۔
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    عادل سہیل جی بہت شکریہ اتنا خوبصورت مضمون لکھنے پہ
    آپ نے یقینا بہت محنت کی ھے اسے لکھنے میں ، ورنہ لوگ کتابون یا ارد ادھر سے کاپی پیسٹ کر لیتے ھیں اور حوالہ دینا بھی ضروری نہیں سمجھتے

    امید ھے آپ اپنے مفید مضامین سے اس بزم کی رونق بڑھاتے رھیں گے
     
  10. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیرا ، خوشی بہن ، اور شکریہ ادا کرنے پر بھی شکریہ قبول فرمایے ،
    یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے کہ وہ مجھ جیسے سے اپنے دین کی کوئی خدمت کروا لیتا ہے ،
    میں پچھلے کچھ دن مشغول رہا ہوں ، ان شاء اللہ ایک دو دن میں مزید صبر والا مضمون بھی مکمل کروں گا ، اور کچھ مزید مضامین بھی شروع کروں گا ، اپنی دعاوں میں یاد رکھیے گا ۔ و السلام علیکم۔
     
  11. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    خان بھائی ، سابقہ مراسلات میں کافی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت خاص طور پر عقائد اور عبادات کے بارے میں ہے ، لہذا میرے بھائی آپ ذرا اپنی معلومات کو تازہ فرمایے ان شاء اللہ آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عقائد اور عبادات میں کہیں بھی کوئی اختلاف نہیں ملے گا ، اور یہ بھی یاد رکھیے گا کہ اختلاف اور عدد کیفیات میں بہت فرق ہوتا ہے ، و السلام علیکم۔
     
  12. گلاب خان
    آف لائن

    گلاب خان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2010
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں :::::::

    و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
    "اختلاف اور عدد کیفیات" اس کی کچھ وضاحت کر دیں تو مجھ جیسوں کو بھی سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ آپ کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن عبادات میں‌بھی تو اختلاف پایا جاتا ہے، جیسے حج کے مسائل میں‌صحابہ کا اختلاف معروف ہے۔ آپ نے "صحابہ کی جماعت" کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ کسی مسئلے پر پوری جماعت کا موقف کیسے جانا جا سکتا ہے۔ جبکہ کئی صحابہ بہت سے مسائل سے لاعلم رہتے تھے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں