1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلام اقبال

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏1 اگست 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    :titli:کبھی اے حقیقت منتظر! نظر آ لباس مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں


    طربِ آشنائے خروش ہو، تو نواہے محرمِ گوش ہو
    وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا سکوت پردہ ساز میں:titli:


    تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے ، تر آئینہ ہے وہ آئینہ
    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں


    دم طوف کر مک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
    نہ تری حکایت سوز میں ، نہ مری حدیث گذار میں


    نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
    مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں


    نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
    نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں


    جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں:titli:
     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلام اقبال

    غزل

    کہوں کیا آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے
    مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے
    وہ مے کش ہوں فروغِ مے سے خود گلزار بن جاؤں
    ہوائے گل فراقِ ساقی نامہرباں تک ہے
    چمن افروز ہے صیاد میری خوشنوائی تک
    رہی بجلی کی بے تابی، سو میرے آشیاں تک ہے
    وہ مشت خاک ہوں، فیض پریشانی سے صحرا ہوں
    نہ پوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آ سماں تک ہے
    جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے ہر رگ و پے میں
    یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے
    سکونِ دل سے سامانِ کشودِ کار پیدا کر
    کہ عقدہ خاطر ٔگرداب کا آبِ رواں تک ہے
    چمن زارِ محبت میں خموشی موت ہے بلبل!
    یہاں کی زندگی پابندیِ رسم فغاں تک ہے
    جوانی ہے تو ذوقِ دید بھی، لطف تمنا بھی
    ہمارے گھر کی آبادی قیامِ میہماں تک ہے
    زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی!
    سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے رازداں تک ہے
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلام اقبال

    پیا م

    عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا
    بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے
    شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا
    دیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے
    صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اُسے
    جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے
    تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ
    چشم نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے
    عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے
    حسن ہے مست ناز اگر تو بھی جوابِ ناز دے
    پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
    اس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے
    تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزم کہن بدل گئی
    اب نہ خدا کے واسطے ان کو مے مجاز دے
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلام اقبال

    فلسفۂ غم
    (میاں فضل حسین صاحب بیرسٹرایٹ لاءلاہور کے نام)

    گو سراپا کیف عشرت ہے شرابِ زندگی
    اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی
    موج غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی
    ہے ’الم‘ کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی
    ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
    جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں
    آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
    نغمۂ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
    دیدۂ بینا میں داغِ غم چراغِ سینہ ہے
    روح کو سامانِ زینت آہ کا آئینہ ہے
    حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
    غازہ ہے آئینۂ دل کے لیے گردِ ملال
    غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
    ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
    طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے
    راز ہے انساں کا دل، غم انکشافِ راز ہے
    غم نہیں غم، روح کا اک نغمۂ خاموش ہے
    جو سرودِ بربط ہستی سے ہم آغوش ہے
    شام جس کی آشنائے نالۂ ’یا رب‘ نہیں
    جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں
    جس کا جامِ دل شکست غم سے ہے ناآشنا
    جو سدا مست شرابِ عیش و عشرت ہی رہا
    ہاتھ جس گُلچیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے
    عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
    کلفت غم گرچہ اُس کے روز و شب سے دور ہے
    زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
    اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
    کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے
    ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید عشق
    عقل انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید عشق
    عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
    عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے
    رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
    جوشِ الفت بھی دلِ عاشق سے کر جاتا سفر
    عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں
    روح میں غم بن کے رہتا ہے، مگر جاتا نہیں
    ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی
    زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی
    آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی
    آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی
    آئنہ روشن ہے اس کا صورتِ رخسار حور
    گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور
    نہر جو تھی، اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے
    یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے
    جوئے سیمابِ رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی
    مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی
    ہجر، ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے
    دو قدم پر پھر وہی جو مثل تارِ سیم ہے
    ایک اصلیت میں ہے نہر روانِ زندگی
    گر کے رفعت سے ہجومِ نوعِ انساں بن گئی
    پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم
    عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم
    مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
    یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں
    عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو
    یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو
    دامن دل بن گیا ہو رزم گاہِ خیر و شر
    راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
    خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر
    فکر جب عاجز ہو اور خاموش آوازِ ضمیر
    وادیِ ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
    جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
    مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
    جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں