1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلیات اقبال رحمۃ اللہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏20 جولائی 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    طارق کی دعا

    (اندلس کے میدان جنگ میں)

    یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے
    جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
    دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
    سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
    دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
    عجب چیز ہے لذت آشنائی
    شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
    نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
    خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
    قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
    کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
    خبر میں ، نظر میں ، اذان سحر میں
    طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
    وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں
    کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
    ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
    دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
    وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لاتذر ، میں
    عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
    نگاہ مسلماں کو تلوار کردے

     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    لینن

    ( خدا کے حضور )


    اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
    حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
    میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
    ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
    محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
    بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
    آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
    میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
    ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
    تو خالق اعصار و نگارندۂ آنات!
    اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
    حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
    جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے
    کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
    گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
    جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
    وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
    وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟
    مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
    مغرب کے خداوند درخشندۂ فلزات
    یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
    حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
    رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
    گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
    ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
    سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
    یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
    پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
    بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
    کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
    حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
    ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
    احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
    آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
    تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
    میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
    بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات
    چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
    یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
    تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
    ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
    کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
    دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    فرشتوں کا گیت


    عقل ہے بے زمام ابھی ، عشق ہے بے مقام ابھی
    نقش گر ، ازل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی
    خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر
    تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
    تیرے امیر مال مست ، تیرے فقیر حال مست
    بندہ ہے کوچہ گرد ابھی ، خواجہ بلند بام ابھی
    دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام
    عشق گرہ کشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
    جوہر زندگی ہے عشق ، جوہر عشق ہے خودی
    آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی!

    فرمان خدا

    (فرشتوں سے)


    اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
    گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
    کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
    سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
    جو نقش کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو
    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
    اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
    کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
    پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
    حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے
    بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
    میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
    میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
    تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
    آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو

     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ذوق و شوق


    (ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے)

    دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں
    تہی دست رفتن سوئے دوستاں
    قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
    چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
    حسن ازل کی ہے نمود ، چاک ہے پردۂ وجود
    دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں
    سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
    کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں
    گرد سے پاک ہے ہوا ، برگ نخیل دھل گئے
    ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
    آگ بجھی ہوئی ادھر ، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
    کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
    آئی صدائے جبرئیل ، تیرا مقام ہے یہی
    اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
    کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مۓ حیات
    کہنہ ہے بزم کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات
    کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں
    بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات
    ذکر عرب کے سوز میں ، فکر عجم کے ساز میں
    نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات
    قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
    گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
    عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
    عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
    صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
    معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
    آیۂ کائنات کا معنی دیر یاب تو
    نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
    جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
    خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو
    میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
    میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
    باد صبا کی موج سے نشوونمائے خار و خس
    میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو
    خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
    ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو
    فرصت کشمکش مدہ ایں دل بے قرار را
    یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را
    لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
    گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
    عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
    ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
    شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
    فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب
    شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
    میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب
    تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
    عقل غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب
    تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
    طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے
    تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
    مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب
    تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
    عشق تمام مصطفی ، عقل تمام بولہب
    گاہ بحیلہ می برد ، گاہ بزور می کشد
    عشق کی ابتدا عجب ، عشق کی انتہا عجب
    عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
    وصل میں مرگ آرزو ، ہجر میں لذت طلب
    عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
    گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب
    گرمی آرزو فراق ، شورش ہاے و ہو فراق
    موج کی جستجو فراق ، قطرے کی آبرو فراق!

     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    پروانہ اور جگنو


    پروانہ

    پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
    کیوں آتش بے سوز پہ مغرور ہے جگنو

    جگنو

    اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں
    دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیں میں

     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    جاوید کے نام


    خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
    خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
    یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود
    ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ!
    ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
    خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
    حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
    خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
    ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
    کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ

     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    گدائی


    مے کدے میں ایک دن اک رند زیرک نے کہا
    ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
    تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
    کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زریں قبا
    اس کے آب لالہ گوں کی خون دہقاں سے کشید
    تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
    اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
    دینے والا کون ہے ، مرد غریب و بے نوا
    مانگنے والا گدا ہے ، صدقہ مانگے یا خراج
    کوئی مانے یا نہ مانے ، میرو سلطاں سب گدا

     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ملااور بہشت

    (ماخوذ از انوری)

    میں بھی حاضر تھا وہاں ، ضبط سخن کر نہ سکا
    حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت
    عرض کی میں نے ، الہی! مری تقصیر معاف
    خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت
    نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقول
    بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
    ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
    اور جنت میں نہ مسجد ، نہ کلیسا ، نہ کنشت

     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    دین و سیاست


    کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
    سماتی کہاں اس فقیری میں میری
    خصومت تھی سلطانی و راہبی میں
    کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری
    سیاست نے مذہب سے پیچھا چھٹرایا
    چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
    ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
    ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری
    دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
    دوئی چشم تہذیب کی نابصیری
    یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
    بشیری ہے آئینہ دار نذیری!
    اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
    کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری

     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    الارض للہ


    پالتا ہے بیج کو مٹی کو تاریکی میں کون
    کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
    کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار
    خاک یہ کس کی ہے ، کس کا ہے یہ نور آفتاب؟
    کس نے بھردی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب
    موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟
    دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں ، تیری نہیں
    تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں

     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ایک نوجوان کے نام



    ترے صوفے ہیں افرنگی ، ترے قالیں ہیں ایرانی
    لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
    امارت کیا ، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
    نہ زور حیدری تجھ میں ، نہ استغنائے سلمانی
    نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
    کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
    عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
    نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
    نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
    امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تو شاہیں ہے ، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

     
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    نصیحت



    بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سالخورد
    اے تیرے شہپر پہ آساں رفعت چرخ بریں
    ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
    سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
    جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!
    وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں


     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    لالۂ صحرا


    یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی
    مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
    بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو
    منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
    خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
    تو شعلۂ سینائی ، میں شعلۂ سینائی!
    تو شاخ سے کیوں پھوٹا ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
    اک جذبۂ پیدائی ، اک لذت یکتائی!
    غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو
    ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
    اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
    دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
    ہے گرمی آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
    سورج بھی تماشائی ، تارے بھی تماشائی
    اے باد بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
    خاموشی و دل سوزی ، سرمستی و رعنائی

     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    ساقی نامہ



    ہوا خیمہ زن کاروان بہار
    ارم بن گیا دامن کوہسار
    گل و نرگس و سوسن و نسترن
    شہید ازل لالہ خونیں کفن
    جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں
    لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں
    فضا نیلی نیلی ، ہوا میں سرور
    ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
    وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
    اٹکتی ، لچکتی ، سرکتی ہوئی
    اچھلتی ، پھسلتی ، سنبھلتی ہوئی
    بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
    رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
    پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
    ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام!
    سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
    پلا دے مجھے وہ مۓ پردہ سوز
    کہ آتی نہیں فصل گل روز روز
    وہ مے جس سے روشن ضمیر حیات
    وہ مے جس سے ہے مستی کائنات
    وہ مے جس میں ہے سوزوساز ازل
    وہ مے جس سے کھلتا ہے راز ازل
    اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
    لڑا دے ممولے کو شہباز سے
    زمانے کے انداز بدلے گئے
    نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے
    ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
    کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
    پرانی سیاست گری خوار ہے
    زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
    گیا دور سرمایہ داری گیا
    تماشا دکھا کر مداری گیا
    گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
    ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
    دل طور سینا و فاراں دو نیم
    تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
    مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
    مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
    تمدن، تصوف، شریعت، کلام
    بتان عجم کے پجاری تمام!
    حقیقت خرافات میں کھو گئی
    یہ امت روایات میں کھو گئی
    لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
    مگر لذت شوق سے بے نصیب!
    بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
    لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
    وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
    محبت میں یکتا ، حمیت میں فرد
    عجم کے خیالات میں کھو گیا
    یہ سالک مقامات میں کھو گیا
    بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
    مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے
    شراب کہن پھر پلا ساقیا
    وہی جام گردش میں لا ساقیا!
    مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
    مری خاک جگنو بنا کر اڑا
    خرد کو غلامی سے آزاد کر
    جوانوں کو پیروں کا استاد کر
    ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے
    نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
    تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دے
    دل مرتضی ، سوز صدیق دے
    جگر سے وہی تیر پھر پار کر
    تمنا کو سینوں میں بیدار کر
    ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
    زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
    جوانوں کو سوز جگر بخش دے
    مرا عشق ، میری نظر بخش دے
    مری ناؤ گرداب سے پار کر
    یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر
    بتا مجھ کو اسرار مرگ و حیات
    کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
    مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
    مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
    مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
    مری خلوت و انجمن کا گداز
    امنگیں مری ، آرزوئیں مری
    امیدیں مری ، جستجوئیں مری
    مری فطرت آئینۂ روزگار
    غزالان افکار کا مرغزار
    مرا دل ، مری رزم گاہ حیات
    گمانوں کے لشکر ، یقیں کا ثبات
    یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
    اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
    مرے قافلے میں لٹا دے اسے
    لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے!
    دما دم رواں ہے یم زندگی
    ہر اک شے سے پیدا رم زندگی
    اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
    کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موج دود
    گراں گرچہ ہے صحبت آب و گل
    خوش آئی اسے محنت آب و گل
    یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی
    عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
    یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر
    مگر ہر کہیں بے چگوں ، بے نظیر
    یہ عالم ، یہ بت خانۂ شش جہات
    اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
    پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
    کہ تو میں نہیں ، اور میں تو نہیں
    من و تو سے ہے انجمن آفرین
    مگر عین محفل میں خلوت نشیں
    چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے
    یہ چاندی میں ، سونے میں ، پارے میں ہے
    اسی کے بیاباں ، اسی کے ببول
    اسی کے ہیں کانٹے ، اسی کے ہیں پھول
    کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور
    کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
    کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ
    لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
    کبوتر کہیں آشیانے سے دور
    پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور
    فریب نظر ہے سکون و ثبات
    تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات
    ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
    کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود
    سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
    فقط ذوق پرواز ہے زندگی
    بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
    سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
    سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
    سفر ہے حقیقت ، حضر ہے مجاز
    الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
    تڑپنے پھٹرکنے میں راحت اسے
    ہوا جب اسے سامنا موت کا
    کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
    اتر کر جہان مکافات میں
    رہی زندگی موت کی گھات میں
    مذاق دوئی سے بنی زوج زوج
    اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج
    گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
    اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے
    سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
    ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
    بڑی تیز جولاں ، بڑی زورد رس
    ازل سے ابد تک رم یک نفس
    زمانہ کہ زنجیر ایام ہے
    دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
    یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
    خودی کیا ہے ، تلوار کی دھار ہے
    خودی کیا ہے ، راز درون حیات
    خودی کیا ہے ، بیداری کائنات
    خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
    سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
    اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
    من و تو میں پیدا ، من و تو سے پاک
    ازل اس کے پیچھے ، ابد سامنے
    نہ حد اس کے پیچھے ، نہ حد سامنے
    زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
    ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
    تجسس کی راہیں بدلتی ہوئی
    وما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
    سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں
    پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
    سفر اس کا انجام و آغاز ہے
    یہی اس کی تقویم کا راز ہے
    کرن چاند میں ہے ، شرر سنگ میں
    یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں
    اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
    نشب و فراز وپس و پیش سے
    ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
    ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
    خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
    فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
    خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
    وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
    وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
    رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
    فرو فال محمود سے درگزر
    خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر
    وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
    کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
    یہ عالم ، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت
    یہ عالم کہ ہے زیر فرمان موت
    یہ عالم ، یہ بت خانۂ چشم و گوش
    جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
    خودی کی یہ ہے منزل اولیں
    مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
    تری آگ اس خاک داں سے نہیں
    جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں
    بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر
    طلسم زمان و مکاں توڑ کر
    خودی شیر مولا ، جہاں اس کا صید
    زمیں اس کی صید ، آسماں اس کا صید
    جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
    کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
    ہر اک منتظر تیری یلغار کا
    تری شوخی فکر و کردار کا
    یہ ہے مقصد گردش روزگار
    کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
    تو ہے فاتح عالم خوب و زشت
    تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت
    حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
    حقیقت ہے آئینہ ، گفتار زنگ
    فروزاں ہے سینے میں شمع نفس
    مگر تاب گفتار کہتی ہے ، بس!
    اگر یک سر موے برتر پرم
    فروغ تجلی بسوزد پرم،


     
  15. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    زمانہ


    جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہو گا ، یہی ہے اک حرف محرمانہ
    قریب تر ہے نمود جس کی ، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
    مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
    میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
    ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
    کسی کا راکب ، کسی کا مرکب ، کسی کو عبرت کا تازیانہ
    نہ تھا اگر تو شریک محفل ، قصور میرا ہے یا کہ تیرا
    مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مۓ شبانہ
    مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے
    ہدف سے بیگانہ تیرا اس کا ، نظر نہیں جس کی عارفانہ
    شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے ، یہ جوئے خوں ہے!
    طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
    وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
    اس کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
    ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے
    گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
    جہان نو ہو رہا ہے پیدا ، وہ عالم پیر مر رہا ہے
    جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
    ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
    وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ


     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں




    عطا ہوئی ہے تجھے روزوشب کی بیتابی
    خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
    سنا ہے ، خاک سے تیری نمود ہے ، لیکن
    تری سرشت میں ہے کوکبی و مہ تابی
    جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
    ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
    گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی
    اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی
    تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
    کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی

    روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے


    کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
    مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
    اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
    ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ
    بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
    ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
    یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
    یہ کوہ یہ صحرا ، یہ سمندر یہ ہوائیں
    تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
    آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
    سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
    دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
    ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
    پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
    تعمیر خودی کر ، اثر آہ رسا دیکھ!
    خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
    آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
    جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
    جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
    اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!
    نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
    تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
    تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
    محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
    ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا ، دیکھ!



     
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ



    پیرو مرید



    مرید ہندی
    چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں
    علم حاضر سے ہے دیں زار و زبوں!

    پیر رومی

    علم را بر تن زنی مارے بود
    علم را بر دل زنی یارے بود

    مرید ہندی

    اے امام عاشقان دردمند!
    یاد ہے مجھ کو ترا حرف بلند
    خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
    از کجا می آید ایں آواز دوست،
    دور حاضر مست چنگ و بے سرور
    بے ثبات و بے یقین و بے حضور
    کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا
    دوست کیا ہے ، دوست کی آواز کیا
    آہ ، یورپ با فروغ و تاب ناک
    نغمہ اس کو کھینچتا ہے سوئے خاک

    پیر رومی


    بر سماع راست ہر کس چیر نیست
    طعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست

    مرید ہندی

    پڑھ لیے میں نے علوم شرق و غرب
    روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب

    پیر رومی

    دست ہر نا اہل بیمارت کند
    سوئے مادر آکہ تیمارت کند

    مرید ہندی

    اے نگہ تیری مرے دل کی کشاد
    کھول مجھ پر نکتۂ حکم جہاد

    پیر رومی

    نقش حق را ہم بہ امر حق شکن
    بر زجاج دوست سنگ دوست زن

    مرید ہندی

    ہے نگاہ خاوراں مسحور غرب
    حور جنت سے ہے خوشتر حور غرب

    پیر رومی

    ظاہر نقرہ گر اسپید است و نو
    دست و جامہ ہم سیہ گردو ازو!

    مرید ہندی

    آہ مکتب کا جوان گرم خوں!
    ساحر افرنگ کا صید زبوں!

    پیر رومی

    مرغ پر نارستہ چوں پراں شود
    طعمۂ ہر گربۂ دراں شود

    مرید ہندی

    تا کجا آویزش دین و وطن
    جوہر جاں پر مقدم ہے بدن!

    پیر رومی

    قلب پہلو می زندہ با زر بشب
    انتظار روز می دارد ذہب

    مرید ہندی

    سر آدم سے مجھے آگاہ کر
    خاک کے ذرے کو مہر و ماہ کر!

    پیر رومی

    ظاہرش را پشۂ آرد بچرخ
    باطنش آمد محیط ہفت چرخ

    مرید ہندی

    خاک تیرے نور سے روشن بصر
    غایت آدم خبر ہے یا نظر؟

    پیر رومی

    آدمی دید است ، باقی پوست است
    دید آں باشد کہ دید دوست است

    مرید ہندی

    زندہ ہے مشرق تری گفتار سے
    امتےں مرتی ہیں کس آزار سے؟

    پیر رومی

    ہر ہلاک امت پیشیں کہ بود
    زانکہ بر جندل گماں بردند عود

    مرید ہندی

    اب مسلماں میں نہیں وہ رنگ و بو
    سرد کیونکر ہو گیا اس کا لہو؟

    پیر رومی

    تا دل صاحبدلے نامد بہ درد
    ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد

    مرید ہندی

    گرچہ بے رونق ہے بازار وجود
    کون سے سودے میں ہے مردوں کا سود؟

    پیر رومی

    زیرکی بفروش و حیرانی بخر
    زیرکی ظن است و حیرانی نظر

    مرید ہندی

    ہم نفس میرے سلاطیں کے ندیم
    میں فقیر بے کلاہ و بے گلیم!

    پیر رومی

    بندۂ یک مرد روشن دل شوی
    بہ کہ بر فرق سر شاہاں روی

    مرید ہندی

    اے شریک مستی خاصان بدر
    میں نہیں سمجھا حدیث جبر و قدر!

    پیر رومی

    بال بازاں را سوے سلطاں برد
    بال زاغاں را بگورستاں برد

    مرید ہندی

    کاروبار خسروی یا راہبی
    کیا ہے آخر غایت دین نبی ؟

    پیر رومی

    مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ
    مصلحت در دین عیسی غار و کوہ

    مرید ہندی

    کس طرح قابو میں آئے آب و گل
    کس طرح بیدار ہو سینے میں دل ؟

    پیر رومی

    بندہ باش و بر زمیں رو چوں سمند
    چوں جنازہ نے کہ بر گردن برند

    مرید ہندی

    سر دیں ادراک میں آتا نہیں
    کس طرح آئے قیامت کا یقیں؟

    پیر رومی

    پس قیامت شو قیامت را ببیں
    دیدن ہر چیز را شرط است ایں

    مرید ہندی

    آسماں میں راہ کرتی ہے خودی
    صید مہر و ماہ کرتی ہے خودی
    بے حضور و با فروغ و بے فراغ
    اپنے نخچیروں کے ہاتھوں داغ داغ!

    پیر رومی

    آں کہ ارزد صید را عشق است و بس
    لیکن او کے گنجد اندر دام کس!

    مرید ہندی

    تجھ پہ روشن ہے ضمیر کائنات
    کس طرح محکم ہو ملت کی حیات؟

    پیر رومی

    دانہ باشی مرغکانت برچنند
    غنچہ باشی کود کانت برکنند
    دانہ پنہاں کن سراپا دام شو
    غنچہ پنہاں کن گیاہ بام شو

    مرید ہندی

    تو یہ کہتا ہے کہ دل کی کر تلاش
    طالب دل باش و در پیکار باش
    جو مرا دل ہے ، مرے سینے میں ہے
    میرا جوہر میرے آئینے میں ہے

    پیر رومی

    تو ہمی گوئی مرا دل نیز ہست
    دل فراز عرش باشد نے بہ پست
    تو دل خود را دلے پنداشتی
    جستجوے اہل دل بگذاشتی

    مرید ہندی

    آسمانوں پر مرا فکر بلند
    میں زمیں پر خوار و زار و دردمند
    کار دنیا میں رہا جاتا ہوں میں
    ٹھوکریں اس راہ میں کھاتا ہوں میں
    کیوں مرے بس کا نہیں کار زمیں
    ابلہ دنیا ہے کیوں دانائے دیں؟

    پیر رومی

    آں کہ بر افلاک رفتارش بود
    بر زمیں رفتن چہ دشوارش بود

    مرید ہندی

    علم و حکمت کا ملے کیونکر سراغ
    کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ

    پیر رومی

    علم و حکمت زاید نان حلال
    عشق و رقت آید از نان حلال

    مرید ہندی

    ہے زمانے کا تقاضا انجمن
    اور بے خلوت نہیں سوز سخن!

    پیر رومی

    خلوت از اغیار باید ، نے ز یار
    پوستیں بہر دے آمد ، نے بہار

    مرید ہندی

    ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز
    اہل دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز!

    پیر رومی

    کار مرداں روشنی و گرمی است
    کار دوناں حیلہ و بے شرمی است

     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    جبریل و ابلیس

    جبریل

    ہمدم دیرینہ! کیسا ہے جہان رنگ و بو؟

    ابلیس

    سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو

    جبریل

    ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
    کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟

    ابلیس

    آہ اے جبریل! تو واقف نہیں اس راز سے
    کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو
    اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ، ممکن نہیں
    کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو!
    جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات
    اس کے حق میں 'تقنطوا' اچھا ہے یا 'لاتقظوا'؟

    جبریل

    کھو دیے انکار سے تو نے مقامات بلند
    چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

    ابلیس

    ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
    میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تاروپو
    دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
    کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے ، میں کہ تو؟
    خضر بھی بے دست و پا ، الیاس بھی بے دست و پا
    میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جو بہ جو
    گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
    قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!
    میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
    تو فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو

     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    اذان

    اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے
    آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
    کہنے لگا مریخ ، ادا فہم ہے تقدیر
    ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
    زہرہ نے کہا ، اور کوئی بات نہیں کیا؟
    اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار!
    بولا مہ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
    تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار
    واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
    اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
    آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
    کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار
    ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لبریز
    وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار

     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    محبت


    شہید محبت نہ کافر نہ غازی
    محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی
    وہ کچھ اور شے ہے ، محبت نہیں ہے
    سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی
    یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے
    تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی
    نہ محتاج سلطاں ، نہ مرعوب سلطاں
    محبت ہے آزادی و بے نیازی
    مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
    یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی


     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    ستارے کا پیغام

    مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
    مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
    تو اے مسافر شب! خود چراغ بن اپنا
    کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی

     
  22. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    جاوید کے نام

    خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ
    خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
    یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود
    ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ !
    ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
    خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ
    حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
    خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
    ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
    کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ

     
  23. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    فلسفہ و مذہب

    یہ آفتاب کیا ، یہ سپہرِ بریں ہے کیا !
    سمجھا نہیں تسلسلِ شام و سحر کو میں
    اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں
    ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں
    کُھلتا نہیں مرے سفرِ زندگی کا راز
    لاؤں کہاں سے بندۂ صاحب نظر کو میں
    حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کہاں سے ہوں
    رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں
    ”جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
    پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“

     
  24. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    یورپ سے ایک خط


    ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
    اک بحر پر آشوب و پر اسرار ہے رومی
    تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال
    جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
    اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟
    کہتے ہیں چراغ رہ احرار ہے رومی

    جواب

    کہ نباید خورد و جو ہمچوں خراں
    آہوانہ در ختن چر ارغواں
    ہر کہ کاہ و جو خورد قرباں شود
    ہر کہ نور حق خورد قرآں شود
     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    نپولین کے مزار پر
    راز ہے ، راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز
    جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
    جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع
    کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
    جوش کردار سے تیمور کا سیل ہمہ گیر
    سیل کے سامنے کیا شے ہے نشیب اور فراز
    صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
    جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
    ہے مگر فرصت کردار نفس یا دو نفس
    عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز!
    ''عاقبت منزل ما وادی خاموشان است
    حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز''

     
  26. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    مسولینی

    ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ، ذوق انقلاب
    ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ، ملت کا شباب
    ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی
    ندرت فکر و عمل سے سنگ خارا لعل ناب
    رومۃ الکبرے! دگرگوں ہوگیا تیرا ضمیر
    اینکہ می بینم بہ بیدار یست یارب یا بہ خواب!
    چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ
    نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب
    یہ محبت کی حرارت ، یہ تمنا ، یہ نمود
    فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب
    نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے
    زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
    فیض یہ کس کی نظر کا ہے ، کرامت کس کی ہے؟
    وہ کہ ہے حس کی نگہ مثل شعاع آفتاب!


     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    سوال

    اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے
    میں کر نہیں سکتا گلۂ درد فقیری
    لیکن یہ بتا ، تیری اجازت سے فرشتے
    کرتے ہیں عطا مرد فرومایہ کو میری ؟

     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    پنجاب کے دہقان سے

    بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
    ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز
    اسی خاک میں دب گئی تیری آگ
    سحر کی اذاں ہوگئی ، اب تو جاگ!
    زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات
    نہیں اس اندھیرے میں آب حیات
    زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں
    جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
    بتان شعوب و قبائل کو توڑ
    رسوم کہن کے سلاسل کو توڑ
    یہی دین محکم ، یہی فتح باب
    کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب
    بخاک بدن دانۂ دل فشاں
    کہ ایں دانہ داردز حاصل نشاں

     
  29. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    نادر شاہ افغان

    حضور حق سے چلا لے کے لولوئے لالا
    وہ ابر جس سے رگ گل ہے مثل تار نفس
    بہشت راہ میں دیکھا تو ہو گیا بیتاب
    عجب مقام ہے ، جی چاہتا ہے جاؤں برس
    صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا
    ہرات و کابل و غزنی کا سبزۂ نورس
    سرشک دیدۂ نادر بہ داغ لالہ فشاں
    چناں کہ آتش او را دگر فرونہ نشاں

     
  30. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کلیات اقبال رحمۃ اللہ


    خوشحال خاں کی وصیت


    قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
    کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
    محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
    ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
    مغل سے کسی طرح کمتر نہیں
    قہستاں کا یہ بچۂ ارجمند
    کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات
    وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند
    اڑا کر نہ لائے جہاں باد کوہ
    مغل شہسواروں کی گرد سمند



    خوشحال خاں خٹک پشتوزبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا جس نے افغانستان کو مغلوں سے آزادکرانے کے لیے سرحد کے افغانی قبائل کی ایک جمعیت قائم کی -قبائل میں صرف آفریدیوں نے آخردم تک اس کا ساتھ دیا- اس کی قریباً ایک سو نظموں کا انگریزی ترجمہ 1862ء میں لندن میں شائع ہوا تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں